محافلمناقب امام حسن مجتبی عمناقب و فضائل

امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق

امام حسن علیہ السلام اور تہمت طلاق
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام حسن علیہ السلام پے درپے شادیاں کرتے اور طلاق دیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ اس حد تک جاری رہا کہ کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ کے عوام سے فرمایا: اے اہل کوفہ! اپنی بیٹیاں میرے بیٹے حسن سے مت بیاہو کیونکہ وہ بہت زیادہ طلاق دینے والے ہیں!
قبیلۂ ہمدان کے ایک فرد نے اٹھ کر کہا: ہم ان کو بیٹیاں دیں گے چاہے انہیں رکھ لیں چاہیں انہیں طلاق دیں۔ (1)
حالانکہ قبیلۂ ہمدان جدی پشتی شیعہ قبیلہ تھا اور اس قبیلے نے امام زمانہؑ کی غیبت کے بعد عراق میں پہلی شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔
بہر حال یہ ایک بے بنیاد بہتان ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ کیونکہ:
1۔ یہ روایت ریحان الرسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شان کے خلاف ہے۔
2۔ یہ روایت اور اس قسم کی دیگر روایات تین ہی راویوں سے نقل ہوئی ہیں اور یہ تینوں غاصب عباسی حکمرانوں کے درباری کاتب یا مؤرخ تھے۔
3۔ یہ روایات اگر درست ہوتیں تو بنو امیہ کے درباری اسے کیوں بھول گئے تھے اور عباسیوں کے دور میں کیوں سامنے آئیں؟
4۔ عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے دور میں جب حسنی سادات نے اس کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو امام حسن علیہ السلام کے خلاف زہر افشانی اسی سفاک اور غاصب بادشاہ کے حکم پر ہی شروع ہوئی اور نکاح و طلاق کثیر والی روایات بھی اسی سازش کے تحت وضع کی گئیں اور مقصد حسنیوں کی تحریک کو نقصان پہنچانا تھا۔ابتداء میں ہم روایات اور تاریخی نقل کے سلسلے میں تحقیق کرتے ہیں اور اس کے بعد اس باعث شرم بہتان کا جواب دیتے ہیں۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام کی متعدد شادیوں اور بار بار طلاق کی روایات کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا گروہ:
اس گروہ میں وہ روایات نقل ہوئی ہیں جن میں متعدد شادیوں سے منع کیا گیا ہے اور اس حکم کے دلائل بیان ہوئے ہیں۔
1۔ برقی نے محاسن نامی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ "ایک آدمی امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں آپ کی خدمت میں اپنی بیٹی کے بارے میں مشورہ کرنے حاضر ہوا ہوں کیونکہ آپ کے بیٹے امام حسنؑ اور امام حسینؑ  اور آپؑ کے بھتیجے عبداللہ بن جعفر اس کا رشتہ لے کر آئے ہیں، امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: المستشار مؤتمن؛(2)جان لو کہ امام حسنؑ بیویوں کو طلاق دیا کرتے ہیں چنانچہ اپنی بیٹی کا رشتہ امام حسین سے کردو کیونکہ یہ تماری بیٹی کے لئے بہتر ہے۔(3)
2۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک روز امیرالمؤمنین علیہ السلام کوفہ کے منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا: میرے بیٹے حسن کو اپنی بیٹیوں کا رشتہ مت دیا کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ طلاق دینے والے ہیں؛ اتنے میں قبیلہ ہمدان میں سے ایک مرد اٹھا اور کہا: ہاں! اللہ کی قسم کہ ہم اپنی بیٹیوں کی شادیاں امام حسن سے کرائیں گے کیونکہ وہ رسول اللہ اور امیرالمؤمنینؑ کے فرزند ہیں؛ پس اگر وہ چاہیں تو ہماری بیٹیوں کو رکھ لیں چاہیں تو انہیں طلاق دیں۔(4)
