توحیدعقائد

توحید خطبہ فدک کی روشنی میں

نوازش علی مایار

توحید الٰہی
جس طرح خود پروردگار عالم نے قرآن مجید میں بار بار ارشاد فرمایا کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور لوگوں کو اس کائنات میں غور وفکر اور تحقیق کی دعوت دی کہ جب لوگ اس کائنات اور اس تدبیر خداوندی کو جان لینگے تو خود بخود توحید کا اقرار کریں گے۔ اسی طرح تمام انبیاء کرام اگر چہ ان سب کا دین مختلف تھا لیکن سب کا مقصد ایک تھا۔حضرت آدم ؑسے لیکر حضرت محمد مصطفیﷺ تک تمام انبیاء نے سب سے پہلے توحید خداوندی کا اقرار کیا اور لوگوں کو توحید کی تعلیم دی ۔ اسی طرح ائمہ اطہار علیہم السلام میں سے سب نے توحید پروردگار کی تبلیغ فرمائی۔ حضرت فاطمۃ لازہراء سلام اللہ علیہا نے بھی اپنے معروف خطبہ ” خطبہ فدک”میں سب سے پہلے توحید کا درس دیا ہے اور توحید کا پرچار کیا ہے۔
فرمایا کہ : وَ اَشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَریکَ لَهُ،کَلِمَةٌ جَعَلَ الْاِخْلاصَ تَأْویلَها
ترجمہ: اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، ( کلمہ شہادت) اک ایسا کلمہ ہے کہ اخلاص ( در عمل) کو اس کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔
یعنی جب انسان دل سے اور سچے ایمان سے اللہ تعالی کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے تو اس کے کام میں اخلاص پیدا ہوتا ہے توحید کا کمال یہ ہے کہ انسان کے اندر خلوص پیدا ہو جائے ۔ وہ اپنے کام میں کسی اور مقصد و غایت کو شامل نہیں کرتا ہے جس طرح امیر المؤمنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فریا ہے کہ:
اول الدین معرفتہ و کمال معرفتہ التصدیق بہ وکمال التصدیق بہ التوحیدہ الاخلاص لہ وکمال الخلاص لہ نفی الصفات عنہ لشہادۃ کل صفتہ انّھا غیر الموصوف وشھادۃ کل موصوف انٗہ غیر الصفتہ
ترجمہ: دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے ، کمال معرفت اس کی تصدیق ہے ، کمال تصدیق توحید ہے ، کمال توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے ۔(نہج البلاغہ خطبہ ۱)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
مجھے اپنے بابا امام موسی کاظم ؑ نے آپ نے امام جعر الصادق ؑ سے آپ نے امام محمد باقر ؑ سے آپ نے امام زین العابدین ؑ سے آپ نے امام حسین ؑ سے آپ نے امام علی ابن ابی طالب ؑ سے اور آپ ؑ نے حضرت پیغمبر اکرم ؐ اور آپ ؐ نے جبرئیل امین سے روایت کی ہے کہ حضرت جبرئیلامین کہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے کہ : کلمہ لا الہ الّا اللہ حصنی فمن قالھا دخل حصنی ومن دخل حصنی امن عذابی(بحار ج۴۹ص۱۲۴)
ترجمہ: کلمہ ” لا الہ الّا اللہ ” میرا قلعہ ہے جس نے بھی " لا الہ الّا اللہ ” کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگا اور جو میرے قلعے میں داخل ہوگا میرے عذاب سے امان ملے گا ۔
یہاں پر اخلاص سے مراد تمام اعمال و عبادات یہاں تک کہ ہمارا اٹھنا اور بیٹھنا بھی اللہ کے لئے ہو اسے اخلاص کہا جاتا ہے ۔ یعنی ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ صرف اللہ کی ذات کے لیے ہو ۔ اس میں ریا اور کوئی فاسد مقصد شامل نہ ہو ۔اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اللہ کے علاوہ کسی اور کے در پر نہ جائے ۔ یہی توحید کا معنی اور مقصد ہے ۔
جس طرح قرآن مجید کی آیت ہے کہ : "قل انّ صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّہ رب العالمین ٭ لا شریک لہ وبذالک اُمرت وانا اول المسلمین”
ترجمہ: کہدیجئے میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ :
