سیرتسیرت امام حسن عسکریؑ

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کا المناک دن

(حصہ دوم)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اورخصوصیات مذہب
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کاارشادہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کاشمارہوگا جواصول وفروع اوردیگرلوزم کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل ہوں بلکہ ان پرعامل ہوں گے۔:
۱ ۔ شب وروزمیں ۵۱ رکعت نمازپڑھنا ۲ ۔سجدگاہ کربلاپرسجدہ کرنا۔ ۳ ۔ داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔ ۴ ۔اذان واقامت کے جملے دودومرتبہ کہنا۔ ۵ ۔ اذان واقامت میں حی علی خیرالعمل کہنا۔ 6 ۔ نمازمیں بسم اللہ بلندآوازسے پڑھنا۔ ۷ ۔ ہردوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔ ۸ ۔ آفتاب کی زردی سے پہلے نمازعصراورتاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔ ۹۔سراورڈاڑھی میں وسمہ کاخضاب کرنا۔ ۱۰ ۔ نمازمیت میں پانچ تکبرکہنا
دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۲
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے چند اقوال
۱ ۔ دوبہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پرایمان رکھے اورلوگوں کوفائدے پہنچائے۔
۲ ۔ اچھوں کودوست رکھنے میں ثواب ہے۔
۳ ۔ تواضع اورفروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرے توسلام کرے اورمجلس میں معمولی جگہ بیٹھے۔
۴ ۔بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔
۵ ۔پڑوسیوں کی نیکی کوچھپانا، اوربرائیوں کواچھالناہرشخص کے لیے کمرتوڑدینے والی مصیبت اوربے چارگی ہے۔
۶ ۔ یہی عبادت نہیں ہے کہ نماز،روزے کواداکرتارہے، بلکہ یہ بھی اہم عبادت ہے کہ خداکے بارے میں سوچ وبچارکرے۔
۷ ۔ وہ شخص بدترین ہے جودومونہااوردوزباناہو، جب دوست سامنے آئے تواپنی زبان سے خوش کردے اورجب وہ چلاجائے تو اسے کھاجانے کی تدبیرسوچے ،جب اسے کچھ ملے تویہ حسدکرے اورجب اس پرکوئی مصیبت آئے توقریب نہ پھٹکے۔ ۸
۔غصہ ہربرائی کی کنجی ہے.
۹ ۔ حسدکرنے اورکینہ رکھنے والے کوکبھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا۔
۱۰ ۔ پرہیزگاروہ ہے کہ جوشب کے وقت توقف وتدبرسے کام لے اورہرامرمیں محتاط رہے۔
۱۱ ۔ بہترین عبادت گزاروہ ہے جوفرائض اداکرتارہے۔
۱۲ ۔بہترین متقی اورزاہدوہ ہے جوگناہ مطلقا چھوڑدے۔
معتمدعباسی کی خلافت اورامام حسن عسکری علیہ السلام کی گرفتاری
۲۵۶ ہجری میں معتدعباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پرمتمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرزعمل کواختیارکرنا اورجدی کردارکوپیش کرناشروع کردیا اوردل سے اس کی سعی شروع کردی کہ آل محمدکے وجودسے زمین خالی ہوجائے، یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کاشکارہوگیاتھا لیکن پھربھی اپنے وظیفے اوراپنے مشن سے غافل نہیں رہا” اس نے حکم دیاکہ عہدحاضرمیں خاندان رسالت کی یادگار،امام حسن عسکری کوقیدکردیاجائے اورانہیں قیدمیں کسی قسم کاسکون نہ دیاجائے حکم حاکم مرگ مفاجات آخرامام علیہ السلام بلاجرم وخطاآزادوفضاسے قیدخانہ میں پہنچادئیے گئے اورآپ پرعلی بن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کردیاگیا جوآل محمداورال ابی طالب کاسخت ترین دشمن تھا اوراس سے کہہ دیاگیاکہ جوجی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والانہیں ہے ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پرطرح طرح کی سختیاں شروع کردیں اس نے نہ خداکاخوف کیانہ پیغمبرکی اولادہونے کا لحاظ کیا۔
لیکن اللہ رے آپ کا زہدوتقوی کہ دوچارہی یوم میں دشمن کادل موم ہوگیا اوروہ حضرت کے پیروں پرپڑگیا، آپ کی عبادت گذاری اورتقوی وطہارت دیکھ کر وہ اتنامتاثرہواکہ حضرت کی طرف نظراٹھاکردیکھ نہ سکتاتھا، آپ کی عظمت وجلالت کی وجہ سے سرجھکاکرآتااورچلاجاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیاکہ دشمن بصیرتپا کر بن کرآپ کامعترف اورماننے والاہوگیا.
