سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

حضرت علی علیہ السلام کی مشکلات( حصہ اول)

آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری
و من کلام له علیه السلام دعونی والتمسو غیری فانّا مستقبلون امرا له وجوه الوان لا تقوم له القلوب ولا تثبت علیه العقول و انّ الافاق قد اغامت المحجة قد تنکرت و اعلمو انّی ان اجبتکم رکبت بکم ما اعلم (۱)
"یعنی مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لئے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو، ہمارے سامنے اب معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں ” دیکھو افق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں ” راستہ پہچاننے میں نہیں آتا، تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تمہاری خواہش کو مان لوں تو تمھیں اس راستے پر لے چلوں جو میرے علم میں ہے ۔”
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام دوسرے خلفاء کی موجودگی اور ان کے بعد بہت زیادہ مشکلات میں تھے آپ کو کسی لحاظ سے بھی چین سے رہنے نہ دیا گیا ” طرح طرح کی شورشیں اور سازشیں آپ کے ارد گرد خطرہ بن کر منڈ لاتی رہیں۔ عثمان کے قتل کے بعد لوگوں کا ایک انبوہ آپ کے دردولت پر حاضر ہوا اور اصرار کیا کہ وہ امامعليه‌السلام وقت کے طور پر زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لیں لیکن امام علیہ السلام خاموش رہے اور انتھائی دکھی انداز میں فرمایا۔
"دعونی والتمسوا غیری”
"مجھے چھوڑ دو خلافت کےلئے میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈھ لو”
اس سے یہ مقصد نہیں ہے کہ معاذاللہ حضرت اپنے آپ کو خلافت رسول ﷺ کا اہل نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ تو مسند رسول ﷺ پر بیٹھنیے کے لئے سب سے زیادہ مستحق وسزاوار تھے، پھر فرمایا :
"فانا مستقبلون امر اله وجوه والوان”
"یعنی ہمارے سامنے ایک اور معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں ۔”
اس جملے کی وضاحت کرتے ہوئے امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وان الافاق قد اغامت”
کہ دیکھو افق عالم پر گھٹا ئیں چھائی ہوئی ہیں”
والمحجة قد تنکرت”
کہ راستے پہچانے نہیں جاتے”
آپ اسی خطبہ میں مزید فرماتے ہیں:
"واعلموا انی ان اجبتکم رکبت بکم ما اعلم”
تمھیں معلوم ہونا چاہی ے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمھیں اس راستے پہ لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے۔”
اور اس کے متعلق کسی کھنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والی کی سرزنش پہ کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسے میں ہوں”اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دینوی مفاد کے لئے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بھتر ہے ۔
امام علیہ السلام کے اس قول سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس قدر مشکل حالات میں گھرے ہوئے تھے ۔میں ایک نشست میں ان تمام مشکلات کے بارے میں تفصیل سے گفتگو نہیں کرسکتا ۔فی الحال حضرت علی علیہ اسلام کی ایک "مشکل "بتاتا ہوں کہ جو آپ کے لئے پوری سوسائٹی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مشکل تھی ۔
حضرت عثمان کا قتل
