سیرتسیرت امام علی رضاؑ

سیرت امام علی رضا علیہ السلام کی ایک جھلک

علامہ سید علی نقی نقوی (نقن)
آپ کو جس خاص صورت حال سے دوچار ہونا پڑا وہ آپ کے زمانہ کے عباسی خلیفہ مامون کا قبول ولی عہدی کے لئے آپ کو مجبور کرنا تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ کے مورث اعلیٰ حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ کے سامنے چوتھے نمبر پر حکومت پیش کی گئی ظاہر ہے کہ یہ وہ امامت نہ تھی جو منجانب اللہ آپ کو حاصل تھی اسے دنیا نے تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ وہی اپنے نقطہ نظر والی جمہوری خلافت تھی جس کی پیشکش آپ کے سامنے کی گئی تھی اور اسی لئے آپ نے اس سے شدید انکار فرمایا مگر جب لوگوں کا اصرار قیام حجت کے قریب پہنچ گیا تو چونکہ ایک داعی حق کو جس عنوان سے سہی ایک موقع اگر خلق خدا کی اصلاح کا مل جائے چاہے وہ کسی لباس میں ہو، اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اب آپ نے ان کے اصرار کو قبول فرما لیا۔ اسی طرح اب امام رضا کے سامنے مامون اقتدار کی پیشکش کر رہا تھا۔ مورخین متفق ہیں کہ آپ نے انکار فرمایا۔ کثرت سے گفتگوئیں ہوئیں اور مامون نے بار بار اصرار کیا اور آپ ہر مرتبہ انکار فرماتے تھے۔ اور آپ کا ارشاد تھا کہ میں اللہ کی بندگی ہی کو بس اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہں اور اقتدار دنیا سے تو کنارہ کشی ہی کرکے بارگاہ الٰہی میں بلندی کی امید رکھتا ہوں اور جب وہ اصرار کرتا تھا تو آپ کہتے تھے:اَللّٰهُمَّ لَا عَهَدَ اِلَّا عَهْدِکَ وَ لا وِلأته اِِلَّا مِنْ قَبْلِکَ فَوَفْقنِیْ الِاقامَةِ دِیْنکَ واحیّآءِ سُنَّتِه نبِیّکَ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نعْمَ النَّصِیْر ۔
"پروردگار! عہدہ تو وہی عہدہ جو تیری طرف سے ہے اور حکومت وہی حکومت ہے جو تیری جانب سے ہے ہاں مجھے توفیق عطا فرما کہ تیرے دین کے شعائر کو قائم کروں اور تیرے رسول کی سنت کو زندہ کروں۔ تو بہترین مالک اور بہترین مددگار ہے۔”
اس میں ایک طرف صحیح اسلامی نظریہ حکومت کی تبلیغ ہو رہی تھی جس سے آپ کے انکار کا پس منظر واضح طور پر نمایاں ہو رہا تھا اور دوسری طرف اقامت دین اور احیائے سنت کے لئے اپنے جذبہ بے قرار کا مظاہرہ تھا جو بعد از اصرار بسیار ولی عہدی کے قبول کرنے کے پس منظر کی ترجمانی کر رہا ہے۔
پھر آپ نے جب ولی عہدی قبول کی تو یہ شرط کر لی کہ میں حکام کے غرل و نصب کا ذمہ دار نہ ہوں گا نہ امور سلطنت میں کوئی دخل دوں گا۔ ہاں جس معاملہ میں مشورہ لیا جائے گا کتاب خدا و سنت رسول کے مطابق مشورہ دے دیا کروں گا یہ وہ کام تھا جو آپ کے جد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب خلفائے ثلٰثہ کے دور میں بغیر کسی عہدہ و منصب کے انجام دیتے تھے اب وہی حضرت امام علی بن موسی الرضا ولی عہدی کے نام کے بعد انجام دیں گے۔
معلوم ہوتا ہے کہ شخصیت ایک ہی ہے صرف زمانہ کا فرق ہے اور سامنے کی حکومت کے رویہ کا فرق ہے کہ پہلے دور والوں نے کسی عہدہ کی پیشکش جناب امیر کے لئے اپنے سیاسی مفاد کے خلاف سمجھی اور اب عہدہ کی پیشکش اپنے سیاسی مصالح کے لئے مناسب سمجھی جا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ جو اختلاف ہے وہ سلطنت وقت کے رویہ میں ہے مگر رہنمائے دین کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے اقبال کے لفظوں میں کہ لیجئے کہ:
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری،
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
پھر ولی عہدی کے بعد آپ نے اپنی سیرت بھی وہی رکھی جو شہنشاہ اسلام ما نے جانے کے بعد حضرت علی بن ابی طالب کی سیرت رہی۔ آپ نے اپنے دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کئے۔ بلکہ جاڑے میں بالوں کا مکمل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا کھانا سامنے لایا جاتا تھا تو دربان، سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔
پھر اسی عباسی سلطنت کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر جہاں صرف قرابت رسول کی بنا پر اپنے کو خلق خدا پر حکمرانی کا حقدار بنایا جاتا تھا اور کبھی اپنے اعمال و افعال پر نظر نہ کی جاتی تھی آپ اپنے اوپر رکھ کر برابر اس کا اعلان فرماتے تھے کہ قرابت رسول کوئی چیز نہیں ہے جب تک کردار انسان کا ویسا نہ ہو جو خدا کے نزدیک معیار بزرگی ہے چنانچہ جب ایک شخص نے حضرت سے کہا کہ: خدا کی قسم آباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت نے فرمایا: "میرے آباؤاجداد کو جو شرف حاصل ہوا وہ بھی صرف تقویٰ اور اطاعت خدا سے۔” ایک دوسرے موقع پر ایک شخص نے کہا کہ "واللہ آپ بہترین خلق ہیں۔” حضرت نے فرمایا۔ "اے شخص بے سمجھے قسم نہ کھا جس کا تقویٰ مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔”
ابراہیم بن عباس کا بیان ہے کہ حضرت فرماتے ہیں: میرے تمام لونڈی غلام آزاد ہو جائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول اللہ سے قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افضل نہیں جانتا (اشارہ فرمایا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عمل خیر بجا لاؤں تو اللہ کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا۔
یہ حقیقت میں تقریباً ایک صدی کی پیدا کی ہوئی عباسی سلطنت کی ذہنت کے خلاف اسلامی نظریہ کا اعلان تھا اور وہ اب اس حیثیت سے بڑا اہم ہو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہو رہا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ ہیں جن پر ماحول کا اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ ہر ماحول میں کسی نہ کسی طرح اپنے فرض کو انجام دیتے رہتے ہیں جو انسانیت کی عملی معراج ہے۔
کتاب ” معراج انسانیت” سے اقتباس
Source:alhassanain.org

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button