توحید خالص یہ ہے کہ تمام امور خواہ تشریعی ہوں، جیسے نماز و دیگر عبادات، خواہ تکوینی ہوں، جیسے زندگی اور موت، سب کا تعلق رب العالمین سے ہے۔ عبادت ہو تو صرف اسی ذات کے لیے ہو۔ زندگییا موت کا مسئلہ درپیش ہو تو راضی برضا اور تسلیم بامر خدا ہو۔ عبادت، موت و حاصت کے کسی مسئلے میں غیر اللہ کی طرف رجوع کا شائبہ تک نہ ہو۔ دین ابراہیمی کا اصل الاصول یہی ہے کہ آتش نمرود کے شعلوں کی لپیٹ میں جاتے ہوئے جبرئیل امین جیسے عظیم القدر فرشتے کو بھی اعتنا میں نہ لائے اور صرف اور صرف اپنے رب سے لو لگائے۔ ( الکوثر فی تفسیر القرآن: ج۳ ص۱۷۳)
یقیناجس شخص کو اللہ کے خالق اور مدبر کائنات ہونے پر یقین ہو وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک قرار نہیں دے گا ۔
توحید فطری
وضمّن القلوب موصولھا ، وانار فی التفکر معقولھا
ترجمہ : کلمہ توحید کے ادراک کو دلوں میں جاگزین فرمایا ، اور اس کے ادراک کے ذریعے ذہنوں کو روشنی بخشی ۔
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی فرماتے ہیں کہ : توحید فطرت انسان میں ازل سے موجود ہے اور یہ نور الٰہی ہر انسان کے اندر موجود ہےاور ہر انسان اپنے باطن اور ضمیر کے ذریعے اللہ اکبر کی ندا سنتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسان جب کسی مشکل اور پریشانی کے طوفان میں پڑ جاتا ہے تو غفلت کے پردے سے یہ نور اور شعاع آشکار اور ظاہر ہوتا ہے اور یہ شعاع عام وقتوں کی نسبت زیادہ روشن ہوتا ہے یہ بغیر کسی ارادے کے کلمہ "لا الٰہ الّا ھو ” کا ور دکرتے ہیں ۔ (الزہراء خیر النساء)
جیسا کہ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ :
فاقم وجھک للدین حنیفا ، فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا ، لا تبدیل لخلق اللہ ، ذالک الدین القیّم ولٰکنّ اکثر الناس لا یعلمون ۔(سورہ مبارکہ روم آیت ؛ 30)
ترجمہ : پس ( اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں ( یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے ، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اس آیت کی تفسیر میں استاد محترم مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ : اللہ نے توحید اور معرفت رب فطرت میں ودیعت فرمائی ۔ شریعت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ معرفت رب کے تقاضے کیا ہیں ۔ لہذا فطرت اور شریعت میں کوئی فرق ہے تو اجمال و تفصیل کا فرق ہے ۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام فطرت کے اجمال کی تفصیل بیان کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ اسی لیے فطرت، انبیاء علیہم السلام کی آواز کوپہچانتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو پذیرائی ملتی ہے۔ ورنہ غیر فطری مسلط شدہ چیز کو پذیرائی نہ ملتی اور ندائے ” الست بربکم ” کا مثبت جواب ” بلی ” نہ ملتا ۔ خالق نے تخلیق انسان کے موقع پر اولاد آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کییہ صورت ہو سکتی ہے: انسان کی تخلیق کے موقع پر اس کی فطرت اور سرشت میں معرفت رب ودیعت فرمائی۔ یہ معرفت جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ماورائے خلقت ودیعت ہوئی ہے۔ جیسا کہ انسان کی تخلیق میں کام آنے والے کھربوں خلیات کی پیدائش ایک خلیے سے ہوئی اور جو سبق ابتدائی خلیے میں موجود جین کو پڑایا گیا وہ آنے والے تمام خلیات میں بطور وراثت منتقل ہوتا گیا ۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن )
