سیرتسیرت امام مھدیؑ

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے تکوینی اثرات اور فوائد

علامہ سید عاشور علی

پہلا فائدہ:کائنات کا استقرار اور اثبات(زمین و آسمان)

روایات شریفہ سے یہ بات ثابت ہے کہ کائنات کا ثبات اور بقاءاہل بیت علیہم السلام سے مربوط ہے اگر وہ حضرات علیہ السلام نہ ہوں تو کوئی شئی باقی نہ رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات کو اس لئے خلق فرمایا کہ ان ذوات کو خلق فرمایا(اللہ تعالیٰ کمال مطلق ہے کمال لامتناہی ہے، وہاں سے نیچے تک فیض اور رحمت آنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت تامہ اور اپنے کمال مطلق کے اظہار کے لئے اہل بیت علیہم السلام کو خلق فرمایا اور انہیں اپنی تمام صفات کمالیہ اور جلالیہ اور جمالیہ کا مظہر بنایا اور پھر باقی مخلوقات کے مراتب اور مدارج کے مطابق انہیںخلق فرمایا جو درحقیقت ان ذوات مقدسہ کے کمالات کا پرتو اور سایہ کے مانند ہیں جب کہ خود یہ ذوات مقدسہ اللہ تعالیٰ کے کمال کا مکمل اثر ہیں۔

اسی تناظر میں اہل البیت علیہم السلام کے وجود سے ساری کائنات کے موجودات کا وجود ہے اور کائنات میں تمام زندگی کے آثار ان کی وجہ سے ہیں یہ سسٹم خداوند تبارک وتعالیٰ کا اپنا بنایا ہوا ہے اور اس کے کمال کا تقاضا ہی یہی تھا یہ اس کے جودوسخا و لطف و کرم اور رحمت اور کمال مطلق کا تقاضا تھا کہ اس نے اپنے تمام جمالات و کمالات وجلالیات کے اظہار کے لئے اہل البیت علیہم السلام کے وجودات کو خلق فرمایا۔

پس یہ نہ رہیں تو پھر کچھ نہ رہے گا، ساری مخلوقات ان کی وجہ سے خلق ہوئی ہے اس کا معنی یہی ہے اور امام علیہ السلام کا فرمان کہ

”ہم اپنے اللہ اور رب کی صفت و مصنوع و مخلوق ہیں جب کہ ہمارے بعد ساری مخلوقات ہماری پروردہ احسان ہیں، ان کی وجودی حیثیت کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ مربوط کر دیا ہے ہم ہوں گے تو وہ سب ہوں گے اگر ہم نہ ہوں گے تو پھر کوئی نہ ہوگا” …. (ازمترجم)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث ہے، حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہیں:

"اے علی علیہ السلام! میں اور تم ایک درخت سے ہیں ہماری اصل ایک ہے، اگر ہمارا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو خلق نہ فرمایا، نہ انبیاءعلیہ السلام کو خلق فرماتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ فرشتوں کو خلقت وجود عطاءکرتا”۔

(بحارالانوار ج ۶۲ ص ۹۴۳ حدیث ۳۲ ، الہدایہ الکبریٰ ص ۱۰۱)

شاعر نے کیا خوب کہاہے:

لولا کم مااستدارت الاکر

ولا استشارت شمس ولاقمر

اگر آپ نہ ہوتے تو کرات کی چکی نہ گھومتی۔۔۔۔ اور نہ سورج و چاند کی روانی ہوتی

ولا تدلی عفن ولاثم

ولاتندی ورق ولاخضر

نہ ٹہنی جھومتی نہ پھل لگتا۔۔۔نہ پتے پر شبنم گرتی نہ سبزہ ہوتا

لا سری برق ولا مطر

نہ بجلی چمکتی نہ بادل برستا۔

(مشارق انوار البیض ص ۶۴۲،۷۴۲)

حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے حدیث میں آیاہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”ہم ہی تو وہ ہیں جن کے وسیلہ سے رحمت پہنچتی ہے ہمارے وسیلہ سے بارش سے تم سیراب ہوتے ہو اور ہم ہی وہ ہیں جن کے ذریعہ تم سے عذاب کو دور کر دیا جائے گا“۔

(بصائر الدرجات ص ۳۶ ، باب انعم حجۃ اللہ وبابہ، بحارالانوار ج ۶۲ ص ۹۴۲ ، حدیث ۸۱ باب جوامع مناقبھم)

ایک اور روایت میں ہے:

”ہم زمین والوں کےلئے، آسمان والوں کے لئے امان ہیں، اگر ہم نہ ہوں تو سب کچھ تباہ ہو جاتا“۔

(مشارق الانوار ص ۶۵)

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر سے فرمایا:

”اے جابر!یاد رکھو جس شخص نے میرے خلفائ، میرے اوصیائ، میری اولاد اور میری عترت کی اطاعت کی تو اس نے بتحقیق خود میری اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی….اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے زمین والوں سے عذاب کوروک رکھتا ہے اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ وہ زمین پرنہ آ گرے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اذن سے گرے ،ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے زمین کو روکا ہوا ہے کہ وہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل جائے”۔

(الاختصاص ص ۴۲۲ ، بحار الانوار ج ۷۲ ص ۰۲۱ حدیث ۹۹)

حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے:

” اللہ ان کے وسیلہ سے ظلم کو دور کرتا ہے، ان کے ذریعہ رحمت کو بھیجتا ہے، ان کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور ان کے ذریعہ سے زندوں کو مارتاہے”۔

(التوحیدص ۷۶۱ تا ۴۲ ج ۱)

آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وصف میں آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین کے ارکان بنایا تاکہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل نہ جائے”۔

(اصول الکافی ج ۱ ص ۷۹۱ حدیث ۲۰۳)

اسی طرح کی حدیث حضرت ابوجعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی ہے امام ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے ہے

” اگر زمین امام کے بغیر ہو تو زمین دھنس جائے ، برباد ہو جائے”۔

(بصائرالدرجات ص ۸۸۳ ،باب ان الارض لایبقی بلا امام، اصول الکافی ج ۱ ص ۹۷۱ ، باب ان الارض لاتخلومنہ ج ۱)

حضرت ابوجعفر علیہ السلام سے ہے:

” اگر امام علیہ السلام کو ایک گھڑی کے لئے زمین سے اٹھا لیا جائے تو زمین دھنس جائے، تباہ ہو جائے، اپنے اہل سمیت اور زمین اس طرح طوفانی شکل اختیار کر لے جس طرح سمندر بپھر جاتا ہے اور ہر شئی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے”۔

(بصائرالدرجات ص ۸۸۴ ،اصول الکافی ج ۱ ص ۹۷۱ ،حدیث ۲۱)

