اولاد معصومینؑشخصیات

حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب

خاندانی شرافت
آپ کی فضیلتوں میں سے ایک بہت بڑی فضیلت بیت وحی اور کاشانہ رسالت و امامت سے آپ کا انتساب ہے ۔ آپ دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دختر ولی خدا ، خواہر ولی اللہ ، عمہ (پھوپھی ) ولی اللہ ہیں اور یہ امر خود تمام فضائل و کمالات معنوی و روحانی کا سر چشمہ ہے کہ آپ کی زندگی ائمہ معصومین علیہم السلام کے جوار میں گزری ہے ، مثلا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام اور ایسے راہ نور و سعادت کے رہنماؤں کی تعلیمات سے بہرہ مند ہونا خود آپ کی بلندی روح اور مقام علمی و رفعت علمی کے لئے ایک اساسی عامل ہے ۔ اس بنیاد پر ہم آپ کو فضائل اہلبیت علیہم السلام کا نمونہ کہہ سکتے ہیں ۔
آپ کی عبادت
قرآن مجید کی صریح آیت ”وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون“ہم نے جن و انس کو فقط اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔سورہ ذاریات آیہ / ۵۷
کے پیش نظر ہدف خلقت انسان فقط عبادت الٰہی ہے۔ وہ حضرات جو اس ہدف کی حقیقت سے روشناس ہیں وہ مرتبہ عالی تک پہنچنے کے لئے جو اطمینان نفس کا حصول ہے کسی بھی زحمت کو زحمت نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو بارگاہ ایزدی میں عبادت و راز و نیاز کا زمانہ سمجھتے ہیں ۔ رات کے سناٹے میں اپنے محبوب کی دہلیز پر سر نیاز خم کردیتے ہیں اور زبان دل سے ہم کلام ہوکر والہانہ انداز میں محو راز و نیاز ہوتے ہیں نیز ہمیشہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ نماز و راز و نیاز کی حالت میں اس سے ملاقات کریں تا کہ اس آیہ کریمہ ”یا ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ“کے مصداق قرار پائیں ۔سورہ فجر آیہ / ۲۸ ، ۲۷
بندگی اور عبادت الٰہی کا ایک عالی ترین نمونہ کریمہ اہل بیت فاطمہ معصومہ علیہا السلام ہیں ۔ وہ ۱۷ دنوں کا قیام اور دختر عبد صالح یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی لخت جگر کی وہ یادگار عبادت ، خضوع و خشوع ، شب زندہ داریہ تمام چیزیں آپ کی بندگی و عبادت کا ایک گوشہ ہیں وہ بیت النور اور معبد و محراب اس صفیۃ اللہ کی عبادتوں کی یادگار ہے ۔ اسی راز و نیاز کی برکتوں سے لخت جگر باب الحوائج نے قیامت تک کے لئے عاشقان عبادت و ولایت کی ہدایت کی راہیں کھول دیں ۔
آپ کی عبادت گاہ موسیٰ بن خزرج کے دولت سرا میں تھی اور آج بھی یہ حجرہ میدان میر خیابان چہار مردان نزد مدرسہ ستیہ موجود ہے کہ جو محبان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے ۔
عالمہ و محدثہ اہل بیت علیہم السلام
اسلامی فرہنگ میں سچے محدثوں کی ایک خاص عزت و حرمت رہی ہے ۔ راویوں اور محدثوں نے گنجینہ معارف اسلامی اور مکتب تشیع کی حفاظت کی خاطر ایک نمایاں کردار پیش کیا۔ یہ افراد اسرار آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اور امانت الٰہی کے امین و محافظ تھے ۔
ایک بلند ترین عنوان کہ جو آپ کے علمی مرتبے اور آپ کی معرفت کا شاہکار وہ یہ ہے کہ آپ کو ”محدثہ“کہاجاتاہےبزرگانعلمحدیث بلا جھجھک آپ سے منقول احادیث کو قبول فرماتے ہیں اور اس سے استناد کرتے ہیں ۔ کیونکہ آپ مورد وثوق و اطمینان افراد کے علاوہ کسی دوسرے سے حدیث نقل نہیں فرماتی تھیں ۔ ہم مناسب موقع پر ان احادیث میں سے بعض کو بعنوان نمونہ ذکر کریں گے ۔
آپ معصومہ ہیں
اگرچہ مقام عصمت ( گناہوں سے محفوظ رہنا در حالیکہ اس کی قدرت رکھتا ہو ) ایک خاص رتبہ ہے جو انبیاء کرام اور ان کے اوصیاء و خصوصا چہاردہ معصومین علیہم السلام سے مختص ہے ۔ لیکن بہت سارے ایسے افراد تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں جنھوں نے خداوند عالم کی مخلصانہ بندگی و اطاعت نیز صدق و طہارت کی راہ پر گامزن ہونے کی وجہ سے تقویٰ اور وحی طہارت حاصل کرکے گناہ اور اخلاقی برائیوں سے دوری اختیار کرلی اور اپنی روح کے دامن کو ناپاکی کے دھبے سے بچا لیا ۔
