حدیثمقالات حدیث و رجال

حدیث غدیر کی اہمیت اور اسنادی حیثیت

مولانا نعیم عباس نجفی
حدیث غدیر ہمارے ہاں نہایت اہمیت کی حامل ہے بلکہ ہمارے مکتب کی اصل واساس یہی حدیث ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور علامہ امینی ؒ کی الغدیر کے بعد کچھ لکھنے کی مزید گنجائش نہیں لیکن اس کار ثواب میں شامل ہونے اور مولا علی ع کے حق میں گواہی دینے والوں کی فہرست میں نام درج کروانے کی خاطر چند سطور اس حدیث کی اہمیت اور اسنادی حیثیت کے عنوان سے سپرد قرطاس کر رہا ہوں تاکہ بروز حشریہ میرے نامہ اعمال کی زینت بن سکیں ۔
واقعہ غدیر اور حدیث غدیر من جملہ ان حقائق میں سے ہیں جو عند الفریقین مسلم و مقبول ہیں ہم ان دونوں پر اختصار کیساتھ تذکرہ کریں گے لہذا حدیث کی اسنادی حیثیت سے قبل اس واقعہ کا مختصر تذکرہ کرنا ضروری ہے
واقعہ غدیر کا اجمالی پس منظر
جب حضرت نبی اکرم ﷺ 10 ہجری میں حجۃ الوداع سے واپس پلٹ رہے تھے اور کم و بیش ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام آپ ﷺ کے ہمراہ تھے تب 18 ذی الحج بروز جمعرات مکہ و مدینہ کے درمیان مقام غدیر خم پر پہنچتے ہی جناب جبرئیل امین ع خدا کی جانب سے وحی لیکر ناز ل ہوئے جس مقام کے متعلق جناب زید بن ارقم فرماتے ہیں
قام رسول اللہ ﷺ یوما فینا خطیبا بما ء ید عی ،،خما ،،بین مکۃ والمدینۃ
نبی کریم ﷺ نے مکہ اور مدینہ کے درمیا ن ایک پانی کے تالاب کے کنارے کھڑے ہوکرہمیں خطاب فرمایا (صحیح مسلم باب فضائل علی بن ابی طالب ، جلد ۲صفحہ ۲۷۹،طبع افضل المطابع ،دہلی)
دراصل حضرت جبرائیل ع اس مقا م پر سورہ المائدہ کی آیت 67 لیکر نازل ہوئے تھے جس میں خداوند منان نے ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ
اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
اسی آیت مجیدہ کے شان نزول کے متعلق علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ آیت مبارکہ بلغ ما انزل الیک حضرت مرتضی ؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے پس جب یہ آ یت نا زل ہوئی تو حضوراکرم ﷺ نے حضرت علی ؑ کا ہا تھ پکڑا اور فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ جس کا میں مولا و آقاہوں اس کے علی مولا آقاہیں ( عمدۃالقاری شرح بخاری جلد ۸ صفحہ ۵۸۴مطبوعہ قسطنطینیہ)
اسی طرح علامہ موصوف اسی آیت مبارکہ کے نزول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابو سعیدخدریؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت یاایھا الر سول بلغ ما انزل الیک من ربک ،روز غدیرخم حضرت علی مر تضیٰ ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے (عمد ۃ القاری جلد ۸ صفحہ۵۸۴)
یہ واقعہ غدیر کے متعلق انتہائی اجمالی بیان تھا جس میں بعد از رسول ﷺ حضرت امام علی علیہ السلام کی سرپرستی و حاکمیت کا اعلان تھا اب اسکی اسنادی حیثیت کے بارے میں بھی مختصر گفتگو پیش خدمت ہے
حدیث غدیر متواتر ہے
حدیث غدیر کو فریقین کے علماء نے نقل کیا ہے اور یہ من جملہ ان احادیث میں شمار ہوتی ہے جس کے متواتر ہونے پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے اور حدیث متواتر اسے کہا جاتا ہے جسکو ہر طبقے میں راویوں کی اتنی کثیر تعداد نقل کرے کہ ان سب کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو اب اگر روایت کے الفاظ میں اتحاد ہو تو اسے متواتر لفظی کہتے ہیں جیسے حدیث غدیر اور اگر الفاظ مختلف ہوں مگر مفہوم و معنی میں یکسانیت پائی جائے اس کو متواتر معنوی کہتے ہیں جیسے حدیث ثقلین ۔