(اعلام الوری ص ۲۱۸)
ابوہاشم داؤدبن قاسم کابیان ہے کہ میں اورمیرے ہمراہ حسن بن محمد القتفی ومحمدبن ابراہیم عمری اوردیگربہت سے حضرات اس قیدخانہ میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزابھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہواکہ ہمارے امام زمانہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لارہے ہیں ہم نے ان کااستقبال کیاوہ تشریف لاکرقیدخانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اوربیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اگریہ شخص نہ ہوتاتو میں تمہیں یہ بتادیتاکہ اندرونی معاملہ کیاہے اورتم کب رہاہوگے لوگوں نے یہ سن کراس اندھے سے کہا کہ تم ذراہمارے پاس سے چندمنٹ کے لیے ہٹ جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا اس کے چلے جانے کے بعدآپ نے فرمایاکہ یہ نابیناقیدی نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے حکومت کاجاسوس ہے اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجودہیں جواس کی جاسوسی کاثبوت دیتے ہیں یہ سن کرلوگوں نے اس کی تلاشی لی اورواقعہ بالکل صحیح نکلاابوہاشم کہتے ہیں کہ ہم قیدکے ایام گذاررہے تھے کہ ایک دن غلام کھانالایا حضرت نے فرمایا:میں شام کا کھانانہ لوں گا چنانچہ ایساہی ہواکہ آپ عصرکے وقت قیدخانہ سے برآمدہوگئے۔
(اعلام الوری ص ۲۱۴)
اسلام پرامام حسن عسکری کااحسان عظیم: واقعہ قحط
امام علیہ السلام قیدخانہ ہی میں تھے کہ سامرہ میں جوتین سال سے قحط پڑاہواتھا اس نے شدت اختیارکرلی اورلوگون کاحال یہ ہوگیاکہ مرنے کے قریب پہنچ گئے بھوک اورپیاس کی شدت نے زندگی سے عاجزکردیا یہ حال دیکھ خلیفہ معتمدعباسی نے لوگوں کوحکم دیا کہ تین دن تک باہرنکل کر نمازاستسقاء پڑھیں۔ چنانچہ سب نے ایساہی کیا ،مگرپانی نہ برسا، چوتھے روزبغدادکے نصاری کی جماعت صحرا میں آئی اوران میں سے ایک راہب نے آسمان کی طرف اپناہاتھ بلندکیا، اس کاہاتھ بلندہوناتھا کہ بادل چھاگئے اورپانی برسناشروع ہوگیا اسی طرح اس راہب نے دوسرے دن بھی عمل کیا اوربدستوراس دن بھی باران رحمت کانزول ہوا، یہ دیکھ کرسب کونہایت تعجب ہوا حتی کہ بعض جاہلوں کے دلوں میں شک پیداہوگیا، بلکہ ان میں سے اسی وقت مرتدہوگئے، یہ واقعہ خلیفہ پربہت شاق گذرا۔
اس نے امام حسن عسکری کوطلب کرکے کہا کہ ائے ابومحمد!اپنے جدکے کلمہ گویوں کی خبرلو، اوران کوہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایاکہ اچھاراہبوں کوحکم دیاجائے کہ کل پھروہ میدان میں آکردعائے باران کریں ،انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کردوں گا، پھرجب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تواس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلندکیا، ناگہاں آسمان پرابرنمودارہوئے اورمینہ برسنے لگا یہ دیکھ کرامام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کاہاتھ پکڑکر جوچیزراہب کے ہاتھ میں ملے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اوراس سے لے کرحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی، انہوں نے راہب سے فرمایاکہ اب توہاتھ اٹھاکر بارش کی دعاکراس نے ہاتھ اٹھایاتوبجائے بارش ہونے کے مطلع صاف ہوگیا اوردھوپ نکل آئی، لوگ کمال تعجب ہوئے۔
خلیفہ معتمد نے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ ائے ابومحمدیہ کیاچیزہے؟ آپ نے فرمایاکہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعامیں کامیاب ہوتارہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کایہ اثرہے کہ جب وہ زیرآسمان کھولی جائے گی، توباران رحمت ضرورنازل ہوگایہ سن کرلوگوں نے اس ہڈی کاامتحان کیاتواس کی وہی تاثیردیکھی جوحضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی، اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہوگئے جوپہلے پیداہوگئے تھے پھرامام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کولے کراپنی قیام گاہ پرتشریف لائے۔