روایات کا دوسرا گروہ
ان روایات میں گویا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے امام حسنؑ کی متعدد شادیوں اور بار بار طلاق سے شدید تشویش ظاہر کی ہے:
1۔ بلاذری نے ابو صالح سے روایت کی ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: حسنؑ نے اتنی شادیاں کیں اور طلاقیں دیں کہ مجھے خوف لاحق ہوا کہ کہیں ان کا یہ عمل ہمارے لئے دشمنیاں پیدا نہ کرے!۔(5)
2۔ سیوطی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے روایت کی ہے: حسن علیہ السلام شادیاں کرتے اور طلاق دیتے یہاں تک کہ میں فکرمند ہوا کہ کہیں قبائل اور اقوام کی جانب سے ہمیں کوئی دشمنی نہ پہنچے!۔(6)
3۔ ابوطالب مکی لکھتا ہے: امیرالمؤمنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں سے پریشان رہتے تھے اور اپنی تقاریر میں فرمایا کرتے تھے: میرے فرزند حسن اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں چنانچہ انہیں اپنی بیٹیوں کا رشتہ نہ دیا کریں!۔( 7)
4۔ مجلسی محمد بن عطیہ سے نقل کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی پے درپے شادیوں اور طلاقوں سے پریشان ہوا کرتے تھے اور مطلقہ بہوؤں کے خاندانوں سے شرم و حیا کیا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے: حسن بہت زیادہ طلاقیں دیا کرتے ہیں چنانچہ انہیں رشتے نہ دیا کریں۔(8)
اپنی بات: ان روایات کو اگر درست مان لیا جائے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں کا مسئلہ جنگ جمل و صفین و نہروان کے برابر اہم مسئلہ بن چکا تھا، معاذ اللہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے بیٹے کی نافرمانیوں سے تنگ آچکے تھے اور معاذاللہ ان کی نافرمانی کا حال یہ تھا کہ امیر علیہ السلام ان سے براہ راست بات کرنے کے بجائے لوگوں سے درخواستیں کررہے تھے کہ وہ آپؑ کو بیٹے کے رشتوں کا منفی جواب دیا کریں!!! کیا کوئی عقلمند شخص راکب دوش رسول امام حسن مجتبی پر نافرمانی کا الزام لگا سکتا ہے؟
روایات کا تیسرا گروہ
اس قسم کی روایات میں امام حسن علیہ السلام کی شادیوں کی تعداد بیان ہوئی ہے گو کہ رسول اللہ اور آل رسول اللہ کے گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں، تلواروں، دستاروں اور جوتوں تک کے نام ذکر کرنے والے ان مؤرخین نے آپؑ کی بیویوں کے نام اور ان کے خاندانوں کے نام ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھے ہیں۔ ان راویوں میں بھی سنیوں کے علاوہ شیعہ راوی بھی موجود ہیں:
1۔ کفعمی نے لکھا ہے کہ آپؑ نے چونسٹھ شادیاں کی تھیں۔(9)
2۔ ابوالحسن مدائنی کے مطابق آپ کی شادیوں کی تعداد سترہے۔( 10)
3۔ ابن حجر کے مطابق نوے۔( 11)
4۔ کلینی کے مطابق پچاس۔(12)
5۔ بلخی کے مطابق دوسو۔(13)
6۔ ابوطالب مکی کے مطابق دوسو پچاس۔(14)
7۔ بعض دیگر نے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں کی تعداد بڑھا کر 300 بھی بتائی ہے۔(15)
8۔ بعض نے کہا ہے کہ امامؑ نے 400 تک شادیاں کی تھیں۔(16)
ہمارا جواب
