تحریف عاشورا

محمد حسین چمن آبادی
تحریف عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا اصل "حَرَفَ” فعل ثلاثی مجرد ہےجسکا معنی پھیر جانے کےہے، خلیل احمد فراہیدی کہتا ہے”و التَّحْرِیف هو تغيير الكلمة عن معناها و هي قريبة الشبه"(کتاب العین،ج3 ،ص 211)کسی کلمے کو اس کے معنی موضوع لہ سے بدل دینے کو تحریف کہتے ہیں اور یہ شبہہ کے قریب ہے یعنی انسان ان دو معانی میں سے حقیقی معنی کی شناخت نہیں کرسکتا کیونکہ غیر حقیقی نے حقیقی کا لباس پہن لیا ہوتا ہے۔”وحَرَف عن الشيئ يحرف حرفاً، اعني اذا مال الإنسان عن الشيئ”،جب انسان کسی چیز سے منہ پھیر لے،باالفاظ دیگر ایک کلمہ یا مفہوم کو اس کے صریح معنی سے کسی دوسرے معنی کی طرف موڑ دے تاکہ سامع اس لفظ سے دوسرا معنی مراد لے۔
تحریفِ تاریخ سے مراد کسی بھی واقعہ کو باقی رکھ کر اس کے مواد اور مطلب میں تبدیلی اور اس میں اضافہ کرنا ہے لیکن دور حاضر میں تحریف تاریخ کا مطلب جھوٹا واقعہ یا کہانی بنانا اور نہ کہی ہوئی چیز کو جعل کرکے کسی کی طرف نسبت دینا ہے۔تحریف دو قسم کی ہے :
۱:تحریف لفظی
۲:تحریف معنوی
تحریف عاشورا لفظی سے مراد کسی مطلب کو واقعہ تاریخ کربلا کے عنوان سے بیان کرنا یا اس سانحے میں غیر موجود شخص کو اس میں اضافہ کرنا یا جو واقعہ پیش نہیں آیا اسے جعل کرنا ہےجیسے حضرت قاسمؑ کی مہندی کی داستان،جبکہ تحریف معنوی عاشوراواقعات اور حادثات کو اپنی شکل وصورت میں باقی رکھ کے ان کے ہدف اور مقصد قیام کو کسی اور نہج پہ لے جانے کو کہتے ہیں۔اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں جیسا کہ بنو امیہ نے اس قیام کو شورش سے تعبیر کیا تو بعض نے تحریک حسینی کو سیاسی خود کشی قرار دیا تو بعض دیگر نے اس نہضت کو حکومت کے حصول کے لیے دو شہزادوں کے درمیان لڑے جانے والے معرکے سے یاد کیا(تأملی در نہضت عاشوراء،رسول جعفرىان، ص ۲۹۹)۔
تحریف عاشوراء کے اسباب وعلل
قیام امام حسینؑ کو اپنے اصلی اہداف سے دور کرنے کے لیے مختلف عوامل کار فرما ہیں۔ہم ان اسباب کو مادی اور معنوی میں تقسیم کرسکتے ہیں۔مادی اعتبار سے تحریف اس لیے واقع ہوئی یا ہورہی ہےتاکہ دنیا وی مال واسباب یا جاہ ومقام یا شہرت حاصل کرسکے۔اس کی مثالیں کسی بھی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں ہے،بد قسمتی سے ہماری مجالس میں سینکڑوں قسم کے جھوٹے داستان اور واقعات بیان ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کو خوب رلا کے ان سے پیسے بٹورے جاسکے،اور اسباب معنوی سے مراد اجر وثواب اور بہشت اور تقرب الہٰی کے حصول کی غرض سے انجام پانے والے تحریفات ہیں جو ہمارے معاشرے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر واقع ہورہی ہیں۔
تحریف عاشورا کی ابتداء
