سلائیڈرمحافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

حضرت علی علیہ السلام اور آپؑ کے گیارہ فرزندوں کی امامت

حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں مقام امامت پردلالت کرنے والی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں۔ علامہ حلی نے "نھج الحق وکشف الصدق”میں ۸۸ آیتیں بیان کی ہیں جن کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مشھور کتب اہل سنت میں منقولہ احادیث کے مطابق یہ قرآنی آیتیں حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے مختلف ابعاد اور پھلوؤں نیز آپ کی امامت پر روشنی ڈالنے والی ہیں۔ اس کے علاوہ شھید ثالث علامہ قاضی سعید مرعشی طاب ثراہ نے "احقاق الحق” میں ۹۴دوسری آیتیں، ۳۷معتبر کتب اہل سنت کے حوالوں کے ساتھ پیش کی ہیں۔
یہاں قرآن مجید سے صرف ایک آیت پیش کی جارہی ہے جو امامت حضرت علی علیہ السلام پر دلالت کرتی ہے۔آیہ ولایت، سورہ مائدہ کی ۵۵ویں آیہ مبارکہ کو کہا جاتا ہے :انماولیکم اللّٰه ورسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة و یوتون الزکاة وھم راکعون تمھارا رولی بس اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔راویان شیعہ واہل سنت کے ذریعہ متعدد نقل شدہ احادیث کے مطابق یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور تمام شیعہ مفسرین ومحدثین اور بہت سے اہل سنت علماء کے اعتراف کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ہی تھے کہ جنہوں نے حالت رکوع میں ایک فقیر کو اپنی انگوٹھی بخشی تھی۔شھیدثالث نے "احقاق الحق” میں اہل سنت کی ۸۵کتب حدیثی وتفسیری کاتذکرہ کیا ہے جن میں یہ بتایا گیا ے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ان روایات کی بنا پر کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ الذین آمنوا…. سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ فقط قابل غور یہ ہے کہ اس آیت میں “ولی” سے مراد کیا ہے۔
معنائے ولی، ولایت، ولا، مولا، اولیٰ وغیرہ سب کے سب مادہ “ولی”- و،ل،ی- سے مشتق ہیں۔ یہ مادہ قرآن کریم میں کثرت سے استعمال ہوا ہے، ۱۲۴مرتبہ اسم کی صورت میں اور ۱۱۲ مرتبہ فعل کی صورت میں۔جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں اور ابن فارس نے مقاییس اللغۃ میں ذکر کیاہے، اس لفظ کے حقیقی معنی یہ ہیں: دو اشیاء کے درمیان ایسی نزدیکی وقربت کہ کوئی فاصلہ باقی نہ رہے۔ (۱) یعنی اگر دو اشیاء اس طرح ایک دوسرے سے قریب ہو جائیں کہ ان کے درمیان کوئی شیء باقی نہ رہے تو مادہ "ولی” استعمال ہوتا ہے: “ولیَ زید عمراً” یعنی زید،عمر کے قریب ہے۔اس لفظ کا استعمال دوستی، یاری، ذمہ داری، تسلط وغلبہ کے معنی میں اسی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان تمام موارد میں ایک طرح کی نزدیکی، اتصال وقربت پائی جاتی ہے۔ لہذا کسی مخصوص معنی کے تعین کے لئے کلام میں موجود قرینے کا لحاظ ضروری ہے۔مذکورہ نکات کے بعد آیہ ولایت کا حاصل یہ ہے: “مسلمانوں سے بے انتہا نزدیکی وقربت رکھنے والے خدا، رسول اور علی ہیں۔”واضح ہے کہ یہ نزدیکی وقربت، معنوی ہے نہ کہ مادی وظاہری اور اس قربت معنوی کا لازمہ ایسے تمام امور میں ولی کی نیابت ہے جن امور میں نیابت کی جاسکتی ہے۔