اس باب میں بصائرالدرجات اور اصول الکافی میں بہت ساری احادیث بیان ہوئی ہیں۔

الاصبغ بن نباتہ سے روایت ہے، اس نے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام باہر آئے آپ علیہ السلام کا ہاتھ اس وقت اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا اور آپ علیہ السلام اس وقت یہ فرما رہے تھے کہ ایک دن رسول ہمارے پاس آئے اور آپ نے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ ان (اہل بیت علیہ السلام)کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور ان کے ذریعہ شہروں کو آباد کرے گا”۔

(کمال الدین ص ۹۵۲،۰۶۲ حدیث ۵)

(ازمترجم)اسی مناسبت سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت مطلقہ میں چندجملے ہیں جن کو میں یہاں پر محبان اہل بیت علیہم السلام کے لئے بیان کردینا اپنے لئے سعادت سمجھتاہوں اس زیارت کو شیخ الکلینی نے اپنی سند سے حسین بن تویر سے نقل کیاہے کہ اس نے بتایا کہ میں خود یونس بن طبیان،المفصل بن عمر، ابوسلمہ السراج حضرت ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے، یونس نے ہم میں سے بات چھیڑی، وہ ہم میں سِن کے لحاظ سے بڑا تھا۔

میں آپ پر قربان جاوں میں بہت دفعہ ان لوگوں کے پروگراموںمیں شریک ہوتا ہوں(یعنی بنی عباس، حکمرانوں کی محافل میں جاتاہوں)تو میں کیا کہوں؟تو آپ نے فرمایا تم یہ کہا کرو”اللهم ارناالرخاءوالسرور “ اے اللہ!ہمیں خوشحالی اور سکون نصیب فرما تاکہ تم کو وہ کچھ ملے جو تم چاہتے ہو اور رجعت بھی نصیب ہو، پھر اس نے اگلا سوال کیا، میں بہت مرتبہ امام حسین علیہ السلام کو یاد کرتا ہوں تو اس وقت میں کیا کہوں؟

تو آپ نے فرمایا:تین مرتبہ یہ جملے کہاکروں

”صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ، صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ، صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ“

تو آپ کو قریب اور دور دونوں حالتوں کا ثواب ملے گا۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہو گئی تو پھرآپ پر سات آسمانوں نے سات زمینوں نے اور جو کچھ ان میں تھا اور جو کچھ ان کے درمیان تھا سب نے جنت اور جہنم نے اور جو کچھ جنت اور جہنم کے اندر کام کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوقات خلق کی ہیں چاہے وہ نظر آتی ہیں یا نظر نہیں آتیں سب نے گریہ کیاکوئی جگہ ایسی نہیں تھی جنہوں نے گریہ نہ کیا ۔

۱ ۔بصرہ، ۲ ۔دمشق، ۳ ۔آل عثمان

اس کے بعد اس نے کہاامام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے وقت کیا پڑھا جائے ، تو امام علیہ السلام کی زیارت کے آداب بیان کئے اور پھر جو زیارت تعلیم فرمائی اس کے چند جملے ملاحظہ ہوں جو ہمارے سابقہ بیان کی تائید میں ہیں یہ زیارت صحیحہ ہے اس میں جو خطاب ایک امام علیہ السلام کو ہے تو یہ سب کے لئے ہے اور آج یہی خطاب امام زمانہ علیہ السلام کے لئے ہے۔اس زیارت میں زائر اس طرح اپنے امام علیہ السلام سے مخاطب ہوتاہے۔

جو شخص خدا تک جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس نے آپ سے ہی آغاز کرنا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے معیار پر جھوٹ کو واضح کرتا ہے آپ کے وسیلہ سے زمانہ کی چیرہ دستیوں کو دور فرماتاہے، اللہ تعالیٰ نے آپ سے (کائنات کا)آغاز کیا اور آپ ہی پر(کائنات ) کا اختتام کرے گا۔یعنی کائنات کا آغاز آپ سے اور کائنات کا اختتام آپ پر ہے، اللہ آپ کے معیار پر جس فیصلہ کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس فیصلہ کو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہماری گردنوں میں پڑے ہوئے ذلت و رسوائی کے طوق کو دور فرمائے گا اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ ہر مومن کے خون ناحق کا بدلہ چکائے گا آپ کے وجود کی برکت ہے کہ زمین درختوں کو نکالتی ہے اور پھلوں کو دیتی ہے، آپ ہی تو سبب ہیں کہ آسمان بارش برساتا ہے اور اپنے قطرات باران کو زمین پر گراتا ہے اور روزی کا وسیلہ فراہم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کرب اور پریشانی کو آپ کے توسط سے دور فرماتا ہے اور اللہ آپ کی موجودگی کی وجہ سے بارش دیتا ہے آپ زمین پر موجود ہیں کہ زمین اللہ کی تسبیح کرتی ہے وہ زمین جس نے آپ کے اجسام کو اٹھا رکھا ہے اور زمین پر موجود پہاڑ اپنی جگہ پر آپ کی وجہ سے قائم ہیں اور برقرار ہیں اللہ تعالیٰ کا تمام معاملات میں فیصلہ اور ارادہ آپ کے پاس پہنچتا ہے اور پھر آپ کے گھروں سے نافذ ہونے کے لئے جاتاہے بندگان کے متعلق جو بھی فیصلہ جات ہوئے سب آپ کے دروازہ سے ہو کر جاتے ہیں۔

(مفاتیح الجنان، باب زیارات، کامل الزیارات)

اس زیارت کے جملے بہت ہی واضح اور روشن ہیں جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت میں ہونے کے باوجود آپ کے جو فوائد اس پوری مخلوق کو مل رہے ہیں اس کو بیان کر رہے ہیں اس سے بڑا واضح بیان تکوینی اثرات جو امام علیہ السلام کے غیبت میں ہونے کے باوجود حاصل ہیں اور کوئی نہیں ہو سکتا، خداوند ہمیں ان باریک، دقیق، اسرار و رموز پر یقین کامل اور ایمان لانے کی توفیق دے۔(آمین)

مصنف کا بیان ہے: اس قسم کے مضامین پر مشتمل روایات کثرت سے موجود ہیں جو واضح کر رہی ہیں کہ کرہ ارض پر حیات اور اس کا استقرار و اثبات، اس کی بقاءاور اس زمین کے سارے ثمرات تو اس پر رہنے والی مخلوقات کو مل رہے ہیں سب کے سب امام مہدی علیہ السلام کے مبارک وجود سے ہیں ، یہ اثراور فائدہ جو تکوینی امور سے مربوط ہے اس کا انکار کوئی صاحب ایمان نہیں کر سکتا اور ان مضامین کی دلالت اپنے معانی پر واضح ہے اور اس میں کوئی تاویل بھی نہیں ہو سکتی۔

