سیرتسیرت امام موسی کاظمؑ

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے اخلاق و عادات اور شمائل و اوصاف

علامہ سید علی نقی نقن رح
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس مقدس سلسلہ کا ایک فردتھے جس کوخالق کائنات نے نوع انسانی کے لیے معیارکمال قراردیاتھا اسی لیے ان میں سے ہرایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واصاف کامرقع تھا ،بیشک یہ حقیقت ہے کہ بعض افرادمیں بعض صفات اتنے ممتازنظرآتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پرنظرپڑتی ہے چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ ضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب کاظم قرار دیا گیا جس کے معنی ہیں غصہ کوپینے والا،آپ کوکبھی کسی نے ترش روئی اورسختی کے ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا اورانتہائی ناگوارحالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظرآئے مدینہ کے ایک حاکم سے آپ کوسخت تکلیفیں پہنچیں یہاں تک کہ وہ جناب امیرعلیہ السلام کی شان میں بھی نازیباالفاظ استعمال کیاکرتاتھا ، مگرحضرت نے اپنے اصحاب کوہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا۔
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایت کی اورکہاکہ اب ہمیں ضبط کی تاب نہیں ہمیں ان سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے، توحضرت نے فرمایاکہ میں خوداس کاتدارک کروں گا اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس اس کی زراعت پرتشریف لے گئے اورکچھ ایسا احسان اورحسن سلوک فرمایا کہ وہ اپنی گستاخیوں پرنادم ہوا، اوراپنے طرزعمل کوبدل دیا حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھاکہ جومیں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھاتھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرناچاہتے تھے سب نے کہایقینا حضورنے جوطریقہ اختیارفرمایا وہی بہترتھا اس طرح آپ نے اپنے جدبزرگوارحضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اس ارشاد کوعمل میں لاکردکھلایاجوآج تک ”نہج البلاغہ“میں موجودہے کہ
"اپنے دشمن پراحسان کے ساتھ فتح حاصل کرو”۔
کیونکہ یہ دوقسم کی فتح میں زیادہ پرلطف کامیابی ہے بے شک اس لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے اوراسی لیے حضرت علی نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایاہے کہ
”خبردار! یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیارنہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا”۔
یقینا ایسے عدم تشدد کے موقع کو پہنچاننے کے لیے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام کو حاصل تھی، مگر یہ اس وقت میں ہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایساعمل ہو چکا ہو جو اس کے ساتھ انتقامی تشدد کا جواز پیدا کرسکے لیکن اگراس کی طرف سے کوئی اقدام ابھی ایسانہ ہواہو تویہ حضرات بہرحال اس کے ساتھ احسان کرناپسندکرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ہواوراسے ایسے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش سے بھی کوئی عذرنہ مل سکے بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جوجناب امیرالمومنین علیہ السلام کو شہید کرنے والا تھا آخر وقت تک جناب امیرالمومنین علیہ السلام احسان فرماتے رہے اسی طرح محمد بن اسماعیل کے ساتھ جو امام موسی کاظم علیہ السلام کی جان لینے کاباعث ہوا، آپ احسان فرماتے رہے یہاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینہ سے بغداد کی طرف خلیفہ بنی عباسیہ کے پاس امام موسی کاظم علیہ السلام کی شکایتیں کرنے کے لیے کیا تھا ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم کی رقم خود حضرت ہی نے عطا فرمائی تھی جس کو وہ لے کر روانہ ہوا تھا۔
آپ کو زمانہ بہت ناسازگار ملا تھا نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ و اشاعت ممکن تھی پس آپ کی خاموش سیرت ہی تھی جو دنیا کو آل محم دکی تعلیمات سے روشناس بنا سکتی تھی آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتداء بھی نہ فرماتے تھے ، اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پرقائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے۔
اس لیے عام طورپرآپ کواکثرعبادت اورشب زندہ داری کی وجہ سے عبدصالح کے لقب سے یادکیاجاتاتھا آپ کی سخاوت اورفیاضی کابھی شہرہ تھا اورفقراء مدینہ کی اکثرپوشیدہ طورپرخبرگیری فرماتے تھے ہرنمازصبح کی تعقیبات کے بعد، آفتاب کے بلندہونے کے بعد سے پیشانی سجدہ میں رکھ دیتے تھے اورزوال کے وقت سراٹھاتے تھے قرآن مجیدکی نہایت دلکش اندازمیں تلاوت فرماتے تھے خود بھی روتے جاتے تھے اور پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آوازسے متاثرہو کر روتے تھے ۔
(سوانح موسیٰ کاظم ص ۸ ، اعلام الوری ۱۷۸)
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کایہ طریقہ تھا کہ آپ فقیروں کوڈھونڈا کرتے تھے اور جو فقیر آپ کو مل جاتا تھا اس کے گھرمیں روپیہ پیسہ اشرفی اور کھانا پانی پہنچایا کرتے تھے اوریہ عمل آپ کارات کے وقت ہوتا تھا اس طرح آپ فقراء مدینہ کے بے شمارگھروں کا آذوقہ چلارہے تھے اورلطف یہ ہے کہ ان لوگوں تک کو یہ پتہ نہ تھا کہ ہم تک سامان پہنچانے والا کون ؟ یہ رازاس وقت کھلا جب آپ دنیاسے رحلت فرما گئے ۔
(نورالابصارص ۱۳۶ )
اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۴ میں ہے کہ آپ ہمیشہ دن بھر روزہ رکھتے تھے اوررات بھر نمازیں پڑھا کرتے تھے علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ آپ بے انتہا عبادت و ریاضت فرمایا کرتے تھے اور اطاعت خدا میں اس درجہ شدت برداشت کرتے تھے جس کی کوئی حد نہ تھی۔
ایک دفعہ مسجدنبوی میں آپ کو دیکھا گیا کہ آپ سجدہ میں مناجات فرما رہے ہیں اور اس درجہ سجدہ کو طول دیا کہ صبح ہوگئی ۔
(وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۱۳۱)
ایک شخص آپ کی برابر بلاوجہ برائیاں کرتا تھا جب آپ کو اس کاعلم ہوا تو آپ نے ایک ہزار دینار (اشرفی) اس کے گھرپربطور انعام بھجوا دیا جس کے نتیجہ میں وہ اپنی حرکت سے بازآ گیا۔
(روائح المصطفی ص ۲۶۴)
(اقتباس از:مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام)
http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button