لہذا شخص ولی ان تمام امور پر حاکمیت رکھ سکتا ہے جن کو مسلمان اپنی ذات سے مربوط ہونے کی وجہ سے انجام دیتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ امور قابل نیابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ولایت کو تسلط، حاکمیت اور اختیار کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ (۲)دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم دنیا وآخرت میں اپنے بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ولایت مومنین، تدبیرِ امورِ دین اور ان کی ہدایت کے ذریعے مومنین کو کمال وسعادت کی طرف گامزن کرتا ہے۔ رسول اکرمﷺ، خدا کے اذن اور اس کی طرف سے مومنین اورخدا کے بندوں کے ولی ہیں۔ نتیجتاً اس آیت میں بیان شدہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت بھی اس لفظ کے اسی مذکورہ معنی میں ہے جس کا لازمہ لوگوں کے امور میں تصرف اور ان کی جان ،مال، عزت اور دین پر اولویت ہے۔
اہل سنت اکثر علماء حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس آیت کے شان نزول پرمتفق ہیں حتی تفسیر الکشاف میں زمخشری اس سوال کے جواب میں کہ جب مراد ایک فرد ہے تو کیوں لفظ “الذین” جو کہ جمع کا صیغہ ہے، استعمال ہوا ہے،کہتے ہیں:”اس لئے تاکہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ دئے جانے والے اس عمل کی طرف راغب ہوں نیز اس لئے تاکہ یہ بتایا جائے کہ مومنین کو ایسا ہونا چاہیے۔ ” (۳)فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں:” یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور علماء بھی اس پرمتفق ہیں کہ حالت رکوع میں حضرت علیؑ کے علاوہ کسی اور نے زکوۃ نہیں دی ہے۔” (۴)در المنثور میں سیوطی نے متعددروایات کا تذکر کیاہے جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام سے ہی مربوط ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہل سنت اس آیت کی توجیہ وتاویل میں یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں “ولی” سے مراد دوست ہے نہ کہ سرپرست یا حاکم ومختار لیکن بیان شدہ نکات کے پیش نظر مذکورہ معنی ادات حصر کے دائرے میں نہیں آتے کیونکہ اس صورت میں خدا، رسول اور علی کی دوستی کے علاوہ کسی اور سے دوستی کی نفی ہوتی ہے۔
امامت علیؑ:
روایات کے پس منظر میں اہل سنت والجماعت اور شیعہ حضرات کی کتب احادیث میں رسول اکرم ﷺ سے مروی بے شمار روایات موجود ہیں جو آپ کے بعد امامت و خلافت حضرت علی علیہ السلام پر تاکید کرتی ہیں۔یہ روایات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ اپنی رسالت کے ابتدائی زمانے سے خداوند عالم کی طرف سے اس عظیم امر کی ترسیل وابلاغ کے لئے مامور تھے کہ اس کو مسلمانوں تک پہنچائیں اور آپؐ نے ہمیشہ اور ہر موقع پراپنے اس فریضے کوبحسن و خوبی انجام بھی دیا۔یہاں چونکہ ان تمام روایات کا تفصیلی جائزہ ممکن نہیں ہے لہذا فقط واقعہ غدیر سے متعلق ایک روایت کا بالتفصیل تذکرہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی اس کے ذیل میں چند دوسری روایات کا بھی۔
حدیث غدیر:
حدیث غدیر اس واقعہ سے مربوط ہے جورسول اسلامﷺ کی عمر کے آخری حصے میں آپ کے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر نامی مقام پر پیش آیاتھا۔ غدیر خم اس جگہ کا نام ہے جہاں سے مصری اور عراقی حجاج اور مدینے کی سمت جانے والے افراد ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔واقعہ غدیر کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۰ھ میں رسول اسلامﷺ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ حجۃ الوداع کے لئے روانہ ہوتے ہیں اور مراسم حج کے خاتمے کے بعد مدینہ واپس جانے کے لئے مکہ سے رخصت ہوتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی جانب سے فرمان حرکت جاری ہوتا ہے۔ جیسے ہی قافلہ “حجفہ” سے تین میل کے فاصلے پر واقع مقام “رابغ” پہنچتاہے، جبرئیل امین غدیرخم نامی مقام پررسول خداﷺ کے لئے خداوندعالم کا پیغام لےکر نازل ہوتے ہیں: یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللّٰه یعصمک من الناس اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویااپنی رسالت کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کولوگوں (کے شر )سے محفوظ رکھے گا۔(۵)اس آیت کے نازل ہوتے ہی پیغمبر اکرمﷺ نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیدیا۔ جو افراد قافلے سے آگے بڑھ گئے تھے انہیں واپس آنے کا حکم دیا ارو جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا۔ ظھر کا وقت تھا اور شدید گرمی، ایک درخت پر ایک چادر پھیلا کر رسول خداﷺ کے لئے ایک سائبان تیار کیا گیا، رسول اکرمﷺ نے نماز ظہر باجماعت ادا کی، پھر اس حالت میں کہ مجمع آپ کے اردگرد پھیلا ہوا تھا، آپ نے اونٹوں کے کجاووں سے تیار شدہ منبر پر آکر بلنداور رسا آواز میں مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:”حمد وثناخدا ذات کبریا سے مخصوص ہے۔ ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں نیز اسی پر توکل کرتے ہیں۔ اپنی برائیوں اور برے اعمال سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں وہ خدا جس کے علاوہ نہ کوئی ہادی ہے اور نہ کوئی راہنما۔ اس نے جس کو ہدایت عطا فرمادی ، پھر کوئی اسے گمراہ نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ایھا الناس! اب وہ وقت آچکا ہے کہ میں دعوت حق پرلبیک کہوں اور تمہارے درمیان سے چلا جاؤں۔ میں بھی مسئول ہوں اور تم بھی مسئول ہو۔ میرے بارے میں تمھارا کیا نظریہ ہے؟”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق بخوبی انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میں اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے ہیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔”کیا تم لوگ گواہی دیتے ہو کہ معبود کائنات فقط ایک ہے اور محمداس کا بندہ اور اس کا رسول ہے نیز جنت ودوزخ اور ابدی زندگی قطعی ہیں؟”ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔”ایھا الناس! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ تم ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کروگے؟اسی درمیان کوئی شخص بلند ہوا اور سوال کیا: “وہ دو چیزیں کیا ہیں؟”ایک خدا کی کتاب کہ جس کا ایک حصہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہل بیت۔ میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ ایھا الناس! خود کو قرآن واہل بیت پر مقدم نہ کرنا اور اپنے عمل میں ان دونوں کے ساتھ حق تلفی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔”اس موقع پر رسول اکرم ﷺنے علی علیہ السلام کے ہاتھ کوتھاما اور اس قدر بلند کیاکہ آپ دونوں حضرات کے زیر بغل کی سفیدی تمام افراد کے لئے نمایاں ہوگئی۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا تعارف کرایا اور پھر فرمایا:”ایھا الناس! من اولیٰ الناس بالمومنین من انفسھم؟”ایھا الناس!مومنین میں خود ان کے نفوس پر کون اولی ہے؟۔”خدا اور اس کا رسول۔”