سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

غیبت کے پردے میں چھپی روشنی: ایک منتظر دل کی روحانی تلاش

تحریر: عباس رضا
کہاں ہے وہ رہنما؟
دنیا کی تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کی روح یہ سوال ہر شب کی تنہائی میں کرتی ہے کہ وہ روشنی کہاں ہے جس کا وعدہ تھا؟ وہ ظہور کب ہوگا جو ہر دل کی امید ہے؟
یہ ایک عجیب وقت ہے۔ جہاں ہر طرف معلومات کا ہجوم ہےمگر معرفت کی پیاس شدت اختیار کر چکی ہے۔ دنیا آوازوں سے بھری ہوئی ہے، مگر دل سناٹے کا شکار ہے۔ انسانیت نے آسمان چھو لیے، مگر دل ابھی بھی زمین سے بندھا ہوا ہے۔ اسی بے سمتی میں، ہر صادق دل ایک سوال کی صورت میں تڑپتا ہے: میرے امام کہاں ہیں؟
یہ صرف ایک فکری یا مذہبی سوال نہیں، یہ ایک روح کی صدائے فطرت ہے۔ وہ فطرت جو ظلم کے خلاف بےقرار ہو جاتی ہے، جو عدل کی تلاش میں آنکھیں نم کر لیتی ہے، جو ہر نماز کے بعد، ہر سجدے کی گہرائی سے یہ عرض کرتی ہے:
اللّٰهم عرّفني نفسكَ۔۔۔ وعرّفني حجّتكَ۔
خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما۔ ۔۔اورمجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے۔
غیبت کا زمانہ بظاہر خاموشی کا زمانہ ہے، مگر درحقیقت یہ دلوں کے جاگنے کا وقت ہے۔ ایک ایسا دور جہاں عقیدہ امتحان سے گزرتا ہے، اور انتظار فقط زبانی دعوے سے نکل کر ایک عملِ پیہم بن جاتا ہے۔ اس دور کا سب سے بڑا سوال یہی ہے: کیا ہم واقعی منتظر ہیں؟
منتظر ہونا صرف ظہور کا خواہشمند ہونا نہیں۔ یہ ایک روحانی کیفیت ہے۔ ایک ایسی تڑپ جو دل کو خودسازی کی راہوں پر ڈال دیتی ہے۔ ایک ایسا اضطراب، جو انسان کو باطن کی صفائی کی طرف لے جاتا ہے۔ امام کی غیبت صرف ایک عدمِ موجودگی نہیں، بلکہ ایک فکری دعوت ہے،دعوتِ تزکیہ، دعوتِ رجوع، دعوتِ بصیرت۔
غیبت کے پردے میں ایک روشنی ہے، مگر وہ روشنی باہر نہیں، اندر روشن ہوتی ہے۔ جب انسان دنیا کے ہنگاموں سے نکل کر اپنے اندر جھانکتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ امام کا فراق دراصل اس کی روح کی ادھوری داستان ہے۔ ایک ایسی داستان جو صرف تب مکمل ہو سکتی ہے جب منتظر، اپنے دل کو اس نور کے لیے تیار کرے۔
انتظار صبر کا نام ہے، مگر ایسا صبر جو سستی نہیں بلکہ بیداری پیدا کرے۔
جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"أفضل العبادة انتظار الفرج”۔
بہترین عبادت فرج کا انتظار ہے۔
لیکن یہ انتظار صرف الفاظ نہیں، ایک زندہ طرزِ حیات ہے۔ وہ طرزِ حیات جو عدل کا عاشق ہو، جو ظالم سے نفرت کرے، جو ہر لمحہ یہ چاہے کہ وہ خود امام کے ظہور کی زمین بن جائے، اور اپنی اصلاح سے دنیا کی اصلاح میں شریک ہو۔
غیبت کے دور میں سب سے بڑی روحانی ضرورت ہے: معرفت۔
وہ معرفت جو صرف پڑھنے سے نہیں، جینے سے آتی ہے۔ معرفتِ امام، معرفتِ نفس، معرفتِ وقت۔
وہ وقت جب شب کے آخری پہر میں ایک منتظر آنکھوں میں اشک لیے کہتا ہے:
"مولايَ، يا مولاي، أنت الغاية والمنتهى، أين طلبك؟”
اے میرے مولا! آپ ہی میری آخری منزل ہیں، آپ کہاں ہیں؟
یہی لمحات ہوتے ہیں جہاں ایک منتظر کا دل دنیا کی گرد سے پاک ہو کر، روح کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہے۔ جہاں دل صرف "ظہور کب ہوگا؟” نہیں پوچھتا، بلکہ کہتا ہے: کیا میں ظہور کے لائق ہوں؟
یہ سوال انسان کو عمل پر ابھارتا ہے۔ ہر گناہ سے نفرت، ہر خیر سے محبت، ہر مظلوم کے لیے درد، ہر مخلص دعا میں امام ؑکے ظہور کی التجا۔ پھر دل کہتا ہے:
اے امام وقت! آپ کے فراق نے ہمیں تڑپا دیا ہے، لیکن اس تڑپ کو ہم نے روشنی میں بدلا ہے۔ ہم نے آپ کے نام پر خود کو سنوارا ہے، ہم نے آپ کے درد کو اپنی دعا میں بسایا ہے۔
اہل بیت علیہم السلام نے ہمیں غیبت کے دور کے لیے جو دعائیں سکھائیں، وہ دراصل ایک منتظر کی روحانی تربیت کا نصاب ہیں۔
دعائے عہد — ایک منتظر کی صبح کا آغاز
دعائے ندبہ — ایک عاشق کی پکار
زیارتِ آلِ یٰس — ایک باطن کی صفائی
یہ سب روحانی مقامات ہیں، جہاں دل روشنی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ روشنی جو غیبت کے پردے کے پیچھے چھپی ہے، مگر منتظر دلوں کو صاف دکھائی دیتی ہے۔
آخر میں، یہ سوال کہ: کیا امام کی غیبت ایک اندھیری رات ہے؟
نہیں، اگر دل میں یقین ہو، اور آنکھ میں انتظار کا نور ہو، تو یہ غیبت ایک طلوعِ سحر ہے؛ وہ سحر جو ہر شب کے بعد طلوع ہوتی ہے، وہ سحر جو ہر مخلص دل کی دعا میں چھپی ہوئی ہے، وہ سحر جو آئے گی، جب منتظر اپنے دلوں کو ظہور کے قابل بنا لیں گے۔
اور تب امام ؑخود پکاریں گے:
"أنا بقية اللّٰه في أرضه…”
میں اللہ کی زمین پر اُس کی باقی نشانی ہوں۔
پس اے منتظر دل! اپنی تلاش کو جاری رکھ، اپنی روح کو پاک رکھ، اپنے عمل کو روشن رکھ، کیونکہ غیبت کے پردے میں چھپی روشنی، تجھ سے زیادہ دور نہیں۔۔۔ بس تُو بیدار ہو جا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button