سیرتسیرت امام زین العابدینؑ

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے اخلاقی کمالات و اوصاف کی ایک جھلک توھین کا جواب

امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک خاندانی شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ پر چلایا اور آپ کو ناسزا باتیں کہیں! لیکن امام علیہ السلام نے اس کو ایک بات کا بھی جواب نہ دیا یھاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر واپس ہوگیا۔

اس کے جانے کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگوں نے سنا کہ یہ شخص کیا کہہ رھا تھا؟ میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ چلو تاکہ میں جو اس کو جواب دوں وہ بھی سن لو، انھوں نے کھا: ٹھیک ھے ، ھم آپ کے ساتھ چلتے ھیں ، چنانچہ امام علیہ السلام نے نعلین پہنے اور اس کے گھر کی طرف روانہ ہوے، اور فرمایا:

<… وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنْ النَّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ> (1)

”…اور غصہ کو پی جاتے ھیں اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ھیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے۔“

(آپ کے ساتھی کہتے ھیں:) ھمیں معلوم ہوگیا کہ امام علیہ السلام اس سے کچھ نہیں کہیں گے، بہرحال اس کے گھر پر پھنچے ، اور بلند آواز میں کھا: اس سے کہو؟ یہ علی بن حسین (علیھما السلام) آئے ھیں، وہ شخص جو فساد کرنے کے لئے تیار تھا اپنے گھر سے باھر نکلا اور اُسے شک نھیں تھا کہ آپ اس کی توھین آمیز گفتگو کی تلافی کرنے کے لئے آئے ھیں، امام سجاد علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے بھائی! کچھ دیر پہلے تم نے میرے سامنے میرے بارے میں کچھ باتیں کہیں، اگر مجھ میں وہ باتیں پائی جاتی ھیں تو میں خدا کی بارگاہ میں طلب بخشش چاہتا ہوں، اور اگر وہ باتیں مجھ میں نھیں پائی جاتیں تو خدا تجھے معاف کردے، (یہ سننا تھا کہ) اس شخص نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا: جو چیزیں میں نے کہیں وہ آپ میں نھیں ھیں بلکہ میں خود ان باتوں کا زیادہ سزاوار ہوں۔

روایت کا راوی کہتا ھے: وہ شخص حسن بن حسن آپ کا چچا زاد بھائی تھا!(2)

جذام والوں کے ساتھ محبت

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ایک روز حضرت اما م سجاد علیہ السلام جذام والوں کے پاس سے گزرے اور آپ اپنی سواری پر سوار تھے، اور وہ لوگ کھانا کھا رھے تھے، انھوں نے آپ کو کھانا کھانے کی دعوت دی، امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر میں روزہ سے نہ ہوتا تو تمھارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا، اور جب آپ اپنے گھر پہنچے تو حکم دیا کہ کھانا بنایا جائے اور سلیقہ سے اچھا کھانا بنایا جائے اور پھر ان لوگوں کو کھانے کی دعوت دی اور خود بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔(3)

امن و امان کی فضا

حضرت امام علی بن الحسین علیھما السلام نے ایک روز اپنے غلام کو دو بار آواز دی لیکن اس نے جواب نہیں دیا، آپ نے اس سے تیسری بار فرمایا: اے میرے بیٹے! کیا تو نے میری آواز نہیں سنی؟ اس نے کھا: کیوں نھیں سنی، آپ نے فرمایا: تو تجھے کیا ہوگیا کہ میرا جواب نھیں دیا؟ اس نے کھا: آپ کی طرف سے امنیت کا احساس تھا، امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا شکر ھے کہ میرا خدمتگار میری نسبت امن و امنیت کا احساس رکھتا ھے۔(5)

مخفی طور پر احسان کرنا

مدینہ میں کچھ ایسے گھرانے تھے کہ جن کی روزی اور ان کی زندگی کا ضروری سامان امام علیہ السلام کی طرف سے جاتا تھا لیکن ان کو یہ نھیں معلوم تھا کہ یہ سامان کہاں سے آتا ھے؟ جب امام سجاد علیہ السلام کی شھادت ہوگئی ، (تو ان کو معلوم ہوا کہ وھی مخفی طور پر امداد کیا کرتے تھے!)