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے لئے سب سے پہلی مشکل عثمان کا قتل تھا ۔اس لئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا تھاکہ ابھی بہت سی مشکلات نے آنا ہے ۔طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں عفریت کی مانند اپنا اپنا منہ کھولے ہوئے ہیں ۔حضر علی علیہ‌السلام اس حالت میں مسند خلافت پر تشریف لاتے ہیں کہ ان سے پیشرو خلیفہ کو چند نامعلوم افراد نے اس لئے قتل کردیا کہ اس کی تمام تر ذمہ داری حضرت علی علیہ‌السلام پر پڑے۔ عثمان کے قاتلوں نے ان کی تدفین کے وقت بیشمار اعتراضات کیے اب وھی گروہ حضرت علی علیہ‌السلام کے ارد گرد جمع تھے "ایک طرف قاتلین عثمان دوسری طرف عثمان کی محبت کا دم بھرنے والے لوگ جو حجاز "مدینہ”بصرہ” کوفہ اور مصر سے آئے ہوئے تھے ۔اور ان کے جذبات واحساسات میں ایک طرح کا طوفان برپا تھا ۔
حضرت علی علیہ السلام دو گروہوں کے درمیان انتھائی حیرانگی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ وہ کریں تو کیا کریں "اگر کسی خاص گروہ کی حمایت کرتے تو بھی ٹھیک نہیں تھا کسی کی مخالفت کرتے تب بھی موقعہ محل کے خلاف تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام عثمان کی کچھ پالیسیوں کے مخالف ہوں۔اختلاف رائے ایک طرف لیکن یہ اختلاف ایسا نہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام عثمان کے قتل کی خواہش کریں یا ان کے قتل میں کسی قسم کی مداخلت کریں آپ صلح جو” امن پسند شخصیت تھے ۔آپ نے اپنی شھرہ آفاق کتاب نھج البلاغہ میں عثمان کے قتل کا چودہ مرتبہ تذکرہ کیا ہے ۔دراصل یھی تذکرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ امن وآشتی کے کس قدر حامی اور طرف دار تھے ۔عثمان کے قتل سے قبل اور قتل کے بعد آپ کا رویہ انتھائی صلح جو یانہ رہا ۔آپ صبر واستقامت کی زندہ مثال بن کر بھپرے ہوئے حالات اور بکھرئے ہوئے لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے اور متحد کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
عثمان کے قتل کے بعد لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھےکو ئی اس قتل کے خلاف سراپا احتجاج نظر آرہا تھا، کوئی ان کی مخالفت کی وجہ سے تبدیلی خلافت پر اطمینان کا سانس لے رہا تھا، کہ آپ نے خلیفئہ وقت اور حاکم اسلامی ہونے کے ناطے سے کسی خاص گروہ کی حمایت نہیں کی بلکہ آپ کی کاوشوں اور کوششوں کا مرکز صرف ایک تھا کہ جیسے ہی بن پڑے اختلاف وتفرقہ کی فضا ختم ہو کر خوشگوار اور پرامن ماحول میں تبدیل ہو ۔حضرت علی علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ عثمان کے قتل سے بے شمار مسائل کھڑے ہوں گے ۔اور یھی قتل اسلام اور مسلمانوں کے اختلاف کی سب سے بڑی وجہ اور سبب بنے گا۔ آخر وھی ہوا جس کا آپ نے نھج البلاغہ میں خدشہ ظاہر کیا تھا۔ آج جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یھی حقیقت روز روشن کی طرح ہمارے سامنے آتی ہے کہ عثمان کو ان کے حاشیہ نشینوں نے قتل کرایا تھا ۔ان شر پسندوں کی شروع سے کوشش یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کیا جائے، ان کے اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے ۔
چناچہ یہ شر پسند اس تاڑ میں تھے کہ جناب امیر علیہ السلام کو عثمان کے قتل میں ملوّث کر کے وسیع پیمانے پر فتنہ وفساد کھڑا کریں ۔تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ معاویہ قتل عثمان میں ہر لحاظ سے ملوث تھا وہ اندرونی طور پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں مصروف تھا ۔وہ شروع ہی سے عثمان کے قتل کی سازشیں بنارہا تھا ۔اسے یہ بھی یقین تھا کہ دو گروہوں کی باہمی آویزیش اور لڑائی کے باعث قتل عثمان کی مذموم سازش ایک تو کامیاب رہے گی، دوسرا اصل قاتل کا پتہ نہیں چل سکے گا، تیسرا اس کا اصلی مشن کا میاب ہوجائے گا اور مسلمان ایک دوسرے سے دست بہ گریبان ہو کر اپنی مرکزیت کھو بیٹھیں گے ۔ان حالات ومشکلات کی وجہ سے جناب امیر علیہ السلام کو گونا گوں ومسائل سے دو چار ہونا پڑا ۔یہ موڑ تھا کہ جھاں منافقین مادی طور پر اپنے مکارانہ وعیارانہ حربوں میں کامیاب ہوگئے ۔