حدیث غدیر کے تواتر کو علماء اہل سنت نے تسلیم کیا ہے ذیل میں چند علماءکا ذکر کرتے ہیں
علامہ شمس الدین الذھبی نے حدیث غدیر کے بارے میں لکھا ہے
من کنت مولاہ فعلی مولاہ ھذا حدیث حسن عال جدا ومتنہ فمتواتر
جس کا میں مولا ہوں اسکے علی مولا ہیں یہ حدیث انتہائی حسن عالی ہے اور اسکا متن متواتر ہے
(سیر اعلام النبلاء شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذھبی جلد8ص 335 تحقیق و تخریج شعیب ارنؤؤط مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ )
علامہ آلوسی نے بھی علامہ ذہبی کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
وعن الذھبی ان من کنت مولاہ فعلی مولاہ متواتر یتیقن ان رسول اللہ ﷺ قالہ واما اللھم وال من والاہ فزیادۃ قویۃ الاسناد
ذھبی کے نزدیک من کنت مولاہ ۔۔۔ حدیث متواتر ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایسا فرمایا ہے البتہ اللھم وال من والاہ یہ زیادتی ہے جو قوی الاسناد ہے (یعنی یہ جملے قوی اسناد سے مروی ہیں لہذا یہ جعلی نہیں جیسا کہ ابن تیمیہ کا گمان فاسد ہے )
(روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی :علامہ ابو الفضل شھاب الدین السید محمود آلوسی ج6 ص 195 ادارہ الطباعۃ المنیریہ و احیاء تراث العربی بیروت )
ابوعبداللہ محمد بن جعفر الکتانی نے اپنی کتاب (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص 194 حدیث نمبر232 دارالکتب السلفیۃ للطباعۃ والنشر بمصر ) میں پچیس صحابہ کرام رض سے اسکو نقل کیا اور اسکوبطور حدیث متواتر تسلیم کیا
علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب قطف الازھار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ ص 277 حدیث نمبر 102 مطبوعہ المکتب الاسلامی میں حدیث غدیر کو متواتر احادیث کے ضمن میں درج کیا ہے ۔
اہل سنت کی ان برجستہ اور علمی شخصیات کی عبارتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ فرمان نبوی من کنت مولاہ فعلی مولاہ تواتر کا درجہ رکھتا ہے ۔
حدیث غدیر کے منکر کو اہل سنت محققین کا جوا ب
اہل سنت میں ابن تیمیہ وہ فرد ہے جس نے اس حدیث کے آخر میں موجود کلمات ”اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ کا انکار کیا اور ان کو جعلی قرار دیا جیسا کی وہ خود اپنی کتاب منھاج السنہ میں لکھتے ہیں
ان ھذا اللفظ و ھو قولہ اللھم من وال والاہ و عاد من عاداہ انصر من نصرہ اخذل من خذلہ کذب باتفاق اھل المعرفۃ بالحدیث
بیشک یہ الفاظ “ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و انصر من نصرہ واخذل من خذلہ ” حدیث کی معرفت رکھنے والوں کے اتفاق کے سبب جھوٹ ہیں
(منھاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعہ القدریہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف ابن تیمیہ تحقیق ڈاکٹر محمد رشاد عالم جلد7ص55 طبع اول 1986ء )
گویا ابن تیمیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو شخص بھی علم حدیث کی معرفت رکھتا ہے وہ ان کلمات کے قول رسول ﷺ ہونے کا انکار کرے گا حالانکہ حدیث کے ماہرین نے خود ابن تیمیہ کے ہی قول کو مردود قرار دیا اور اسکا شدید الفاظ میں رد کیا جیسا کہ ماہرین حدیث کے آفتاب ناصر الدین البانی نے لکھا ہے کہ
فمن العجیب حقاً أن یتجرأ شیخ الإسلام علی إنکار هذا الحدیث و تکذیبه فی منهاج السنّة… فلاأدری بعد ذلک وجه تکذیبه للحدیث إلا التسرّع و المبالغة فی الردّ علی الشیعة.