اسی طرح بیان ہوا ھے کہ: امام سجاد علیہ السلام ھمیشہ رات کی تاریکی میں تھیلیوں کو درھم و دینار سے بھر کر باھر نکلتے تھے اور در در پر جاکر دق الباب کیا کرتے تھے اور ھر گھر میں ایک مقدار درھم و دینار دیا کرتے تھے، آپ کی شھادت کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ امام سجاد (علیہ السلام) کی طرف سے آتا تھا۔(6)

نماز اور احسان

ابوحمزہ ثمالی کہتے ھیں: میں امام سجاد علیہ السلام کو نماز کی حالت میں دیکھا کہ آپ کی ردا آپ کے شانے سے گر جاتی ھے لیکن اس کو روکنے کے لئے توجہ نہیں کرتے یہاں تک کہ آپ کی نماز تمام ہوئی،میں نے نماز میں آپکی ردا پر بے توجھی کا سبب معلوم کیا؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا: وائے ہوتم پر! کیا تمھیں معلوم ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ انسان کی کوئی اس نماز کے علاوہ قبول نھیں ہوتی جو دل سے پڑھی جائے۔

قرآنی عفو و بخشش

حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ایک کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رھی تھی اچانک اس کے ہاتھوں سے لوٹا آپ کی چہرہ مبارک پر گر گیا اور آپ کی پیشانی زخمی ہوگئی! امام سجاد علیہ السلام نے اپنا سر مبارک جھکا لیا، (اس موقع پر) کنیز نے کہا: خداوندعالم فرماتا ھے: ”…اور غصہ کو پی جاتے ھیں(7) امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے غصہ کو پی لیا، اس کنیز نے کھا: ”…اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں…۔“(8) امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا، کنیز نے کہا: ”… اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے…۔“(9) امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: جا، میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا۔(10)

بازیگروں کے نقصان کا دن

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: مدینہ میں ایک بازی گر اور بےہودہ شخص تھا، (ایک روز) اس نے کہا: یہ شخص (علی بن الحسین علیھما السلام) کو میں ہنسانے میں ناکام ہوں، امام علیہ السلام اپنے دو خدمت گاروں کے ساتھ جا رھے تھے، چنانچہ وہ بھی آپ کے ساتھ چل دیا یھاں تک کہ وہ آپ کے شانوں سے آپ کی ردا اتار کر روانہ ہوگیا، امام علیہ السلام نے اس پر توجہ نہ کی، لیکن لوگ اس کے پیچھے روانہ ہوئے اور اس سے وہ ردا لے کر واپس آئے اور آپ کے مبارک شانوں پر ڈال دی، امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ کون ھے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ ایک بازی گر ھے جو مدینہ والوں کو ہنساتا پھرتا ھے، امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے کہو کہ خداوندعالم کے ہاں ایک ایسا دن ھے جس میں بیہودہ لوگوں کا خسارہ اور نقصان ہوگا۔(11)

قافلہ میں نا آشنا

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: علی بن الحسن علیھما السلام کبھی بھی سفر پر نھیں جاتے تھے مگر ایسے لوگوں کے ساتھ جو آپ کو نہ پہنچانتے ہوں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ضرورت کے وقت آپ ان کی مدد کریں گے۔