پیغمبر اسلام ﷺ بھی اس طرح اور اسی نوعیت کی مشکلات سے دوچار تھے، لیکن پیغمبر اسلام ﷺ اور حضرت علی علیہ السلام کی مشکلات میں بہت بڑا فرق ہے۔سرکار رسالتماب ﷺ کے دشمن بت پرست توحید کے منکر تھے اور علانیہ طور پر اللہ تعالی کی ربوبیت سے انکار کرتے تھے اور ان کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ ہی یھی تھی کہ حضور توحید کا اعلان نہ کریں، اور بتوں کے خلاف کچھ نہ کہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام کا مقابلہ ایک ایسے گروہ سے تھا کہ جو علانیہ طور پر خود کو مسلمان تو کہلواتے تھے لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہ تھے۔ ان کا نعرہ اسلامی تھا لیکن ان کا اصلی مقصد کفر ونفاق کی ترویج کرنا تھا ۔معاویہ کا باپ ابو سفیان کافر تھا وہ کافرانہ روپ ہی میں پیغمبر اسلام ﷺ سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں آیا حضرت کے لئے اس سے لڑنا آسان تھا ۔لیکن اسی ابوسفیان کا بیٹا معاویہ سفیانی وشیطانی مقاصد لے کر حضرت علی علیہ السلام سے آکر لڑا ۔اور اس نے آپ کی بھر پور مخالفت کی، طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔لیکن جب عثمان قتل ہوئے تو اس نے اس آیت کو:( من قُتِل مظلوما فقد جعلنا لولیه سلطانا ) (۲)
"اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابودیا ہے ۔”
عنوان بناکر خون عثمان کا مطالبہ کیا ۔وہ لوگوں کے احساسات وجذبات سے کھیل کر خون خرابہ کرنا چاہتا تھا ۔اس وقت اصل وارث کون ہے؟ تو کون ہے عثمان کو اپنا کہنے والا ۔تیرا تو ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔سب سے پہلے تو عثمان کا بیٹا موجود ہے ۔ان کے دیگر رشتہ دار بھی موجود ہیں ۔دوسرا تیرا ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہے؟دراصل وہ ایک چالاک اور عیار شخص تھا وہ اس مقتول صحابی رسول کے خون کو ذریعہ احتجاج بنانا چاہتا تھا ۔اس کا اصل مقصد حضرت علی علیہ السلام کی راہ میں رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کرنا تھا ۔دوسرے وہ چاہتا تھا کہ جب بھی اور جیسا بھی ہوسکے مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرکے ان میں ہر طرح کی تفریق ڈالی جائے ۔عثمان زندہ تھے تو معاویہ نے جناب کو قتل کرنے کے لئے اپنے کرائے کے قاتل اور جاسوس مقرر کررکھے تھے ۔اور اس نے اپنے گماشتوں سے کہہ رکھا تھا کہ جس وقت عثمان قتل ہو جائیں ان کا خون آلود کرتہ فوری طور پر میری طرف شام روانہ کیا جائے ۔خبر دار کہیں ۔یہ خون خشک نہ ہونے پائے۔
چنانچہ عثمان کا خون آلود کرتہ اور عثمان کی زوجہ محترمہ کی انگلی کاٹ کریہ دونوں چیزیں امیر شام معاویہ کی طرف روانہ کی گئیں ۔اندر سے اس کا کلیجہ تو ٹھنڈا ہو گیا لیکن ظاہر میں وہ سراپا احتجاج نظر آیا ۔اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ عثمان کی اہلیہ کی کٹی ہوئی انگلیاں اس کے منبر کے پاس لٹکا دی جائیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔اس نے بلند آواز سے کہا اے لوگو!دیکھو تو سھی کتنا ظلم ہو گیاہے کہ خلیفہ وقت کی بیوی کی انگلیاں بھی کاٹ دی گئی ہیں ۔اس نے حکم دیا کہ عثمان کا خون آلود پیراہن نوک نیزہ پر لٹکا کر مسجد کے قریب کسی جگہ پر نصب کیا جائے ۔جب ایسا کیا گیا تو معاویہ وہاں پر پہنچ گیا ۔اور عثمان کی مظلومیت پر زار وقطار رونے لگا۔ وہ گریہ کرتا رہا۔اور وہ اس قتل کے بہانے سے لوگوں کو احتجاج کرنے پر مجبور کرتا رہا۔ اس کا عوام سے بار بار یھی مطالبہ تھا کہ لوگو اٹھو بہت بڑا ظلم ہوگیا ہے۔ خلیفہ رسول ﷺبڑی بے دردی سے قتل کیے گئے ہیں۔ آپ لوگوں پر فرض عائد ہوتا کہ عثمان کے خون ناحق کا بدلہ لیں۔ یہ قتل علی علیہ‌السلام ہی نے کیا ہے۔ لھذا ان سے انتقام لینا ہم سب کا دینی و مذھبی فریضہ ہے۔ دیکھو تو سھی کہ انقلابی طبقہ سب کا سب علی علیہ‌السلام کے ارد گرد جمع ہے۔ اور انھی لوگوں نے عثمان کو شھید کیا ہے۔ غرض یہ کہ معاویہ طرح طرح کے حیلے بہانے بناتا رہا اس کی سازش ہی کہ وجہ سے جنگ جمل جنگ صفین کے نام سے دو جنگیں وجود میں آئیں ۔
(استاد محترم علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نھج البلاغہ کے اس خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے سے مسند حکومت خالی ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں امیر المومنین کی طرف اٹھنے لگیں، جن کی سلامت روی، اصول پرستی اور سیاسی بصیرت کا اس طویل مدت میں انھیں بڑی حد تک تجربہ ہو چکا تھا، چنانچہ متفقہ طور پر آپ کے دست حق پرست پہ بیعت کے لئے اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح بھولے بھٹکے مسافر دور سے منزل کی جھلک دیکھ کر اس کی سمت لپک پڑتے ہیں، جب کہ مؤرخ طبری نے لکھا ہے:” لوگ امیر المومنین علیہ السلام پر ہجوم کرکے ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیا کیا مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں۔ اور پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبیوں کے بارے میں ہماری کیسی آزمائش ہو رہی ہے ۔” مگر امیر المومنین علیہ‌السلام نے ان کی خواہش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر ان لوگوں نے شور مچایا؟اور چیخ چیخ کر کہنے لگے اے ابو الحسن علیہ‌السلام !
آپ اسلام کی تباہی کو نہیں دیکھ رہے فتنہ و شر کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہیں دیکھتے، کیا آپ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے پھر بھی حضرت نے آمادگی کا اظہار نہ فرمایا، کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد جو ماحول بن گیا تھا اس کے اثرات دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں ۔ طبیعتوں میں خود غرضی و جاہ پسندی جڑ پکڑ چکی ہے، ذھنوں پر مادیت کے غلاف چڑھ چکے ہیں اور حکومت کو مقصد برآریوں کا ذریعہ قرار دینے کی عادت پڑ چکی ہے ۔ اب خلافت اللہ کو بھی مادیت کا رنگ دے کر اس سے کھیلنا چاہیں گے ۔ ان حالات میں ذھنیتوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے رخ موڑنے میں لوہے لگ جائیں گے ۔ ان اثرات کے علاوہ یہ مصلحت بھی کار فرما تھی کہ ان لوگوں کو سوچ سمجھ لینے کا موقعہ دے دیا جائے تاکہ کل اپنی مادی توقعات کو ناکام ہوتے دیکھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ یہ بیعت وقتی ضرورت اور ہنگامی جذبہ کے زیر اثر ہوگئی۔ اس میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تھا غرض جب اصرار حد سے بڑھا تو اس موقعہ پر یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس امر کو واضح کیا گیا کہ اگر تم مجھے مقاصد کے لئے چاہتے ہو تو میں تمہارا آلہ کار بننے کے لئے تیار نھیں، مجھے چھوڑ دو۔