واقعہ عاشورا ایک تمدّن اور ثقافت کا نام ہے کیونکہ اس سانحے نے اس دور کے معاشرے کی ترجیحات ،تمایلات، دلچسپی اور آرزوں کو بدلنے کے ساتھ ساتھ عواطف و احساسات کو بھی نئی جہت اور نیا رخ دیا۔لوگوں کے جذبات اور احساسات یزید لعین اور یزیدیت کے ایک سو اسّی درجہ مخالف سمت کی طرف حرکت کرنے لگے ۔کل تک جو لوگ شامی فوجوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی صدا سننے کی سکت نہیں رکھتے تھے وہ آج سرعام قاتلین امام حسینؑ پر لعنت کرنے کو کار ثواب سمجھتے ہوئے بجالا رہے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی مردہ ضمیر بار دیگر خونِ پاک کی وجہ سے زندہ ہوگئی تھی۔کل تک یزید اور یزیدیت کے سامنے جھکے ہوئے سر، امام حسینؑ کے نیزے پر بلند ہونے والے مبارک سر کے صدقے اٹھ گئے تھے اب وہ کٹنے کے لیے تو تیار ہیں مگریزید اور یزید صفت لوگوں کے سامنے جھکنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔کل تک لوگ غیرت اورعزّت کے الفاظ سے ناواقف تھے لیکن قیام سید الشہداؑءکے بعد ذلت کی زندگی کو عزّت کی موت پہ ترجیح دینے لگے ہیں،تحریک توّابین اس کی روشن مثال ہے۔
ایسا ماحول وجود میں آیا کہ اب یزید اور اس کے کارندوں میں اس نہضت اور قلوب میں ا یجاد شدہ حرارت سے مقابلے کرنے کی سکت رہی اور نہ ہی طاقت،تو انہوں نے اس نہضت اور تحریک کا رخ موڑنے کی ٹھان لی۔خطباء اور واعظین کو خریدلیا تاکہ وہ اپنے خطبوں اور گفتگو میں شورش،اختلاف اور جنگ وقیام کے خلاف بولے۔ زرخرید شعراء نے یزید لعین کے اس شنیع فعل کی نہایت بے شرمی کے ساتھ تعریف وتمجید کرنا شروع کیا، لیکن خون پاک کا اثر تھا کہ یہ کرایے کے شعراء ڈر گئے اور اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ شعر کہہ کے أجنّہ کی طرف منسوب کرنے لگے(انساب الاشراف ،بلاذری، ص ۲۱۷)، آخر یزید لعین نے ایک نیا حربہ آزمایا اور امام حسینؑ اور ان کے یاران کے خون ناحق میں رنگے ہاتھ کا نہایت ڈھٹائی سے انکار کرنے لگا،اور جعلی حدیثوں کی فیکٹریاں پھر سرگرم کی گئی، مؤرخین خریدے گئے اور انہوں نے یزید لعین کو اس جنایت سے بری کرنے لیے اس قدر جھوٹ لکھے اور بولے گئے کہ بعض شیعہ حضرات کو بھی شبہہ ہو کر ان کی خودساختہ باتوں پریقین کرکے قبول کرنے لگا،اور یہ پہلی تحریف تھی جو عاشورا کے بارے میں پیدا کی گئی۔اگر ہم مکتب خلفاء کے ابن کثیر کی کتاب البدایہ اور ابن اثیر کی تاریخ کامل کا مطالعہ کریں تو یہ تحریف خوب روشن ہوکر سامنے آتی ہے۔ابن اثیر کہتا ہے: (حسین بن علؑی اور گنتی کے چند افراد نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور مدینہ سے فرار کرتے ہوئے مکہ چلے گئے اور وہاں چند مہینے قیام ے بعد کوفیوں کے خطوط کے انبار لگے تو آپؑ کوفہ روانہ ہوگئے،راستے میں مسلم ابن عقیل کے قتل کی خبر ملی تو آپؑ نے واپس ہونے کےعزم کا اظہار کیا تو مسلم کے بھائیوں نے امام حسینؑ کو اس ارادے سے روک کر سفر جاری رکھنے پہ مجبور کیا، پھر راستے میں عمر سعد کی فوج سے روبرو ہوا تو امام حسینؑ نے رات کے وقت عمر سعد سے گفتگو کرکے یزید کی بیعت کرنے کا اعلان کردیا اور ساتھ یہ پیشکش کی کہ اگر محفوظ راستہ دیا جائے تو شام جاکر یزید کی بیعت کرےگا، لیکن جب ابن زیاد کو اس اتفاق کی خبر ملی تو اس نے قبول کرنے سےانکار کرتے ہوئے کوفہ میں یزید کی طرف سے اپنی بیعت کا مطالبہ کردیا جسے امام حسینؑ نے باعث ننگ وعار قرار دیتے ہوئے ردّ کیا، جس کے نتیجے میں ابن زیاد کے ہاتھوں امامؑ قتل ہوگئے، جبکہ یزید اس پورے واقعے سے بے خبر تھااور نہ ہی اس کا امام حسینؑ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا)(البدایہ والنہایہ ،ابن کثیر ،ج۸، ص ۱۶۲- ۱۶۵)۔