دوسرا فائدہ اور اثر:آسمان سے بارش کا اترنا

حضرت امام علی ہادی نقی علیہ السلام سے جو زیارت جامعة روایت ہوئی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے….آئمہ  علیھم السلام کے وسیلہ سے آسمان بارش برساتاہے“۔

یعنی آپ اہل البیت علیہم السلام کے لئے اللہ کے ہاں یہ مقام و شان ہے کہ آسمان سے بارشیں آپ کی وجہ سے برستی ہیں۔حضرت ابوجعفر باقر علیہ السلام سے روایت ہے، ہم اس کے لئے سراج(چراغ) ہیں جو ہمارے ذریعہ روشنی لینا چاہے، ہم ہی راستہ ہیں جو ہمارے ذریعہ طے کرنا چاہے، ہم ہی وہ ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ رحمت اتارتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اتارنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہمیں قرار دیتاہے،ہمارے وسیلہ سے سب کو بارش سے سیراب کیا جاتاہے، ہم ہی تو وہ ہیں جن کی وجہ سے تم سے عذاب کوہٹالیا گیاہے۔

(روایت کمال الدین ص ۹۵۲،۰۶۲ ص ۵ اوردوسری الکافی ج ۴ ص ۶۷۵ حدیث ۲)

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

” اے علی علیہ السلام! آئمہ علیہ السلام تیری اولادسے ہیں میری امت کو ان کے وسیلہ سے بارش ملے گی اور ان کے توسل سے دعا قبول کی جائے گی اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے مصائب کو لوگوں سے دور کرے گا اور ان کے وسیلہ سے آسمان سے رحمت اترے گی اور آپ نے امام حسن علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: یہ ان آئمہ میں پہلا ہے اور حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کر کے فرمایا: باقی آئمہ علیہ السلام ان کی اولادسے ہوں گے(حسین علیہ السلام دوسرے امام علیہ السلام ہیں اور باقی نو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہیں)”۔

(فرائد السمطین ج ۲ ص ۴۵۲ حدیث ۳۳۵ ،تفسیر البرہان ج ۴ ص ۰۸ حدیث ۸۱)

الاصبغ بن نباتہ کہتے ہیں  ایک دن ہمارے پاس حضرت امیرالمومنین علیہ السلام باہر تشریف لائے آپ علیہ السلام کا ہاتھ اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلامکے ہاتھ میں تھا ، آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ تشریف لائے اور آپ نے فرمایا:

”اور ان کے وسیلہ سے اللہ کے بندگان کو روزی دی جائے گی اور ان کی وجہ سے آسمان سے بارش کے قطرات گریں گے، یہ ہیں میرے اصفیائ، یہ ہیں میرے خلفائ، اور یہ سب مسلمانوں کے آئمہ علیہ السلام ہیں اور یہ ہیں مومنوں کے رہبران“(آپنے یہ جملے حضرت علی علیہ السلام ، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ سے نو آئمہ علیہ السلام اور اپنی بیٹی حضرت سیدة نساءالعالمین سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہا کے لئے فرمائے جو کہ اہل بیت علیہ السلام ہیں اللہ کے نمائندگان ہیں اللہ کی زمین پراللہ اور اللہ کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں”….مترجم)

(کمال الدین ص ۹۵۲،۰۶۲ حدیث ۵)

تیسرا فائدہ:زمین سے سبزیوں،پھلوں اور اناج کا اگنا

زیارت جامعہ میں یہ جملہ موجود ہے

”اے اہل البیت علیہم السلام آپ کے ذریعہ زمین اگاتی ہے….یعنی زمین سے جو کچھ اگتا ہے اس کا ذریعہ آپ علیہ السلام ہی ہیں”۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث ہے:

”آپ کے وسیلہ سے زمین درخت نکالتی ہے، آپ کے وسیلہ سے زمین اپنے ثمرات اور پھل دیتی ہے،آپ کے ذریعہ سے آسمان پانی برساتاہے اور آسمان روزی کے اسباب کو مہیا کرتا ہے، آپ علیہ السلام کے وسیلہ سے بارش اترتی ہے۔“

(کامل الزیارات ص ۰۰۲ باب ۹۷)

اصبح بن نباتہ کی اوپر بیان کی ہوئی حدیث میں یہ جملہ بھی موجود ہے

”ان کے وسیلہ سے زمین اپنی برکات باہر نکالے گی“زمین سے جو بھی برکات انسانوں کو حاصل ہیں وہ آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی وجہ سے ہیں”۔

(الکافی ج ۴ ص ۶۷۵ حدیث ۲)

چوتھا فائدہ:آپ علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں

آپ علیہ السلام نے خود یہ بیان فرمادیا ہے کہ آپ علیہ السلام کا وجود زمین پر سب رہنے والوں کے لئے امان ہے آپ علیہ السلام نے کسی خاص گروہ کو معین نہیں فرمایا اور نہ ہی کسی جگہ کو خاص کیا گیا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ ساری زمین کے واسطے اور زمین پر سب رہنے والوں کے لئے رحمت ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

” کُلًّا تُمِدُّ هٰٓو لَآئِ وَهٰٓو لَآئِ مِن عَطَاء رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاء رَبِّکَ محظُورًا  “

(سورہ الاسراءآیت ۰۲)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

”اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بندگان پر اپنی آنکھ قرار دیا ہے اور اپنے بندوں پر رحمت اور مہربانیوں سے بھرا ہوا سخاوت وجود کا ہاتھ قرار دیاہے“۔

(التوحیدص ۱۵۱ باب ۲۱ حدیث ۵)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

”ہم وہ ہیں جن کے توسط سے رحمت اترتی ہے اور ہم ہی وہ ہیں جن کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ تم سے عذاب کو ٹال دیتاہے“۔

(تفسیرالبرہان ج ۴ ص ۰۸ ذیل ۷۱)

امان سے متعلق احادیث

توقیع الشریف جو محمد بن عثمان کے واسطہ سے روایت ہوئی ہے، امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے اس تحریر میں بیان فرمایا ہے:

”بہرحال میری غیبت میں مجھ سے فائدہ اور منفعت اٹھاناایسے ہے جس طرح سورج جب بادلوں کی اوٹ میں چلا جاتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بے شک میں حتمی طور پر زمین والوں کے لئے اسی طرح امان ہوں جس طرح سفارت آسمان والوں کے لئے امان ہیں”۔

(الاحتجاج ص ۳۶۲ ، کمال الدین ج ۲ ص ۵۸۴ باب ۵۴ توقیعات کے ذکر میں حدیث ۴)

اس حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ :

"آپ زمین والوں کے لئے ان خطرات سے امان ہیں جو زمین پر رہنے والوں کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتے ہیں اسی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین پر بسنے والوں کے لئے جو بھی کوئی بڑا اورہولناک خطرہ بن سکتا ہو جس سے ان کی حیات و زندگی کا چراغ بجھ جائے تو میں اس خطرہ کے لئے امان ہوں”۔