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ روایات اپنوں اور پرایوں نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بارے میں بیان کی ہیں اور اگرچہ شیعہ راویوں اور بعض غیر شیعہ راویوں نے یقینی طور پر بدنیتی سے یہ روایات نقل نہیں کی ہیں لیکن نتیجہ وہی ہوا ہے جو دشمن چاہتا تھا اور آج اہل بیتؑ کے دشمن ان ہی روایات کو دستاویز بنا کر حریم اہل بیت پر یلغار کررہے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امامین حسنین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
قال رسول اللّٰہﷺ: الحسن و الحسین سبطان من الاسباط۔( 17)
حسن اور حسین اسباط میں سے دو سبط ہیں۔
قال رسول اللّٰهﷺ: الحسن و الحسین سیدا الشباب اهل الجنة۔(18)
حسن اور حسن جوانان جنت کے دو آقا اور دو سرور و سردار ہیں ۔
قال رسول اللہﷺ لفاطمۃ الزہراء (س) یا حبیبتی ۔۔۔ و منا سبطا هذه الامة و هما ابناک الحسن و الحسین و هما سیدا شباب أهل الجنة و أبوهما و الذی بعثنی بالحق خیر منها۔ (19)
اے میری پیاری بیٹی! اور ہم میں سے ہی ہیں دو سبط جو آپ کے بیٹے حسن و حسین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے باپ ـ اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت پر مبعوث فرمایا ـ ان سے افضل ہیں۔
قال رسول اللّٰهﷺ: احب اهل بیتی الی الحسن و الحسین۔(20)
میری اہل بیت اور میرے خاندان میں میں حسنؑ و حسینؑ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔
قال رسول اللّٰهﷺ: من احبهما فقد احبنی و من ابغضهما فقد ابغضنی۔(21)
جس نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے محبت کی میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جس نے ان دو سے دشمنی کی میں اس کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔
قال رسول اللّٰهﷺ: الحسن و الحسین ابنای من احبهما احبنی و من احبنی احبه اللّٰه و من احبه اللّٰه ادخله الجنة۔(22)
حسنؑ اور حسینؑ میرے دو بیٹے ہیں جو ان سے محبت رکھے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرتا اور اس کو جنت میں داخل کرتا ہے۔
قال رسول اللّٰهﷺ للحسن و الحسین: انتما امامان ولامکما الشفاعة، و قال من احبنی و احب هذین و اباهما و امهما کان معی فی درجتی فی الجنة یوم القیامة۔(23)
آپؐ  نے امامین حسنینؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: آپؑ دونوں پیشوا اور امام ہیں اور شفاعت آپ دونوں کی والدہ ماجدہ (سیدہ بنت الرسولؐ کے لئے مخصوص ہے۔ نیز فرمایا: جو شخص ان دو اور ان کے والد اور والدہ کو دوست رکھے وہ قیامت کے روز جنت میں میرے ساتھ اور میرے رتبے میں ہوگا۔
ان احادیث کا ذکر اس لئے ضروری نظر آیا کہ موضوع بہت دشوار ہے اور قابل برداشت نہیں ہے کہ کوئی اہل بیتؑ کو ایسی نسبتیں دیں جو وہ اپنے عام سے بچوں کو دینا پسند نہیں کرتے جبکہ یہاں قطب عالم امکان امام حسن ریحان الرسولؐ کو انھوں نے ایک ساتھ کئی الزامات دیئے ہیں تا کہ ان کو اپنے بعض پسندیدگان کے رتبے تک پہنچاسکیں کیونکہ اہل بیتؑ کے برابر ہونا تو ممکن نہیں چنانچہ ان کا رتبہ ہی گرادیا جاتا ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: نحن أهل البيت لا يقاس بنا أحد۔ (24)
ہم اہل بیت سے کسی کا بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا (کبھی بھی کسی کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ فلان شخص اہل بیت رسول کی مانند ہے)۔
