سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت)حاصل کرنا

صدر اسلام میں مسلمان ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے پانی یا وہ بال جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گرجاتا یا آپ کے لعاب دھن سے تبرک (برکت)حاصل کرتے تھے ۔
سمہودی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حرم اور روضہ مبارک کے آداب کے بیان میں تحریر کرتے ہیں:
پیغمبر اسلام کے روضہ مبارک اور حرم کے آداب و زیارات میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر شریف کے قریب آکر اللہ کو پکارے کیونکہ اللہ تعالی نے وہاں تک پہنچنے کی تمام مشکلوں کو آسان کر دیاہے پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودو سلام پڑھے اور اپنے لئے خدا وند کریم سے نیکیوں کو طلب کرے،نیز اپنے لئے اللہ سے پناہ مانگے جیسا کہ ابن عساکر نے کہا ہے ۔ اس کے بعد اقشہری تحریر کرتے ہیں : میں نے اصحاب رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کچھ اصحاب کو دیکھاکہ جس وقت وہ مسجد میں داخل ہوئے توانہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح منبر کے ایک حصے کو پکڑا اور قبلہ کا رخ کرکے دعا مانگنی ۔
عیاص نے کتاب الشفاء میں ابی قسیط اورعتبی کے حوالے سے تحریر کیا ہے :اصحاب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )جس وقت مسجد رسو ل میں ہوتے تو وہ قبہ منبر کہ جو قبر مبارک کی سمت میں ہے،اس کو پکڑکر قبلہ رخ ہوکر دعا کرتے تھے۔
کتاب وفاء الوفا ج۴ص۱۴۰۱
ابو بکر اثرم کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل ) سے کہا : کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو چھونا اور مس کرنا جائز ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا مجھے نہیں معلوم، میں نے کہا: رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں منبر رسول اسلام کے متعلق ایک روایت ہے جس کو ابن ابی فدیک نے ابن ابی ذؤیب سے اورانہوں نے ابن عمر سے نقل کی ہے کہ ابن عمر منبر کو مس کرتے تھے ۔ اور اس مطلب( مس کرنے) کو سعید بن مسیب نے قبہ منبر کے جلنے سے پہلے نقل کیاہے ۔ اور یحیی ابن سعید ،مالک کے استاد سے روایت ہے کہ جب انہوں نے مدینہ سے نکلنے اور عراق جانے کا ارادہ کیا تو منبر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آئے ، اسکو مس کیا ،پھر دعا کی ، میں نے دیکھا کہ وہ اسکام کو اچھا جانتے تھے۔
کتاب وفاء الوفا جلد ۴ص۱۴۰۱
۲۔کتاب شرح الکبیر کی ایک فصل میں اس طرح ذکر ہوا ہے:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر شریف کی دیوار کو بوسہ دینا اور مسح کرنامستحب نہیں ہے اس کے بعد کہتے ہیں: لیکن منبر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھونے یا مس کرنے کے متعلق روایت موجودہے جس کو ابراھیم بن عبد اللہ بن عبد القاری نے نقل کیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو دیکھا کہ منبر پر جس جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے اس پر ابن عمر نے ہاتھ رکھے اور پھرہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلئے۔
عبد الرحمن بن قدامہ الشرح الکبیر جلد ۳ص۴۹۶
۳۔بھوتی نے بھی اس روایت کو ابن عمر سے نقل کیا ہے ۔
اکتشاف القناع ج ۲ص۶۰۰
۴۔شوکانی نے بیان کیاہے : امام احمدبن حنبل سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر اور قبر کو بوسہ دینے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن انکے اصحاب اس مسئلے کو صحیح نہیں جانتے ہیں۔
نیل الاوطار ج ۵ ص۱۱۵
۵۔ اسی طرح ابن حجر سے بھی نقل ہوا ہے۔
فتح الباری ج۳ ص۴۹۶
شرح الکبیر میں ابن قدامہ نے اثرم سے نقل کیاہے:
اما المنبر فقدجاء فیہ ما رواہ ابراھیم بن عبد اللہ بن عبد القاری انہ نظر الی ابن عمر وھو یضیع یدہ علی مقعدہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من المنبر ثم یضعھا علی وجھہ
