سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

حسینی عزیمت،مدینہ سے کربلا تک (حصہ اول)

حصہ اول

حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک
حصہ اول
یزید کی بیعت سے انکار اور اس کے نتائج
نصف رجب سنہ 60ھ کو معاویہ کی موت کے بعد،لوگوں نے (1) یزید کے ساتھ بیعت کی۔ (2) یزید کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے اس کی بیعت کے لئے معاویہ کی دعوت مسترد کرنے والے چند افراد کی بیعت کے سوا کوئی دوسری فکر لاحق نہ تھی۔ (3) چنانچہ اس نے اس وقت کے والیِ مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا، معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک چھوٹا اور مختصر خط بھی بھجوایا جس میں اس نے ولید کو ہدایت کی تھی کہ "امام حسین (علیہ السلام)، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لو اور جو نہ مانے اس کا سر قلم کرو”۔ (4) ان مکتوبات کے پہنچتے ہی ایک اور مکتوب بھی یزید کی طرف سے موصول ہؤا جس میں اس نے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ "خط وصول کرتے ہی میرے حامیوں اور مخالفین کے نام میرے لئے بھجوا دو اور امام حسین (علیہ السلام) کا سر بھی خط کے جواب کے ساتھ میرے لئے روانہ کرو”۔ (5) چنانچہ ولید نے مروان بن حکم سے مشورہ کیا (6) اور مروان بن حکم کی تجویز پر انہيں دارالامارہ بلوایا۔ (*)
ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کو امام حسین علیہ السلام،عبداللہ بن زبیر،عبداللہ بن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس روانہ کیا (7) کہ انہیں حاکمِ مدینہ کے پاس بلا دے۔ تاہم امام حسین علیہ السلام اپنے 30 (8) ساتھیوں کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔ (9) ولید نے معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے حکم دیا تھا کہ "حسین (علیہ السلام)، سے میرے لئے بیعت لو”۔ چنانچہ ولید نے امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ بیعت کریں! لیکن امام حسین علیہ السلامنے مہلت مانگی اور ولید نے بھی مہلت دے دی۔ (10) امام حسین علیہ السلام نے ولید سے فرمایا: "کیا تمہیں یہی پسند ہے کہ میں در پردہ بیعت کروں؟ میرے خیال میں تمہارا مقصد بھی یہ ہے کہ میری بیعت عوام کی آنکھوں کے سامنے ہو”۔ ولید نے کہا: ہاں! میرا مقصد یہی ہے۔ (11) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "پس کل تک مجھے فرصت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں۔” (12)
حاکم مدینہ نے دوسرے روز شام کے وقت اپنے گماشتوں کو امام حسین علیہ السلام کے ہاں بھجوایا تاکہ آپؑ سے جواب وصول کرے۔ (13) لیکن امام حسین علیہ السلام اس رات کے لئے بھی مہلت مانگی اور ولید نے پھر بھی آپؑ کو مہلت دی۔۔ (14) شہر مدینہ مزید پرامن نہیں رہ سکا تھا چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ (15) امام حسین علیہ السلام اسی رات مدینہ ترک کرکے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (16)
مدینہ سے ہجرت مکہ کی طرف عزیمت
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مشرکین قریش کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تھے اور آج فرزند رسول علیہ السلام کو ان ہی وجوہات اور ان ہی مشرکین کی اولاد کی سازشوں کی بنا پر مدینہ چھوڑ کر مکہ ہجرت کرنا پڑ رہی تھی، جس کے بعد آپ کو عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ اور پیغمبرؐ کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کرنے والوں کے بیٹے یزید پلید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرکے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ شل نہ ہوں؛ یعنی مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسین علیہ السلام کی ہجرت اسلام کے دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے مختلف مراحل اختصاراً بیان کئے جارہے ہیں:

ترک وطن
امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا؛ رات کے وقت اپنی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت رسول (سلام اللہ علیہا) اور بھائی امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کی قبور پر حاضری دی، نماز بجا لائی اور وداع کیا اور صبح کے وقت گھر لوٹ آئے۔ (17) بعض تاریخی ذرائع نے بیان کیا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) دو شب مسلسل اپنے جد امجد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر کے پاس رہے۔ (18)
وصیت، بھائی محمد بن حنفیہ کے نام
محمد بن حنفیہ کو معلوم ہؤا کہ بھائی حسین (علیہ السلام) عنقریب سفر پر جارہے ہیں تو انھوں نے آ کر وداع کیا۔ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا:"إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب؛میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بابا علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں”۔ (19)
مکہ کی طرف روانگی
امام حسین علیہ السلام 28 رجب المرجب کو رات کے وقت (20) اور بروایتے تین شعبان المعظم سنہ 60ھ کو (21) اپنے خاندان اور اصحاب کے 82 افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ (*) اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا (22) امام حسین (علیہ السلام) کے اکثر اعزّاء و اقارب ـ منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے۔ (23) بنو ہاشم کے علاوہ، آپ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے تھے۔ (*)
