خصوصی اشاعترسالاتسیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

حضرت امام حسین علیہ السلام گرداب مصائب میں واقعہ کربلا کا آغاز

سید شمس رضا
حضرت امام حسین علیہ السلام پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات سے لیکر امام حسن علیہ السلام کی حیات کے آخری ایام بحر مصائب و آلام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے اس عہد میں داخل ہوئے جس کے بعد آپ کے علاوہ پنجتن پاک علیہ السلام میں کوئی باقی نہ رہا تو آپ کاسفینہء حیات خود مصائب کے گرداب میں آگیا۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے معاویہ کی تمام تر جدوجہد یہی رہی کہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کا چراغ زندگی بھی اسی طرح گل کردے جس طرح حضرت علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کی شمع حیات بجھا چکا تھا۔
وہ اس کیلئے ہر ستم کی کوششیں کرتا رہا اوراس سے اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کس طرح یزید کی خلافت کے منصوبہ کو پروان چڑھائے۔ بالاخر اس نے ۵۶ھ میں ایک ہزار کی جمعیت سمیت یزید کے لیے بیعت لینے کی غرض سے حجاز کا سفر اختیار کیا اور مدینہ منور پہنچا۔ وہاں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اس نے بیعت یزید کا ذکر کیا۔ آپ نے صاف لفظوں میں اس کی بدکرداری کا حوالہ دے کر انکار کردیا۔ معاویہ کو آپکا انکار کھلا تو چند الٹے سیدھے الفاظ کہنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکا اس کے بعد مدینہ اور مکہ میں بیعت یزید لیکر شام کو واپس چلاگیا۔ علامہ واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ معاویہ نے جب مدینہ میں بیعت یزید کا سوال اٹھایا تو حسین ابن علی علیہما السلام عبد الرحمن بن ابی بکر عبد اللہ بن عمر’ عبد اللہ ابن زبیر نے بیعت یزیدؓ کا انکار کردیا اس نے بڑی کوشش کی مگر یہ لوگ نہ مانے اور رفع فتنہ کے لیے امام حسین علیہ السلام کے علاوہ سب مدینہ سے چلے گئے۔ معاویہ ان کے پیچھے مکہ پہنچا وہاں ان پر دباؤ ڈالا لیکن کامیاب نہ ہوا آخر کار شام واپس چلا گیا۔ معاویہ بڑی تیزی سے بیعت یزید لیتا رہا اور بقول علامہ ابن قتیبہ اس سلسلے میں اس نے ٹکوں میں لوگوں کے دین بھی خرید لیے۔ الغرض رجب 60ھ میں معاویہ رخت سفر باندھ کر دینا سے چل بسا یزید جو اپنے باپ کے مشن کو کامیاب کرنا ضروری سمجھتا تھا سب سے پہلے مدینہ کی جانب متوجہ ہوگیا اس نے وہاں کے گورنر ولید بن عقبہ کو لکھا کہ حسین ابن علی علیہما السلام عبدالرحمٰن بن ابی بکر ‘عبد اللہ ابن عمر’ عبد اللہ ابن زبیر سے میری بیعت لے۔ اور اگر یہ لوگ انکار کریں تو ان کے سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دے۔ ولید نے مروان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ سب بیعت کرلیں گے۔ مگر امام حسین علیہ السلام ہرگز بیعت نہ کریں گے اور تجھے ان کے ساتھ پوری طرح سختی کا برتاؤ کرناپڑے گا۔
صاحب تفسیر حسینی علامہ حسین واعظ کا شفی لکھتے ہیں کہ ولید نے ایک شخص (عبد اللہ ابن عمر بن عثمان) کو امام حسین علیہ السلام اور ابن زبیر کو بلانے کے لیے بھیجا۔ قاصد جس وقت پہنچا دونوں مسجد میں محو گفتگو تھے اس نے آکر ولید کا پیغام دیا امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تم چلو ہم آتے ہیں قاصد واپس چلا گیا مگر یہ دونوں آپس میں بلانے کے سبب پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :
میں نے آج ایک خواب دیکھا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ معاویہ نے آج انتقال کیا ہے اور یہ ہمیں یزید کی بیعت کے لیے بلا رہا ہے۔ ابھی آپ علیہ السلام جانے نہ پائے تھے کہ قاصد پھر آگیا اور اس نے کہا کہ ولید آپ حضرات کے انتظار میں ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ جلدی کیا ہے جاکر کہہ دے کہ ہم تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام خانہ اہلبیت میں تشریف لائے اور (۳۰) تیس بہادروں کو ساتھ لیکر ولید سے ملنے کا قصد فرمایا چند لمحے بعد آپ داخل دربار ہوگئے اور بہادران بنی ہاشم باہر سے درباری حالات کا مطالعہ کرتے رہے۔ ولید نے امام حسین علیہ السلام کی مکمل تعظیم کی اور خبر مرگ معاویہ سنانے کے بعد بیعت کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسئلہ کچھ سوچ بچار کا ہے تم لوگوں کو جمع کرو اور مجھے بھی بلالو میں عام مجمع میں اظہار خیال کروں گا۔ ولید نے کہا بہتر ہے پھر کل تشریف لایئے گا ابھی آپ جو اب نہ دینے پائے تھے کہ مروان بول پڑا اے ولید اگر حسین علیہ السلام ا س وقت تیرے قبضہ سے نکل گئے تو پھر ہاتھ نہ آئیں گے۔ ان کو اسی وقت مجبور کردے اور ابھی ابھی بیعت لے اور اگر یہ انکار کریں تو حکم یزید کے مطابق سرتن سے اتاردے۔
یہ سننا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو جلال آگیا۔ آپ نے فرمایا "یابن الزرقا” کس میں دم ہے کہ حسین علیہ السلام کو ہاتھ لگا سکے تجھے نہیں معلوم کہ ہم آل محمد ہیں فرشتے ہمارے گھروں میں آتے رہتے ہیں ہمیں کیونکر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ ہم یزید جیسے فاسق و فاجر اور شرابی کی بیعت کرلیں۔ امام حسین علیہ السلام کی آواز کابلند ہونا تھا کہ بہادران بنی ہاشم داخل دربار ہوگئے اور قریب تھا کہ زبردست ہنگامہ برپا کردیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے انہیں سمجھا بجھا کر خاموش کردیا اس کے بعد امام حسین علیہ السلام واپس دولت سرا میں تشریف لے گئے۔ولید نے سارا واقعہ یزید کو لکھ کر بھیج دیا اس نے جواب میں لکھا کہ اس خط کے جواب میں امام حسین علیہ السلام کا سر بھیج دو۔ ولید نے یزید کا خط امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیج کر کہلا بھیجا کہ فرزند رسول میں یزید کے کہنے پر کسی صورت سے عمل نہیں کرسکتا۔لیکن آپ کو باخبر کرتا ہوں کہ یزید آپ کے خون بہانے کے در پے ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے صبر کے ساتھ حالات پر غور کیا اور نانا کے روضے پر جا کر درد دل بیان فرمایا اور بے انتہا روئے اور صبح صادق کے قریب واپس گھر تشریف لائے اور دوسری رات کو پھر روضہ رسول پرتشریف لے گئے اور مناجات کے بعدروتے روتے سوگئے خواب میں آنحضرت کو دیکھا کہ آپ حسین علیہ السلام کی پیشانی کا بوسہ لے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اے نور نظر عنقریب امت تمہیں شہید کردے گی بیٹا تم بھوکے اور پیاسے ہوگے تم فریاد کرتے ہوگے اور کوئی تمہارے فریاد رسی نہ کرے گا۔ امام حسین علیہ السلام کی اسی اثنا میں انکھ کھل گئی اور آپ خانہ اقدس میں تشریف لائے اور اپنے اعزاء کو جمع کیا اور فرمانے لگے کہ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ میں مدینہ چھوڑ دوں ترک وطن کا فیصلہ کرنے کے بعد روضہ امام حسن علیہ السلام اور مزار جناب سیدہ پر تشریف لے گئے وہاں پہ کافی دیر تک روتے رہے بالآخر بھائی سے رخصت ہوئے ماں کو سلام کیا۔ قبر سے جواب سلام آیا نانا کے روضے پر رخصت آخری کے لیے تشریف گئے روتے روتے سوگئے سرور کائنات نے خواب میں صبر کی تلقین کی اور فرمایا بیٹا ہم تمہارے انتظار میں ہیں علماء کا بیان ہے کہ امام حسین ۲۸ رجب ۶۰ یوم سہ شنبہ کو مدینہ منورہ سے باارادہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے علامہ ابن حجرمکی صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ "نفرلمکتہ خوفاعلی نفسہ” امام حسین جان کے خوف سے مکہ کو تشریف لئے گئے۔ آپ کے ساتھ تمام مخدرات عصمت و طہارت اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تیمارداری کے لیے حضرت عباس (ع)کی والدہ محترمہ جناب ام البنین کو مدینہ میں ہی چھوڑ دیاتھا۔ اورکچھ فریضہ خدمت ام المومنین جناب ام سلمہ علیہا السلام کے سپرد کر دیا تھا۔ آپ ۳ شعبان ۶۰ھ یوم جمعہ کو مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ آپ کے پہنچتے ہی سعید ابن عاص مکہ سے بھاگ کر مدینہ چلا گیا اور وہاں سے یزید کو مکہ کے تمام حالات لکھے اور بتایا کہ امام حسین علیہ السلام کی طرف لوگوں کا رحجان اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ جس کا جواب نہیں۔ یزید نے یہ خبر پاتے ہی مکہ میں قتل حسین علیہ السلام کی سازش پر غور کرنا شروع کردیا۔ امام حسین علیہ السلام مکہ میں چار ماہ شعبان’ رمضان’ شوال’ ذیقعد مقیم رہے۔ یزید جو ہر صورت امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ حسین اگر مدینہ سے بچ کر نکل گئے ہیں تو مکہ میں قتل ہو جائیں گے اور اگر مکہ سے بچ نکلیں تو کوفہ پہنچ کر شہید ہوسکیں یہ انتظام کیاکہ کوفے سے ۱۲ ہزار خطوط دوران قیام مکہ میں بھجوائے کیونکہ دشمنوں کو یہ یقین تھا کہ حسین کوفہ میں آسانی کے ساتھ قتل ہوسکیں گے نہ یہاں کے باشندوں میں عقیدہ کا سوال ہے اور نہ عقیدت کا یہ فوجی لوگ ہیں ان کی عقلیں بھی موٹی ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شہادت حسین علیہ السلام سے قبل جتنے بھی افسر بھیجے گئے وہ محض اس غرض سے بھیجے جاتے رہے کہ حسین علیہ السلام کو گرفتار کرکے کوفہ لے جائیں۔
(کشف الغمہ)
اور ایک عظیم لشکر بھی مکہ میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے لیے بھیجا اور ۳۰ خارجیوں کو حاجیوں کے لباس میں خاص طور پر بھجوا دیا جن کا قائد عمر ابن سعد تھا۔ اس کے علاوہ ایک سازش یہ بھی کی گئی کہ ایام حج میں تین سو شامیوں کو بھیج دیا گیا کہ وہ گروہ حجاج میں شامل ہو جائیں اور جہاں جس حال میں بھی امام حسین علیہ السلام کو پائیں قتل کرڈالیں اور وہ خطوط جو کوفہ سے آئے تھے انہیں شرعی رنگ دے دیا گیا کیونکہ وہ ایسے لوگوں کے نام سے بھیجے گئے تھے جن سے امام حسین علیہ السلام متعارف تھے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا کہنا ہے کہ یہ خطوط بھیجنے والے عام اہل کوفہ تھے۔ ابن جریر کا کہنا ہے کہ ان دنوں کوفہ میں ایک یا دو گھر کے علاوہ اور کوئی شیعہ نہ تھا اس لئے امام حسین علیہ السلام نے اپنی شرعی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تفحص حالات کی خاطر اپنے چچا زاد جناب مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کردیا۔
https://erfan.ir/urdu/25986.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button