اور اس مقصد کے لئے کسی اور کو منتخب کرلو جو تمہاری توقعات کو پوری کرسکے ۔ تم میری سابقہ سیرت کو دیکھ چکے ہو میں قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار نہیں اور نہ حکومت کے لئے اپنے اصول سے ہاتھ اٹھاؤں گا۔اگر تم کسی اور کو منتخب کرو گے تو میں ملکی قوانین و آئین حکومت کا اتنا ہی خیال کروں گا جتنا ایک پرامن شھری کو کرنا چاہی ئے ۔ میں نے کسی مرحلہ پر بھی شورش برپا کرکے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کو پراگندہ و منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہوگا بلکہ جس طرح مصالح عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح مشورے دیتا ہوں ۔ اب بھی دریغ نہ کروں گا اور اگر تم مجھے اسی سطح پر رہنے دو تو یہ چیز تمہارے دنیوی مفاد کے لئے بھتر ہوگی کیونکہ اس صورت میں میرے ہاتھ وں میں اقتدار نہیں ہوگا کہ تمہارے دنیوی مفادات کے لئے سدّ راہ بن سکوں، اور تمہاری من مانی خواہشوں میں روڑے اٹکاؤں، اور اگر یہ ٹھان چکے ہو کے میرے ہاتھ وں پر بیعت کیے بغیر نہ رہوگے تو پھر یاد رکھو چاہے تمہاری پیشانیوں پر بل آئیں اور چاہے تمہاری زبانیں میرے خلاف کھلیں میں حق کی راہ پر لے چلنے پر مجبور کردوں گا، اور حق کے معاملہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کروں گا اس پر بھی اگر بیعت کرنا چاہتے ہو تو اپنا شوق پورا کرلو ۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ان لوگوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا تھا بعد کے واقعات اس کی پوری پوری تصدیق کرتے ہیں ۔ چنانچہ جن لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے پیش نظر بیعت کی تھی جب انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بیعت توڑ کر الگ ہوگئے اور بے بنیاد الزامات تراش کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے) ۔
عدالت کے بغیر ہرگز نھیں
حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک مشکل یہ تھی کہ اس وقت کا معاشرہ ایک طرح کی بے مقصدیت میں کھو چکا تھا، لوگ ناجائز کاموں اور غلط رویوں کے عادی بن چکے تھے ۔پیغمبر اسلام ﷺ کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ میں سفارش عروج پر تھی، خاندانی معیار فضیلت کو سامنے رکھا جاتا تھا ۔دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام تھے کہ عدالت کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ نہیں ہوں کہ عدالت سے ایک بال برابر بھی انحراف کروں یہاں تک کہ آپ کے ایک صحابی کو کہنا پڑا کہ آپ اپنے انداز میں کچھ نرمی لے آیئے ۔آپ نے اس کی بات کو سن کر احساس ناگواری کے ساتھ فرمایا:
"اتامرونی ان اطلب النصر بالجور والله ما اطور به ماسمر سمیر” (۳)
"یعنی کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم وزیادتی کرکے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے میں اس چیز کے قریب بھی نہیں بھٹکوں گا ۔”
سیاست ہو تو ایسی
حضرت علی علیہ اسلام کی تیسری مشکل یہ تھی کہ آپ کی سیاست سچائی، صداقت، اور شرافت پر مبنی تھی ۔آپ کی ہر بات حقیقت ہوا کرتی تھی ۔آپ لگی لپٹی بات کرنے کے عادی نہ تھے ۔اور نہ ہی کسی کو اندھیرے میں رکھتے تھے۔آپ کے اس انداز کو آپ کے کچھ دوست پسند نہ کرتے تھے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ مولاعلی علیہ السلام کچھ تو ظاہر ی رکھ رکھاؤ کر لیا کریں ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ سیاست یہ نہیں ہے کہ اس میں جھوٹ بولا جائے، یا منافقت اختیار کی جائے یا جھوٹ بول کر مطلب نکال لیا جائے، بلکہ سچی، کھری، حقیقی سیاست یہ ہے، کہ سچ کہو اس کے سوا کچھ نہ کہو۔ آپ کی حقیقت پسندی اور صاف گوئی کو دیکھ کر کچھ لوگ کھو کرتے تھے کہ علی علیہ‌السلام تو سیاست نہیں جانتے، معاویہ کو دیکھئے وہ کتنا بڑا سیاسدان ہے آپ نے فرمایا:۔
"والله مامعاویة بادهی منی ولکنه یغدر ویفجر، ولولا کراهیة الغدر لکنت من ادهی الناس ولکن کل غدرة فجرة وکل فجرة کفرة ولکل غادر لواء یعرف به یوم القیامة!”