ایک بار ایک قافلہ سفر کے لئے روانہ ہوا، ایک شخص نے امام سجاد علیہ السلام کو دیکھا تو پہچان لیا، اس نے کہا: کیا تمھیں معلوم ھے کہ یہ کون ھیں؟ انھوں نے کہا: نھیں، اس نے کہا: یہ علی بن الحسین (علیہ السلام) ہیں، چنانچہ سب لوگ آپ کی طرف دوڑے اور آپ کے ہاتھ او رپیر کا بوسہ دینے لگے، اور انھوں نے کھا: یابن رسول اللہ! کیا آپ ھمیں اپنے ہاتھوں اور زبان کے ذریعہ دوزخ میں بھیجنا چاہتے ھیں؟ اگر ایسا ہوجاتا تو ھم آخر عمر تک ھلاک اور بدبخت ہوجاتے! کس چیز نے آپ کو ایسے سفر کے لئے مجبور کیا ھے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ایک بار ایسے قافلہ کے ساتھ سفر پر گیا جو مجھے پہچانتے تھے، اور پیغمبر اکرم (ص) کی وجہ سے مجھ سے ایسا سلوک کیا کہ جس کا میں حقدار نھیں ہوں، میں ڈرا کہ تم بھی مجھ سے ایسا ھی سلوک کرو گے، اسی وجہ سے میں نے خود کو نا آشنا رکھا جو مجھے پسند ھے۔(12)

حیوانوں کے ساتھ نیک برتاؤ

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: علی بن الحسین (امام سجاد) علیہ السلام نے اپنی شھادت کے وقت اپنے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام سے فرمایا: میں اس اونٹ پر ۲۰ بار حج کے لئے جا چکا ہوں اور اس کو ایک تازیانہ تک نھیں مارا، جب یہ مر جائے تو اس کو دفن کرنا تاکہ درندے اس کے گوشت کو نہ کھائیں، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کوئی بھی اونٹ ایسا نھیں ھے جو مقام عرفہ میں سات بار لے جایا گیا ہو مگر یہ کہ خداوندعالم اس کو جنت کی نعمتوں میں سے قرار دے اور اس کی نسل کو بابرکت قرار دے، چنانچہ جب امام سجاد علیہ السلام کا اونٹ مر گیا تو امام محمد باقر علیہ السلام نے اس کو دفن کردیا۔(13)

افطاری بخش دینا

ایک روز حضرت اما م سجاد علیہ السلام روزہ سے تھے، ایک گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بنائیں، جب غروب کا وقت آگیا اور آپ روزہ سے تھے تو آپ دیگ کے پاس پہنچے اور آبگوشت کی خوشبو کو سونگھا اور اس کے بعد فرمایا: ظرف لائے جائیں، (چنانچہ جب ظرف آگئے تو آپ نے فرمایا: ان ظرفوں میں فلاں فلاں کے لئے گوشت بھر کر لے جاؤ، یھاں تک کہ پوری دیگ خالی ہوگئی، اس موقع پر امام سجاد علیہ السلام کے لئے روٹی اور کھجور لایا گیا اور آپ نے اس سے افطار کیا۔(14)

غریبوں کی مدد

جب رات کی تاریکی بڑھ جاتی تھی اور لوگ سوجایا کرتے تھے تو امام علیہ السلام اٹھتے تھے اور گھر میں اپنے اھل و عیال سے بچا ہوا رزق و روزی جمع کیا کرتے تھے ا ور تھیلیوں میں رکھ کر اپنے شانوں پر رکھتے تھے اور اپنے منھ کو چھپالیا کرتے تھے تاکہ کہیں پہنچانے نہ جائیں، اور پھر غریبوں کے گھر جاتے اور ان کے درمیان تقسیم کردیا کرتے تھے۔

بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ لوگوں کے دروازوں پر انتظار میں کھڑے رہتے تھے تاکہ وہ آئیں اور اپنا حصہ لے جائیں، لوگ جب آپ کو دیکھتے تھے اور بلا واسطہ آپ کا مشاہدہ کیا کرتے تھے فوراً آپ کی خدمت میں جاتے تھے اور کہا کرتے تھے: تھیلیوں والے آگئے ہیں۔(15)

