اخلاق حسنہاخلاقیات

حلم قرآن وسنت کی روشنی میں(حصہ دوم)

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت

پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ نے جابجا اپنے کردار اور اقوال کے ذریعے تلخ و ناگوار حوادث کے مقابل حلم اور ضبط ِنفس کی تاکید اور تلقین کی ہےاس بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

کمال العلم الحلم، وکمال الحلم کثرة الاحتمال والکظم

حلم کمالِ علم ہے اور کمالِ حلم، کثرت سے تحمل اور بکثرت غصے کو ضبط کرنا ہے۔

(غرالحکم ، نقل از میزان الحکم  ج ۲ص۵۱۶)

آپؑ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:

جمال الرجل حلمه، انک مقوم بادبک فزیّنه بالحلم

انسان کی زیبائی، اس کا حلم ہےاے انسان! تو اپنے مودب ہونے سے پرکھاجاتا ہے، تیری زینت حلم کے ذریعے فراہم ہوتی ہے۔

(غرالحکم ، نقل از میزان الحکم  ج ۲ ص۵۱۶)

آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

الحلم یطفیٔ نارالغضب والحدّة تو جّج احراقه

حلم، غصے کی آگ کو بجھاتا ہے لیکن تندی اور گرم مزاجی، اس آگ کے شعلوں کو بھڑکاتی ہے۔

(غرالحکم ، نقل از میزان الحکم ج ۲ ص۵۱۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الحلم سراج الله

حلم و ضبط ِنفس خداوند ِعالم کا روشن چراغ ہے۔

(بحارالانوار ج۷۱ص۴۲۲)

یہاں ہم نے اس موضوع پر موجود سیکڑوں احادیث میں سے صرف چند احادیث بطورِ مثال پیش کی ہیں ان میں سے ہر حدیث میں مختلف تعبیروں کے ذریعے ” حلم“ کی صفت کو سراہا گیا ہے اور تحمل اور ضبط ِنفس کی خصوصیت کے حامل انسان کی تعریف کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام، ائمہ معصومین، اولیائے الٰہی اور علمائے ربانی کی زندگیوں میں یہ بات کثرت کے ساتھ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مہر و محبت آمیز طرزِ عمل کے ذریعے صفت ِحلم کا مظاہرہ کرتے تھے۔انس بن مالک کہتے ہیں: میں پیغمبر اسلامؐ کی خدمت ِاقدس میں موجود تھاآپؐ کے کاندھوں پر ایک ایسی عباپڑی ہوئی تھی جس کے کنارے سخت تھےاسی اثنا ءمیں ایک بدوعرب آنحضرتؐ کے نزدیک آیا اور آپؐ کی اس عبا کو پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں نے آنحضرتؐ کی گردن زخمی کردیپھر اسکے بعد گستاخی سے بولا: اے محمد! تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اسے میرے ان اونٹوں پر لاد دو، تاکہ میں اسے لے جائوں کیونکہ یہ نہ تو تمہارا مال ہے نہ تمہارے والد کا۔

آنحضرت ؐنے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: یہ مال، خدا کامال ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔پھر مزید فرمایا: اے اعرابی! جو زخم تم نے مجھے لگایا ہے، کیا ویسا ہی زخم میں تمہیں لگاوں؟

اس بدونے جواب دیا:نہیں۔

آنحضرت ؐنے فرمایا کیوں؟

اس نے کہا؟ کیونکہ آپ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتےبلکہ اسے اچھے انداز سے دور کرتے ہیں،پیغمبر اسلامؐ اسکی یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجوروں سے لاد کر اسکے حوالے کردینے کا حکم دیا۔

(کحل البصرص۱۴۵)

فتح مکہ کے موقع پر، بہت سے مشرکین کو سپاہِ اسلام نے قیدی بنالیاان لوگوں کو یقین تھا کہ آنحضرت ؐانہیں قتل کردیں گے اور ان کے مال و اسباب کوتباہ و برباد کردیں گےاسی اثنا میں لشکر اسلام کے ایک پرچمدار ” سعد“ کی صدابلند ہوئی:

الیوم یوم الملحمة، الیوم تسبی الحرمة، الیوم اذّل الله فریشا 

آج انتقام کا دن ہے، آج دشمنوں کے مال و اسباب عزت و آبرو کی بربادی کا دن ہے، آج قریش کی ذلت و خواری کا دن ہے۔ آنحضرت ؐ نے جب یہ نعرہ سناتو اسے ایک محبت آمیز نعرے سے بدل دیا اور فرمایا:

الیوم یوم المرحمة، الیوم اعزّفریشاً 

آج رحمت کا دن ہے، آج قریش کی عزت کا دن ہے۔

اور پھر آپؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:پرچم ہاتھ میں لو اور مکہ میں داخل ہوجائو۔