اسی طرح سورہ اعراف آیت ؛ 172، 173، 174میں آیا ہے کہ : واِذ اخذ ربّک من بنی آدم من ظھورھم ذریتھم واشھدَھم علی انفسھم الست بربکم قالو بلی شھدنااَن تقولو یوم القیامۃ انّا کنّا عن ھذا غافلین اَو تقولو انّما اشرک اٰبآءنا من قبل وکنّا ذریۃً من بعدھم افتھلکنا بما فعل المبطلون وکذالک نفصل الاٰیات ولعلھم یرجعون
ترجمہ : اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔یایہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد ہیں، تو کیا اہل باطل کے قصور کے بدلے میں ہمیں ہلاکت میں ڈالو گے؟اور اس طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ :
لیکن اکثر لوگ اللہ کی فطرت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ ہے کہ غلط معاشرے میں پیدا ہونے کی وجہ سے اور اللہ کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرنے والا نہ ہونے کی وجہ سے وہ فطرت سے منحرف ہوتا ہے ۔
چنانچہ حضرت محمد مصطفیﷺ ارشاد فرماتا ہیں کہ :
"کل مولود یولد فھو علی الفطرۃ وانّما ابواہ یھودانہ او ینصرانہ ویمجسانہ‘‘
ترجمہ : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودییا نصرانی بنا دیتے ہیں ۔(بحارج۵۸ ص۱۸۷)
اسی طرح امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
” ثبتت المعرفۃ فی قلوبھم ونسوا الموقف وسیذکرونہ یوماً ولولا ذالک لم یدر احد من خالقۃ ولا رازقہ”
ترجمہ : لوگوں کے دلوں میں معرفت نقش ہو گئی لیکن واقعہ بھول گئے۔ ایک دن انہیں واقعہ بھییاد آئے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی کو علم ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کا خالق و رازق کون ہے۔ (بحارج۳ ص۲۸۰)
ایک بات تو واضح ہو گئی کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو فطرتا توحید پر خلق فرمایا ۔ اور مقام الست میں ہی انسانوں سے اللہ کی توحید کا اقرار لیا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر انسان غور و فکر کریں تو اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ اگر اپنے نفس کے اندر اور اس کائنات کی طرف نظر اور جستجو کرے تو ظاہر ہوتا ہے کہ خالق و صانع اور کوئی مدبر کائنات ہے کہ جس نے اس کی تخلیق کی اور کسی نظام کے تحت اس کائنات کو چلا رہے ہیں ۔ اور وہ ذات اکیلا و یکتا ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں کیونکہیہ کائنات جس نظام کے تحت چل رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مدبر ایک ہی ہے ۔
ایمان وشرک نا قابل اجتماع
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا دین کے احکامات اور دین کے قواعد اور اللہ کی عبودیت کے فلسفہ اور اور اس کی مصلحت کو کچھ اس انداز میں بیان فرما رہی ہے کہ:
فجعل الایمان تطھیراً لکم من الشرک
ترجمہ: اللہ نے ایمان کو شرک سے تمہیں پاک کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔
اللہ نے ایمان کو شرک سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے اس میں حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے اس فرمان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ایمان کا مطلب ہییہی ہے کہ ہم نے صرف اللہ کو ہی اپنا خالق ، رازق اور معبود مانا ہے اور اس پر اگر ایمان مستحکم ہو تو اس میں کسی کو شریک قرار دینے کا مطلب ہی نہیں بنتا ہے پس اگر کوئی شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دے اور ساتھ اپنے ایمان کو دعوی کرے تو یقینایہ جھوٹ ہی ہوگا ۔