خحاکم نے اپنی مستدرک میں اس حدیث کو بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے کہ ابن عباس نے نبی اکرم سے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

”ستارے زمین والوں کے لئے امان ہیں اسی طرح کہ انہیں غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں کہ انہیں اختلاف اور انتشار سے بچاتے ہیں، اگر عربوں کے قبیلہ نے جس وقت بھی ان کی مخالفت کی تو وہ انتشار کا شکار ہوں گے اور ابلیس کی جماعت سے بن جائیں گے”۔

(مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۹۴۱ ، مناقب اہل بیت علیہ السلام من کتاب المعرفة، کنزالعمال ج ۲۱ ص ۲۰۱ حدیث ۹۸۱۴۳)

خحاکم نے محمد بن المتکدر سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے نبی اکرم سے قیامت کے بارے حدیث کے ضمن میں اسے نقل کیا ہے….پھر رسول اللہ نے اپنا سرمبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا:

”ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں اگر آسمان سے ستارے محو ہو جائیں تو وہ گھڑی آجائے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے (قیامت) اور میں اپنے اصحاب کے لئے امان ہوں جب میں ان کے درمیان سے اٹھ جاوں گا تو ان پر وہ کچھ آئے گا جس کا انہیں وعدہ دیا گیا ہے اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں تو جب میرے اہل بیت علیہ السلام چلے گئے اورموجود نہ رہے تو میری امت پر وہ کچھ آئے گا جس کا وعدہ دیا گیا ہے”۔

(مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۷۵۴ ، مناقب المنکدر کے ذکر میں نوادرالاصول نے اختصارج ۳ ص ۶۶ ، الاصل ۲۲۲)

الطبرانی نے ایاس بن سلمہ سے اور اس نے اپنے باپ سے اس نے نبی اکرم سے یہ بیان نقل کیا ہے ستاروں کو آسمان والوں کے لئے امان قرار دیا گیا ہے اور میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں۔

(المعجم الکبری ج ۷ ص ۲۲ حدیث ۰۶۲۶ ، ایاس کے حالات زندگی میں، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۴۷۱ ، البضیہ ج ۹ ص ۷۷۲ ، حدیث ۵۲۰۵۱)

حضرت علی علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں جب ستارے چلے جائیں گے تو پھر آسمان والے نہ رہیں گے، میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں اور جب میرے اہل بیت علیہ السلام نہ رہیں گے تو پھر زمین والے بھی نہ رہیں گے، اس حدیث کو حاکم اور احمد نے المناقب میں، الدیلمی نے الفردوس میں اور قرشی نے بھی اسے نقل کیا اور اس میں یہ جملہ پڑھایا ہے اور بربادی ہے پھٹکار ہے ان کے واسطے جنہوں نے اہل البیت علیہ السلام کو چھوڑ دیا اوران سے دشمنی کی ہے“۔

(فضائل الصحابہ احمد کی ج ۲ ص ۱۷۶ ، حدیث ۵۴۱۱ ، مستدرک ج ۲ ص ۸۴۴ ، سورہ ….کی تفسیر میں الفردوس ج ۴ ص ۱۱۳ حدیث ۳۱۹۶ ، کنوز الحقائق ج ۲ ص ۰۴۲ ص ۷۱۲۸ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۴۷۱ ، البغیہ ص ۷۷۲ حدیث ۵۲۰۵۱ ، دررقرشی کی مسند شمس الاخیار ج ۱ ص ۷۲۱ ، باب ۴۱)

ابن المظفر نے انس سے اس نے نبی اکرم سے اس حدیث کو نقل کیا ہے:

"ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں اور اگر میرے اہل بیت علیہ السلام زمین پر نہ رہے تو پھر زمین والوں کے لئے وہ سب نشانیاں آجائیں گی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیاہے”۔

(جواہرالقعدین ص ۰۵۲ باب خامس)

ابوسعیدالحذری نے بتایا کہ رسول اللہ نے فرمایا:

”میرے اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کےلئے امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کےلئے امان ہیں“۔

(کتابۃ الاثرص ۹۲)

سوال کیا گیا یا رسول اللہ!کیا آپ کے بعد آئمہ علیہ السلام آپ کے اہل بیت علیہم السلام سے ہوں گے؟تو آپ نے فرمایا:

"جی ہاں!میرے بعد آئمہ علیہ السلام بارہ ہیں جو حسین علیہ السلام کی صلب سے ہیں وہ سب امانتدار ہیں معصوم علیہ السلام ہیں ہم ہی سے اس امت کے مہدی ہیں آگاہ رہو کہ یہ سب میرے اہل بیت علیہ السلام اور میری عترت ہیں“۔

(کفایۃ الاثر، ص ۹۲)

حضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنی بیعت کی تقریب کے بعد جو خطاب فرمایا اس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”ہم مسلمانوں کے امام علیہ السلام ہیں اور تمام جہانوں پر اللہ کے صحیح(نمائندگان)ہیں، ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں، ہمارے وسیلہ سے بارش برستی ہے، ہمارے ذریعہ رحمت پھیلائی جاتی ہے، ہمارے ذریعہ سے زمین کی برکات حاصل ہوتی ہیں، اگر ہم میں سے کوئی بھی زمین پر نہ ہو تو زمین تباہ ہو جائے گی،ویران ہو جائے گی، آبادی کا خاتمہ ہو جائے گی”۔

(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق ۳۷) ثقة الصادی کے ص ۵ طبع مصر میں یہ اشعار دیئے ہیں۔

هم الراقدون فی اوج الکمال

هم اهل المعارف والمعالی

” وہ تو کمال کی بلندیوں پر ٹھہرے ہیں، وہ معارف والے اور بلند مرتبت ہیں”۔

هم سفن النجاة اذا ترامت

باهل الارض امواج الضلال

"جب زمین والوں کو گمراہی کی تندوتیزلہریں اپنے گھیرے میں لے لیں تو اس وقت نجات کی کشتیاں آپ علیہ السلام ہی ہیں”۔

امان الارض من غرق وجعت

وحصن الملة الصعب المنال

"زمین کو غرق ہونے اور تباہ ہونے سے امان دینے والے ہیں اور اس مشکل گھری امت کے لئے سہارا اور دفاعی قلعہ ہیں”۔