یہ تعجب حق ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کے انکار پر تجری کی ہے اور اپنی کتاب منھاج السنہ میں اس حدیث کی تکذیب کی ہے اسکے تواتر کے بعد مجھے اسکی تکذیب کی وجہ معلوم نہیں سوائے شیعہ کے رد میں جلد بازی اور مبالغہ آرائی کے ۔
( سلسلہ الاحادیث الصحیحہ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی جلد 5 ص263 مکتبہ المعارف للنشر والتوازیع لصاحبھا سعد بن عبدالرحمن ، الریاض )
اسی طرح اہلحدیث عالم صدیق الحسن بھوپالی حدیث غدیر کے متعلق اپنے رائے دیتے ہوئے اور منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لا شک ان ھذا الحدیث صحیح رواہ جماعۃ منھم الترمذی والنسائی واحمد وطرقہ کثیرۃ وروی من ستۃ عشر صحابیا و سمعہ منہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابہ و شھدوا بہ لعلی عند النزاع الخلاف معہ فی ایام خلافتہ واکثر اسانیدہ صحاح و حسان ولا التفات الی قول من تکلم فی صحتہ ولا الی قول من قال ان زیادۃ الھم وال من والاہ موضوعۃ لانھا وردت من طرق عدیدۃ وصححھا الذھبی کما قال ابن حجر المکی فی الصواعق
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اس کو محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے ان میں امام ترمذی ،نسائی ،امام احمد بن حنبل شامل ہیں اس حدیث کی بہت اسناد ہیں اوراسے سولہ صحابہ سے روایت کیا گیا ہے اسکو رسول اللہ ﷺ سے انکے صحابہ نے سنا ہے اور حضرت علی ع کے ایام خلافت میں ان سے نزاع و اختلاف کرنے والوں پر صحابہ نے اسی حدیث سے استشہاد کیا اور اس حدیث کی اکثر اسناد صحیح و حسن درجہ کی ہیں لہذا اسکی صحت میں اشکال کرنے والے کی بات کو توجہ نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اس شخص کے قول کی طرف التفات کی جائے گا جو“ اللھم وال من والاہ ”کو جعلی کہتا ہے کیونکہ یہ متعدد طرق سے وارد ہوا ہے اور علامہ ذھبی نے اسکو صحیح فرمایا ہے جیسا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی نے اپنی کتاب صواعق المحرقہ میں کہا ہے ۔
(الدین الخالص صدیق حسن قنوچی ج3 ص308 طبع دار الکتب العلمیہ بیروت )
نیز علامہ ابن حجر مکی نے اسکے رد میں لکھا کہ
وقول بعضھم ان زیادۃ ” و ال من والاہ “ الخ موضوعۃ ، مردودۃ ، فقد ورد ذلک من طرق صحح الذھبی کثیرا منھا
اور بعض لوگوں کا یہ قول کہ“ وال من والاہ کی زیادتی جعلی ہے ” مردود ہے کیونکہ یہ بہت سے طرق سے وارد ہوا ہے جن میں کثیر طرق کو ذھبی نے صحیح قرار دیا ہے (الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض والضلال والزندقہ : ابو العباس احمد بن محمد المعروف ابن حجر مکی ہیتمی ص 107 مطبوعہ دار الوطن ریاض سعودیہ )
خلاصہ بحث :
حدیث غدیر عند الفریقین ثابت ہے اور متواتر کے درجہ کی حامل ہے جس سے انکار صرف مکابرہ ہے اور یہی وہ حدیث مبارکہ ہے جو حضرت علی ع کی خلافت بلا فصل پر دلیل قاطع ہے اسی لئے ہمارے اہل سنت بھائیوں کو اسکی سند اور حجیت میں جب گفتگو کی گنجائش نہ مل سکی تو اس کی معنوی تحریف کے درپے ہوئے اور حدیث کے سیاق وسباق کے بلکل مخالف معنی کرکے اپنی مکتب کے نظریہ کا دفاع کیا جبکہ بغیر تکلف کے اسی حدیث کے سیاق وسباق سے اسکی درست معنی کی نشاندھی ہو جاتی ہے جس سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے کہ بعد از رسول ﷺ حضرت علی مرتضی ؑ آپکے جانشین برحق ہیں اور امت محمدی پر حاکمیت شرعی رکھتے ہیں ۔
خدا وند عالم ہمیں حق کو تسلیم کرنے اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین
خاکسار:نعیم عباس نجفی
تاریخ 25 جون 2021
بروز جمعہ 14 ذی قعدہ 1442ھ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button