شیخ محسن علی نجفی صاحب فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ غیر اللہ پرتکیہ کرنا سراسر ایمان کے منافی ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان اور غیر اللہ پربھی جن سے شرک لازم آتا ہو یہ دونوں ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔ البتہ جہاں ایمان باللہ کمزور ہو جاتا ہے تو وہاں غیر اللہ پر بھروسہ کے لئے گنجائش نکل آتی ہے۔ لیکن جب ایمان پختہ ہو تو ایسی آلودگیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
(کتاب خطبہ فدک، شیخ محسن علی نجفی)
قرآن میں لفظ شرک 28 آیات میں آیا ہے ۔
اور شرک ہی ایک ایسا گناہ ہے کہ جس کے بارے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی گناہ کی بخشش ممکن ہے لیکن جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک قرار دیتا ہے اس کی بخشش نہیں ہو سکتی ۔
صفات باری تعالی
ومن الالسن صفتہ ومن الاوھام کیفیّتہ
ترجمہ: اور نہ ہی زبان سے اس کا وصف بیان ہو سکتا ہے ، اور وہم و خیال اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔
اللہ تعالی کی جتنی بھی صفات ہیں ان کو انسان اپنی زبان کے ذریعے بیان نہیں کر سکتا کیونکہ تمام صفات اللہ کی عین ذات ہیں تو ایک لا متناہی ذات کے اوصاف بیان کرنا مخلوقات سے ممکن نہیں ہے ۔
جیسا کہ آیۃ اللہ کاظم قزوینی ؒ فرماتے ہیں کہ :
زبان اللہ کی مخلوق ہے ۔ مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس کی کما حقہ تعریف و توصیف کرے ۔ جس طرح آنکھ اس کے دیدار سے قاصر ہے اسی طرح زبان اس کی توصیف سے قاصر ہے ، کیونکہ انسان جب کسی چیز کی حقیقت و واقعات تک رسائی نہیں رکھتا تو اس ذات کا عقل سے احاطہ بھی نہیں کر سکتا ۔ (فاطمہ من المھد الی اللحد ص۲۶۷)
جب ہم کسی چیز کے متعلق علم رکھتا ہو اور اس چیز کی حقیقت سے آشنا ہو تب اس کی توصیف اور حقیقت بیان کر سکتے ہیں ۔ لیکن جب خود اس شئی کے متعلق علم ہی نہ ہو تو اس کی توصیف کیسے بیان کر سکتا ہے ۔
امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
الحمد للہ الذی لا یبلغ مدحتہ القائلون ، ولا یحصی نعمآءہ العادّون ولا یؤَدی حقہ المجتہدون ، الذی لا یدرکہ بعد الھمم ولا ینالہ غوص الفطن، الذی لیس لصفتہ حد محدود ولا نعت موجودولا وقت معدود ، ولا اجل ممدود
ترجمہ: تمام حمد اس اللہ کے لیے جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں ، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے ، نہ کوشش کرنے والے اس کے حق ادا کر سکتے ہیں ، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پاسکتی ہیں ، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں ، اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد نہیں ، نہ اس کے لیے توصیفی الباظ ہیں ، نہ اس ( کی ابتدا) کے لیے کوئی وقت ہے جسے شمار میں لایا جا سکے ، نہ ہاس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے ۔(نہج البلاغہ خطبہ۱)
ان آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی توصیف ممکن نہیں ۔
تخلیق کائنات
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا حمد و شکر الہی کے بعد اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے بعد اس کائنات کی اور اس میں موجود اشیاء کی خلقت کی طرف اشارہ فرما رہی ہیں کہ :
ابتدع الاشیاء لا من شیءٍ کان قبلھا ، وانشاَھا بِلا احتذاءِ امثلۃٍ اِمتثلھا ، کوّنھا بقدرتہ وذراَھا بمشیّتہ
ترجمہ:(اس ذات نے) ہر چیز کو لا شئی سے وجود میں لایا، اور کسی نمونہ کے بغیر ان کو ایجاد کیا، اپنی قدرت سے انہیں وجود بخشا اور اپنے ارادے سے ان کی تخلیق فرمائی ۔