امام حسین (علیہ السلام) اپنے قافلے کے ساتھ مدینہ سے نکل گئے اور اپنے [بعض] قریبی اقرباء کی مخالفت کے باوجود مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (24)
مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسین (علیہ السلام) پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے (25) اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ (26)
مدینہ سے مکہ کی طرف سفر کا راستہ
15 رجب سنہ 60 ہجری معاویہ کا انتقال بسوئے یوم الحساب؛ 28 رجب سنہ 60 ہجری امام کی مدینہ سے روانگی براستۂ ملل، ذوالحلیفہ، السیالہ، عرق الظبیہ، الروحاء، الاثابہ، العرج، لحی جمل، السقیاء، الأبواء، الہرشا کی گھاٹی، الرابغ، الجحفہ، قدید، خلیص، عسفان، مر الظہران، الثنیتین، مکۃالمکرمہ، یہی وہ راستہ ہے جو امام حسین علیہ السلام نے پانچ دن میں طے کیا۔
امام حسین علیہ السلام مکہ میں
قافلہ حسینی مدینہ سے عزیمت کے پانچ دن بعد تین شعبان سنہ 60ھ کو مکہ پہنچا۔ (27) مکہ کے باشندے اور بیت اللہ الحرام کے زائرین آپ کی آمد کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے۔ شب و روز آپ کی رہائشگاہ میں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور یہ بات عبداللہ بن زبیر پر بہت گراں گذرتی تھی کیونکہ اس کو امید تھی کہ مکی عوام اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جانتا تھا کہ جب تک امام حسین علیہ السلام مکہ میں ہونگے لوگ اس کے ساتھ بیعت نہیں کریں گے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی منزلت مکی عوام کے نزدیک عبداللہ بن زبیر کی منزلت سے بہت بلند تھی۔ (28)
کوفیوں کے خطوط اور امام حسین علیہ السلام کو قیام کی دعوت
ابھی ‎امام حسین علیہ السلام کی مکہ میں آمد کے چند ہی روز گذرے تھے کہ شیعیان عراق مرگِ معاویہ کی خبر ملی اور یزید کی بیعت سے امام حسین علیہ السلام اور ابن زبیر کے انکار سے بھی آگاہ ہوئے چنانچہ وہ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کے لئے خط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (29)
انھوں نے خط عبداللہ بن سبع ہَمْدانی اور عبداللہ بن وال ہاتھوں مکہ روانہ کیا۔ (30) ان دو افراد نے کوفیوں کا خط 10 رمضان المبارک کو مکہ میں امام حسین علیہ السلام تک پہنچا دیا۔ (31) پہلے خط کے دو روز بعد انھوں نے قيس بن مسہر الصیداوی، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کدن ارحبی اور عمارۃ بن عبید سلولی کو 150 خطوط دے کر مکہ روانہ کیا۔ ہر خط پر ایک سے چار افراد تک کے دستخط تھے۔ (32) یہ سارے خطوط امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت پر مشتمل تھے۔ ان خطوط کے دو روز بعد کوفیوں نے مزید خطوط دو قاصدوں ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں امام حسین (علیہ السلام) کے کے لئے روانہ کئے اور آپ سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔ (33)
دلچسپ یہ کہ اموی حکومت کے حامیوں کے سرکردہ افراد شبث بن ربعی، حَجار بن ابجر، یزید بن حارث بن یزید بن رویم، عزرۃ بن قیس، عمرو بن حَجاج زبیدی اور محمّد بن عمیر تمیمی، نے بھی امام کو خط لکھا (34) اور آپ سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔ (35) لیکن اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام اتنے سارے خطوط کا جواب دینے میں صبر و تامل سے کامل لے رہے تھے حتی کہ ایک دن کوفیوں کی طرف سے 600 خطوط امام حسین علیہ السلام کو خطوط موصول ہوئے (36) اور اس کے بعد بھی متعدد خطوط یکے بعد از دیگر موصول ہوتے رہے۔ (37) تب جاکر امام حسین علیہ السلام نے ایک خط لکھ کر ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی (38) کو دیا۔ اس خط میں آپ نے لکھا: ۔۔۔ میں نے اپنے بھائی، ابن عم، معتمد اور اہل خاندان کو تمہاری طرف بھیجا اور ان سے کہا کہ تمہارے احوال، تمہارے امور اور تمہاری رائے کے بارے میں مجھے لکھ دیں۔ اگر وہ لکھیں کہ جماعت اور عقلمندوں کی رائے وہی ہے جو یہ [قاصد] مجھے بتا چکے ہیں تو میں بہت جلد تمہاری طرف آتا ہوں۔ (39) چنانچہ آپ نے کوفہ] کا سفر مسلم بن عقیل کی طرف سے اہل کوفہ کے دعؤوں اور وعدوں کی تائید سے مشروط کیا۔
کوفہ کے لئے اامام حسین علیہ السلام کے سفیر
امام حسین علیہ السلام نے کوفیوں کے نام ایک خط دے کر (40) اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو عراق روانہ کیا تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور آپ کو حالات کی خبر دیں۔ (41) مسلم (علیہ السلام) 15 رمضان المبارک کو خفیہ طور پر مکہ سے نکلے اور 5 شوال المکرم کو کوفہ پہنچ کر (42) مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر میں مقیم ہوئے۔ (43) اس وقت اموی حکومت کا گورنر اور امیر کوفہ نعمان بن بشیر انصاری تھا۔ شیعیان کوفہ مسلم (علیہ السلام) کی آمد سے مطلع ہونے کے بعد ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ 18000 افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (44)
عبداللہ بن مسلم، اس کے بعد عمارۃ بن عقبہ اور اس کے بعد عمر بن سعد نے یزید کو خط لکھ کر کوفہ کے حاکم کو معاملات و انتظامات حکومت کے حوالے سے کمزور قرار دیا اور اس سے درخواست کی کہ کوفہ کے لئے کوئی فوری اور مؤثر اقدام کرے۔ (45) یزید نے اپنے مشیر سرجون نصرانی سے مشورہ کیا اور اس کے مشورے پر کوفہ اور بصرہ کی حکومت عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کردی۔ (46) عبید اللہ بن زیاد بھیس بدل کر کوفہ میں داخل ہؤا اور دارالعمارہ پہنچ کر اپنا تعارف کرایا۔ (47)
ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا، انہیں اپنی مخالفت سے خوفزدہ کیا، قبائل کے سربراہوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آیا اور اپنے مخالفین کو شدید دھمکیاں دیں۔ (48) مسلم بن عقیل، ابن زیاد کی آمد اور اس کے خطاب سے باخبر ہوئے، اور قبائل کے سربراہوں کے ساتھ اس کے سخت رویئے سے آگاہ ہوئے تو مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر سے نکل کوفہ کے ایک زعیم ہانی بن عروہ مرادی کے گھر میں پناہ لی۔ (49) انھوں نے اپنا خط عابس بن ابی شبیب شاكری، (*) کو دے کر امام حسین علیہ السلام کو بھجوایا۔ (50) جس میں انھوں نے لکھا تھا: "18000 افراد نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے، میرا خط وصول کرکے آنے میں عجلت کریں”۔ (51) ابن زیاد نے کسی حد تک کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد، مسلم (علیہ السلام) کا خفیہ ٹھکانہ معلوم کرنے کے لئے اپنے غلام معقل کو مسلم (علیہ السلام) کے حامیوں کے درمیان بھیج دیا۔ (52) ابن زیاد نے مسلم (علیہ السلام) کا ٹھکانہ معلوم کرنے کے بعد ہانی بن عروہ کو دھوکے سے دارالامارہ لے گیا اور انہیں قید کرلیا۔ (53)
ہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد مسلم (علیہ السلام) نے اپنے انصار کو "یا منصورُ أَمِت” ("یا منصورُ أَمِت” یعنی اے نصرت پانے والے مار دو)۔ یہ نعرہ مسلم بن عقیل کے انصار و اعوان نے کوفہ میں اپنایا تھا (54) یہ پہلی مرتبہ غزوہ بدر میں مسلمانوں نے لگایا تھا اور اس کے ذریعے مسلم مجاہدین ایک دوسرے کو اندھیرے میں بھی پہچان لیتے تھے۔ (55)۔ مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے ساتھیو ں نے بھی اپنی تحریک کے آغاز پر "یا منصورُ اَمِت؛ کا نعرہ لگایا۔ (56) کے شعار کے ساتھ قیام کی دعوت دی (57) اور چار ہزار افراد لے کر دارالامارہ کو گھیر لیا۔ (58) ابن زیاد نے کثیر بن شھاب بن حصین الحارثی، محمّد بن اشعث، قعقاع بن شور ذُھلی، شبث بن ربعی تمیمی، حَجار بن ابجر عِجلی اور شمر بن ذی الجوشن العامری (59) جیسے سربراہان قبائل سے کہا کہ اپنے قبائل کے افراد کو مسلم (علیہ السلام) سے دور کریں اور اس راہ میں اس (ابن زیاد) کی طرف سے مال و منال کے وعدوں سے دریغ نہ کریں اور انہیں لشکر شام سے خوفزدہ کریں جو عنقریب کوفہ کی طرف آرہا ہے۔ (60) کوفی عمائدین کی تقاریر کے بعد مسلم (علیہ السلام) کے ساتھی منتشر ہونا شروع ہوئے۔ (61) حتی کہ جب رات ہوئی تو مسلم (علیہ السلام) کے ساتھ تیس افراد کے سوا کوئی نہ تھا۔ (62) مسلم بن عقیل نے مسجد کوفہ میں نماز پڑھائی اور نماز مغرب و نعشاء کے بعد مسجد سے نکلے تو باقیماندہ افراد نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور یوں سفیر امام حسین علیہ السلام تنہا رہ گئے۔ (63)مسلم (علیہ السلام) جو تنہا رہ گئے تھے، ایسے حال میں کہ گلیوں کوچوں میں حیران و پریشان تھے، نے "طوعہ” نامی خاتون کے گھر میں پناہ لی۔ (64) ابن زیاد قیام مسلم کے خاتمے کے بعد مسجد گیا اور نماز اور خطاب کے بعد مسلم (علیہ السلام) کی گرفتاری کے لئے گھر گھر تلاشی کا حکم جاری کیا۔ (65) دریں اثناء طوعہ کا بیٹا مسلم (علیہ السلام) کے ٹھکانے سے آگاہ ہوچکا تھا چنانچہ اس نے حکومت کے کارگزاروں کو اس کی اطلاع دی۔ (66) عبید اللہ نے محمد بن اشعث کو ستر آدمیوں کے ہمراہ طوعہ کے گھر کی طرف روانہ کیا۔ (67) جب مسلم (علیہ السلام) کو معلوم ہؤا کہ گھر کو گھیرے میں لیا گیا ہے تو تلوار لے کر باہر آئے اور ان کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوئے۔ (68) حتی کہ شدید زخمی ہوکر اسیر ہوگئے۔ (69) گرفتاری کے بعد انھوں نے محمّد بن اشعث اور عمر بن سعد سے کہا کہ قاصد بھیج امام حسین (علیہ السلام) کو کوفہ کے حالات سے آگاہ کریں۔ (70) کوفہ میں چونسٹھ روز قیام کے بعد جام شہادت نوش کرگئے۔(71)
محمد بن اشعث اور عمر بن سعد کا قاصد منزل زبالہ میں امام حسین (علیہ السلام) کے قافلے سے جا ملا اور آپ کو مسلم (علیہ السلام) کا پیغام پہنچایا کہ "اہل کوفہ بیعت کے بعد منتشر ہوگئے”۔ (72) مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت سے امام حسین (علیہ السلام) کو شدید صدمہ ہؤا۔ (73)

مکہ سے کوفہ روانگی
امام حسین علیہ السلام کی کوفہ عزیمت
امام حسین (علیہ السلام) کی عزیمتِ کی خبر کوفہ مکی عوام میں پھیل گئی اور ان میں سے بہت سوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ عبداللہ بن عباس اور محمد بن حنفیہ آپ کے پاس پہنچے اور آپ کو کوفہ کے سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
مام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب نے طوافِ خانۂ خدا اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد روانگی کے لئے تیار ہوئے۔ (74) آخر کار مکہ میں 4 مہینے اور پانچ روز قیام کے بعد سہ شنبہ (منگل) آٹھ ذوالحجہ روز ترویہ (75) اور ایک قول کے مطابق اہل بیت اور کوفی بزرگوں کے 60 افراد کے ساتھ، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (76)
امام حسین علیہ السلام کو روکنے میں عمرو بن سعید کی ناکامی
