معاشرتی اور معاشی استحکام امیر المومنینؑ کی تعلیمات کے روشنی میں

مقالہ نگار: محمد حسین منتظری
مقدمہ
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ الحمد للہ رب العلمین ولصلاة والسلام علی سید انبیآء والمرسلین واٰلہ الطیبین الطاہرین۔
ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسکا معاشرہ ہر لحاظ سے مستحکم ہو اسلام کا ہر قانون اس میں نافذ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے وہ اپنے معاشرے میں آئمہ اطھارعلیہم السلام کی سیرت کو مشعل راہ کرار دیں خصوصاً امام علی علیہ السلام کی سیرت کو اپنے معاشرے کے لئے نمونہ عمل قرار دیں کہ امام ؑ نے اپنے چار سالہ حکومت میں اپنے عادلانہ نظام کے ذریعے تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کو ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کیا جو معاشرہ پیغمبر خدا صلٰی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زمانے میں تھا۔اس مختصر مقالے میں ہم انشاءاللہ حضرت امام علیؑ کے سیرت کی روشنی میں یہ کوشش کرینگے کہ ایک اسلامی معاشرہ کس طرح وجود میں آتا ہے۔
استحکام معاشرہ امام علیؑ کی نگاہ میں
کسی بھی انسان کی اصلاح کا دارومدار اس کی معاشرے پر ہے جس معاشرے میں قرآن وسنت اور سیرت آئمہ اطہار علیہ السلام کا راج ہو اس معاشرے کا ہر فرد باادب، با کردار،انصاف پسند اور اچھی صفات کا مالک ہوتا ہےلیکن معاشرے کو اچھا بنانا خود انسان پر موقوف ہے انسان جتنا باشعور اور غیرتمند ہو اتنا وہ اپنے معاشرے کیے فکر مند رہتا ہے۔
لغوی تعریف
معاشرے کو عربی زبان میں جامعہ کہا جاتا ہے۔ اس کی اصل (جمع) ہے جو ایک شئ کے دوسری شئ کیساتھ مل جانے پر دلالت کرتی ہے
باہم مل جل کر رہنا، انسانی ماحول، اجتماعی زندگی جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے اور اپنی ترقی اور بہبود کے لئے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ (1)
اصطلاحی تعریف
شہید مرتضی مطہری رقمطراز ہیں: انسانوں پر مشتمل وہ جماعت جو خاص قوانین، خاص آداب ورسوم اور خاص نظام کی حامل ہو اور انہی خصوصیات کے باعث ایک دوسرے سے منسلک اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارتی ہو، معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی تحریر فرماتے ہیں کہ انسانوں کی وہ خاص حالت جس کی بنا پر وہ مشترکہ زندگی گزارتے ہیں
قانونیت اور حق مداری
اسلامی اور الہی اقدار پر قائم معاشرے بلکہ ہر طرح کہ معاشرے کی ترقی اور نظم و انتظام اور اہداف تک پہونچنے کے لئے اس میں قانون کی پابندی کرنا اور حق مداری کا پایاجانا بنیادی اصول میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی تاکیدات سے قطع نظر فقط نہج البلاغہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ معاشرہ اگر قانون اور حق کی حاکمیت کے تحت چلتا ہے تو تمام سیاسی، اقتصادی، فوجی، فرہنگی، علمی وغیرہ جیسے مراحل میں بالاترین مطلوبہ منازل پر فائز ہوتا ہے۔ چنانچہ امیرالمومنینؑ اپنی ظاہری حکومت اور اسلامی معاشرہ پر ولایت و سرپرستی کے اہداف اور اسے قبول کرنے کے بنیادی سبب کی طرف یوں اشارہ فرماتے ہیں کہ: وَاللّٰهِ مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلاَفَةِ رَغْبَةٌ، وَلاَ فِي الْوِلاَيَةِ إِرْبَةٌ1) وَلكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا، وَحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللهِ وَمَا وَضَعَ لَنَا، وَأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهِ فَاتَّبَعْتُهُ، وَمَا اسْتَسَنَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله فَاقْتَدَيْتُهُ (2)
خدا کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لئے خلافت اور حکومت کی حاجت و تمنا نہیں رہی تم ہی لوگوں نے مجھے اس کی طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ جب وہ مجھ تک پہنچ گئے تو میں نے اللہ کی کتاب کو نظر میں رکھا اور جو لائحہ عمل اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور جس طرح فیصلہ کرنے کا اس نے حکم دیا میں اسی کے مطابق چلا اورجو سنت پیغمبر ﷺقرار پاگئی اس کی پیروی کی”۔