دوسری طرف وہ روایات ہیں جسے یزید نے مال ومتاع کے بدلےجعل کرنے پر بعض حضرات کو مامو رکیا تھاجنہوں نے دن رات ایک کرکے ایسی احادیث جعل کیے جس کے ذریعے سے رائے عامہ کو یہ یقین دیا کہ یزید حضرت امام حسینؑ کے قتل کے سبب ابن مرجانہ سے بہت سخت ناراحت تھا اور اس پہ لعن بھی کیا، بلکہ مظلومیت اہل بیتؑ پر گریہ کیا اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کی۔ان کو تین دن تک مجلس عزا برپا کرنے اور گریہ کرنے کا موقع دیا ،اور اسی طرح کے عجیب وغریب داستان بیان کیے تاکہ معاویہ سمیت دیگر تین لوگوں کو جو معاویہ اور یزید کی خلافت کے زمینہ ساز تھے اس بڑے جرم اورگناہ سے بری کیا جاسکے۔مکتب خلفاء میں واقعہ عاشورا کی چنداں اہمیت نہیں کیونکہ ان کی نظر میں سارے صحابہ عادل ہیں اگرچہ پنجتن پاک سارے قتل کردیے جائیں۔
ابن عربی نے کہا:( قْتِل الحسىنْ بِسىفِ جدِّہ)امام حسینؑ اپنے نانا کی تلوار سے قتل ہوگئے، کیونکہ ان کے گمان میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اتنے فتنے اور شورش برپاہونگے جس کا حساب کرنا مشکل ہوگا، پس جو بھی حکومت وقت کے خلاف شورش برپاکرے یا قیام کرے اس کا سر تن سے جدا کیا جائے)(یہ محی الدین ابن عربی نہیں بلکہ کوئی دوسرا ابن عربی ہے جس نے اپنی کتاب کا نام العواصم من القواصم فی تحقیق مواقف الصحابہ بعد وفاۃ النبیﷺ کے ص ۲۳۲ میں یہ باتیں کی ہیں) ۔
پھر آگے وہ کہتا ہے:(قیام امام حسینؑ کی بنیاد اور اسا س ہی غلطی پر مبنی تھا یہ کوئی قیام نہیں تھا بلکہ ایک فتنہ اور شورش تھی، اور قیام کی کوئی منطقی علت ہوتی یا شرعی حیثیت ہوتی تو حِبر الامّہ ابن عباس کو اولویت حاصل تھا کہ وہ یزید کے خلاف قیام کرے کیونکہ اس کا بھائی عبید اللہ کے دو بیٹے ظلم کے ساتھ قتل کردیے گئے تھے لیکن قیام کی حرمت کی وجہ سے اس نے کوئی قدم نہیں اٹھایا،اور امام حسینؑ نے ابن عباس کی با ت کی طرف اعتناء نہیں کیا اور اہل کوفہ کے دھوکے میں آیا)( یہ محی الدین ابن عربی نہیں بلکہ کوئی دوسرا ابن عربی ہے جس نے اپنی کتاب کا نام العواصم من القواصم فی تحقیق مواقف الصحابہ بعد وفاۃ النبیﷺ کے ص ۲۳۲ میں یہ باتیں کی ہیں) ۔
اس کی نگاہ میں یزید کی حکومت کو شرعی حیثیت ہے اگرچہ وہ فاسق ، شارب الخمر ، قاتل نفس محترمہ اور بندر بازی کرنے والا، زانی کیوں نہ ہو، ان کے نزدیک جو شخص کسی بھی طریقے سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لےوہ زمین پر خلیفہ خدا بن جاتا ہے جس کے بعد اس کے خلاف قیام تو دور نقد کرنا بھی حرام ہوجاتا ہے۔
جس شخص نے سب سے زیادہ عاشورامیں تحریف کرکے اس کے واضح چہرے کو مجروح کرنے کی کوشش کی وہ ابو العباس احمد بن عبد الحلیم دمشقی حنبلی معروف بہ ابن تیمیہ ہے(ابن تیمیہ اس کی کنیت ہے جو سنہ ۶۶۱ میں پیدا ہوا اور۷۲۸ ھ میں مرگیا)۔ جس نے بنی امیہ کی دفاع میں کمر کس کے جھوٹ اور جعلی روایات نقل کرکے شیعہ مذہب اور اہل بیتؑ کے خلاف طوفان بدتمیزی کی تاریخ رقم کی، وہ اپنی کتاب منہاج السنّہ میں خروج امام حسینؑ کے بارے میں کہتا ہے : (من خرجَ على امام ذي سلطان الّا كان ما تولّد على فعله من الشرّ اعظم ممّا تولّد من الخير)(منہاج السنّہ، ج۲، ص، ۲۴۱)،یعنی جس نے حکومت وقت کے خلاف خروج کیا اور اس کے نتیجے میں جو برائی رونما ہوئی وہ اس کے خیر سے کہیں زیادہ بدتر ہے، یعنی اس کی نظر میں قیام امام حسینؑ کے مفاسد اس کی مصلحت سے کہیں زیادہ تھے۔ وہ یزید کو امام حسینؑ کے قتل سے بری کرنے پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ شیعوں کو قاتل ٹھہراتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتا،اور کہتا ہے کہ امام حسینؑ کی یہ خواہش تھی کہ اپنے ابن عم یزید کی بیعت کے لیے شام جائے(منہاج السنّہ ج۲، ص 200)۔اور اس طرح مؤرخین ومحدثین کی ایک بڑی کھیپ ہے جو واقعہ عاشورامیں تحریف کرنے اور یزید کو اس جرم سے بری الذمہ قرار دینے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ہم یہاں ان سب کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں۔
عصر حاضر کی تحریف عاشورا
سیکولر زم کا خیال ہے کہ حضرت امام حسینؑ نےقیام حکومت اسلامی کے لیے ہرگز خروج نہیں کیا بلکہ ان کے قیام کا ہدف اور مقصد یزید کی حکومت کو نابود کرنا تھا جو دین کے نام پہ قائم تھی اور وہ اپنے آپ کو خلیفہ الرسول، امیر المومنین اور خلیفہ اللہ کہلواتا تھا تو امامؑ نے دین کو اس کے چنگل آزاد کرانے اور اس کے تسلّط سے چھڑانے کے واسطے قیام کیا۔اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشش نہیں کی،کیونکہ حکومت عوامی ہوتی ہےیا غیر عوامی،اسلامی اور غیر اسلامی نامی حکومت نہیں ہوا کرتىی۔سیکولر طبقہ ببانگ دہل کہتا ہےکہ دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں ہیں،اور وہ اپنی اس بات کی تائید کے لیے بنو امیہ کی خودساختہ جعلی احادیث کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول خداؐ نے دین کو انتخاب کیا اور دنیا کو ترک كردیا۔
گذشتہ تحریفات مومنین کے اعتقادات کو متزلزل نہ کرسکے لیکن دور حاضر کی یہ تحریف عاشوراء بہت کارگر ثابت ہوئی اور ہمارے اسلامی معاشرے کے جوانوں اور مومنین کو اس بات کا قائل کیا کہ علماء ، نیک کردار وصالح مومن انسان کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے کیونکہ سیاست اور حکومت بدکردار، ڈاکو،بے غیرت اوربے ضمیر لوگوں کا کام ہے،اور انہی لوگوں کو برسر اقتدار لے آتے ہیں اور اس کے بعد اس کا انجام ہم سب آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہماری ماؤوں اور بہنوں کی عصمت دری ہوتی ہے، رشوت کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوتا،قتل کے بعد قاتل اپنے جرم پر فخر کرتا ہے،مجبور اور محروم طبقے کے لوگ ان کے خواہشات کی تکمیل کے اسباب بنتے ہیں،اور اسی طرح کے سینکڑوں مثالیں ہیں ان سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں ہے ۔
ہمارا مکتب اورہمارا مذہب دین مسیح نہیں بلکہ وہ دین ہے جس میں عاشورا جیسی ثقافت موجود ہے جو چودہ سو سال سے ہمیں عزّت اور وقار کی طرف دعوت دے رہی ہے ،لیکن ہم ہیں جو ان کو رسم بنا کے رونے دھونے پراکتفاء کرکے اسی سیکولر سسٹم کے زیر سایہ زندگی گذارنے پر مصر ہیں،اور اس تحریف کے سامنے گھٹنے ٹیکتے نظر آتے ہیں،ایک طرف سے ہم امام زمانؑ کی حکومت الہٰی کا اقرار کرتے ہیں تو دوسری طرف سے دین وحکومت کی جدائی کا بھی نعرہ لگاتے نہیں تھکتے۔