انگور کا واقعہ

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ انگور پسند فرماتے تھے، (ایک روز) بہترین انگور مدینہ میں لائے گئے، آپ کی کنیز جو امّ ولد تھی اس نے آپ کے لئے کچھ انگور خریدے اور افطار کے وقت آپ کے لئے حاضر کئے، امام علیہ السلام کو انگور پسند آئے، ابھی ان کی طرف ہاتھ بڑھانے ہی چاہتے تھے کہ ایک غریب نے دق الباب کیا اور مدد کی درخواست کی، امام علیہ السلام نے امّ ولد سے فرمایا: یہ اس کو دیدو، اس نے عرض کیا: اس میں سے تھوڑے انگور اس کے لئے کافی ھیں، فرمایا: نھیں، خدا کی قسم! سب کے سب اس کو دیدو۔

دوسرے دن بھی آپ کے لئے انگور خریدے گئے کہ ایک غریب آیا اور امام علیہ السلام نے سارے انگور اس کو دلادئے۔

تیسرے روز کوئی سائل نھیں آیا، چنانچہ امام علیہ السلام نے انگور کھائے اور فرمایا: ھمارے ہاتھ سے کچھ نھیں گیا، اور خدا کا شکر ادا کیا۔(16)

بچپن میں آپ کی عظمت و کمال

عبد اللہ بن مبارک کہتے ھیں: ایک سال میں مکہ گیا، حاجیوں کے ساتھ چل رھا تھا کہ اچانک ایک سات یا آٹھ سال کے بچہ کو دیکھا کہ حاجیوں کے ساتھ ساتھ چل رھا ھے اور اس کے پاس کوئی زاد راہ بھی نھیں ھے، میں اس کے پاس گیا اوراُسے سلام کیا اس کے بعد اس سے کہا: تم نے کس کے ساتھ جنگل و بیابان طے کیا ھے، اس نے کہا: خداوندمھربان کے ساتھ۔

میری نظر میں ایک بزرگ انسان معلوم ہوا، میں نے کہا: اے میرے بیٹے! تمھارا زاد راہ کھاں ہے؟ اس نے کہا: میرا زاد راہ میرا تقویٰ اور میرے دو پیر ہیں اور میرا ہدف میرا مولا ہے۔

میرے نزدیک اس کی اھمیت بڑھ گئی، میں نے کھا: کس گھرانے سے تعلق رکھتےہو؟ اس نے کھا: علوی اور فاطمی، میں نے کھا: اے میرے سید و سردار! کیا کچھ اشعار بھی کھیں ہیں؟ اس نے کھا: جی ہاں، میں نے کھا اپنے کچھ اشعار سنائیے، چنانچہ اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے:

ھم حوض کوثر پر واردہونگے کہ ایک گروہ کو وہاں سے ہٹایا جائے گا اور ھم حوض کوثر پر وارد ہونے والوں کو پانی پلائیں گے، کوئی بھی ھمارے وسیلہ کے بغیر نجات نھیں پاسکتا، اور جو شخص ھمیں دوست رکھتا ہو اس نے اپنی کوشش اور زاد راہ میں نقصان نھیں اٹھایا، جو شخص ہمیں خوش کرے تو ھماری طرف سے اس کو خوشی پہنچے گی، اور جو شخص ہمیں رنجیدہ کرے اس کی ولادت بُری تھی اور جو شخص ھمارا حق غصب کرے تو اس کے عذاب کو دیکھنے کا وعدہ روز قیامت ھے!

(راوی کا کہنا ھے کہ ) اور پھر وہ میری نظروں سے غائب ہوگیا یھاں تک کہ میں مکہ پہنچا اور اپنا حج تمام کیا اور واپس پلٹ گیا، مقام ”ابطح“ میں دیکھا کہ لوگ ایک جگہ جمع ہیں گردن اٹھاکر دیکھا کہ یہ لوگ کس وجہ سے جمع ہوئے ھیں، دیکھا تو وھی بچہ ھے جس سے میں نے گفتگو کی تھی، میں نے سوال کیا: یہ کون ھے؟ تو مجھے بتایا گیا: یہ زین العابدین ھیں۔ (17)