"یعنی خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا، اگر مجھے عیاری وغداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار وزیرک ہوتا ۔لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الٰہی کی نافرمانی ہے ۔چنانچہ قیامت کے دن ہر غداری کے ہاتھ وں میں ایک جھنڈا ہو گا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔”(۴)
(استاد محترم علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نے لکھا ہے کہ وہ افراد جو مذھب و اخلاق سے بیگانہ "شرعی قید وبند سے آزاد اور جزاء وسزا کے تصور سے ناآشنا ہوتے ہیں ان کے لئے مطلب براری کے لئے حیل وذرائع کی کمی نہیں ہوتی "وہ ہر منزل پر کامیابی وکامرانی کی تدبیریں نکال لیتے ہیں ۔جھاں انسانی واسلامی تقاضے اور اخلاقی وشرعی حدیں روگ بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں وہاں حیلہ وتدبیر کا میدان تنگ اور جولانگاہ عمل کی وصعت محدود ہوجاتی ہے۔ چنانچہ معاویہ کا نفوذ وتسلط انھی تدابیر وحیل کا نتیجہ تھا ۔جن پر عمل پیرا ہونے میں اسے کوئی روک ٹوک نہ تھی، نہ حلال وحرام کا سوال اس کے لئے سدراہ ہوتا تھا، اور نہ پاداش آخرت کا خوف، اسے ان مطلق العنانیوں اور بے باکیوں سے روکتا تھا، جیسا کہ جناب راغب اصفھانی اس کی سیرت وکردار کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں "اس کا مطمع نظر یہی ہوتا تھا کہ جس طرح بن پڑے اپنا مطلب پورا کرو نہ حلال وحرام سے اسے کوئی واسطہ تھا نہ دین کی اسے کوئی پرواہ تھی اور نہ خدا کے غضب کی کوئی فکر تھی ۔
چناچہ اس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے غلط بیانی وافزاء پردازی کے سہارے ڈھونڈھے ۔طرح طرح کے مکر وفریب کے حربے استعمال کیے اور جب یہ دیکھا کہ امیر المؤمنین علیہ‌السلام کو جنگ میں الجھائے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی تو طلحہ وزبیر کو آپ کے خلاف ابہار کر کھڑا کردیا اور جب اس صورت سے کامیابی نہ ہوئی، تو شامیوں کو بھڑکا کر جنگ صفین کا فتنہ برپا کردیا اور پھر حضرت عمار کی شھادت سے جب اس کا ظلم و عدوان بے نقاب ہونے لگا تو عوام فریبی کے لئے کبھی یہ کہہ دیا کہ عمار کے قاتل علی علیہ‌السلام ہیں، کیونکہ وھی انھیں ہمراہ لانے والے ہیں ۔اور کبھی حدیث پیغمبر ﷺ میں لفظ فئتہ باغیتہ کی یہ تاویل کی کہ اس کے معنی باغی گروہ کے نہیں بلکہ اس کے معنی طلب کرنے والی جماعت کے ہیں ۔یعنی عمار اس گروہ کے ہاتھ وں سے قتل ہوں گے جو خون عثمان کے قصاص کا طالب ہوگا، حالانکہ اس حدیث کا دوسرا ٹکڑا (کہ عمار ان کو بہشت کی دعوت دیں گے اور وہ انھیں جہنم کی طرف بلائیں گے) اس تاویل کی کوئی گنجائش پیدا نہیں کرتا، جب ایسے اوچھے ھتھیاروں سے فتح وکامرانی کے آثار نظرنہ آئے تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا پر فریب حربہ استعمال کیا حالانکہ اس کی نظروں میں نہ قرآن کا کوئی وزن اور نہ اس کے فیصلہ کی کوئی اہمیت تھی۔