(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،کشف الغمہ ص ۱۲۹)
پھرآپ نے اس ہڈی کوکپڑے میں لپیٹ کردفن کردیا ۔
(اخبارالدول ص ۱۱۷)
شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب وعجائب میں اس واقعہ کوصوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھاہے بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعدآپ نے نمازاداکی اوردعافرمائی خداوندعالم نے اتنی بارش کی کہ جل تھل ہوگیا اورقحط جاتارہا۔
یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قیدسے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایاتھا جومنظورہوگیاتھا، اوروہ لوگ بھی راہب کی ہوااکھاڑنے کے لیے ہمراہ تھے ۔
(نورالابصار ص ۱۵۱)
ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اورابرآیاتوآپ نے فرمایاکہ فلاں ملک کے لیے ہے اوروہ وہیں چلاگیا، اسی طرح کئی بارہوا پھر وہاں برسا۔
امام حسن عسکری اور عبیداللہ وزیر معتمد عباسی
اسی زمانہ میں ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام متوکل کے وزیرفتح ابن خاقان کے بیٹے عبیداللہ ابن خاقان جوکہ معتمدکاوزیرتھا ملنے کے لیے تشریف لے گیے اس نے آپ کی بے انتہا تعظیم کی اورآپ سے اس طرح محوگفتگورہاکہ معتمدکابھائی موفق دربارمیں آیا تواس نے کوئی پرواہ نہ کی یہ حضرت کی جلالت اورخداکی دی ہوئی عزت کانتیجہ تھا۔
ہم اس واقعہ کوعبیداللہ کے بیٹے احمدخاقان کی زبانی بیان کرتے ہیں کتب معتبرہ میں ہے کہ جس زمانہ میں احمدخاقان قم کاوالی تھا اس کے دربارمیں ایک دن علویوں کاتذکرہ چھڑگیا، وہ اگرچہ دشمن آل محمد ہونے میں مثالی حیثیت رکھتاتھا لیکن یہ کہنے پرمجبورہوگیا کہ میری نظرمیں امام حسن عسکری سے بہترکوئی نہیں ہے ان کی جووقعت ان کے ماننے والوں اوراراکین دولت کی نظرمیں تھی وہ ان کے عہدمیں کسی کوبھی نصیب نہیں ہوئی ،سنو! ایک مرتبہ میں اپنے والدعبیداللہ ابن خاقان کے پاس کھڑاتھاکہ ناگاہ دربان نے اطلاع دی کہ امام حسن عسکری تشریف لائے ہوئے ہیں وہ اجازت داخل چاہتے ہیں۔ یہ سن کرمیرے والدنے پکارکرکہاکہ حضرت ابن الرضاکوآنے دو، والدنے چونکہ کنیت کے ساتھ نام لیاتھا اس لیے مجھے سخت تعجب ہوا، کیونکہ اس طرح خلیفہ یاولیعہدکے علاوہ کسی کانام نہیں لیاجاتاتھا اس کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جوسبزرنگ ، خوش قامت، خوب صورت، نازک اندام جوان تھے، داخل ہوگئے جن کے چہرے سے رعب وجلال ہویداتھا میرے والدکی نظرجونہی ان کے اوپرپڑی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اوران کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اورانھیں سینے سے لگاکر ان کے چہرہ اورسینے کابوسہ دیااوراپنے مصلے پرانہیں بٹھایا اورکمال ادب سے ان کی طرف مخاطب رہے، اورتھوڑی تھوڑی دیرکے بعدکہتے تھے میری جان آپ پرقربان ائے فرزندرسول!
اسی اثناء میں دربان نے آکراطلاع دی کہ خلیفہ کابھائی موفق آیاہے میرے والدنے کوئی توجہ نہ دی ،حالانکہ اس کاعموما یہ اندازرہتاتھا کہ جب تک واپس نہ چلاجائے دربارکے لوگ سر جھکائے کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ موفق کے غلامان خاص کواس نے اپنی نظروں سے دیکھ لیا، انہیں دیکھنے کے بعد میرے والدنے کہایاابن رسول اللہ! اگراجازت ہوتو موفق سے کچھ باتیں کرلوں حضرت نے وہاں سے اٹھ کرروانہ ہوجانے کاارادہ کیا میرے والدنے انہیں سینے سے لگایا اوردربانوں کوحکم دیا کہ انہیں دومکمل صفوں کے درمیان سے لے جاؤ کہ موفق کی نظرآپ پرنہ پڑے چنانچہ اسی اندازسے واپس تشریف لے گئے۔