پیغمبر اسلام کے منبر کو چھونے یا مس کرنے کے متعلق ابراھیم بن عبد اللہ بن عبد القاری نے روایت بیان کی ہے: انہوں نے ابن عمر کو دیکھا کہ منبر پر جس جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے اس پر ابن عمر نے ہاتھ رکھے اور پھرہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلئے۔
الشرح الکبیر ج ۳ ص۴۹۶
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک (برکت) طلب کرنے کے سلسلہ میں سنی ، شیعہ روایات اور تواریخ میں بیان ہوا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمان ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے پانی یا وہ بال جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گرجاتایا آپ کے لعاب دھن سے تبرک (برکت)حاصل کرتے تھے ۔
ہم یہاں پر نمونہ نے کے طور پر بعض تبرکات کو بیان کرتے ہیں:
۱۔ عروہ بن مسعود ثقفی حدیبہ والے سال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے تھے، اچانک انہوں نے دیکھا کہ اصحاب آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی یا جس پانی سے آپ نے ہاتھ منہ دھویاتھا اس پانی سے تبرک حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں اور نزدیک تھا کہ وہ اس پانی کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو قتل کردیں اور یہی کام وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپ دہان کے سلسلہ میں کرتے تھے اور اگر آپ کا کوئی بال گرجاتا تھا تو اصحاب اس کو فورا اٹھا لیتے تھے۔
کتاب سیرة حلبیہ ج ۳ص۱۵ کشف الارتیاب سے نقل ہو اہے ص۴۴۲و۴۴۳
۲۔بخاری نے باب صفة النبی میں اپنی سند کے ساتھ ابی جحیفہ سے نقل کیاہے : ایک مرتبہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی بطحا (بیابان مکہ) کی طرف جانے کے لئے اپنے بیت الشرف سے نکلے اور نماز کے وقت آپ نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ظہر اور دو رکعت نماز عصر بجا لائے پھر وہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے ہاتھوں کو پکڑکراپنے چہروں پر ملنے لگے ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کو پکڑکر اپنے چہرہ پر ملنے لگا تو اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈے اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھے ۔
بخاری اسی باب کے آخر میں اپنی سند کے ساتھ اسی راوی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:بلال، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لوگوں کے لئے لائے اور انہوں نے اس پانی کو تبرک (برکت) کے طو ر پر اپنے پاس محفوظ کر لیا ۔
صحیح بخاری جلد ۴ ص۲۲۹و۲۱۳
۳۔مسلم کتاب الصلاة میں اپنی سند کے ساتھ ابی جحیفہ سے نقل کرتے ہیں:
میں نے مکہ کے بیابان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی تو بلال آپ کے وضو کا پانی لیکر آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑے بعض لوگوں کو پانی مل گیا اور بعض ایک دوسرے تک اس پانی کی رطوبت پہنچائی اور اس پانی کے قطروں کوان کے اوپر چھڑک دیا۔ مسلم اپنی سند کے ساتھ اسی راوی سے بیان کرتے ہوئے ایک حدیث میں کہتے ہیں : میں نے بلال کو دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا پانی لیکر آئے تو اصحاب، آپ کی طرف دوڑ ے ، بعض اصحاب کو وضو کا وہ پانی مل گیا اور جن کو نہیں ملا انہوں نے اپنے ہاتھ سے اس پانی کی رطوبت کو دوسرے صحابی کے چہر ہ پر مل دی ۔
نووی کہتے ہیں: اس باب میں یہ بھی ہے کہ صالحین کے آثار سے تبرک حاصل کرنا اوران کے وضو کے باقی بچے ہوئے پانی ، غذا اور انکے پہنے ہوئے لباس کو تبرک کے طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