ان اللّٰه مولای وانا مولیٰ المومنین وانا اولیٰ بھم من انفسھم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ”خدا میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان پر خود ان سے زیادہ اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔بقول احمد بن حنبل رسول اکرمﷺ نے اس جملے کو چار بار دہرایا اور پھر فرمایا:”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار “خداوندا! تو بھی انہیں دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتے ہیں اور انہیں دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتے ہیں۔ ان سے محبت کر جو علی سے محبت کرتے ہیں اور جن کے دل میں علی کے بارے میں کینہ ہے ان پر اپنا غیض وغضب نازل کر۔ اس کے دوستوں کی مدد فرما اورجو اس کو نقصان پہنچائے اس کو ذلیل ورسوا کر دے اور علی کو محور حق قراردے۔
سند حدیث حدیث غدیر ایک مشھور ومعروف حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی دونوں گروہوں نے متعدد طرق سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے نیز دونوں فرقے اس حدیث پراعتقاد و یقین رکھتے ہیں یہاں تک کہ شیعی علماء کے علاوہ بعض اہل سنت علماء نے بھی اس حدیث پر باقاعدہ ایک باب کے تحت مفصل بحث کی ہے مانند ابوجعفر محمد بن جریر طبری (م ۳۱۰ ھ)، ابوالعباس احمد بن سعید ہمدانی (م ۳۳۳ ھ )اور ابوبکر محمد بن عمر بن محمد بن سالم تمیمی بغدادی (م․ ۳۵۵ ھ) وغیرہ ۔ علامہ امینی طاب ثراہ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب الغدیر میں ان تمام افراد کے اسماء کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے اس حدیث سے متعلق کتابیں لکھی ہیں نیز آپ نے اپنی کتاب میں ان افراد کی کتابوں کی خصوصیات بھی درج فرمائی ہیں۔اس حدیث کونقل کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے تابعین، تبع تابعین، علماء اور فقھاء نے کس قدر اہتمام کیا تھا اس کا اندازہ اگرہوجائے تو حقیقت مزید واضح ہوجائے گی۔ یہاں اس سلسلے میں ہر صدی کے بعض اہل سنت علماء کی تعداد نقل کی جارہی ہے بقیہ تفصیل ان مفصل کتابوں کے حوالے کی جا رہی ہے جواس سلسلہ میں لکھی گئی ہیں۔ اس حدیث کے ناقل اس طرح ہیں:۱۔ ۱۱۰صحابہ ۲۔ ۸۴تابعین ۳۔ ۵۶ علمائے قرن دوم ۴۔ ۹۲ علمائے قرن سوم ۵۔ ۴۳ علمائے قرن چہارم ۶۔ ۲۴ علمائے قرن پنچم ۷۔ ۲۰ علمائے قرن ششم ۸۔ ۲۰ علمائے قرن ہفتم ۹۔ ۱۹علمائے قرن ہشتم ۱۰۔ ۱۶علمائے قرن نہم ۱۱۔ ۱۴علمائے قرن دہم ۱۲۔ ۱۲علمائے قرن یازدہم ۱۳۔ ۱۳ علمائے قرن دوازدہم ۱۴۔ ۱۲ علمائے قرن سیزدہم ۱۵۔ ۱۹ علمائے قرن چھاردہم اہل سنت والجماعت کے بزرگ ومعتبر محدثین میں سے احمد بن حنبل شیبانی نے ۴۰سندوں، ابن حجر عسقلانی نے ۲۵سندوں، جزری شافعی نے ۸۰سندوں، ابوسعید سجستانی نے ۱۲۰سندوں، امیر محمد یمنی نے ۴۰سندوں، نسائی نے ۲۵۰ سندوں، ابوالعلاءہمدانی نے ۱۰۰سندوں اور ابولعرفانی حبان نے۳۰سندوں کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔مذکورہ اعداد وشمار علامہ امینی کی شھرہ آفاق کتاب “الغدیر” سے ماخوذ ہیں البتہ حدیث غدیر خم، اس کی سندوں اور مصادر سے مربوط، “الغدیر” کے علاوہ دوسری بہت سی کتابیں از جملہ “غایۃ المرام” مولفہ علامہ سید ہاشم بحرانی (م․ ۱۱۰۷ ھ) اور “عبقات الانوار”مولفہ سید میرحامد حسین اعلیٰ اللہ مقامہ، لکھی گئی ہیں۔مذکورہ نکات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ واقعہ غدیر خم اور اس دن رسول اکرمﷺ کا خطبہ، تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص اس حقیقت کا انکار کرنا چاہے تو پھر وہ دوسرے کسی بھی تاریخی واقعے کو قبول نہیں کرسکتا۔