آپ کے جانے کے بعدمیں نے خادموں اورغلاموں سے کہاکہ وائے ہوتم نے کنیت کے ساتھ کس کانام لے کراسے میرے والدکے سامنے پیش کیا تھا جس کی اس نے اس درجہ تعظیم کی جس کی مجھے توقع نہ تھی ان لوگوں نے پھرکہا کہ یہ شخص سادات علویہ میں سے تھا اس کانام حسن بن علی اورکنیت ابن الرضا ہے، یہ سن کرمیرے غم وغصہ کی کوئی انتہانہ رہی اورمیں دن بھراسی غصہ میں بھنتارہا کہ علوی سادات کی میرے والدنے اتنی عزت وتوقیرکیوں کی یہاں تک کہ رات آگئی۔
میرے والدنمازمیں مشغول تھے جب وہ فریضہ عشاء سے فارغ ہوئے تومیں ان کی خدمت میں حاضرہوا انہوں نے پوچھااے احمد! اس وقت آنے کاسبب کیاہے ؟
میں نے عرض کی کہ اجازت دیجیے تو میں کچھ پوچھوں، انہوں نے فرمایاجوجی چاہے پوچھو میں نے کہایہ شخص کون تھا ؟ جوصبح آپ کے پاس آیاتھا جس کی آپ نے زبردست تعظیم کی اورہربات میں اپنے کو اوراپنے ماں باپ کو اس پرسے فداکرتے تھے انہوں نے فرمایاکہ ائے فرزند!یہ رافضیوں کے امام ہیں ان کانام حسن بن علی اوران کی مشہورکنیت ابن الرضا ہے یہ فرماکر وہ تھوڑی دیرچپ رہے پھر بولے اے فرزند!یہ وہ کامل انسان ہے کہ اگرعباسیوں سے سلطنت چلی جائے تواس وقت دنیا میں اس سے زیادہ اس حکومت کامستحق کوئی نہیں ہے یہ شخص عفت زہد،کثرت عبادت، حسن اخلاق، صلاح، تقوی وغیرہ میں تمام بنی ہاشم سے افضل واعلی ہے اورائے فرزند !اگرتوان کے باپ کودیکھتاتوحیران رہ جاتا وہ اتنے صاحب کرم اورفاضل تھے کہ ان کی مثال بھی نہیں تھی یہ سب باتیں سن کر میں خاموش توہوگیا لیکن والدسے حددرجہ ناخوش رہنے لگا اورساتھ ہی ساتھ ابن الرضا کے حالات کاتفحص کرنااپناشیوہ بنالیا۔
اس سلسلہ میں میں نے بنی ہاشم ،امراء لشکر،منشیان دفترقضاة اورفقہاء اورعوام الناس سے حضرت کاحالات کااستفسارکیا سب کے نزدیک حضرت ابن الرضا کوجلیل القدراورعظیم پایا اورسب نے بالاتفاق یہی بیان کیا کہ اس مرتبہ اوران خوبیوں کاکوئی شخص کسی خاندان میں نہیں ہے جب میں نے ہرایک دوست اوردشمن کو حضرت کے بیان اخلاق اوراظہارمکارم اخلاق میں متفق پایاتومیں بھی ان کادل سے ماننے والاہوگیا اوراب ان کی قدرومنزلت میرے نزدیک بے انتہاہے یہ سن کرتمام اہل دربارخاموش ہوگئے البتہ ایک شخص بول اٹھا کہ ائے احمدتمہاری نظرمیں ان کے برادرجعفرکی کیاحثیت ہے احمدنے کہاکہ ان کے مقابلہ میں اس کاکیاذکرکرتے ہو وہ توعلانیہ فسق وفجورکاارتکاب کرتاتھا، دائم الخمرتھا خفیف العقل تھا، انواع ملاہی ومناہی کامرتکب ہوتاتھا۔
ابن الرضاکے بعد جب خلیفہ معتمدسے اس نے ان کی جانشینی کاسوال کیا تواس نے اس کے کردارکی وجہ سے اسے دربارسے نکلوادیاتھا
(مناقب ابن آشوب جلد ۵ ص ۱۲۴ ، ارشادمفید ص ۵۰۵) ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ گفتگوامام حسن عسکری کی شہادت کے ۱۸سال بعد ماہ شعبان ۲۷۸ ہجری کی ہے
(دمعہ ساکبہ ص ۱۹۲ جلد ۳ طبع نجف اشرف)
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت
امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قیدوبندکی زندکی گزارنے کے دوران میں ایک دن اپنے خادم ابوالادیان سے ارشادفرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفرمدائن سے ۱۵یوم کے بعد پلٹوگے تو میرے گھرسے شیون وبکاکی آواز آتی ہوگی۔
(جلاء العیون ص ۲۹۹)
نیزآپ کایہ فرمانابھی معقول ہے کہ ۲۶۰ ہجری میں میرے ماننے والوں کے درمیان انقلاب عظیم آئے گا
(دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۷)
الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نمازصبح خلعت حیات ظاہری اتارکر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے۔
”اناللہ وانا الیہ راجعون“
(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصولف المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴)
علماء فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اولادنہیں چھوڑی۔
(مطالب السول ص ۲۹۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،نورالابصار ارجح المطالب ۴۶۲ ،کشف الغمہ ص ۱۲۶ ، اعلام الوری ص ۲۱۸)
https://alkafeel.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button