اور پھر وہی امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: زمانے کے لوگوں نے میرا رتبہ گرایا پھر گرایا اور پھر گرایا حتی کہ کہنے لگے "علی اور معاویہ!” یہاں بھی بعض دوسروں کو امام حسن کے برابر لانا مشکل ہوتا ہے تو بادشاہ وقت حکم دیتا ہے "گرادو امام حسن کا رتبہ حتی کہ وہ میرے برابر ہوجا ئیں تو اب کوئی بات نہیں ملتی تو شادیوں والا افسانہ گڑھ لیا جاتا ہے۔
چنانچہ ہم نے اپنے مجروح دل کو دلاسا دینے کے لئے ان احادیث کا سہارا لیا آخر حسنینؑ کریمین حضرت ذوالجلال کا آ ئینۂ جلال و جمال ہیں؛ دین کے محافظ، اسلام کو زندہ کرنے والے اور احکام قرآن کی بقاء کی ضمانت دینے والے ہیں؛ دونوں نے دین کے تحفظ کی خاطر ابوسفیان کے بیٹے اور پوتے کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا ہے؛ اور دونوں نے دین کی حفاظت کے لئے مشیت الٰہیہ پر عمل کیا؛ وہ معصوم ہیں اور حضرت سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں: "ما یشاءون الا ان یشاء اللّٰه"(25) اہل بیتؑ کوئی کام نہیں چاہتے سوائے اس کے جو اللہ نے چاہا ہو بالفاظ دیگر وہ وہی چاہتے ہیں جو اللہ نے چاہا ہو۔
اب ہم بحث کی طرف لوٹتے ہیں:
یہ روایات امام حسن مجتبیؑ کی شان و شخصیت کے منافی ہیں
جس طرح کہ اس سے پہلے بھی اشارہ ہوا یہ عمل امام حسن مجتبی علیہ السلام کے مقام و شخصیت سے سازگار نہیں ہے کیونکہ امام حسن علیہ السلام کی شخصیت کی جو تصویر کشی قرآن اور نبی اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی احادیث سے ہوئی ہے وہ ان روایات سے تناسب نہیں رکھتیں جو یہاں نقل ہوئی ہیں۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں امام حسن علیہ السلام سمیت دیگر اصحاب کساء سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے: (اِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عاَنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا)۔(26)
”(پیغمبر کے) گھر والو!اﷲ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) گندگی (ناپاکی) دور کرے اور تم کو خوب ستھرا و پاک صاف بنادے۔”
آیت مودت میں فرماتا ہے: "قل لا أسألكم عليه أجراً إلا المودة في القربى"۔(27)
اے میرے رسولؐ! کہہ دو کہ میں تم (امتیوں) سے اپنی رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے اہل بیتؑ سے محبت و مودت رکھو۔
اور  تمام سنی اور شیعہ راویوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ کی آل اور اہل میں امام علی، حضرت سیدہ فاطمہ، امام حسن، امام حسین اور امام حسین کی نسل سے آنے والے نو ائمہ علیہم السلام شامل ہیں۔
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ(28)
اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں۔یہ ثابت کرنے کے لئے سند و ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کہ آیت مباہلہ بھی آیت تطہیر اور آیت مودت کی طرح اہل بیت علیہم السلام کی شان میں آئی ہے اور اس آیت میں ابنائنا سے مراد امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں۔
ابن کثیر دمشقی لکھتا ہے: امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کا بہت ہی احترام اور تعظیم کیا کرتے تھے۔(29)
امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے لئے اتنے احترام و تعظیم کے قائل تھے کہ کبھی اپنے بڑے بھائی کی موجودگی میں بات نہیں کرتے تھے۔(30)
طواف کی حالت میں لوگ اس طرح امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی طرح ہجوم کیا کرتے تھے کہ کبھی تو ان کے کچلے جانے کا خطرہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔ (31)
کبھی امام حسن علیہ السلام اپنے گھر کے دروازے پر تشریف لاکر بیٹھ جاتے تھے اور جب تک وہاں رہتے آپؑ  کی ہیبت کی وجہ سے لوگوں کا آپؑ کے گھر پر آنا جانا بند رہتا تھا۔ (32)
امام حسن علیہ السلام کے معنوی اور روحانی حالات میں منقول ہے کہ: حالت وضو میں آپؑ کے چہرہ منور کا رنگ دگرگوں ہوجاتا تھا اور پوچھنے والوں کے جواب میں فرمایا کرتے تھے:
حقّ على كلّ من وقف بین یدى ربّ العرش ان یصفر لونه و یرتعد فرائصه۔ (33)
یہ ان سب پر حق ہے جو رب عرش کے سامنے کھڑے ہونے جاتے ہیں کہ ان کا چہرہ پیلا پڑجائے اور وہ لرزہ بر اندام ہوجائے۔
اب ہم پوچھتے ہیں کہ:
1۔ جو امام معصوم خالق یکتا کے حضور اس طرح لرزہ بر اندام ہو کر حاضر ہوتے ہیں وہ خدا کو چار سو مرتبہ کیونکر ناراض کرسکتے ہیں اور طلاق کا عمل اتنی مرتبہ کیونکر انجام دے سکتے ہیں جو حلال اعمال میں سب سے مغضوب ترین عمل ہے؟
2۔ اگر بفرض محال یہ روایات درست ہوں تو یہ شادیوں اور طلاقوں سے متعلق روایات اس زمانے میں سے تعلق رکھتی ہیں جب امیرالمؤمنین علیہ السلام کوفہ میں تھے اور مسلمانوں کی ظاہری خلافت بھی آپؑ کے اختیار میں تھی اور اگر ہم جنگ جمل (میں ناکثین یا عہدشکنوں کے فتنے و بغاوت)، جنگ صفین میں قاسطین (حق سے روگردانی کرنے والے گمراہوں کی بغاوت اور فتنے، اور جنگ نہروان میں مارقین (یعنی دین سے خارج ہونے والوں) کی بغاوت اور فتنے کے ایام کو امیرالمؤمنینؑ کی مدت حکومت سے کم کردیں تو کچھ ہی مہینے باقی رہ جاتے ہیں اور اگر ان فتنوں کے مقدمات و مؤخرات کو بھی شمار کریں تو دوسری اور تیسری شادی کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتا اور چنانچہ یہ دعوی عقلی لحاظ سے بھی مکمل طور پر باطل ہے۔ اگر ہم ہر شادی سے طلاق تک کی مدت کو ملحوظ رکھیں اور اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ حجاز پر مسلط سعودی وہابی بادشاہوں کی روایت کے برعکس (جو سو تک شادیاں ایک ہی آن میں کرنا جائز سمجھتے ہیں اور اتنی ہی بیویوں کو ایک ہی آن میں اپنی حرمسراؤں میں رکھتے ہیں اور توحید و دینداری کے مدعی وہابی مفتی شریعت وہابیہ کے مطابق انہیں ایسا کرنے کے حوالے سے مجاز سمجھتے ہیں)، شریعت محمدیہؐ کے مطابق ایک ہی وقت چار سے زائد زوجات رکھنے کی اجازت رسول اللہؐ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ہر نئی شادی کے لئے ایک زوجہ کو طلاق دینی پڑے گی تو یہ ساری شرائط مد نظر رکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات نہایت مضحکہ خیز ہیں اور ان الزامات سے ان کے بانی یعنی منصور دوانیقی اور اس کے منشیوں اور مستوفیوں کی کم علمی ظاہر ہوتی ہے۔