حدیث امان سے مراد اور مقصود

السیدالمسھودی نے ان احادیث کوذکر کرنے کے بعد یہ لکھا ہے اس جگہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام جو امت کے لئے امان ہیں اس سے مراد اہل بیت علیہ السلام سے جو علماءہیں وہ مراد ہیں کہ جن کے وسیلہ سے ہدایت اور رہنمائی لی جاتی ہے جیسا کہ آسمان کے ستاروں سے راہنمائی لی جاتی ہے اور یہ ذوات اگر زمین پر موجود نہ ہوں تو زمین والوں کے وہ ساری نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی جن سے ان کو ڈرایا گیا ہے اور زمین والے سب ختم ہو جائیں گے اور یہ اس وقت ہو گا جب حضرت مہدی علیہ السلام کی موت واقع ہو گی جس کے بارے نبی اکرم نے اطلاع دی ہے۔

(جواہرالعقدین ص ۲۶۲ باب خامس)

ان روایات کے ذکر کرنے سے یہ فائدہ کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بعد زمین میں کوئی خیر نہیں ہے۔

المسھودی اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتاہے:

”اس بات کا احتمال موجود ہے اور میرے نزدیک زیادہ بات یہی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اہل البیت علیہ السلام امت کے لئے امان ہیں تو مطلق امان ہیں کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اس کے تمام لوازمات سمیت نبی اکرم کی خاطر خلق فرمایا ہے تو اس دنیا کے دوام کو اس کے دوام کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور آپ کے اہل البیت علیہ السلام کیونکہ خود آپ سے ہیں اس لئے اہل البیت علیہ السلام کے دوام سے دنیا کا دوام ہے۔ جب تک اہل البیت علیہم السلام ہیں دنیا باقی ہے جب وہ نہ رہے تو پھر دنیا موجود نہ رہے گی اور اس کی ساری بساط کو الٹ دیا جائے گا شاید اس بات کا راز اور حکمت و فلسفہ بھی یہی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اہل البیت علیہم السلام کو بہت سارے امور میں نبی اکرم کے مساوی قرار دیا ہے”۔

فخررازی نے وہ امور پانچ شمار کئے ہیں جیسا کہ ذکرنمبر ۳ میں بیان ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

”وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم وَ اَنتَ فِی ھِم “

(سورہ الانفال آیت ۳۳)

ایسا تو بالکل نہیں ہو سکتا کہ جب تم ان میں موجود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے دے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اہل بیت علیہ السلام کے وجود کو امت میں نبی کے وجود کا تسلسل قرار دیا ہے اور انہیں ان کے لئے امان قرار دیا ہے یہ اس فرمان کی روشنی میں ہے جو پہلے بیان ہو چکا کہ نبی اکرم نے فرمایا: ”اے اللہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“ اس بات کو اس سے مزید تقویت ملتی ہے کہ جناب فاطمہ علیہ السلام نبی اکرم کی نصف ہیں، ان کا ٹکڑا ہیں، انکا حصہ ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد نبی کے اس حصہ کی اولاد ہے جسے نبی نے اپنا ٹکڑا قرار دیا ہے تاکہ آپ کی اولاد بالواسطہ نبی اکرم کا حصہ ہوں گے اسی طرح ان کے باپ کی اولاد ہو گی اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھے گاپس ہرزمانہ میں جو بھی ان میں سے ہو گاوہ بالواسطہ رسول اللہ کا حصہ ہو گا پس ان کے وجود کو امت کے لئے امان ہونے میں نبی اکرم کے وجود کا قائمقام قرار دیا گیاہے۔

(شیخ رفاعی کی بھی مفیدگفتگو اس بارے موجود ہے کہ اہل بیت علیہ السلام امت کے لئے امان ہیں دیکھیں(ضوءالشمس ج ۱ ص ۲۲۱) السمہودی کی کلام ختم ہو گئی۔

(جواہرالعقدین ص ۲۶۲ ، ۳۶۲ باب خامس)

صاحب الذخائرالمجمدیہ والے نے اہل بیت علیہ السلام کے خصائص کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے آثار کو زمین میں عالم کی بقاءاور اس کی حفاظت کاذریعہ قراردیا ہے جب ان کے ارشاد موجود رہیں گے یہ عالم باقی رہے گا جب ان کے آثار ختم ہو جائیں گے تو یہ دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔

(الذخائرالمحمدیہ ص ۳۴۳ ، خصائص اہل بیت علیہ السلام)

الحکم الترمذی نے امان والی حدیث کے بعد کہا ہے کہ ان کی ستاروں کے ساتھ شباہت اس حوالے سے ہے کہ ان کے ذریعہ ہی اطاعت و اقتداءکی جا سکتی ہے اور وہ اصھاب سے بھی ان کی تعداد کم ہے ستاروں کی طرح کیونکہ وہی بصیرت والے ہیں ان کے لئے اجتہاد بھی جائز ہے یقین اور بصیرت رکھنے کی وجہ سے وہ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے نبی اکرم کا یہ فرمان:

”میرے اہل بیت علیہ السلام میری امت کے لئے امان ہیں“۔

تو آپ علیہ السلام کے اہل بیت علیہ السلام آپ علیہ السلام کے بعد آپ کے طریقہ اور سنت پر ہیں وہی صدیقین ہیں وہی ابدال ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے روایت کی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابدال شام میں ہوں گے اور ان کی تعداد چالیس ہے سب مرد ہیں، جب ان میں ایک مرے گا تو اس کی جگہ دوسرا لے لے گا اللہ اس کے بدلے میں اور کو قرار دے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ابدال کے ذریعہ بارش برساتا ہے ان کے ذریعہ دشمنوں پر مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور ان کی وجہ سے زمین والوں سے مصائب کو ٹالتاہے۔

(الحدیث اومافی معقاہ فی الحاوی للفتادی ج ۲ ص ۶۲۴،۸۴۴ ۔ ۰۳۴)

پس یہ اہل بیت علیہ السلام رسول اللہ ہیں اس امت کے لئے امان ہیں، اگر یہ مر گئے تو زمین فاسد ہو جائے گی دنیا ویران ہو جائے گی۔

(نوادرالاصول ص ۳۶۲ ، الاصل ۲۲۲)

ابن حجر نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ:

 ”وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم وَ اَنتَ فِی ھِم “

کے ذیل میں بیان کیا ہے۔حضرت نبی اکرم نے اس معنی کا اشارہ اہل بیت علیہ السلام کے وجود میں بھی دیا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام زمین والوں کے لئے امان ہیں جس طرح خود رسول اللہ زمین والوں کے لئے امان تھے، اس مضمون کی بہت ساری اور احادیث بھی موجود ہیں جو اس کتاب میں آئیں گی۔

(الصواعق المحرقہ ص ۲۵۱ طبع مصر ص ۳۳۲ ، طبع بیروت نمبر ۷ ، المشرع الروی ج ۱ ص ۷)

(از مترجم)”یہ سب روایات اہل سنت کے علماءسے لی گئی ہیں جب یہ طے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل بیت علیہ السلام سے ہیں تو اس زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام ہی زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آپ نے خود اپنی تحریر میں بیان فرما دیا جیسا کہ گذر چکا ، اس ساری بحث سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک مسلمان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی زندگی کی رونقیں امام مہدی علیہ السلام کے وجود سے ہیں، اسے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے اپنا کردارادا کرناچاہیے“۔