اگر اسے قرآن کا فیصلہ ہی مطلوب ہوتا تو یہ مطالبہ جنگ کے چھڑنے سے پہلے کرتا اور پھر جب اس پر حقیقت کھل گئی کہ عمرو ابن عاص نے ابو موسی کو فریب دے کر اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے اور اس کے فیصلہ کو قرآن سے دور کا بھی لگاؤ نہیں ہے تو وہ اس پر فریب تحکیم کے فیصلہ پر رضا مند نہ ہوتا ۔اور عمروابن عاص کو اس فریب کاری کی سزادیتا یا کم از کم تنبیہ وسرزنش کرتا مگر یہاں تو اس کےکارناموں پر اس کی تحسین آفرین کی جاتی ہے۔ اور کار گردگی کے صلہ میں اسے مصر کا گورنر بنادیا جاتا ہے ۔اس کے برعکس امیر المؤمنینعليه‌السلام کی سیرت شریعت واخلاق کے اعلی معیار کا نمونہ تھی، وہ ناموافق حالات میں بھی حق صداقت کے تقاضوں کو نظر میں رکھتے تھے اور اپنی پاکیزہ زندگی کو حیلہ ومکر کی آلودگیوں سے آلودہ نہ ہونے دیتے تھے، وہ چاہتے تو حیلوں کا توڑ حیلوں سے کرسکتے تھے، اور اس کی رکاکت آمیز حرکتوں کا جواب ایسی ہی حرکتوں سے دیا جاسکتا تھا، جیسے اس نے فرآت پر پہرہ بٹھا کر پانی روک دیا تھا ۔تو اس کو اس امر کے جواز میں پیش کیا جاسکتا تھا کہ جب عراقیوں نے فرآت پر قبضہ کرلیا تو ان پر بھی پانی بند کردیا جاتا، اور اس ذریعہ سے ان کی قوت حرب وضرب کو مضمحل کر کے انھیں مغلوب بنالیا جاتا مگر امیر المؤمنین علیہ‌السلام ایسے ننگ انسانیت اقدام سے کہ جس کی کوئی آئین واخلاق اجازت نہیں دیتا کبھی اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیتے تھے ۔اگر چہ دنیا والے ایسے حربوں کو دشمن کے مقابلہ میں جائز سمجھتے ہیں اور اپنی کامرانی کے لئے ظاہر و باطن کی دورنگی کو سیاست وحسن تدبیر سے تعبیر کرتے ہیں ۔
مگر امیر المؤمنین علیہ‌السلام کسی موقعہ پر فریب کاری ودورنگی سے اپنے اقتدار کے استحکام کا تصور بھی نہ کرتے۔ چنانچہ جب لوگوں نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ عثمانی دور کے عمال کو ان کے عھد بر قرار رہنے دیا جائے اور طلحہ وزبیر کو کوفہ وبصرہ کی امارت دے کر ہمنوا بنا لیا جائے اور معاویہ کو شام کا اقتدار سونپ کر اس کے دنیوی تدبیر سے فائدہ اٹھایا جائے، تو آپ نے دنیوی مصلحتوں پر شرعی تقاضوں کو ترجیح دیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کردیا اور معاویہ کے متعلق صاف لفظوں میں فرمایا۔
"اگر میں معاویہ کو اس کے علاقہ پر برقرار رہنے دوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا قوت بازو بنارہاہوں۔”(۵)
ظاہر بین لوگ صرف ظاہر کامیابی کو دیکھنے ہیں اور یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ یہ کامیابی کن ذرائع سے حاصل ہوئی؟ یہ شاطرانہ چالوں اور عیارانہ گھاتوں سے جسے کامیاب وکامران ہوتے دیکھتے ہیں اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ اور اسے مدبر، بافہم اور سیاستدان وبیدار مغز اور خدا جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں، اور جو الٰہی تعلیمات اور اسلامی ھدایات کی پابندی کی وجہ سے چالوں اور ہتھکنڑوں کو کام میں نہ لائے اور غلط طریق کار سے حاصل کی ہوئی کامیابی پر محرومی کو ترجیح دے وہ ان کی نظروں میں سیاست سے ناآشنا اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے کمزور سمجھا جاتا ہے ۔انھیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ یہ سوچیں کہ ایک پابند اصول وشرع کی راہ میں کتنی مشکلیں اور رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں کہ جو منزل کامرانی کے قریب پہنچنے کے باوجود اسے قدم آگے بڑھانے سے روک دیتی ہیں۔
حوالہ جات
۱.نھج البلاغہ، خطبہ ۹۲.
۲.بنی اسرایئل، ۳۳.
۳.نھج البلاغہ، ۱۲۴.
۴.نھج البلاغہ، خطبہ ۱۹۱.
۵.استیعاب، ج۱، ص۲۵۹.
اقتباس از کتاب ” سیرت آل محمد علیھم السلام”
Source:alhassanain.org

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button