فاطمہ معصومہ (س) جو مکتب ائمہ (ع) کی تربیت یافتہ اور صاحبان آیت تطہیر کی یادگار ہیں ، طہارت و پاکیزگی نے اس منزل معراج کو طے کیا کہ خاص و عام نے آپ کو معصومہ کا لقب دیدیا ۔
یہاں تک کہ بعض بزرگ علماء آپ کو طہارت ذاتی کا حامل اور تالی تلو معصومین علیہم السلام سمجھتے ہیںچنانچہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :
من زار المعصومۃ بقم فقد زارنی۔ناسخ التواریخ ج/ ۷ ص ۳۳۷
یعنی جو قم میں فاطمہ معصومہ کی زیارت کرے اس نے گویا میری زیارت کی ہے نیز زیارت دوم جو آپ کے لئے وارد ہوئی ہے اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے :
السلام علیک ایتہا الطاہرۃ الحمیدۃ البرۃ الرشیدۃ التقیۃ و النقیۃ
یعنی سلام ہو آپ پر اے پاکیزہ و ستائش شدہ ، نیک کردار ، ہدایت یافتہ ، پرہیزگار اور با صفا خاتون !
انوار المشعشعین : شیخ محمد علی قمی ص / ۲۱۱
کریمۃ اہل بیت علیہم السلام
انسان عبادت و بندگی خداوند عالم کے نتیجے میں اس حد تک پہنچ سکتا ہے کہ مظہر ارادہ حق اور واسطہ فیض الٰہی قرار پا جائے ، یہ ذات اقدس الہ کی عبودیت کا ثمرہ ہے چنانچہ خداوند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
انا اقول للشیء کن فیکون اطعنی فیما امرتک اجعلک تقول للشیء کن فیکون
اے فرزند آدم! میں کسی چیز کے لئے کہتا ہوں کہ ہوجا ،پس وہ وجود میں آ جا تی ہے ، تو بھی میرے بتائے ہوئے راستوں پر چل میں تجھ کو ایسا بنا دوں گا کہ تو جو چاہےگا وہ ہو جائے گا ۔
مستدرک الوسائل ج/ ۲ ، ص / ۲۹۸
امام صادق علیہ اسلام نے بھی فرمایا :
العبودیۃ جوھرۃ کنہہا الربوبیۃ
یعنی خدا کی بندگی ایک گوہر ہے جس کی نہایت اور اس کا باطن موجودات پر فرمانروائی ہے ۔
مصباح الشریعۃ باب ۱۰۰
اولیاء خدا جنہوں نے بندگی و اطاعت کی راہ میں دوسروں سے سبقت حاصل فرمائی اور اس راہ کو خلوص کے ساتھ طے کیا وہ اپنی با برکت زندگی میں بھی اور اس عارضی زندگی کے بعد بھی منشاء کرامات و عنایات ہیں ۔ جو ان کی پاکیزہ زندگی کا نتیجہ ہے ۔
قدیم الایام سے آستان قدس فاطمی ہزاروں کرامات و عنایات ربانی کا مرکز و معدن رہا ہے ، کتنے نا امید قلوب فضل و کرم الٰہی کی امیدوں سے سر شار اور کتنے تہی داماں افراد رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر کر ، اور کتنے ہر جگہ سے نا امید افراد اس در پر آکر خوشحال و شادمان ہوکر کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوتے ہوئے لوٹے ہیں اور اولیاء حق کی ولایت کے سایہ میں مستحکم ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کی بنیاد ڈالی ہے ۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا کی عظمت روحی اور بے کراں منبع فیض و کرم خداوندی کی نشانی ہیں عنقریب آپ کی کرامت کے نمونے ذکر کئے جائیں گے ۔
مقام شفاعت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حق شفاعت اور اس مقام عظیم تک پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لئے ایک خاص اہلبیت کی ضرورت ہے ، کیونکہ خداوند عالم ایسے لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے کہ جنہیں اس کی طرف سے اجازت حاصل ہے ۔
یومئذ لا تنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمن
اس دن کسی کی شفاعت سودمند نہ ہوگی مگر جسے رحمن اجازت دے گا ۔
سورہ طٰہ / ۱۰۵
اور یہ اذن ان لوگوں کو ملتا ہے کہ جو قرب الٰہی کے مرتبہ عالی اور مخلصانہ بندگی پروردگار کو حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں انبیاء و ائمہ معصومین سر فہرست ہیں اور ان کے بعد خالص بندگان الٰہی اور اولیاء مقرب ایزدی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے حد و مقام اور اپنے درجہ معنوی کے مطابق شفاعت کا حق رکھتے ہیں ۔ مثلا علما ، شہداء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے شائستہ فرزند ۔ انہی لوگوں میں سے کہ جن کی شفاعت کے حق کی روایات میں تصریح ہوئی ہے وہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