اسکے بعد پیغمبر اسلام نے قریش کو مخاطب کرکے فرمایا:

اذهبوا فانتم الطّلقاء

جاو، تم سب آزاد ہو۔

(اقتباس از بحارالانوار۔ ج ۲۱ص۱۰۹اور۱۰۵)

ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ؐنے ان لوگوں سے فرمایا: تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم آپ ؐسے اچھے طرزِ عمل کی توقع رکھتے ہیں، آپؐ ہمارے کرم پرور بھائی اور ہمارے کریم النفس بھائی کے فرزند ہیں،پیغمبر اسلام نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ:

لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 

آج تم پر کوئی عتاب نہ ہوگا ۔

یوسف۱۲آیت۹۲

جاو تم آزاد ہو۔

(کحل البصر۔ ص۱۴۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حیات کے تذکرے میں آیا ہے:آپؑ نے اپنے عہد ِخلافت میں ایک روز لوگوں سے فرمایا:جو سوال تمھارے ذہن میں ہو مجھ سے پوچھ لو۔ زیر آسمان چیزوں کے متعلق ہر سوال کا جواب میں تمہیں دوں گا اور میرے بعد یہ دعوی سوائے جھوٹے اور دروغ گوکے کوئی اور نہیں کرے گا۔اس موقع پر مجلس کے ایک گوشے سے ایک بلند قامت شخص اٹھااس کی گردن میں ایک کتاب لٹک رہی تھییوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی یہودی عرب ہےوہ بلند آواز میں انتہائی گستاخی کے ساتھ حضرت علی ؑکو مخاطب کرکے بولا: اے اس چیز کے دعوے دار جسے تم نہیں جانتے اور بے جاحد سے تجاوز کرنے والے انسان! میں تم سے ایسے سوالات کروں گا جن کے جواب تم نہ دے سکو گے۔

اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر حضرت علی ؑکے اصحاب اورشیعوں میں سے کچھ لوگ اسے سبق سکھانے کے لیے اٹھےیہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے سختی کے ساتھ ان لوگوں کو اس عمل سے روکا اور فرمایا:اسے کہنے دو، جلد بازی، تیز مزاجی اور غصے کو خود سے دور رکھو، ان اعمال سے بندگانِ خدا پر خدا کی حجتیں تمام نہیں ہوتیں اور براہین الٰہی آشکار انہیں ہوتے۔اس کے بعد آپ ؑنے انتہائی تحمل اور بزرگواری کے ساتھ اس شخص کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جو سوال تمھارے ذہن میں ہے اسے پوچھواس شخص نے اپنے سوال پیش کیے اور حضرت ؑ نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیئے۔یہ طرزِ عمل دیکھ کر اور سوالات کے تسلی بخش جواب پاکر وہ شخص حضرت علیؑ کے حلم اور علم کا شیفتہ ہوگیا اور آپؑ کی مدح میں چند اشعار پڑھے اور امیر المومنینؑ کو صاحب ِعلم، گمراہوں کے راہبر، اور کمال و انسانی فضائل میں جوانمردقراردیا۔

(بحارالانوارج۷۱ص۴۲۴)

اسی طرح ایک اور موقع پر آپؑ کی حیات ِمبارکہ میں تحریر ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آپؑ کی موجودگی میں آپؑ کے غلام قنبر کو سخت وسست کہاجب قنبر نے بھی اسے دوبدو جواب دینا چاہا تو امیر المومنینؑ نے انہیں صدادی اور فرمایا:

 مھلاً یا قنبر، دع شاتمک۔۔۔

اے قنبر آرام سے رہو، دشنام دینے والے کو اپنی بے اعتنائی سے بخش دو، تاکہ اپنے پروردگار کو خوش، شیطان کو غضبناک اور اپنے دشمن کو عذاب میں مبتلا کرو (کیونکہ بے اعتنائی سے بڑھ کر اسکے لیے کوئی عذاب نہیں) اس خدا کی قسم، جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو خلق کیا ہے، مومن اپنے پروردگارکو جس قدر ” حلم“ سے خوش کرتا ہے کسی اور چیز سے خوش نہیںکرتا اور جتنا حلم اور ضبط ِنفس سے شیطان کو غضبناک کرتا ہے اتنا کسی اور چیز سے اسے غضبناک نہیں کرتااحمق اور نادان کو جتنا عذاب سکوت اور خاموشی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا۔

(بحار الانوارج۷۱ص۴۲۴)

اس بیان میں حضرت علیؑ کا قسم کھانا، حلم کی غیر معمولی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسرے تمام ائمہؑ کی زندگیوں میں بھی کثرت کے ساتھ اس قسم کا بزرگوارانہ طرزِ عمل نظر آتا ہےاسی طرح ان کے اصحاب، شاگردوں اورعلمائے ربانی کے یہاں بھی یہ روش بکثرت دکھائی دیتی ہے یہاں اختصار کے پیش نظر ہم اسکی مثالوں کے ذکر سے گریز کررہے ہیں۔