قانونیت سے بالاتر حق مداری اور حقیقت کی پیروی کرنا معاشرے کی اصلاح اور اس کے نظم و ضبط اور اس کے ادارہ پانے کے لئے نہایت ضروری امر ہے۔ اس لئے قانون کی پیروی کے مطلوبہ اور صحیح آثار و برکات اس وقت حاصل ہونگے جب اس قانون کی بنیاد حق و حقیقت پر ہو اور معاشرہ کے لوگ اس کی پیروی کرے۔ (3)
بہرحال حق مداری نہایت ضروری ہے جیساکہ امیرالمومنینؑ نہج البلاغہ میں مطلوبہ اسلامی معاشرے کے اعضاء کی یوں توصیف فرماتے ہیں کہ:
"يعترف بالحق قبل ان يشهد عليه؛ (4) گواہی طلب کئےجانے سے پہلے حق کا اعتراف کرتے اور ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں”۔
عقلانیت اور علم کی پیروی
اسلامی اعتبار سے مطلوبہ معاشرہ وہ ہوتا ہے جو الہی قوانین اور ہدایات کے علاوہ عقلانیت اور علم کی پیروی کو اپنا نصب العین بنالیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خود عقلانیت اور علم کی پیروی بہت بلند مقام اور ضروری امر ہے جولوگ عقل کی پیروی نہیں کرتے ہیں قرآن انہیں حیوانات بلکہ ان سے بدتر جانتا ہے۔ عقلانیت سے دوری اور جاہلیت والا شیوہ لوگوں کو الہی و اسلامی معاشرہ سے دور کرنے والا ہے اسی وجہ سے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے نزول کا ایک اہم ہدف لوگوں کو عقل و علم کی پیروی کا پابند بنانا تھا۔ قرآن مجید کی متعدد آیات سے قطع نظر نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات معلوم ہوجائے گا جیسا کہ امام علیؑ نے عرب کے جاہلیت والے معاشرہ کی توصیف کرتے ہوئے پیغمبرﷺ کی بعثت کو ہدف یوں بیان فرمایا ہے کہ:واَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وَ فِي شَرِّ دَارٍ مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَحَيَّاتٍ صُمِّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وَ تَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ تَقْطَعُونَ اَرْحَامَكُمْ الْاءَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ (5)
(پیغمبر ﷺکی بعثت سے پہلے)تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے”۔ (6)
امام علیؑ کا فرمان ہے کہ جہاں عقلانیت نہ ہو وہاں تباہی اور فساد حاکم ہو تا ہے آپ معاویہ کے ہاتھوں ترویج پائے جانے والے غیراسلامی معاشرے کی ایک اہم وجہ عوام اور لوگوں کی اندھی تقلید اور ناآگاہی جانتے ہیں۔
"… وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّهِ قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ (7)
وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کاپیشرو معاویہ اور معلم نابغہ(عمرعاص) کابیٹا ہے”۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ علم، آگاہی اور بصیرت سے عاری افراد معاشرہ کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتےہیں کیونکہ ان کی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے اسیر اور شیطان کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں لیکن جو چیز انسان کی حقیقت، پہچان، کرامت، اور عزت کا باعث بنتی ہے اور اسکی حفاظت کرتی ہے وہ علم، آگاہی اور بصیرت ہے۔ لہذا اس حوالے سے ایک با شعور اور تعلیم و تربیت یافتہ معاشرہ ہی سعادتمند اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتاہے لہذا ایک مطلوبہ و مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل میں عقلانیت وعلم و دانش کا ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔ امام علیؑ علم اور صاحبان علم کی قدر و منزلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”النَّاسُ ثَلَاثَةٌ فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ وَ مُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ وَ هَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ وَ لَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِیق لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:خدا رسیدہ عالم، راہ نجات پر چلنے والاطالب علم اور عوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آواز کے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا کے ساتھ لہرانے لگتا ہے۔ اس نے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کا سہارا لیا ہے۔
نہج البلاغہ کی روشنی میں مثالی معاشرے کے اغراض و مقاصد