کسی چیز کو بنانے میں تین چیزیں ہوتی ہیں:مادہ، صورت، شکل۔ انسان جب کسی چیز کو بناتا ہے تو مادہ اور صورت پہلے سے موجود ہوتی ہے اور انسان صرف شکل کو تبدیل کرتا ہے، انسان کی ایجادات اور ٹیکنالوجی اسی حد تک ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ عدم سے مادّہ، صورت اور شکل کو یکبارگی اور اچانک بناتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو ایجاد کیا جبکہ ان کی ایجاد کے لئے کسی سابقہ مادہ (میٹریل) کی ضرورت نہیں تھی، بنابریں چیزوں کی ایجاد کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ چاہیے۔
جیسا کہ کچھ لوگ جو قیامت کا انکار کرتے ہیں اور قیامت کے دن انسانوں کے دوبارا اٹھائے جانے پر انکار کرنے ہیں اور اس پر وہ لوگ دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ ان ہڈیوں کے خاک میں مل جانے کے بعد کون زندہ کرے گا تو اللہ تعالی قرآن مجید میں سورہ یٰس کی 78 ، 79 مں فرماتے ہیں کہ:
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلۡقٍ عَلِیۡمُۨ
ترجمہ : پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے: ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟ کہدیجئے: انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کی تخلیق کو خوب جانتا ہے۔
وہ خالق کائنات وہ مدبر ارض و سماء جو کسی چیز کے بغیر اس کائنات کو وجود بخشا اور اس دنیا کو رہنے کے قابل بنایا ۔ اور انسانوں کو " لم یکن شیئاً مذکوراً ” سے قابل ذکر بنایا ۔ وہی اللہ ہی ہے جس نے بغیر کسی شئی کے پہلی مرتبہ اس کائنات کی تخلیق فرمائی تو اس اللہ تبارک و تعالی کے لئے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔
علامہ شیخ محسن علی نجفی خطبہ فدک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"عدم سے وجود دینے کو خلق ابداعی کہتے ہیں اس معنی میں صرف اللہ تعالیٰ خالق ہے جبکہ اجزائے موجودہ کو ترکیب دینے کو بھی تخلیق کہا جاتا ہے، اس سے غیر اللہ بھی متصف ہو سکتا ہے۔
چنانچہ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں اس بات کو ایک مختصر جملے میں خوبصورتی سے سموتے ہوئے فرمایا: اِبْتَدَعَ الْأشْيٰاءَ لا مِنْ شَی‏ءٍ كانَ قَبْلَها "ہر چیز کو لا شی ٔ سے وجود میں لایا اور کسی نمونے کے بغیر ان کو ایجاد کیا”۔ پس اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد ذات ہے جو چیزوں کو بغیر کسی سابقہ مواد یا مثال کے خلق کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور ذات احدیت کے علاوہ کسی میں ایسی قدرت نہیں ۔
آج کل کے دور میں بشر کسی چیز کی بظاہر تخلیق کرتے ہیں تو اللہ کی اس کائنات میں موجود موجودات سے ہی چیزوں کو بناتے ہیں ایک چیز کو دوسری چیز سے ملانے کی وجہ سے کوئی تیسری چیز بن جاتی ہے ۔ لیکن جب اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کی تو عدم سے وجود میں لایا کوئی بھی چیز موجود نہ تھی کہ جس کے مدد سے اللہ اس کائنات کو تخلیق فرماتا ۔
اور اللہ تعالی نے اس دنیا کو اپنی قدرت و طاقت سے خلق فرمایا ۔ دنیا کی کوئی بھی چیز ہو چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی باریک ہو یا ظاہر ہر شئی قدرت الہیہ کے ما تحت ہیں اور اللہ کی قدرت سے خلق ہوئی ہے ۔
جیسا کہ امیر کائنات حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : "فطر الخلائق بقدرتہ ، ونشر الریاح برحمتہ ، ووتّد بالصخور میَدان اَرضہ "