3۔ کیا امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نہی نہی عن المنکر تھی یا نہی عن الحلال تھی؟ دونوں صورتوں میں غلط ہے کیوں؟ اس لئے کہ: امیرالمؤمنین اور امام حسن علیہماالسلام آیت تطہیر کی گواہی کے مطابق معصوم تھے اور دونوں کو ہر گونہ رجس سے پاک کردیا گیا تھا چنانچہ ان میں سے کوئی بھی ایسا فعل کرنہیں سکتا جس سے انہیں نہی کیا جاسکے اور نہی عن الحلال بھی تو بنیادی طور پر غلط ہے اور امام معصوم نہی عن الحلال جیسے فعل قبیح کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔
4۔ کیا امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نہی مقدمے پر مبنی تھی یا پھر مقدمے کے بغیر تھی؟ یعنی یہ کہ کیا آپؑ نے ابتداء میں اپنے فرزند سے فرمایا تھا کہ ان کے ان افعال سے ناراض ہیں یا نہیں بلکہ براہ راست معاشرے میں جاکر اپنے بیٹے کی شکایت عوام تک پہنچائی ہے؟ اگر تمہید و مقدمے کے بشیر ہو تو یا عمل تو بنیادی طور پر امیرالمؤمنینؑ سے بعید اور آپؑ کی روش کے منافی ہے اور محال ہے کہ آپؑ کسی تمہید کے بغیر اپنے فرزند ارجمند اور وہ بھی امام حسنؑ جیسے بیٹے کی آبرو نیلام کردیں۔ اور اگر تمہید پر مبنی تھی تو امام حسنؑ سے تو کیا ایک عام سے باایمان انسان سے بھی بعید ہے کہ وہ امیرالمؤمنینؑ جیسے والد اور امام کو اتنا تنگ کرے اور اتنا پریشان کرے کہ وہ دلتنگ اور پریشان رہا کریں۔
5۔ میں امام حسن مجتبی علیہ السلام پر طعن کرنے والے شخص یا اشخاص سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ اپنے آپ کو باور کراسکتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام اتنی بڑی شان و منزلت کے باوجود اپنے والد کے لئے شرم و حیا اور شرمندگی اور خجلت کے اسباب فراہم کرسکتے تھے؟! کیا امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور ان کے والد سے منسوب کسی مبینہ پیر، قلندر، مولوی اور مفتی سے وہ ایسی توقع کرسکتے ہیں کہ وہ امام اور اسلام اور خدا کی اس طرح نافرمانی کرسکتے ہیں اور اس طرح اپنے امام اور اپنے باپ کی نافرمانی کرسکتے ہیں؟! کیا اپنے ان ہی عام رشتہ داروں یا بیٹوں اور بھائیوں سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ علاقے کی قوموں اور قبیلوں میں آپ کے لئے دشمنیاں ابھاریں کہ اگر ایسا کریں تو آپ ان پر دین سے دوری ہی کا نہیں بلکہ عقل سے محرومی تک کا الزام لگائیں گے؟!
حقیقت کیا ہے؟
اب تک ہم نے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں کی کثرت سے متعلق تہمتوں کا جواب دیا اور ثابت کیا گیا کہ یہ بہتان امام حسن علیہ السلام کے زمانے اور امویوں کی طویل بادشاہت کے زمانے میں کہیں بھی نقل نہیں ہوا ہے اور عباسیوں کے دور میں منصور نے اس کی بنیاد رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے امام حسن علیہ السلام کی ازواج کی تعداد آٹھ یا دس(34)سے زیادہ نہ تھی جن میں اکثریت کنیزوں کی تھی اور اس زمانے میں یہ ایک معمول کی بات تھی اور ہر آدمی کی بیویاں بھی ہوتی تھیں اور کنیزیں بھی تھیں جن کی تعداد کئی اشخاص کے ہاں اس تعداد سے کہیں زیادہ ہوتی تھی لیکن کسی نے کسی پر اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے اب کیا واقعہ رونما ہوا کہ زمانے کے معمول کے مطابق شادی کرنا اور کنیزیں رکھنا رسول اللہؐ کی آنکھوں کے تارے امام حسن علیہ السلام کے لئے عیب قرار پایا اور انہیں اس بے شرمانہ یلغار کا نشانہ بنایا گیا؟ کیا شادیوں کی اتنی تعداد روایت کے جعلی پن کی علامت نہیں ہے؟ اور پھر ہم نے ابتداء میں ہی ذکر کیا کہ رسول اللہؐ اور آل رسول اللہؑ کے گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں، تلواروں، دستاروں اور جوتوں تک کے نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے آپؑ کی بیویوں کے نام اور ان کے خاندانوں کے نام ذکر کیوں ذکر نہیں کئے کیا یہ بات ان روایات کے جعلی پن کا ثبوت نہیں ہے؟