پانچواں فائدہ: امام مہدی علیہ السلام فیض الٰہی کاواسطہ ہیں

دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں

”اے اللہ! ہماری نماز کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وسیلہ سے قبول کر لے، ہمارے گناہوں کو ان کے صدقہ سے معاف کر دے، ہماری دعا کو ان کے وسیلہ سے قبول فرمالے ہماری روزیاں ان کی خاطر وسیع کر دے، ان کے توسط سے ہماری پریشانیوں کو دور کر دے اور ہماری حاجات کو ان کے ذریعہ پورا کردے”۔

بحارالانوار میں ابومحمد حسن العسکری علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا:

"جس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے اس امت کے مہدی کو عطا کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو بھیجا تو وہ دونوں مہدی کو ”سرادق عرش‘ میں لے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضورمیں انہیں پہنچا دیا۔تو اللہ تعالیٰ نے مہدی علیہ السلام سے اسی طرح خطاب فرمایا:میرے عبد، میرے بندے مرحبا، میرے دین کی نصرت کی خاطر، میرے امر کو غلبہ دینے کی خاطر اور میرے بندگان کو ہدایت دینے کی خاطر میں نے قسم اٹھا لی ہے کہ میں تیرے ذریعہ ہی ان کے اعمال کووصول کروں گا اور تیرے ذریعہ سے جو کچھ دینا ہے دنیا کو دوں گا تیری وجہ سے معافی دوں گا اور تیری وجہ سے عذاب دوں گا”۔

(بحارالانوار ج ۱۵ ص ۷۲ باب ۱ ، ذیل ۷۳)

حضرت ابوعبداللہ جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے:

”جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے رسول اللہ کے لئے بھیج دیتا ہے پھر وہ فیصلہ امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اسی طرح ایک کے بعد دوسرے امام علیہ السلام کے پاس جاتا ہے یہاں تک کہ وہ الٰہی ارادہ اور فیصلہ امام مہدی علیہ السلام کے پاس آجاتا ہے اور پھر امام مہدی علیہ السلام سے وہ دنیا میں نافذ ہونے کے لئے چلا جاتاہے اور جس وقت فرشتے کوئی عمل اللہ عزوجل کی خدمت میں لے جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے صاحب الزمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں پھر ایک کے بعد دوسرے امام علیہ السلام کے پاس وہ عمل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ عمل رسول اللہ کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے اور پھر وہاں سے ہو کر وہ عمل اللہ کے پاس جاتا ہے ، بس اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ بھی اترتا ہے تو اس کے ہاتھوں پر اترتا ہے اور پھر آگے جاتا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس جاتا ہے تو وہ ان کے ہاتھوں سے ہو کر جاتا ہے اور وہ سب ایک آن کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہیں۔(یعنی ہر لمحہ ہر آن وہ اللہ سے رابطہ میں ہیں اور اللہ کے محتاج ہیں اللہ سے کسی بھی حال میں مثتثنیٰ نہیں ہیں)پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی بے نیازی اللہ سے نہیں”۔

غیبۃ الطوسی ص ۸۸۳ ، النجم الثاقب ص ۹۸۴)

حضرت رسول اللہ سے ایک طولانی حدیث میں یہ بات آئی ہے:

”ہم اللہ کا یمین(دایاں ہاتھ)ہیں ہم اللہ کے اعضاءہیں….جو ہمارے اوپر ایمان لے آیا وہ اللہ پر ایمان لے آیاجس نے ہماری بات ٹھکرا دی تو اس نے اللہ کی بات کو ٹھکرا دیا جس نے ہمارے بارے شک کیا تو اس نے اللہ کے بارے شک کیا، جس نے ہمیں پہچان لیا تو اس نے اللہ کو پہچان لیا جس نے ہماری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ہم اللہ تک جانے کا وسیلہ ہیں، ہم اللہ کے رضوان سے جوڑنے کا ذریعہ ہیں، ہمارے لئے عصمت، خلافت اور ہدایت ہے”۔

(بحارالانوار ج ۵۲ ، ص ۲۲،۳۲ ، باب بدءخلقھم ص ۳۸)

دعاءندبہ میں امام زمانہ علیہ السلام سے خطاب ہے :

”وہ باب اللہ کہاں ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ کے پاس آیا جاتا ہے وہ سبب متصل کہاں ہیں جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے”۔

(بحارالانوارج ۲۰۱ ص ۴۰۱)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

"ہم تمہارے اور اللہ کے درمیان سبب و ذریعہ اور واسطہ ہیں“۔

(بشارة المصطفیٰ ص ۰۹)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث روایت ہے:

” جس میں آل علیہ السلام محمد کی توصیف بیان کی گئی ہے، اورہم وجود کی علت ہیں، ہم معبود کی حجت ہیں جو شخص ہمارے حق سے جاہل رہا اللہ اس کا کوئی عمل بھی قبول نہیں فرماتا“۔

(بحارالانوارج ۶۲ ، ص ۹۵۲ حدیث ۶۳)

حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

”ہم اللہ کی حجت ہیں ہم اللہ تک جانے کا دروازہ ہیں، ہم اللہ کے ترجمان زبان ہیں، ہم اللہ کی پہچان کا چہرہ ہیں، ہم اللہ کی مخلوق میں اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہیں، ہم اللہ کے بندگان میں اللہ کے والیان امر ہیں”۔

 پھر آپ نے راوی سے مخاطب ہو کر فرمایا:

"اے اسودبن سعید!ہمارے اور ہر زمین کے درمیان ایک تعلق اور رابطہ کی زنجیر موجود ہے جس طرح ایک بلڈنگ کی بنیاد سے لے کر اس کے اختتام تک ایک مسلسل جوڑ، ربط اور اتصال ہوتاہے، جس وقت ہم کو کسی بات کا امر ہوتا ہے اور ہم نے کسی زمین پراسے لاگو کرنا ہوتا ہے تو ہم نے اس رابطہ والی لائن کو اپنی جانب کھینچنا ہوتا ہے اسی طرح وہ زمین اپنے اہل سمیت، بازاروں سمیت، گھروں سمیت ہماری طرف آ جاتی ہے اور ہم اس میں اپنا امر اور فیصلہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہوتا ہے جاری کر دیتے ہیں”۔

(بحارالانوار ج ۵۲ ص ۴۸۳ ، باب غرائب افعالھم حدیث ۰۴ ، بصائرالدرجات ص ۱۶ اختصار کے ساتھ)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

”بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے تحت ایک مخلوق کو خلق فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو اپنے نور اور اپنی رحمت سے خلق فرمایا ہے اور اس مخلوق کو اپنی رحمت کے لئے خلق فرمایا ہے پس وہ مخلوق اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہیں اور اس کے سننے والے کان ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر اس امر پر امناءہیں جو اللہ تعالیٰ نے حجت کے طور ، ڈرانے کے لئے عذر خواہی کے حوالے سے جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس پر وہ امناءہیں، اللہ کی مخلوق میں حجت ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ برائیوں کو مٹاتا ہے اور ان کے توسط سے ظلم کو دور کرتا ہے، ان کے وسیلہ سے رحمت کو اتارتا ہے ان کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندوں کو مارتا ہے، ان کے ذریعہ سے اپنی مخلوق کی آزمائش کرتا ہے اور ان کے وسیلہ سے اپنے مخلوق میں فیصلے فرماتا ہے”۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا! میں آپ پر قربان جاوں وہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا وہ اوصیاءہیں۔

(التوحیدللصدوق ص ۷۶۱ باب ۴۲ ص ۱)

ازمترجم….مصنف نے ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد حکماءاور فلسفیوں کے بیانات سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ ذوات مقدسہ مخلوق اور اللہ کے درمیان واسطہ فی الفیض ہیں۔ میرے خیالات میں اتنی واضح روایات اور احادیث کو بیان کرنے کے بعد کسی فلسفی یا عقلی بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ان کے لئے لکھی جا رہی ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی کو اپنا فریضہ قرار دیتے ہیں، لہٰذا اس بحث کا ترجمہ نہیں کیا،اگرچہ مختصر تھی۔ اصل کتاب کے ص ۷۹ ،ص ۸۹ سے دیکھ سکتے ہیں۔

ابن عربی(عالم اہل سنت) کا بیان ہے، کائنات میں جو بھی رزق موجود ہے یہ سب بقیۃ اللہ کے ذریعہ سے ہے، اس بیان کے بعد اس نے اپنے طریقہ کے مطابق اس نظریہ کے اثبات پر دلائل دیئے ہیں۔

(دیکھئے الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۹۷)

چھٹافائدہ: محتاجوں پریشان حالوں کی مددکرنا

میری جان ان پر قربان جائے آپ پسے ہوئے طبقات پر، محروموں پر، کمزوروں پر بہت ہی مہربان ہیں آپ ان کی مدد ہیں جن کا کوئی مددگار نہیں روایت بیان ہوئی ہے کہ جس کو کوئی حاجت ہو تو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق

”جب کوئی شخص صحرا میں راستہ بھٹک جائے تو وہ اس اپنے امام علیہ السلام کو آواز دے“۔

”یا اباصالح ارشدتاعلی الطریق یرحمک الله تعالیٰ “

"اے اباصالح! ہمارے لئے راستہ کی نشاندہی کردیں اللہ آپ علیہ السلام پررحمت فرمائے“۔

(من لایحضرہ الفقیہ ج ۲ ص ۸۹۲ حدیث ۶۰۵۲ ، مکارم الاخلاق ص ۹۵۲ ، مجمع البحرین ج ۲ ص ۶۲۶ ، اللمقہ البضیاءص ۲۶۵)

یہ بات یاد رہے کہ خشکی پر ابوصالح مقرر ہے اور سمندروں پر حمزہ موکل ہیں۔

(الاداب الدینیہ ص ۰۰۱)

( شاید یہ دو نام امام زمانہ کے مراد لیے گئے ہوں کہ جب خشکیوں، صحراوں میں مسئلہ ہو تو ابوصالح پکاریں جب سمندروں میں مسئلہ ہو توحمزہ کہہ کرپکاریں….مترجم)

شیخ مفیدؒ کو جو آپ نے خط بھیجا اس میں یہ جملہ موجود ہے :

”انا غیرمهملین لمراعاتکم ولاناسین لذکرکم لولاذلک لنزل بکم اللاواءواصطلمکم الاعدائ “

"بتحقیق ہم نے تمہاری حفاظت کے معاملہ کو اسی طرح نہیں چھوڑ رکھا اور نہ ہی ہم نے تمہاری یاد کو بھلا دیا ہے اگر ایسا نہ ہو تو تمہارے اوپر تباہ کن مصائب آئیں گے اور دشمن تمہیں ختم کر دیں گے“۔

بہت سارے واقعات اور حالات کتب میں موجود ہیں جو حاجت مندوں نے آپ سے توسل کیا، پریشانی کے وقت آپ کو آواز دی تو اس کی حاجات پوری ہوئیں، پریشانیوں کا ازالہ ہوا، محدث نوری نے بہت سارے واقعات نقل کیے ہیں۔

(النجم الثاقب ج ۲ ص ۱۲۴ سے ۶۲۴ ، مکیال المکارم ج ۱ ص ۸۳،۹۳۱)

ان واقعات میں بحرین کے مومنوں کو استعماری ایجنٹوں اور کارندوں سے بچایا گیا۔

(النجم الثاقب)

عنیزہ قبیلہ نے جب کربلا کاراستہ زواروں پر بند کیا تو اسے زائرین کے لئے کھول دیاگیا۔

(مشخص الامال ج ۲ ص ۶۲۳)

صحرا اسود کو اس کی اپنی جگہ رکھنے کا واقعہ۔

(منتخب الاثر ص ۶۰۴ ،الخرائج والجرائح ص ۹۲)

مالی امداد کے واقعات بھی ہیں بیماروں کی شفایابی کے واقعات ہیں۔

(سابقہ حوالوں کے علاوہ، کشف الغمہ ج ۳ ص ۷۸۲)

ابن عربی نے اس جگہ بہت ہی علمی اور فلسفی بحث کی ہے اور اس میں یہ تالیف کیا ہے کہ کس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔

(الفتوحات المکیہ ج ۶ ص ۸۷ ،باب ۶۶۳)

ساتواں فائدہ: مجاہدوں کی مدد کرنا

حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہر اس کی مدد کو پہنچتے ہیں جو ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے، بہت سارے اسلامی خطوں میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی مدد کی گواہی موجود ہے، جمہوری اسلامی ایران میں مجاہدین کے لئے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی امدادبڑی روشن اور واضح ہے چاہے وہ انقلاب کے ابتدائی ایام ہوں یا صدام ملعون کی طرف سے مسلط کردہ جنگ ہو یا اس کے بعد والے امام ہوں۔