ترجمہ: اس نے ،مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا ، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا اور تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑ وں کی میخیں گاڑیں ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱)
اللہ کی قدرت سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو اختیار مطلق ہے کہ جب ، جہاں ، جیسے ، کسی چیز کو خلق فرمانا چاہے تو خلق کر سکتا ہے اور اگر خلق نہ کرے تو بھی کوئی مجبوری نہیں ہوتی ہے ۔ جس طرح بندے اگر کوئی کام کرنا چاہے تو اگر اس کی قدرت میں ہو تو وہ مطلق طور پر نہیں ہے اور اس کی قدرت ذاتی بھی نہیں ہے بلکہ اللہ کی دی ہوئی قدرت ہے وہ بھی کسی ایک چیز کی نسبت بظاہر قدرت ہے تو کسی دوسری شئی کی نسبت قدرت نہیں ہوتی لیکن اللہ کی قدرت ذاتی ہے ہر شئی کی نسبت قدرت بھی ہوتی ہے ۔
اللہ تعالی جب کسی چیز کی تیقہ فرماتا ہے تو وہ بغیر کسی ارادے کے خلق نہیں کرتا ہے بلکہ اس میں اللہ کا ارادہ اور مصلحت کے تحت ہی اللہ اشیاء کی تیقد کرتا ہے ۔ ورنہ بغیر ارادہ اور مقصد کے کوئی چیز خلق کرے تو یہ عبث شمار ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کا غیر مرئی ہونا
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا اپنے اس ملکوتی خطبہ میں اللہ تبارک وتعالی کی صفات بیان کر رہی ہیں کہ اللہ کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ : "الممتنع عن الابصار رؤیتہ ،و من الالسن صفتہ ،ومن الاوھام کیفیّتہ "
ترجمہ: نہ وہ نگاہوں کی(محدودیت)میں آ سکتا ہے، اورنہ ہی زبان سے اس کا وصف بیان ہو سکتا ہے،اور وہم و خیال اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
مذہب امامیہ اہل تشیع کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالی نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں نظر آتا ہے اگر رؤیت کے قائل ہو جائے تو اللہ تعالی کے لیے جسم کے بھی قائل ہونا لازم آتا ہے اور جسم نقص ہے اللہ تعالی تمام نقائص سے پاک و منزہ ہے ۔ اور جسم کے لیے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو چیز جگہ گیرتی ہے اس کے لیے سمت کی ضرورت ہوتی ہے پس اللہ تعالی جگہ سمت زمان ومکان اور جہات کی طرف محتاج ہونا لازم آتا ہے اللہ کی ذات تو ہر چیز سے بے نیاز ہے ۔ پس ہمارا عقیدہیہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات بے نیاز ہے وہ ذات کسی چیز کی طرف محتاج نہیں ہوتی ۔ جو چیز کسی غیر کی طرف محتاج ہوتی ہے وہ ممکن الوجود کی صفات میں سے ہے اللہ تعالی تو واجب الوجود ہے ۔
جو مذاہب اللہ تعالی کی رؤیت کے قائل ہیں چاہے دنیا میں ہو یا آخرت میں ہو یہ نظریہ ہی اللہ تعالی کی ذات کی توہین لازم آتی ہے ۔
قرآن مجید کی متعدد آیات ایسے ہیں جو اللہ کی کی رؤیت کی نفی کرتی ہیں کہ: (سورہ مبارکہ انعام کی آیت ؛ 103 )
لا تدرکہ الابصار ، وھو یدرک الابصار ، وھو اللطیف الخبیر
ترجمہ: نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جب کہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، بڑا باخبر ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو ا ن ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آنکھیں صرف ایسی چیزوں کا مشاہدہ کر سکتی ہیں جو رنگ، جسم ، کیفیت اور محدود ہو یہ چیزیں اللہ تعالی کے اندر نہیں ہے اللہ کی ذات تو لامتناہی ہے اور اللہ تعالی نہ جسم رکھتا ہے ۔ اور اسی طرح اللہ تعالی آنکھوں کا خالق ہے تو کسی مخلوق شئی کے ذریعے اللہ کو حاسہ بصارت میں لانا ممکن نہیں ہے ۔
جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسماعیل بن فضل نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر آئے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ :
سبحان اللہ تعالی عن ذالک علوا کبیراً یا ابن الفضل ان الابصار لا تدرک الّا مالہ لون و کیفیۃ واللہ خالق الالوان والکیفیۃ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک، بلند و بالا ہے۔ اے ابن فضل آنکھیں صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں جو رنگ اور کفیتت پر مشتمل ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو رنگوں اور کیفیت کا خالق ہے ۔(بحارج۴ص۳۱)
اور اسی طرح مولا کائنات امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ :
’’ ما وحّدہ من کیّفہ ” ( نہج البلاغہ خطبہ 186)
ترجمہ : جو اللہ کو کسی کیفیت میں لائے ، اس نے توحید کا اقرار نہیں کیا ۔
کیونکہ جس چیزوں کو جن صفات کو خود اللہ تعالی نے خلق کیا ہو وہ صفات کیسے اللہ کی ذات کے ساتھ جڑ سکتیں ہیں ۔ کیونکہیہ مخلوقات میں سے ہیں ۔ جیسا کہ خود امام علیہ السلام نہج البلاغہ کے اسی خطبہ 186 میں آگے ارشاد فرماتا ہے کہ :
وکیف یجری علیہ ما ھو اَجراہ ویعود فیہ ما ھو ابداہ ویحدث فیہ ما ھو احدثہ اذاً لتفاوتت ذاتہ ولتجزّاَ کنھہ ولا متنع من الازل معناہ ولکان لہ ورائ اذ وُجد لہ اَمام
ترجمہ : بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے، وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو، وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پذیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علیحدہ ہو جائے گی۔ اگر اس کے لیے سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی۔
اسی طرح سورہ طہ آیت ؛ 110 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ:
تعلم با بین ایدیھم وما خلفھم ولا یحیطون بہ علماً
ترجمہ : اور وہ لوگوں کے سامنے اور پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور وہ کسی کے احاطہ علم میں نہیں آسکتا۔
اس آیت میں احاطہ علم سے مراد مفسرین نے یہ تفسیر کی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات احاطہ بصارت میں نہیں آسکتی ۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اس آیت کے ذیل میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
” فاِذا راَتہ الابصار فقد احاطت بہ العلم”
ترجمہ: اگر آنکھوں نے اسے دیکھ لیا تو وہ آنکھوں کے احاطہ علم میں آگیا ۔ (الوافی ج۱ ص۳۷۸)
پسیہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالی آنکھوں کے احاطہ علم میں آجائے تو دیکھنا بھی ممکن نہیں ہے ۔
اسی طرح مروی ہے کہ ابو قرہ نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے کہا: ہماری روایتوں میں ہے کہ اللہ نے انبیاء میں کلام اور دید کو تقسیم کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا دیدار عنایت فرمایا: تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ :
فَمَنِ الْمُبَلِّغُ عَنِ اللّٰہِ اِلَی الثَّقَلِیْنِ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ۔ لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ (۶ انعام: ۱۰۳) وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا ( ۲۰ طہ: ۱۱۰) لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ (۴۲ شوری: ۱۱) اَلَیْسَ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: بَلَی۔ قَالَ: کَیْفَ یُجِییئُ رَجُلٌ اِلَی الْخَلْقِ جَمِیعاً فَیُخْبِرُھُمْ اَنَّہُ جَائَ مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اَنَّہُ یَدْعُوھُمْ اِلَی اللّٰہِ بِاَمْرِ اللّٰہ فَیَقُولُ: لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۔ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا۔ وَ لَيْسَ كَمِثْلِہٖ۔ ثُمَّ یَقُولُ: اَنَا رَاَیْتُہُ بِعَیْنِی وَاَحَطْتُ بہ عِلْماً وَ ھُوَ عَلَی صُورَۃِ الْبَشَرِ اَمَا تَسْتَحُونَ مَا قَدَرَتِ الزَّنَادِقَۃُ اَنْ تَرْمِیَہُ بِھَذَا اَنْ یَکُونَ یَاْتِی مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ بِشِیئٍ ثُمَّ یَاْتِی بِخِلَافِہِ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ۔۔۔ وَ قَدْ قَالَ اللّٰہُ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا فَاِذَا رَاَتْہُ الْاَبْصَارُ فَقَدْ اَحَاطَتْ بِہَ الْعِلْم۔ ( الکافی۱: ۹۵ باب ابطال الرؤیۃ )
ترجمہ: پھر جن و انس کی طرف یہ آیات پہنچانے والا کون ہے؟ نگاہیں اس کو درک نہیں کر سکتیں۔ اس پر علم کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ اس جیسا کوئی نہیں۔ کیا وہ محمدؐ نہیں ہیں؟ کہا: ہاں۔ فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پوری مخلوق کی طرف آئے اور کہے وہ اللہ کی طرف سے آیا ہے اور وہ بحکم خدا اللہ کی طرف دعوت بھی دیتا ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے: نگاہیں اسے درک نہیں کر سکتیں اور اس پر علم کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ پھر کہے: میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس پر میں نے احاطۂ علم کیا۔ وہ بشر کی شکل مںا ہے۔ کیا تم شرم نہیں کرتے۔ زندیق لوگ یہ الزام نہیں لگا سکے کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک چیز لے کر آتا ہے پھر اس کے خلاف بھی پیش کرتا ہے۔۔۔ جب کہ اللہ نے خود کہا ہے کہ وہ احاطہ علم میں نہیں آ سکتا۔ اگر آنکھوں نے اسے دیکھ لیا تو وہ احاطہ علم میں آگیا۔
سورہ اعراف آیت؛ 143 میں ہے کہ: ” وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ”
ترجمہ: اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعاد پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے: میرے رب! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے: پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔
اس آیت میں لفظ ” لن ” جو استعمال ہوا ہے یہ ادبیات کے اصطلاح میں ابدی نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کو انسان نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں دیکھ سکتے ہیں۔
بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب ایک نبی خدا سے اپنی رؤیت اور دیدار کا استدعا کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نظر آسکتا ہے ورنہ حضرت موسی اللہ سے اپنی دیدار کا مطالبہ ہی نہ کرتا ۔
اس کے جواب میں صاحب کشف المراد آیۃ اللہ العظمی حسن زادہ الآملی فرماتے ہیں کہ :حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی طرف سے خدا کو سوال نہیں کیا ہے بلکہ ان کی قوم نے حضرت موسی کو مجبور کیا تھا کہ ہم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائے گے جب تک آپ ہمیں خدا نہ دکھائے ۔
جیسا کہ قرآن کی آیت ہے کہ ؛ "لن نؤمن لک حتی نریٰ اللہ جہرۃً فاَخذتھم الصاعقۃ "اور اسی طرح دوسری آیت بھی ہے کہ "افتھلکنا بما فعل السفھاء منّا
تو اس وجہ سے حضرت موسی خدا سے رؤیت کا سوال کرنے پر مجبور ہوئے تھے ورنہ خود حضرت موسی علیہ السلام سے یہ سوال صادر نہ ہوتا ۔ (کشف المراد ص۴۱۲)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button