دلالت حدیث حدیث غدیر کا مرکزی نقطہ یہ جملہ ہے “من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ” جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ متعدد پائے جانے والے قرائن وشواہد کے مدنظر اس حدیث شریف میں مولیٰ، “اولیٰ” یعنی سزوارتر کے معنی میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اکرمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے ولی اور سرپرست ہیں اور ان کے نفوس پران کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ ہیں۔ اس سلسلے میں بعض قرائن وشواھد مندرجہ ذیل ہیں:۱) حدیث کے آغاز میں رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں: “الست اولیٰ بکم من انفسکم” آیا میں تم سے تمھارے نفسوں کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟ اسی وقت اس سوال پراس جملے کااضافہ فرماتے ہیں: فمن کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ۔ ان دونوں جملوں کی ہم آہنگی اور ایک دوسرے سے نزدیکی یہی ثابت کرتی ہے کہ مولیٰ، “اولیٰ بہ تصرف” ہی کے معنی میں ہے۔۲) حدیث کے ضمن میں رسول خدا فرماتے ہیں: “اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ” یہ دعا اس عظیم مقام کی طرف نشاندہی کرتی ہے جس پر حضرت علی علیہ السلام فائز ہوئے ہیں اور وہ مقام خلافت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔۳) رسول خداﷺ، وہاں موجود افراد سے گواہی لیتے ہیں اور جملہ من کنت مولاہ ․․․ کو وحدانیت خدا، اور رسالت پیغمبر کے ذیل میں ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ بھی فقط اسی صورت میں قابل قبول ہے کہ جو کچھ اس جملے میں بیان ہوا ہے وہ اسی اہمیت اور منزلت کا حامل ہو جس کاجملہ ماقبل حامل ہے۔۴) رسول اکرمﷺ کی گفتگو کے ختم ہونے اورمسلمانوں کے پراکندہ اور منتشر ہونے سے قبل جبرئیل نازل ہوتے ہیں اوراس آیت کی تلاوت فرماتے ہیں: الیوم اکملت لکم دینکم․․․ اس کے بعد رسول خدا فرماتے ہیں: اللّٰه اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة رضی الرب برسالتی والولایة لعلی من بعدی” آخر ایسی کونسی چیز ہوسکتی ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی امامت وولایت کے علاوہ دین کوکامل کرنے والی اور نعمتوں کو تمام کرنے والی شمار کی جاسکے نیز جس کو رسالت کے کنارے کھڑا کیاجاسکے؟دوسرے بہت سے ایسے قرائن بھی رسول گرامیﷺ کی اس ماموریت و ذمہ داری کی اہمیت وعظمت کی گواہی دیتے ہیں جو مسلمانوں کو ابلاغ اور ترسیل سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں مزید جستجو اور مطالعے کے لئے علامہ امینی کی کتاب “الغدیر” کی دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
دیگر روایات پر ایک سرسری نظر(۱) جس وقت آیہ: وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی ، رسول خداﷺ نے حضرت ابوطالب علیہ السلام سے فرمایا کہ فرزندان عبد المطلب کو دعوت دی جائے اور ان کے لئے طعام کا انتظام کیا جائے۔ تمام افراد کے حاضر ہونے پر آپ نے فرمایا:” ایکم یوازرنی ویعیننی فیکون اخی وخلیفتی ووصیی من بعدی”تم میں سے کون ہے جو میرا وزیربنے اور میری مدد کرے تاکہ میرا بھائی، جانشین اور خلیفہ قرار پائے۔اس مجمع میں رسولﷺ کی اس پیشکش کوقبول کرنے والوں میں صرف حضرت علی علیہ السلام تھے، آپ نے فرمایا: میں آپ کی بیعت کرتا ہوں ۔میں آپ کی مدد کروں گا۔ پس رسول خداﷺ نے فرمایا:”ھذا اخی ووصیی وخلیفتی من بعدی ووارثی فاسمعوا لہ واطیعوا “یہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرے بعدمیرا جانشین اور وارث ہے۔ لہذا اس کے کلام کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔
(۲) جس وقت رسول خدا نے مدینہ کے لئے ہجرت فرمائی تھی اس وقت حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ تمام صحابہ کے درمیان عقد اخوت باندھا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا رسول خداﷺ! آپ نے میرے علاوہ تمام اصحاب کے درمیان عقد اخوت باندھا ہے۔ رسول خداﷺ نے فرمایا:”الم ترضیٰ ان تکون اخی وخلیفتی من بعدی”کیاتم میرے بھائی اور میرے جانشین ہونے سے راضی نہیں ہو؟(6)
(۳) متعدد روایات میں نقل ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ نے بارہا اصحاب سے فرمایا تھا کہ علی کو "امیر المومنین” کے لقب سے مخاطب کیاکرو نیز آپ خود حضرت علی علیہ السلام سے فرماتے تھے:”انت سید المسلمین وامام المتقین وقائد الغر المحجلین”تم مسلمانوں کے پیشوا، متقین کے امام اورروز قیامت روشن چہرہ افراد کے قائد ہو۔نیز آپ نے فرمایا ہے: “ھٰذا ولی کل مومن ومومنة” اس حدیث کو شیعہ اور سنی دونوں فرقوں نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔
(4) رسول گرامی نے شیعہ وسنی محدثین کی متواتر روایات کے بقول حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی"تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جوہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(7)یعنی ہر وہ شان و منزلت جو ہارون موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھتے تھے وہی حضرت علی علیہ السلام کو رسول خداﷺ کیساتھ ہے جن میں سے اہم ترین ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے لئے خلیفہ اور وصی ہونا تھا۔
دیگر ائمہ کی امامت:

رسول اللہﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کی امامت کا اعلان بھی بارہا مختلف انداز وطریقے سے کیا ہے۔ اس سلسلے میں رسول گرامیﷺ سے منقول روایات کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:۱) بعض روایات ایسی ہیں جن میں اہل بیت، عترت، ذریت اور ذوی القربیٰ جیسے عناوین کا ذکر ملتا ہے۔ ساتھ ہی امامان معصومین کی صفات کلیہ اور حضرت زہرا ء سلام اللہ علیہا کی نسل میں امامت کے دوام کوبھی بطور کلی پیش کیا گیا ہے۔ ان روایات کی تعداد بے شمار ہیں جو کتب صحاح اور جوامع اہل سنت میں بھی درج ہیں نیز عبقات الانوار، الغدیر، المراجعات اور احقاق الحق میں ان روایات کا بالتفصیل تذکرہ ملتا ہے۔۲) روایات کی دوسری قسم میں وہ روایات آتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ امامت، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ ان روایات کا ایک حصہ احقاق الحق کی انیسویں جلد میں موجود ہے۔۳) تیسری قسم کی روایات میں نام اور تعداد کے بغیر امامت کو ۱۲کے عدد میں محصور کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سو تیس سے زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں نیز ۴۰ احادیث اس مضمون کے ساتھ منقول ہیں کہ رسول خداﷺ کے بعد خلفاء اور ائمہ جناب موسیٰ کے نقباء کے مساوی ہیں۔۴) ۹۱ سے زیادہ ایسی احادیث ہیں جن میں ائمہ کی تعداد کے ضمن میں پہلے اور آخری امام کے نام کا بھی ذکر ہے اوران احادیث کے علاوہ ۹۶ احادیث ایسی ہیں جن میں فقط آخری امام کا ذکر ہے۔