Uncategorizedسیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

سیدہ کونین فاطمہ زھراعلیھا السلام کی وصیتیں

جب دختر پیغمبرؐ جناب فاطمہ زھرا (س) کا بلند و پُر معنویت روحِ عالمِ ملکوت کی طرف پرواز کرنے کے لئے آمادہ ہوگئی ۔ تو آپؑ نے اس وقت خیال کیا کہ وہ باتیں جو ایک لمبے عرصے سے انہوں نے اپنے قلبِ مبارک میں چھپا رکھی ہیں۔ آج ضروری ہے کہ ان سے اپنے شوہر کو مطلع کر دیں تاکہ جس قدر ممکن ہو ان پر عمل کیا جائے کیونکہ ان کی وصیت بہت زیادہ اہم اور تاریخی ہے۔ بغیر کسی کوتاہی و سستی کے انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔ جب آپ گھریلو امور سے فارغ ہوئیں تو اپنے بستر پر تشریف لائیں اور حضرت امیرعلیہ السلام سے فرمایا: اے میرے چچا کے عظیم فرزند! میں آج اس دنیا سے کوچ کرنے والی ہوں۔ لمحہ بہ لمحہ اپنی منزل کے قریب ہو رہی ہوں اور اپنے والد گرامی سے لاحق ہونے والی ہوں۔ اب میں جو کچھ کہوں وہ میری وصیت ہوگی اس کی تعمیل آپ کے ذمہ ہے۔
حضرت امیرعلیہ السلام نے فرمایا: خداوند تعالیٰ آپ کو سلامتی عطا فرمائے۔ جو کچھ فرمانا چاہتی ہیں فرمایئے۔
حضرت امیرعلیہ السلام بتولِ معظمہؑ کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس وقت جو لوگ حجرہ میں تھے ان سب کو باہر جانے کا کہہ دیا تاکہ ان کی زوجہ محترمہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں وہ بیان کر دیں۔
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے فرمایا:
”يَا ابْنَ عَمِّ مَا عَهِدْتَنِي كَاذِبَةً وَ لَا خَائِنَةً وَ لَا خَالَفْتُكَ مُنْذُ عَاشَرْتَنِي“
”اے میرے چچا کے گراں قدر فرزند! آپؑ نے مجھے اپنی تمام زندگی میں راست گو، پسندیدہ کردار اور امانت دار پایا ہے۔ آپؑ نے اس پسندیدہ روش سے مجھے کبھی دور نہیں دیکھا ہے۔ کیا ایسی بات ہے؟“
حضرت امیرعلیہ السلام نے فرمایا:
”مَعَاذَ اللَّهِ أَنْتِ أَعْلَمُ بِاللَّهِ وَ أَبَرُّ وَ أَتْقَى وَ أَكْرَمُ وَ أَشَدُّ خَوْفاً مِنَ اللَّهِ أَنْ أُوَبِّخَكِ غَداً بِمُخَالَفَتِي فَقَدْ عَزَّ عَلَيَّ بِمُفَارَقَتِكِ وَ بِفَقْدِكِ إِلَّا أَنَّهُ أَمْرٌ لَا بُدَّ مِنْهُ وَ اللَّهُ جَدَّدَ عَلَيَّ مُصِيبَةَ رَسُولِ اللَّهِ وَ قَدْ عَظُمَتْ وَفَاتُكَ وَ فَقْدُكَ فَإِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ“
”خدا کی پناہ! مجھے خدا کی قسم! آپؑ سید الانبیاءؐ کی دختر فرزانہ ہے۔ بھلائیوں اور نیکیوں میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ تقویٰ و اخلاص میں آپؑ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ سب سے زیادہ محترم و مکرم ہیں۔ خدا خوفی میں اعلیٰ و ارفع مقام کی حامل ہیں۔ فاطمہ جانؑ! آپ ؑکی جدائی مجھ پر گراں ہے لیکن یہ قانونِ آفرینش ہے اس سے گریز نہیں ہے۔
خدا کی قسم! آپؑ کی رحلت و شہادت میرے لیے رسول اللہؐ کی جاں سوز رحلت کی تجدید کر دے گی۔ آپؑ کا فقدان و فراق رسول اللہؐ کے ہجر و فراق سے گراں تر ہے۔ پس ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہماری بازگشت اسی کی طرف ہے۔ یہ وہ مصیبت ہے جو بہت زیادہ دردناک اور اَلم ناک ہے۔ یہ اتنی عظیم مصیبت ہے کہ اس سے بڑی کوئی اور مصیبت نہیں ہوگی۔“
اس کے بعد کائنات کی ان دو عظیم ہستیوں نے رونا شروع کیا۔ اس دوران حضرت امیرعلیہ السلام نے سیدہ نساء العالمینؑ کا مبارک سر اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا: آپؑ وصیت فرمائیں، آپؑ مجھے اپنا ایفاء وصیت میں ہر صورت وفادار پائیں گی۔ آپؑ کا جو حکم ہوگا میں اس کی تعمیل کروں گا اور آپؑ کے امر کو اپنے امور پر ترجیح دوں گا۔“
سیدہ عالمؑ نے فرمایا: خدا وند تعالیٰ آپ کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اے میرے چچا کے بیٹے! میری پہلی وصیت یہ ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے عقد کرنا، وہ میری اولاد پر میری ہی طرح مہربان ہیں کیونکہ مردوں کو ہر صورت میں عورتوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں نے مجھ سے ظلم کیے ہیں انہیں میرے جنازے پر نہ لانا وہ میرے اور اللہ کے رسولؐ کے دشمن ہیں۔ جب لوگ رات کو سو جائیں تو مجھے اس وقت دفن کرنا۔ (روضۃ الواعظین/بحارالانوار:ج43)