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر چیز کا ایک ہدف اور مقصد ہوتا ہے اور ہر چیز کے ہدف اور مقصد کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ اس کی ضرورت یا پھر اسکے مقابل یا اضداد کے نقصان سے لگایا جاسکتاہے اس بات سے بھی انکار کی قطعی گنجایش نہیں کہ مثالی معاشرے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد مثالی حکومت کی تشکیل ہے قیام حکومت کی ضرورت کے بغیر ایک مثالی یا عمومی معاشرہ کی بقاء اور استحکام ناممکن ہے ”لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا برا“ لیکن اگراسے دوسرے اہداف اور مقاصد کے ساتھ تقابلی جائزے کی نگاہ سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ بھی ایک وسیلہ اور ذریعہ ہی ہے جو ہمیں ان اصلی اہداف کی جانب حرکت کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہوگا جن کے حصول کے لئے مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
عدالت
امام علیؑ کے مثالی معاشرے کا سب سے بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے تمام امور میں انسان کی فطرت کے مطابق عدل الہی اجرا ہوجائے، انبیاء کرام کی بعثت کا ایک اہم مقصد بھی عدالت الہی اور اقامہ قسط ہے،لیقوم الناس بالقسط۔ امام علیؑ سورہ نحل کی آیہ شریفہ(۹۰ )کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ حقیقت عدالت سے مراد وہی انصاف ہے۔”آیہ کریمہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِمیں عدل، انصاف ہے اور احسان فضل و کرم“اور دوسری جگہ اس کے دائرے کو وسعت بخشتے ہوئے سخاوت کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں اس سے مراد صاحبان حق کو حق دلانا مقصود ہے یعنی حق کی رعایت کرنے کا نام ہے “ ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر عدالت اجرا ہوجائے تو سارے لوگ بے نیاز ہوجائیں گے اسی وجہ سے مملکت اسلامی کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لیتے ہی آپ کے حلقہ مبارک سے نکلنے والی عدالت کی صدائیں اسلامی معاشرے کے لئے مثال بن گئی۔یہی عدالت جو مثالی معاشرے کے ابتدائی مقاصد میں شمار ہوتی ہے خود بخود اسلامی معاشرے کے دوسرے امور اور مقاصد تک پہونچنے کا ایک ذریعہ ہے اسی عدالت کی وجہ سے ہر قسم کی تبعیض ختم ہوکے معاشرے میں فلاح اور بہبودی وجود میں آتی ہےہر طرح کی غربت، بربریت اور ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔قرآن کریم میں بھی رب العزت مثالی معاشرے کے اس اہم مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے۔وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (13) ”اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا“
امیرالمومنینؑ بھی حکومت اسلامی کی ایک اہم وجہ معاشرے کی امنیت ہی بتلاتے ہیں۔“اسی طرح مالک اشتر کے نام لکھے سیاسی پیغام میں جنگ و جدال سے کسی بھی طرح پرہیز کرتے ہوئے امنیت کی جانب توجہ کرنے پر زور دیتےہوئے فرماتے ہیں۔وَلاتَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَيْهِ عَدُوُّ كَ للّٰه فِيهِ رِضىً، فإِنَّ فِي الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ، وَرَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلاَدِكَ (14) ”اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکار نہ کرنا جس کی تحریک دشمن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضامندی پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن و امان کی فضا قائم ہوجائے گی۔
تربیت
انبیاء کی فلسفہ بعثت کی وجہ بھی انسان کے اندر موجودپوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہی ہے:”اللہ نےان میں اپنے رسول مبعوث کئے اور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کےعہدو پیمان پورے کرائیں۔۔۔عقل کے دفینوں کو ابھاریں اورا نہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں (8)
اور قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے آپؐ کو مبعوث کیا تاکہ آپؐ ان کو تعلیم و تربیت سے نوازیں۔
منابع وماخذ
1۔ النجفی علامہ محسن علی البلاغ القرآن
2۔ نہج البلاغۃ ج ۱ ص ۳۲۱
3۔شریف الرضی، محمد بن حسین، و علی بن ابی طالب (ع)، امام اول فی نهج البلاغۃ
4۔ بحار الانوار جامعۃ لدررائمۃ اطہار ج ۷۵ ص ۲۴
5۔ بحار الانوار ج ۸۱ ص ۲۲۳
6۔ طبرسی احمد بن علی الاججاج علی اھل اللجاج
7۔ نہج البلاغۃ
8۔ مفتی جعفر حسین نہج البلاغۃ