اسی طرح لبنان میں مجاہدین کے لئے آپ علیہ السلامکی مدد کسی پر مخفی نہیں چاہے اسلامی مزاحمتی تحریک کا ابتدائی زمانہ ہو یا اس کے بعد کا زمانہ ہو، یہ جنگ جس میں حزب اللہ کے مجاہدین داخل ہوئے جو ایک اسطورہ اور خیالی کہانی لگتی ہے ۶۰۰۲ ءمیں یہ تو ایک ایسا امر ہے جسے دنیا کا کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا غیبی امداد کی انکار ناممکن ہے کہ چالیس ہزار مسلح افواج کا لشکر بے کراں تھا، ٹینکوں، توپخانہ، جنگی جہازوں اور ایسا اسلحہ جسے کسی نے اس سے پہلے دیکھا تک نہ تھا چوبیس گھنٹے مجاہدین کے اوپر دشمن کے جنگی طیارے پرواز کر رہے تھے اور بمباری میں مصروف تھے جب کہ مجاہدین کی تعداد ۰۰۵۱ سے زیادہ نہ تھی اور ان کے پاس درمیانہ درجہ کے ہتھیار تھے۔

جو مجاہدین بالفعل میدان میں لڑ رہے تھے انہوں نے جو واقعات اور حکایات بیان کی ہیں اور جو آپ بیتی ہر ایک مجاہد نے سنائی ہے وہ سب غیبی امداد پر دلیل ہے۔

اسی طرح جو کچھ دشمن کے سپاہیوں، عسکری کمانڈروں نے واقعات اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بیان کیے ہیں کہ جنگ کے دوران انہوں نے سفید لباس والے سپاہی، سفید گھوڑوں پر سوار افراد، تلواریں اٹھائے ہوئے دیکھے ہیں، تلوار سے ایک کمانڈر نے اپنا کٹا ہوا ہاتھ بھی ٹیلی ویژن کی سکرین پر انٹرویو کے دوران دکھایا یہ سب کچھ غیبی امداد کی نشانیاں ہیں یہ سب واقعات و حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ اس جنگ میں غیبی ہاتھ مجاہدین کے سرپر موجود تھا اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خصوصی عنایات شامل تھیں جس وجہ سے مجاہدین کو حیرت انگیز کامیابی ہوئی اسرائیل کو ایسی شکست ہوئی کہ جس سے اس کا وجود خطرہ میں پڑچکاہے۔

”والحمدللہ ولہ اشکرعلی انعمہ“۔

آٹھواں فائدہ: امام زمانہ علیہ السلام عجل اللہ فرجہ الشریف ہمارے ولی نعمت ہیں

اور ہمارے رزق کے ولی بھی ہیں

زیارت جامعہ میں ہے:

"وقادة الامم واولیاءالنعم وعناصرالابرار “

(بحارالانوار ج ۷۹ ص ۴۷۱)

"سلام ہو آپ پر اے اقوام کی قیادت کرنے والے رہبروں اور اے نعمتوں کے اولیاءاور وارثان، اے ابرار، نیکوکاروں کے لئے بنیادون،عناصر“

دعاءندبہ میں ہے

” اے اللہ!ہماری روزیوں کو ان کے وسیلہ سے وسیع کر دے، پھیلا دے، ان کے ذریعہ ہماری پریشانیوں کو ٹال دے، ان کے وسیلہ سے ہماری حاجت کو پورا کردے“۔

الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے بیان نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا

”ہم اللہ تعالیٰ تک لیجانے کا دروازہ ہیں، ہم اللہ کے آسمانوں میں خزانہ دار ہیں، اللہ کی زمین میں اللہ کے خزانہ دار ہیں، ہمارے ذریعہ سے درختوں کو پھل لگتے ہیں اور پھل پکتے ہیں، دریا بہتے ہیں، آسمان سے پانی برستا ہے، زمین گھاس اگاتی ہے، ہماری عبادت کے ذریعہ اللہ کی عبادت ہوئی یعنی لوگوں نے ہماری عبادت کودیکھ کر سیکھا اور اللہ کی عبادت کی، اگر ہم موجود نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی ہے”۔

(الکافی ج ۱ ص ۴۴۱ ، باب النوادر حدیث ۵)

الخرائج میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

”اے داود ! اگر ہم موجود نہ ہوتے تو دریاوں کو نہ بہایا جاتا،پھلوں کو نہ پکایا جاتا، اور درختوں پر سبزہ نہ ہوتا“۔

(مکیال المکارم ج ۱ حدیث ص ۱۴ حدیث ۷۳)

الکافی میں حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام کی طرف سے حدیث کو نسبت دی ہے کہ آپ نے بیان کیا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور دنیا کا ایک ٹکڑا اس کے لئے مخصوص کردیا، جو آدم علیہ السلام کے لئے ہے وہ سب کچھ رسول اللہ کے لئے ہے اور جو رسول اللہ کے لئے ہے وہ آل محمد علیہم السلام سے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے لئے ہے”۔

(الکافی ج ۱ ص ۹۰۴ ، باب ان الارض کلھا للامام حدیث ۷)

حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ

” دنیا کا آخری دور اور جو کچھ دنیا میں موجود ہے اس کا آخری مرحلہ، اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اللہ کے رسول کے لئے ہے اور ہمارے لئے مخصوص ہے، پس جو کوئی دنیا سے کچھ پالیتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اپنے بھائیوں پر احسان کرے، ان سے نیکی کرے اور جو دنیا سے حاصل شدہ مال دنیا میں حاصل ہونے والے اختیارات کا استعمال اس طرح نہ کرے گا تو ہم ان سے بری اور بیزار ہیں، وہ ہم سے دور ہے”۔

(الکافی ج ۱ ص ۸۰۴ حدیث ۲)

دارالسلام میں کتاب بصائرالدرجات سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ:

امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:

"اے اباحمزہ تم طلوع آفتاب سے پہلے ہرگز نہ سویا کرو، کیونکہ اس وقت میں سونے کو میں تیرے لئے پسند نہیں کرتا ہوں، تمہیں اللہ تعالیٰ اس وقت میں رزق اور روزی تقسیم فرماتا ہے اور اس رزق کو ہمارے ہاتھوں سے جاری فرماتا ہے”۔

(مکیال المکارم ج ۱ ص ۲۴ حدیث ۴)

مکیال المکارم کی ج ۱ ص ۷۷۲ میں اشعار اس معنی میں ذکر کیے گئے ہیں جن کو یہاں پر لانے کی چنداں ضرورت نہ ہے۔

مذکورہ احادیث اور بیانات سے واضح ہو گیاکہ ہمارے ولی نعمت امام زمانہ علیہ السلام ہیں اور ہمارے رزق کا ذریعہ امام زمانہ علیہ السلام ہیں۔(مترجم)

تکوینی آثار بیان ہو چکے ان کی مزید تفصیل بھی دی جا سکتی ہے جو کچھ بیان ہو چکا یہ ایک غیرمتعصب کے لئے کافی ہے اور صاحب ایمان کے یقین کو بڑھانے کا وسیلہ یہ بیانات ہیں۔

(اقتباس از” حکومت مہدی علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف  تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں”)

مترجم علامہ سید افتخار حسین نقوی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button