مکہ سے امام حسین (علیہ السلام) اور اصحاب کی کوفہ عزیمت کے بعد پاسبانوں کے سربراہ یحیی بن سعید اور مکہ کے حاکم عمرو بن سعید بن العاص نے اپنے اعوان و انصار کے ساتھ مل کر امام حسین (علیہ السلام) کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر امام حسین (علیہ السلام) نے توجہ دیئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ (77)
مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کی منازل
مکہ مکرمہ سے آٹھ ذوالحجہ کو امام حسین علیہ السلام کی روانگی اور 15 رمضان سنہ 60 ہجری مسلم (علیہ السلام) کو کوفہ بھجوانا)، بستان بنی عامر، تنعیم (یمن میں یزیدی کارگزار بحیر بن ریسان حمیری کی طرف سے شام کی طرف بھیجے ہوئے صفایا کے منتخب جنگی غنائم کے قافلے کو اپنی تحویل میں لینا)، صفاح (امام حسین علیہ السلام فرزدق شاعر سے ملاقات)، ذات العرق (امام حسین علیہ السلام کی بشر بن غالب نیز عون بن عبداللہ بن جعفر۔۔۔ سے ملاقات)، وادی عقیق، غمرہ، ام خرمان، سلح، افیعیہ، معدن فزان، عمق، سلیلیہ، مغیثہ ماوان، نقرہ، حاجز (امام حسین (علیہ السلام) نے یہیں سے قیس بن مسہر کو کوفہ روانہ کیا)، سمیراء، توز، اجفر (امام حسین علیہ السلام کا سامنا عبداللہ بن مطیع عدوی سے، جس نے امام حسین علیہ السلام کو واپسی کا مشورہ دیا)، خزیمیہ، زرود (9 ذی الحجہ، زہیر بن قین کا قافلۂ حسینی سے جاملنا اور فرزندان مسلم سے ملاقات اور مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر کی وصولی)، ثعلبیہ، بطان، شقوق، زبالہ (قیس بن مسہر کی شہادت پانا اور نافع بن ہلال سمیت چند افراد کا قافلہ حسینی میں شامل ہونا)، بطن العقبہ (امام حسین علیہ السلام کی عمرو بن لوزان سے ملاقات اور عمر کا آپ کو واپسی کا مشورہ)۔ عمیہ، واقصہ، شراف، تالاب ابومسک، جبل ذی حم (امام حسین علیہ السلام کو حر بر یزید ریاحی سے سامنا کرنا)۔ بیضہ (امام حسین علیہ السلام کا اپنے اصحاب اور حر کو مشہور خطبہ دینا)، مسجد، حمام، مغیثہ، ام قرون، عذیب (کوفہ کا راستہ عذیب سے قادسیہ اور حیرہ کی جانب تھا۔ لیکن امام حسین (علیہ السلام) نے راستہ بدل دیا اور کربلا میں اترے)۔ قصر بنی مقاتل (امام حسین (علیہ السلام) کی عبید اللہ بن حرّ جعفی سے ملاقات؛ عبید اللہ بن حر نے امام حسین (علیہ السلام) کی طرف سے نصرت کی دعوت رد کردی)، قطقطانہ، کربلا -وادی طَفّ- (دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین (علیہ السلام) کربلا میں اترے)۔ (78)
قیس بن مسہر صیداوی کو کوفہ روانہ کرنا
مروی ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) بطن الرمہ کے علاقے میں پہنچے تو کوفیوں کو خط لکھا اور انہیں کوفہ کی طرف سے اپنی روانگی کی اطلاع دی۔ (79) امام حسین (علیہ السلام) نے خط قیس بن مسہر صیداوی کو دیا۔ سپرد۔ قیس قادسیہ پہنچے تو ابن زیاد کے گماشتوں نے ان کا راستہ روکا اور قیس بن مسہر نے بھی مجبور ہوکر خط پھاڑ دیا تا کہ دشمن اس کے مضمون سے باخبر نہ ہوسکیں۔ ابن زیاد غضبناک ہؤا اور چلا کر کہا: "خدا کی قسم! تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ ان افراد کے نام بتا دو جنہیں امام حسین (علیہ السلام) نے خط لکھا تھا؛ یا یہ کہ منبر پر جا کر حسین اور ان کے باپ کو برا بھلا کہو!؛ اسی صورت میں میں تمہیں رہا کروں گا ورنہ تمہیں مار دوں گا”۔
قیس بن مسہر نے قبول کیا اور منبر پر جاکر امام حسین (علیہ السلام) کو برا بھلا کہنے کے بجائے کہا: اے لوگو! میں حسین بن علی (علیہما السلام) کا ایلچی ہوں اور تمہاری طرف آیا ہوں تا کہ آپ کا پیغام تم کو پہنچا دوں؛ اپنے امام کی ندا کو لبیک کہو”۔
ابن زیاد آگ بگولہ ہوگیا اور حکم دیا کہ قیس بن مسہر کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا جائے۔ اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس جسم بےجان کی تمام ہڈیاں توڑ دیں۔ (80)
فرستادن عبداللّٰہ بن یَقطُر بہ کوفہ
مروی ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے مسلم (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر پانے سے قبل اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن یقطر حمیری ـ (81) کو مسلم (علیہ السلام) کی طرف بھجوایا لیکن وہ حصین بن نمیر کے ہاتھوں گرفتار ہوکر ابن زیاد کے پاس لے جائے گئے۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں دارالعمارہ کی چھت پر لے جایا جائے تاکہ کوفیوں کے سامنے امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے والد بزرگوار پر سبّ و لعن کریں۔ عبداللہ بن یقطر حمیری نے دارالامارہ کی چھت سے کوفی عوام سے مخاطب ہوکر کہا: "اے لوگو! میں تہمارے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹی کے فرزند حسین کا ایلچی ہوں؛ اپنے امام کی مدد کو دوڑو اور ابن مرجانہ کے خلاف بغاوت کرو”۔ (82)
ابن زیاد نے جب یہ دیکھا تو حکم دیا کہ انہيں چھت سے نیچے گرا دیا جائے، اور اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا۔ عبداللہ بن یقطر جانکنی کی حالت میں تھی کہ ایک شخص نے آکر انہیں قتل کردیا۔ (83) عبداللہ بن یقطر حمیری کی شہادت کی خبر مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے خبر کے ہمراہ زبالہ کے مقام پر امام حسین (علیہ السلام) کو ملی۔ (84)
سفیر امام حسین علیہ السلام بصرہ میں
امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خط لکھ کر اپنے ایک موالی (آزاد کردہ) سلیمان بن زرین (یہ سعادتمند انسان حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے موالی اور معتمدین میں سے تھے ان کی والدہ کا نام کبشہ تھا جو ایک کنیز تھیں اور امام حسین (علیہ السلام) نے انہیں ایک ہزار درہم دے کر خریدا تھا اور اپنی زوجہ مکرمہ ام اسحق کی خدمت پر مامور کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد امام حسین (علیہ السلام) نے ان کا نکاح ابو زرین سے کرایا اور اس ازدواجی تعلق سے سلیمان بن زرین متولد ہوئے۔ زیارت ناحیہ میں امام زمانہ (علیہ السلام) نے ان کو بھی سلام کیا ہے اور فرمایا ہے: ‘””السلام علی سليمان مولی الحسين بن اميرالمؤمنين ولعن اللّٰه قاتله سليمان بن عوف الحضرمي”۔”’ (85) کے توسط سے بصرہ کے پانچ قبائل (عاليہ، بكر بن وائل، تمیم، عبد القيس اور اَزْد) کے سربراہوں کے لئے روانہ کیا۔ (86) سلیمان نے پانچوں قبائل کے سربراہوں "مالک بن مسمع بَکری، أحنف بن قیس، منذر بن جارود العبدی، (87) مسعود بن عمرو، قیس بن ھیثم اور عمرو بن عبیداللہ بن معمر” میں سے ہر ایک کو خط کا نسخہ دیا۔ (88) اس خط کا مضمون اور متن ایک ہی تھا جو کچھ یوں تھا: اَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلی کِتاب اللّٰه ِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ صلی اللّٰه علیه و آله، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمیْتَتْ وَ اِنَّ البِدْعَةَ قَدْ اُحْیِیَتْ وَ اِنْ تَسْمَعُوا قَوْلی وَ تُطیعُوا اَمْری اَهْدِکُمْ سَبیلَ الرَّشادِ” (ترجمہ:۔۔۔میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کی طرف بلاتا ہوں۔ بےشک سنت نیست و نابود ہوگئی ہے اور بدعتیں زندہ ہوگئی ہیں؛ تم میری بات سنوگے اور میرے فرمان کی پیروی کروگے تو میں راہ راست کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا)۔ (*)
بصری قبائل کے تمام سربراہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کے خط کا موصولہ نسخہ چھپا کر رکھ دیا سوائے منذر بن جارود عبدی کے جس نے [مبینہ طور پر] گمان کیا کہ یہ ابن زیاد کی ایک چال ہے۔ (90) چنانچہ اس نے اگلے روز ابن زیاد کو ـ جو کوفہ جانا چاہتا تھا ـ حقیقت حال بتا دی (91) ابن زیاد نے امام حسین (علیہ السلام) کے قاصد کو اپنے پاس بلوایا اور ان کا سر قلم کروایا۔ (92)
حر بن یزید ریاحی کی سپاہ کا سامنا
عبیداللہ بن زیاد کو امام حسین (علیہ السلام) کی کوفہ عزیمت کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی کوتوالی کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو چارہزار کا لشکر دے کر "قادسیہ” روانہ کیا تا کہ "قادسیہ” سے "خفان” اور "قطقطانیّہ” سے "لعلع” تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کرے تا کہ ان علاقوں سے آمد و رفت کرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے آگہی حاصل کرسکے۔ (93) حر بن یزید ریاحی کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین بن نمیر تمیمی کے لشکر کا حصہ تھا جو قافلۂ حسینی کا راستہ روکنے کے لئے روانہ کیا گیا تھا۔ (94)
حرّ اور قافلہ حسینی کا راستہ روکنا
ابو مِخنف نے اس سفر میں امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل دو بنو اسد کے افراد سے نقل کیا ہے کہ "جب قافلۂ حسینی "شراف” کی منزل سے روانہ ہؤا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں آن پہنچیں”۔ "پس امام حسین علیہ السلامنے "ذو حُسَم” کا رخ کیا۔ (95) حر بن یزید ریاحی اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے آمنے سامنے آگئےامام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ حر اور اس کے سپاہیوں کو اور گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ آپ نے نہ صرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی!
حر کی نماز حسین علیہ السلام کی امامت میں
نماز ظہر کا وقت ہؤا تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے مؤذن حَجّاج بن مسروق جعفی کو حکمِ اذان دیا، چنانچہ انھوں نے اذان دی اور اذان اقامہ کا وقت ہؤا تو امام حسین علیہ السلام نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:
"أَیُّهَا النّاسُ! إنَّها مَعْذِرَةٌ إِلَى اللّٰهِ وَإِلى مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمینَ، إِنِّی لَمْ أَقْدِمْ عَلى هذَا الْبَلَدِ حَتّى أَتَتْنِی کُتُبُکُمْ وَقَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ أَنْ اَقْدِمَ إِلَیْنا إِنَّهُ لَیْسَ عَلَیْنا إِمامٌ، فَلَعَلَّ اللّٰهُ أَنْ یَجْمَعَنا بِکَ عَلَى الْهُدى، فَإِنْ کُنْتُمْ عَلى ذلِکَ فَقَدْ جِئْتُکُمْ، فَإِنْ تُعْطُونِی ما یَثِقُ بِهِ قَلْبِی مِنْ عُهُودِکُمْ وَ مِنْ مَواثیقِکُمْ دَخَلْتُ مَعَکُمْ إِلى مِصْرِکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَکُنْتُمْ کارِهینَ لِقُدوُمی عَلَیْکُمْ اِنْصَرَفْتُ إِلَى الْمَکانِ الَّذِی أَقْبَلْتُ مِنْهُ إِلَیْکُمْ؛
یہ ایک عذر ہے اللہ کی بارگاہ میں اور تمہارے ہاں؛ "لوگو! میں تمہارے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ تمہارے خطوط موصول ہوئے اور تمہارے قاصد اور ایلچی میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کی کہ تمہاری طرف آجاؤں اور تم نے کہا کہ "ہمارا امام نہیں ہے؛ شاید اللہ تمہیں میرے وسیلے سے راہ راست پر گامزن کردے، پس اگر تم اپنے عہد و پیمان پر استوار ہو تو میں تمہارے شہر میں آتا ہوں، بصورت دیگر تو میں واپس چلا جاتا ہوں”۔