ماں کا حق

حضرت امام سجاد علیہ السلام سے کہا گیا: آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیکوکار ھیں لیکن آپ اپنی والدہ کے ساتھ ہم غذا نھیں ہوتے جبکہ وہ ایسا چاہتی ہیں! تو امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھے یہ پسند نھیں ہے کہ میں اس لقمہ کی طرف ھاتھ بڑھاؤ ں کہ جس کی طرف میری والدہ کی آنکھیں پہل کرچکی ہو، کہ جس کے نتیجہ میں عاق ہوجاؤں. اس کے بعد آپ اپنی والدہ گرامی کے ساتھ کھانا کھاتے وقت کھانے کو ایک طبق سے ڈھک دیا کرتے تھے اور اس طبق کے نیچے سے ھاتھ لے جاتے اور کھانا کھاتے تھے۔(20)

قرض ادا کرنے کی ضمانت

عیسی بن عبد اللہ کہتے ہیں: جب عبد اللہ کی موت کا وقت آگیا تو اس کے طلبگار جمع ہوگئے اور اپنے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگے، چنانچہ اس نے کہا: میرے پاس کچھ نھیں ہے تاکہ تمھیں ادا کروں، میرے چچا زاد بھائیوں یا علی بن الحسین یا عبد اللہ بن جعفر پر راضی ہوجاؤ کہ وہ تمھارا قرض ادا کردیں گے۔

قرض داروں نے کھا: عبد اللہ بن جعفر تو ایسے شخص ہیں کہ لمبے لمبے وعدہ دیتے ہیں اور وہ لاؤ بالی شخص ہیں اور علی بن الحسین علیہ السلام کے پاس کچھ نھیں ہے، لیکن بہت سچے ہیں، لہٰذا یھی ھماری مشکل کو آسان کرنے کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔

جب یہ خبر امام علیہ السلام تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: میں غلّہ کی فصل کٹنے کے وقت ان کا قرض ادا کردوں گا جبکہ آپ کے پاس کوئی فصل بھی نھیں تھی، لیکن جب غلّہ کی فصل کٹنے کا وقت آیا تو آپ نے سبھی قرضداروں کا قرض ادا فرمادیا۔(21)

بے نظیر بُردباری

ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی، چنانچہ آپ کے غلاموں نے اس کو مارنا چاہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو چھوڑو، جو چیز ہم سے مخفی ہے اس سے کْہیں زیادہ ہے جو ھمارے بارے میں کہتے ہیں، اور پھر اس شخص سے فرمایا: کیا تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟ چنانچہ وہ شخص شرمندہ ہوگیا، امام علیہ السلام نے اپنا لباس اس کو عطا کیا اور حکم دیا کہ ایک ہزار درھم اس کو عطا کردو، (یہ دیکھ کر) اس شخص نے بلند آواز میں کہا: میں گواھی دیتا ہوں کہ آپ فرزند رسول اللہ ہیں۔ (22)

غیبت کے مقابل ردعمل

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک گروہ کے پاس پہنچے جو آپ کی غیبت کر رہے تھے، ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان سے کہا: اگر تم اپنے قول میں سچے ہوتو خداوندعالم مجھے بخش دے اور اگرتم جھوٹ کہہ رہے ہوتو خداوندعالم تمھیں بخش دے۔(23)

غیر عمدی قتل (سے در گزر)

حضرت امام سجاد علیہ السلام کے ہاں چند مھمان تھے، امام علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: تنوری بریاں گوشت جلدی لے کر آؤ، خادم اس لوہے کو جلدی سے لے کر چلا جس پر بریاں گوشت تھا کہ اچانک اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، اور آپ کے ایک بیٹے کے سر پر جا گرا جو نچلی منزل میں تھا اور آپ کا وہ فرزند فوت ہوگیا، (غلام حیرت زدہ اور لرز رھا تھا) آپ نے اس غلام سے فرمایا: اس کام کو تو نے جان بوجھ نہیں کیا ہے، لہٰذا تو راہ خدا میں آزاد ہے، اور پھر امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے غسل و کفن دیکر دفن کر دیا۔(24)