صحیح مسلم با شرح نووی جلد ۴ص۲۱۸و۲۲۰
اگر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے وضو کے پانی سے جو انکے ہاتھوں سے گرا ہے یا ان کے بالوں سے تبرک (برکت) حاصل کرنا جائز ہو اوررسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کو ایسا کرنے سے منع نہ کیاہو تو پھر بدرجہ اولی ان کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا جس میں آپ کا جسم اطہر موجود ہے جائزہے ۔ کیونکہ تبرک میں ہر وہ چیز معیار ہے جو آپ کی ذات سے وابسطہ ہے اور وہ آپ کے بدن مبارک سے ملی ہوئی ہوجبسے آپ کا لباس اور اس کے جیسی دوسری چیزیں۔ اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قبر میں آپ کا پورا جسم مبارک موجود ہے تو پھر قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا شرک کیسے ہو سکتا ہے۔
طاہری خرم آبادی توحید و زیارات ص۹۱و۹۳
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے سلسلہ میں اصحاب اور تابعین کی سیرت
علماء اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اصحاب و تابعین کی سیرت عملی یہ تھی کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی ہمیشہ زیارت کیا کرتے تھے ہم یہاں نمونے کے طور پر بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔مالک ابن انس عبد اللہ بن دینا رسے نقل کرتے ہیں: ابن عمر ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب کھڑے ہوئے کر آپ پر دورو سلام پڑھتے تھے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے لئے دعاکرتے تھے۔
کتاب الموطا ج ۱ ص۱۶۶
۲۔کتاب وفاء الوفا میں ابن عون سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نافع سے معلوم کیا: کیا ابن عمر، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر سلام کرتے تھے ؟تو انہوں نے جواب میں کہا: ہاں میں نے ان کو سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے تھے اور قبر کے نزدیک کھڑے ہوکر اس طرح کہتے تھے:
السلام علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم السلام علی ابی بکر، السلام علی ابی
کتاب وفاء الوفا ج ۴ ص۱۳۵۸
اورتقریبا اسی مضمون کومحی الدین نووی نے بھی تحریر کیا ہے۔
مجموع ج ۸ص۲۷۲
۳۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : جو لوگ شام سے مدینہ کی طرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے تشریف لائے ان میں سے ایک حضرت بلال بن ریاح ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موٴذن تھے جیسا کہ ابن عساکر نے بہترین سند کے ساتھ اس روایت کوابو درداء سے بیان کیا ہے ۔
اس کے بعد وہ حضرت بلال کے شام میں رہنے کا ذکر کرتے ہیں کہ اایک مرتبہ بلال نے خواب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ان سے فرمایا:اے بلال یہ کیسی جفاء ہے جو تم کر رہے ہو کیا تمہارے لئے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری قبر کی زیارت کرو ؟
بلال خواب سے بیدار ہوئے اور بہت غمگین تھے ، آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے، بلال ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب آئے اور گریہ کرنے لگے و نیز اپنے چہرے کو رسول اسلام کی قبر مبارک سے ملنے لگے کہ اچانک حسن و حسین علیہم السلام تشریف لائے ، بلال نے ان کو اپنی گود میں لے لیا اور ان کو بوسہ دئیے، اس کے بعد حسنین علیہما السلام نے بلال سے کہا:
ہمارا دل چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر آپ کی اذان سنیں۔ اس کے بعد جناب بلال نے اذان دی۔
وفاء الوفا جلد ۴ ص۱۳۵۶۔ اور اسی روایت کی طرف بالکل شوکانی نے ایک روایت کتاب نے نیل الاوطار ج۵ص ۱۸۰،اور بکری نے کتاب اعانۃ الطالبین جلد ۱ص۲۲۱ میں نقل کی ہے ۔
https://erfan.ir/urdu/32441.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button