تدخل بشفاعتہا شیعتی الجنۃ باجمعہم
یعنی ان ( فاطمہ معصومہ ) کی شفاعت سے ہمارے سارے شیعہ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
سفینۃ البحار ج/ ۲ ص / ۳۷۶
آپ کی زیارت میں امام معصوم کے حکم کے مطابق کہا جا تا ہے کہ یافاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ ۔ یعنی اے فاطمہ! جنت میں ہماری شفاعت فرمائیے ۔ یہ جملہ خود آپ کی عظمت اور رفعت مقام ، جلالت قدر کو بیان کر رہا ہے کہ آپ شفیعہ روز جزا ہیں ،چنانچہ اسی زیارت کے دوسرے ٹکڑے میں آیا۔ فان لک عند اللہ شاٴ نا من الشاٴنیعنی ہم جو آپ سے شفاعت کی بھیک مانگ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خدا کے محضر میں نا قابل بیان شان و منزلت کی حامل ہیں جو زمین کے باسیوں کے لئے قابل تصور نہیں ہے فقط خدا ، پیامبر اور اوصیاء طاہرین اس سے واقف ہیں ۔
بحار الانوار ج/ ۱۰۲ ص/ ۲۶۶
فضیلت زیارت
وہ روایتیں جو آپ کی زیارت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں آپ کے فضائل کی بہترین سند ہیں کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو اس مرقد مطہر و منور کی زیارت کی تشویق فرمائی ہے نیز اس کا بہت عظیم ثواب بیان فرمایا ہے یہ ثواب ایسا ہے کہ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں امام رضا علیہ السلام کے بعد فقط آپ ہی کے سلسلے میں کتابوں میں ملتا ہے ۔ ہم یہاں فقط چند روایات ذکر کرتے ہیں ہیں ۔
۱۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا فلہ الجنۃ
یعنی جو ان ( فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے گا وہ بہشت کا حقدار ہے ۔
بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۵
۲۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا قبر عمتی بقم فلہ الجنۃ
یعنی جو قم میں ہماری پھوپھی کی زیارت کرے گا اس کے لئے جنت ہے ۔
بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۵
۳۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا عارفا بحقھا فلہ الجنۃ
جو ان ( فاطمہ معصومہ ) کی زیارت ان کے حق کو پہچانتے ہوئے کرے گا وہ بہشت کا حق دار ہے ۔
بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۶ ۔
۴۔ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا : قال الامام الصادق علیہ السلام : ان لِلّٰہ حرما و ہو مکہ وللرسول حرما و ہو المدینہ و لامیرالموٴمنین حرما و ہو الکوفۃ و لنا حرما و ہو قم و ستدفن فیہ-اامرۃ من ولدی تسمی فاطمۃ من زارہا وجبت لہ الجنۃ ۔
خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے رسول کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے ، امیرالموٴمنین کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ہمارے لیےبھی ایک حرم ہے اور وہ قم ہے ، عنقریب وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا ۔ جو بھی اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی ۔
بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۷

اس روایت سے خصوصا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل یہ حدیث صادر ہوئی بخوبی اندازہ ہوتا کہ حضرت فاطمہ معصومہ کا قم میں دفن ہونا خداوند عالم کے اسرار میں سے ایک سر خفی ہے اور اس کا تحقق مکتب تشیع کی حقانیت کی ایک عظیم دلیل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Source: http://shiastudies.com/ur/595

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button