بے انتہا اخلاص

امام سجاد علیہ السلام کا ایک چچا زاد بھائی بہت زیادہ غریب تھا کہ امام علیہ السلام رات کی تاریکی میں نا آشنا کی صورت میں اس کے دروازہ پر آکر دینار عطا کیا کرتے تھے، وہ کہتا تھا: علی بن الحسین میرے ساتھ صلہٴ رحم نہیں کرتے، خداوندعالم ان کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دے، امام علیہ السلام نے اس کی باتوں کو سنا اور برداشت کیا اور صبر سے کام لیا اور اپنا تعارف نہ کرایا، چنانچہ جب آپ اس دنیا میں نہ رہے تو اس کو معلوم ہوگیا کہ جو شخص رات کی تاریکی میں مدد کیا کرتا تھا وہ امام سجاد علیہ السلام تھے!! چنانچہ وہ آپ کی قبر کے پاس آیا اور آپ کی شہادت پر بہت زیادہ رویا۔(25)

دشمن ازلی حصین بن نمیرکے ساتھ آپ کی کرم نوازی

مدینہ کوتباہ وبربادکرنے کے بعدمسلم بن عقبہ ابتدائے ۶۴ ھ میں مدینہ سے مکہ کوروانہ ہوگیااتفاقا راہ میں بیمارہوکروہ گمراہ راہی جہنم ہوگیا،مرتے وقت اس نے حصین بن نمیرکواپناجانشین مقررکردیااس نے وہاں پہنچ کرخانہ کعبہ پرسنگ باری کی اوراس میں آگ لگادی، اس کے بعدمکمل محاصرہ کرکے عبداللہ ابن زبیر کوقتل کرناچاہا اس محاصرہ کوچالیس دن گزرے تھے کہ یزیدپلیدواصل جہنم ہوگیا، اس کے مرنے کی خبرسے ابن زبیرنے غلبہ حاصل کرلیااوریہ وہاں سے بھاگ کرمدینہ جاپہنچا۔

مدینہ کے دوران قیام میں اس معلون نے ایک دن بوقت شب چندسواروں کولے کرفوج کے غذائی سامان کی فراہمی کے لیے ایک گاؤں کی راہ پکڑی ،راستہ میں اس کی ملاقات حضرت امام زین العابدین سے ہوگئی ،آپ کے ہمراہ کچھ اونٹ تھے جن پرغذائی سامان لداہواتھا اس نے آپ سے وہ غلہ خریدناچاہا، آپ نے فرمایاکہ اگرتجھے ضرورت ہے تویونہی لے لے ہم اسے فروخت نہیں کرسکتے (کیونکہ میں اسے فقراء مدینہ کے لیے لایاہوں) اس نے پوچھاکہ آپ کانام کیاہے،آپ نے فرمایامجھے ”علی بن الحسین“ کہتے ہیں پھرآپ نے اس سے نام دریافت کیاتواس نے کہامیں حصین بن نمیرہوں، اللہ رے، آپ کی کرم نوازی، آپ جاننے کہ باوجودکہ یہ میرے باپ کے قاتلوں میں سے ہے اسے ساراغلہ مفت دیدیا(اورفقراء کے لیے دوسرابندوبست فرمایا) اس نے جب آپ کی یہ کرم گستری دیکھی اوراچھی طرح پہچان بھی لیاتوکہنے لگاکہ یزیدکاانتقال ہوچکاہے آپ سے زیادہ مستحق خلافت کوئی نہیں، آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں، میں آپ کوتخت خلافت پربٹھاؤں گا،آپ نے فرمایاکہ میں خداوندعالم سے عہدکرچکاہوں کہ ظاہری خلافت قبول نہ کرو ں گا، یہ فرماکر آپ اپنے دولت سراکوتشریف لے گئے۔(26)

حوالہ جات

[1] سورہٴ آل عمران (۳)، آیت۱۳۴.