میری دوسری وصیت یہ ہے کہ جب میری روح پرواز کر جائے، مجھے کپڑے کے نیچے یا میرے پیراہن میں مجھے غسل دینا کیونکہ میرا بدن پاک و پاکیزہ ہے۔ مجھے رسول اکرمؐ کے باقی ماندہ حنوط سے حنوط کرنا۔ میری نمازِ جنازہ میں صرف ان لوگوں کو شریک کرنا جو ہمارے اہل بیتؑ سے بہت زیادہ قربت رکھتے ہیں۔ مجھے رات کے وقت دفن کرنا نہ دن کو، خفیہ دفن کرنا، ظاہراً دفن نہ کرنا اور میری قبر کو چھپادینا۔ جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیے ہیں وہ میرے جنازے میں رکت نہ کریں۔
اے میرے چچاکے فرزند! میں خوب جانتی ہوں میرے بعد آپؑ کو ہر صورت کسی نہ کسی عورت سے عقد کرنا ہوگا۔ اگر آپؑ کسی عورت سے عقد کر لیں تو ایک دن اور رات اس کے ساتھ رہنا ور دوسرا دن اور رات میری اولاد کے ساتھ گزارنا۔ پھر آپؑ نے یہ اشعار پڑھے:
أبكني ان بكيت ياخير هادي وأسبل الدمع فهو يوم الفراق
ياقرين البتول اوصيك بالنسل فقد أصبحنا حليف اشتياق
أبكني وابك لليتامى ولاتنسى قتيل العـدى بطف العراق
فارقوا فأصبحوا حارى يخلف الله فهو يوم الفراق
”ہاں اے بہترین ہادی و راہنما! اگر تو رونا چاہتا ہے تو مجھ پر رو اور اپنی آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب جاری کر کیونکہ یہ روز فراق و فقدان کا روز ہے۔ اے ہم دم گراں قدرِ بتولؑ! میں آپ کو اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرتی ہوں کیونکہ وہ صرف آپؑ سے ہی مانوس ہیں۔ اگر مجھ پر گریہ کرنا چاہو تو میرے ان یتیموں پر رونا اور میرے اس شہزادے کو کبھی نہ بھولنا جو دشمنوں کے ہاتھوں نینوا میں قتل کر دیا جائے گا۔“
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے جب بتولِ معظمہؑ نے وصیت کرنا چاہی تو حضرت امیرعلیہ السلام سے فرمایا: اے ابوالحسن! رسول اللہؐ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور مجھے فرمایا تھا کہ ان کے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں ان سے لاحق ہونے والی ہوں اور ایسا ہو کر رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر صبر کرنا اور اس کی قضا پر راضی رہنا۔ (بیت الاحزان، ص/142)
حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام سے روایت ہے کہ جب خاتونِ جنت کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپؑ رونے لگیں۔
حضرت امیرعلیہ السلام نے پوچھا: اے دختر پیغمبرؐ! آپؑ کیوں رو رہی ہیں؟
سیدہ عالمؑ نے فرمایا: میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میرے بعد آپؑ کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟
آپؑ نے فرمایا: اللہ کی اطاعت کے مقابلے میں سب ہیچ ہے۔ (بحار الانوار، ج/43)
ایک اور روایت میں ہے کہ خاتونِ بہشت نے حضرت امام علیعلیہ السلام سے فرمایا: اے ابوالحسنؑ! مجھے آپؑ سے ایک کام ہے۔
آپؑ نے فرمایا: فرمایئے۔
سیدۂ عالمؑ نے فرمایا: آپؑ کو اللہ کی قسم! مجھ پر فلاں فلاں نماز نہ پڑھیں۔ (بیت الاحزان، ص/142)
جی ہاں! سیدۂ عالمؑ کی یہ وہ بعض وصیتیں ہیں جن سے واضح ہے کہ آپؑ کو اس دور کے ماحول و معاشرہ سے تکالیف پہنچی تھیں۔ یہ ان تکالیف کا اظہار ہے۔
آپ چاہتی تھی کہ اس طرح وہ اپنا نام ان لوگوں میں لکھوا دیں کہ جن پر مظالم ڈھائے گئے اور ان کے حقوق کو غصب کیا گیا تاکہ ان کا اسم مظلومیت و حرمان کی علامت بن جائے۔ آپؑ نے وصیت فرمائی کہ کچھ لوگ جنازے میں شرکت نہ کریں۔ آپؑ نے اس طریقے سے تاریخ میں یہ ثبت کرا دیا کہ وہ مظلومہ ہیں۔
آپ ؑنے فرمایا: میرے جنازے میں وہ لوگ شرکت کریں جن کے ضمائر انحرافی نہ ہوں۔
کتاب ” فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا من المھد الی اللھد” سے اقتباس”
مؤلف: آیت اللہ سید محمد کاظم قزوینی ؒ
اردو ترجمہ : فاطمہ زھرا (س) طلوع سے غروب تک
مترجم : علامہ الطاف حسین بلوچ
ناشر: ادارہ منھاج الصالحین لاہور

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button