۵) ۱۲۹ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ تعداد ائمہ،بارہ ہے نیز وضاحت کی گئی ہے کہ ان میں سے نو امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہوں گے۔ ۶) ۵۰ احادیث میں فرداً فرداً ہر امام کے نام کا جداگانہ طور پر تذکرہ ملتا ہے۔نمونہ کے لئے ان میں سے ایک حدیث مندرجہ ذیل ہے:جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں: جس وقت آیہ اطیعوا اللّٰه واطیعوا الرسول واولی الامرمنکم نازل ہوئی ،میں نے رسول اکرم ﷺسے عرض کیا: ہم خدا اور اس کے رسول کو جانتے ہیں لیکن اولی الامر جن کی اطاعت ہم پر واجب کی گئی ہے، کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور میرے بعد امام ہیں جن میں سے پہلے علی اور ان کے بعد بالترتیب: حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، محمد بن علی کہ جن کو توریت میں باقر کہا گیا ہے اور تم ان کے زمانے کو درک کروگے۔ جب بھی تم ان سے ملاقات کرنا‘ ان تک میرا سلام پہنچانا۔ اس کے بعد فرمایا: ان کے بعد بالترتیب جعفر بن محمد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، محمد بن علی، حسن بن علی اور ان کے بعد ان کا فرزند جس کا نام اور کنیت، میرا نام اور میری کنیت ہے۔ خدا اس کو ساری دنیا کی حاکمیت عطا کرے گا۔ وہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہوجائے گا اور اس کی غیبت بہت طولانی ہوگی۔ یہاں تک کہ اس کی اما مت کے معتقد صرف وہی افرادرہ جائیں گے جن کا ایمان مستحکم اور عمیق ہوگا۔(8)
امامت ائمہ اثنا عشری سے متعلق روایات اہل سنت مندرجہ ذیل وہ احادیث ہیں جو ائمہ اثنا عشری کی امامت سے متعلق کتب اہل سنت میں نقل ہوئی ہیں:(۱) بخاری، جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ہیں: میں نے رسول خداﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔پھر ایک ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ جس کو میں سن نہیں سکا۔ میرے باپ نے کہا کہ رسولﷺ نے فرمایا ہے: وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (9)
(۲)مسلم، جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ہیں: میں نے رسول خداﷺ کو فرماتے سنا: اسلام بارہ خلفاء تک باقی رہے گا۔ پس ایک جملہ ارشاد فرمایا جس کو میں سن نہیں سکا۔ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ رسولﷺ نے کیا فرمایا ہے؟ میرے والد نے کہا: رسول نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہیں۔ (10)
(۳) جابر بن سمرہ کے حوالے سے مسلم سے منقول ہے کہ جابر نے کہا: اپنے والد کے ساتھ میں رسول خداﷺ کی خدمت میں گیا۔ آپؐ نے فرمایا:اسلام بارہ عزیز اور گرانقدر خلفاء تک باقی رہے گا اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔
(۴) جابر بن سمرہ سے مسلم نقل کرتے ہیں: میں نے رسول خداﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ یہ دین قیامت تک باقی رہے گا یہاں تک بارہ خلفاء تمہارے حاکم ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (11)

حوالہ جات
1) مقایس اللغۃ ج،۶ ص ۱۴۱
2) مفردات القرآن راغب اصفہانی ص۵۷۰
3) الکشاف،ج۱،ص۵۰۵
4) التفسیر الکبیر، ج۱۲،ص۳۰
5) مائدہ: ۶۷
6) العمدۃ، ص/۲۲۳، ۲۱۵
7) العمدۃ:ص/۱۸۵، ۱۸۳،مسنداحمد، ج/۳، ص/۳۲
8) منتخب الاثر:ص/۱۰۱
9) صحیح بخاری، ج/۹، باب الاستخلاف ،ص/۱۰۱
10) صحیح مسلم، ج/۶، کتاب الامارۃ، باب الناس تبع لقریش، ص/۳
11) صحیح مسلم، ج/۶کتاب الامارۃ، باب الناس تبع لقریش، ص/۳

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button