ابوطالب مکی نے امام حسن علیہ السلام کی زوجات کی تعداد دوسو پچاس بتائی ہے ہم پوچھتے ہیں کہ اس نے ان زوجات میں سے چند ہی زوجات کا نام پتہ کیوں نہیں بتایا؟ اور ہاں! واقدی اور ابوالحسن کی راہ پر گامزن مؤرخین امامؑ کے لئے اتنی ساری شادیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امامؑ کے فرزندوں کی تعداد 22 یا 31 سے زیادہ کیوں نہیں بتاسکے ہیں؟(35)
ابوطالب مکی سے پوچھتے ہیں کہ اگر امام علیہ السلام کی زوجات کی تعداد چارسو سے زیادہ تھی تو آپ کے فرزندوں کی تعداد اکتیس سے زیادہ کیوں نہیں ہوئی؟ کیا ان زوجات میں سے اکثریت بانجھ خواتین کی تھی؟ یا پھر یہ روایت ایک بہتان اور ایک ناروا تہمت ہے؟
1۔ كافى، ج 6، ص 56۔
2۔ یعنی جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے اس کو معتمد اور ہوشیار و دانا ہونا چاہئے اور امور کے انجام سے واقف ہونا چاہئے۔
3۔ محاسن برقى، ج 2، ص 601؛ منتخب التواریخ، ص 190۔
4۔ كافى، ج 6، ص 56؛ بحارالانوار، ج 44، ص 172۔
5۔ انساب الاشراف، ج 3، ص 25۔
6۔ تاریخ الخلفاء، ص 191۔
وكان على یضجر من ذلك فكان یقول فى خطبته ان الحسن مطلاق فلاتنكحوه (بحارالانوار، ج 44، ص 169۔)
8۔ وہی منبع۔
9۔ چهارده معصوم (زندگانى امام حسن(ع))، ص 553۔
10۔ بحارالانوار، ج 44، ص 173۔
11۔ الصواعق المحرقه، ص 139۔
12۔ كافى، ج 6، ص 56۔
13۔ البدء و التاریخ، ج 5، ص 74۔
14۔ مناقب آل ابى طالب، ج 4، ص 30۔
15۔ وہی منبع۔
16۔ چهارده معصوم، ص 553، به نقل از قوت القلوب۔
17۔ صواعق المحرقہ ابن حجر ص 114۔
18۔ بحارالانوار ج 6 ص 58۔
19۔ احقاق الحق، ج 9، ص 266، بحوالہ المعجم الکبیر طبرانی، ص 135، طبع طهران; مناقب على بن ابى طالب (ابن المغازلى الشافعی) صص 150-148 و صص 102-101، روایت 144 ۔
20۔ الصواعق المحرقہ صفحه 114۔
21۔ صحیح ترمذی صفحه 306 ج 2۔
22۔ صحیح ترمذی صفحه 306 ج 2۔
23۔ ینابیع المودۃ صفحه 164۔
24۔ بحار الأنوار ج26 ص269 باب6 ح 5 41۔
25۔ خطبہ حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جس میں آپؑ نے سورہ تکویر کی آخری آیت ” وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿آیت 29 سورہ تکویر﴾، سے تضمین فرمائی ہے۔
26۔ سورہ احزاب،آیت٣٣۔
27۔ سورہ الشورى آیت 23۔
28۔ سورہ آل عمران آیت61۔
29۔ البدایة و النهایة، ج 7، ص 37۔
30۔ مناقب آل ابى طالب، ج 3، ص 401۔
31۔ البدایة و النهایة، ج 7، ص 37۔
32۔ الامام المجتبى(ع)، ص 10۔
33۔ وہی منبع، ص 86۔
34۔ صلح الحسن(ع)، ص 25۔
35۔ البدء و التاریخ، ج 5، ص 74؛ الفصول المهمه، ص 166؛ بحارالانوار، ج 44، ص 168؛ كشف الغمه، ج 2، ص 152؛ اعلام الورى، ص 213؛ ناسخ التواریخ، جلد امام حسن(ع)، ص 270؛ تذكرة الخواص، ص 212؛ نورالابصار، ص 136؛ ذخائرالعقبى، ص 143؛ تاریخ یعقوبى، ج 2، ص 228۔
https://erfan.ir/urdu/67975.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button