امیر المومنینؑ پرہیزگاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں:

فحلماء علماء

یہ لوگ حلیم اور دانا ہوتے ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:

یمزج الحلم بالعلم

ان کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حلم کو علم کے ساتھ ملا دیا ہے۔

(نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳)

حضرت علی ؑکے ایک بہترین شاگرد اور آپ کی سپاہ کے بے مثل سردار، مالک اشتر، ایک دن بازارِ کوفہ سے گزررہے تھےایک شخص جوان سے واقف نہ تھا اس نے کچھ کچرا اٹھا کر ان پر پھینک دیا اور اپنی اس حرکت پر ہنسنے لگامالک اشتراس سے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئےایک دکانداریہ سب کچھ دیکھ رہا تھامالک اشتر کے چلے جانے کے بعد اس نے اس احمق شخص سے کہا: تجھے معلوم ہے یہ محترم ہستی کون تھی؟ یہ حضرت علیؑ کی سپاہ کے جری سردار مالک اشتر تھےیہ سن کر وہ شخص معذرت کی غرض سے ڈرتا کانپتا مالک اشتر کے پیچھے دوڑا اور اس نے دیکھا کہ مالک اشتر مسجد میں نماز میں مشغول ہیں جب انہوں نے نماز تمام کرلی تو وہ شخص ان کے پاس گیا اور معذرت طلب کرنے لگامالک اشتر نے کہا:بخدا میں اِس وقت خدا وند ِعالم سے تیرے لیے بخشش طلب کرنے کی غرض سے ہی مسجد آیا ہوں تاکہ خدا تیرے اخلاق کی اصلاح فرمائے اور تجھے بخش دے۔

(بحارالانوار ج ۴۲ ص۱۵۷)

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات

حلم کی ایک برکت اور اثر عفوودرگزرہےعفوودرگزر جوانمردوں کی صفات میں سے ہے جس کے ذریعے دوستی کے تعلقات اور باہمی روابط میں استحکام اور مہرومحبت پیدا ہوتی ہے۔ایسا انسان جس میں حلم کی صفت نہ ہو، اس میں عفوودرگزر کی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم کا حلیم ہونا، اس کی جانب سے عفووبخشش کا موجب ہے۔امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے کے آغاز میں فرماتے ہیں:

الحمد لله  الذی عظم حلمه فعفا

اس خدا کی حمدوسپاس جس کے حلم کی عظمت اسکے عفوودرگزر کا موجب ہے۔

(نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱)

حلم کی ایک اور تاثیر یعنی اس کی وجہ سے دوستوں میں اضافہ ہونے کے بارے میں امیر المومنین فرماتے ہیں:

وبالحلم عن السّفبه تکثر الانصار 

احمق لوگوں کے مقابل حلم و بردباری کا اظہار انسان کے ساتھیوں میں اضافہ کرتا ہے۔

نہج البلاغہ کلمات ِقصار ۲۲۴)

اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ:

الحلم عشیره 

حلم خود ایک قبیلے کی مانند ہے۔

(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۔ ۴۱۸)

حلم سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا موجب ہوتا ہےحلم کی اس تاثیر کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

والحلم والا ناة توامان ینتجها علوّ الهمّة 

حلم اور بے اعتنائی دو جڑواں مولود ہیں جن سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہے۔

(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۴۶۰)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

الحلم غطاء ساتر

حلم ڈھانکنے والا پردہ ہے۔

حلم کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عزت و شرف کا باعث ہےلہٰذا حضرت علیؑ نے فرمایا ہے:

ولاعز کالحلم

کوئی شرف حلم کی مانند نہیں۔

(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۱۱۳)

یعنی حلم اور ضبط نفس خداوند ِعالم کی بارگاہ اور لوگوں کی نظروں میں عزت وشرف کا باعث ہے۔

حلم ہی کے اثرات اور برکات میں سے ایک یہ ہے کہ کاموں میں تقصیر اور کوتاہی کا موجب نہیں ہوتا اور لوگوں کے سامنے ایک پسندیدہ اور خوشگوار زندگی کا باعث بن جاتا ہےبقول امام علی علیہ السلام:

ومن حلم لم یفرط فی امرہ، وعاش فی الناس حمیداً

حلیم شخص، اپنے کاموں میں تفریط و کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور لوگوں کے درمیان پسندیدہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔

(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۳۱)

خداوند ِعالم سے دعا گوہیں کہ ہم ان فرامین اور بزرگانِ دین کے اس طرزِ عمل سے حلم اور ضبط ِنفس کا درس لیں اور اس خصلت کے ذریعے دنیا اور آخرت میں امتیازی مقام حاصل کریں۔آمین

(عباد الرحمٰن کے اوصاف سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button