[2] ارشاد، مفید، ج۲، ص۱۴۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۵۴۵، باب۵، حدیث۱.

[3] اصول کافی، ج۲، ص۱۲۳، باب التواضع، حدیث۸؛ وسائل الشیعة، ج۱۵، ص۲۷۷، باب۳۱، حدیث ۲۰۵۰۷؛ بحارالانوار، ج۴۶، ص۵۵، باب۵، حدیث۲.

[4] ارشاد، مفید، ج۲، ص۱۴۷؛ بحارالانوار، ج۴۶، ص۵۶، باب۵، حدیث۵.

[5] اعلام الوریٰ، ص۲۶۱، چوتھی فصل؛ کشف الغمة، ج۲، ص۸۷؛ مشکاة الانوار، ص۱۷۸، فصل ۲۲؛ بحار الانوار، ج۴۶، باب۵، حدیث۶.

[6] علل الشرائع، ج۱، ص۲۳۱، باب۱۶۵، حدیث۸؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۶، باب۵، حدیث۲۸.

[7] < وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ…> (سورہٴ آل عمران، آیت۱۳۴).

[8] <…وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ…> (سورہٴ آل عمران، آیت۱۳۴).

[9] <…وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِین> (سورہٴ آل عمران، آیت۱۳۴).

[10] امالی، صدوق، ص۲۰۱، مجلس ۳۶، حدیث۱۲؛ روضة الواعظین، ج۲، ص۳۷۹؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۷، باب۵، حدیث۳۶.

[11] امالی، صدوق، ص۲۲۰، مجلس۳۹، حدیث۶؛ امالی، مفید، ص۲۱۹، مجلس ۲۵،حدیث۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۸، باب۵، حدیث۳۹.

[12] عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۴۵، باب۴۰، حدیث۱۳؛ وسائل الشیعة، ج۱۱، ص۴۳۰، باب۴۶، حدیث ۱۵۱۷۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۹، باب۵، حدیث۴۱.

[13] ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص۵۰؛ المحاسن، ج۲، ص۶۳۵، باب۱۵، حدیث ۱۳۳؛ وسائل الشیعة، ج۱۱، ص۵۴۱، باب۵۱، حدیث ۱۵۴۸۶؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۷۰، باب۵، حدیث۴۶.

[14] اصول کافی، ج۴، ص۶۸، باب من فطر صائماً، حدیث۳؛ مناقب، ج۴، ص۱۵۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۷۱، باب۵، حدیث۵۳.

[15] مناقب ، ج۴، ص۱۶۳؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۸۹، باب۵، حدیث۷۷.

[16] مناقب ، ج۴، ص۱۵۴؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۰، باب۵، حدیث۷۷.

[17] مناقب ، ج۴، ص۱۵۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۱، باب۵، حدیث۷۸.

[18] بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۲، باب۵، حدیث۷۹.

[19] الزھد، ص۴۵، باب۷، حدیث۱۱۹؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۲، باب۵، حدیث۸۰.

[20] مناقب ، ج۴، ص۱۶۲؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۳، باب۵، حدیث۸۲.

[21] اصول کافی، ج۵، ص۹۷، باب قضاء الدین، حدیث۷؛ مناقب، ج۴، ص۱۶۴؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۴، باب۵، حدیث۸۴.

[22] مناقب، ج۴، ص۱۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۵، باب۵، حدیث۸۴.

[23] الخصال، ج۲، ص۵۱۷، حدیث۴؛ مناقب، ج۴، ص۱۵۸؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۶، باب۵، حدیث۸۴.

[24] کشف الغمة، ج۲، ص۸۰؛ مسکن الفوٴاد، ص۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۹، باب۵، حدیث۸۷.

[25] کشف الغمة، ج۲، ص۱۰۶؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۱۰۰، باب۵، حدیث۸۸.

26۔(تاریخ طبری فارسی ص ۶۴۴) ۔

Source: https://www.erfan.ir/urdu/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button