حر اور اس کے سپاہیوں نے خاموشی اختیار کی اور کسی نے کچھ نہیں کہا۔ بعدازاں امام حسین علیہ السلام نے نماز ظہر کے لئے اذان اقامہ پڑھنے کا حکم دیا [اور نماز ادا کی] اور حر اور اس کے سپاہیوں نے بھی امام حسین علیہ السلام کی امامت میں نماز پڑھی۔ (96)
اسی دن عصر کے وقت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو روانگی کے لئے تیاری کرنے کا حکم دیا؛ اور نماز عصر کے وقت امام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو اذان عصر دینے کی ہدایت کی اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:
"ايها الناس، فانكم ان تتقوا اللّٰه وتعرفوا الحق لاهله يكن ارضى للّٰه عنكم، ونحن اهل بيت محمد اولى بولاية هذا الامر عليكم من هؤلاء المدعين ما ليس لهم، والسائرين فيكم بالجور والعدوان۔ فان ابيتم الا الكراهة لنا، والجهل بحقنا، وكان رأيكم الان غير ما اتتني به كتبكم، وقدمت على به رسلكم، انصرفت عنكم؛
اے لوگو! خدا سے ڈروگے اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم اہل بیتِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) منصب خلافت اور تمہاری ولایت و امامت کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حق دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہمارے اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوط میں لکھے ہوئے مضمون سے ہم آہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں”۔
حر بن یزید نے کہا: "مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جائیں”۔ (97)
امام حسین علیہ السلام نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!”، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے!”۔
امام حسین علیہ السلامنے فرمایا: "امامؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا”۔
حر نے کہا: "میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛ لیکن مجھے حکم ہے کہ آپؑ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپؑ کو کوفہ لے جاؤں پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف جارہا ہو نہ ہی مدینہ کی طرف تا کہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے روانہ کروںآپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط یزید بن معاویہ کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر منتج ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں”۔ (98)
جاری۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ابن سعد؛ الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص442؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔
2۔ ابن سعد (محمد بن سعد بن منیع بغدادی)، الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص442؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔
3۔ محمد بن جریرالطبری، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، ج5، ص338۔
4۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)،ص3؛ تاریخ الطبری، ج3، ص338؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص180؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص152؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص18؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص185۔
6۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، صص3-4؛ ابو حنیفہ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ الطبری، تاریخ، صص338-339 اور دیکھئے: ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص181؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔
*۔ تاریخ الطبری، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص181؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔
7۔ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ تاریخ الطبری، ج3، ص339؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص11؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔
8۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص18؛ سید بن طاوس، اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔
9۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص183؛ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص183؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص88۔
10۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص33۔
11۔ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص228؛ شیخ مفید، الارشاد، ص32؛ عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔
12۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، ص5؛ شیخ مفید، الارشاد، ص33؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص19۔
13۔ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔
14۔ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔
15۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص19؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص187۔
16۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160۔
17۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص19- 20؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص187۔
18۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص18-19۔
19۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص21و الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص188-189۔
20۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔
21۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص21-22؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص189۔
*۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔
22۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ ابن اثیر، الکامل، ص16۔
23۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ شیخ صدوق، الامالی، صص152-153۔
*۔ شیخ صدوق، الامالی، ص152۔
24۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص22؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص189۔
25۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ شیخ مفید، الارشاد، ص35۔
26۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص156؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص23؛ شیخ مفید، الارشاد، ص36۔
27۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160؛ تاریخ الطبری، ج5، ص381؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص35۔
28۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص156؛ شیخ مفید، الارشاد، ص36؛ ابن اثیر، الکامل، ص20؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)،ج1، ص190۔
29۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص157-158؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص27-28؛ شیخ مفید، الارشاد، صص36-37؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔
30۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص157-158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص352؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص28؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38؛ ابن اثیر، الکامل، ص20۔
31۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص229؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ ابوالفداءاسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج8، ص151۔
32۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص352؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص29؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
33۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص29؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
34۔ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
35۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص158-159؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص37-38۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ یہ افراد منافق تھے جنہوں نے خطوط کی لہر کھڑی کردی تھی۔ رجوع کریں: شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة ال البيت (ع) لتحقيق التراث دار المفيد، ج2، ص38۔
36۔ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص24۔
37۔ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص24۔
38۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37؛ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ احمد بن ابی یعقوب الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص241؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
39۔ تاریخ الطبری، ص353؛ ابن اثیر، الکامل، ص21۔
40۔ محمد بن جریر تاریخ الطبری، ج5، ص353؛ ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص21۔
41۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص230؛ تاریخ الطبری، ج3، ص347؛ الفتوح، ص39و ابن اثیر، الکامل، ص21۔
42۔ علی بن الحسین المسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص54۔
43۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص231؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص77؛ تاریخ الطبری، ج5، ص355۔
44۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص459؛ تاریخ الطبری، ج5، ص375؛ الدینوری، الاخبار الطوال، ص243؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص33۔
45۔ تاریخ الطبری، ج3، ص356؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص35-36؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص198۔
46۔ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص41؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص91؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ص152؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج5، ص379۔
47۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص232؛ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص41؛ عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم، ج5، ص325۔
48۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص232-233؛ تاریخ الطبری، ج3، ص360؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص42۔
49۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص233؛ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص40۔
*۔ عابس شہدائے کربلا میں شامل ہیں۔
50۔ تاریخ الطبری، ج3، ص375۔
51۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص243؛ تاریخ الطبری، ج3، ص375؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص33۔
52۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص235-237؛ تاریخ الطبری، ج3، ص362؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص41۔
53۔ تاریخ الطبری، ج3، صص348-349؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص44؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص45-46؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص203-204۔
54۔ رجوع کریں سید عبدالرزاق المقرم الموسوی، مقتل الحسين(ع)، ص427۔
55۔ رجوع کریں: المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58، كامل ابن اثير، ج2، ص540، مع الحسين فى نہضتہ، اسد حيدر، ص108۔ محدث نوری، مستدرك الوسائل، ج2، ص265؛ الکلینی، فروع كافى، ج5، ص47۔ ابن ہشام حیاة محمد(ص) فارسی ترجمہ، رسولى، سید ہاشم، ج‏2، ص95، انتشارات کتابچى، تہران، چاپ پنجم، 1375 ہجری شمسی۔
56۔ رجوع کریں: تاریخ طبرى، ج6، ص20؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص218)۔ زید بن علی بن الحسین علیہ السلام نے بھی بنو امیہ کے خلاف قیام کیا تو ان کے لشکر کا شعار بھی یہی تھا۔
57۔ شیخ مفید، الارشاد، ص52؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص48-49؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔
58۔ شیخ مفید، الارشاد، ص52؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص48-49؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔
59۔ شمر بن ذی الجوشن الضبابی، رجوع کریں: ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبيين، دار الكتاب للطباعة والنشر قم – ايران منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتہا في النجف ت (368) 1385ھ – 1965 م، ص76۔
60۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ ابن اثیر، الکامل، ص31؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص206-207۔
61۔ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص49؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص207۔
62۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ شیخ مفید، الارشاد، ص54۔
63۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص49۔
64۔ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص62؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص50۔
65۔ تاریخ الطبری، ج3، صص372-373؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص51-52؛ ابن اثیر، الکامل، ص32۔
66۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص240؛ تاریخ الطبری ج3، ص350؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص63؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص208؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ ابن اثیر، الکامل، صص 33-34۔
67۔ تاریخ الطبری، ج3، ص373؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص52؛ ابن اثیر، الکامل، ص32۔
68۔ المسعودی، مروج الذہب، ماخذ، ص58؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص209؛ ابن اثیر، الکامل، صص33-34۔
69۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص54-55؛ ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج5، ص127۔
70۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص247۔) بالآخر مسلم (علیہ السلام) چہار شنبہ 9 ذو الحجۃ الحرام (یوم عرفہ) (تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص60؛ ابوالفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ؛ النہایہ، ج8، ص158۔) سنہ 60 ہجری (تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص60؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ص158۔
71۔ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص54۔
72۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص247-248۔
73۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص247 – 248۔
74۔ تاریخ الطبری، ج3، ص385؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔
75۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص81۔) 82 افراد کے ہمراہ (الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص220؛ علی بن عیسی إربلی، کشف الغمہ، ج2، ص43۔
76۔ ابن سعد، الطبقات، تحقیق محمد بن صامل السلمی، خامسہ1، ص451۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔
77۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص244؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص164؛ تاریخ الطبری، ج3، ص385۔
78۔ رسول جعفریان، اطلس شیعہ، ص66۔
79۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص245؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص167۔
80۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص167؛ تاریخ الطبری، ج3، ص405؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص60۔
81۔ محمد السماوی، ابصار العین فی انصار الحسین(ع)، ص93۔
82۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص168 – 169؛ تاریخ الطبری، ج3، ص398؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص42۔
83۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص169؛ تاریخ الطبری، ج3، ص398؛ ابن اثیر، الکامل، ص43۔
84۔ تاریخ الطبری، ج3، ص398؛ ابن اثیر، الکامل، ص42۔
85۔ سلام ہو حسین بن امیرالمؤمنین پر اور خدا لعنت کرے ان کے قاتل "سلیمان بن عوف حضرمی” پر)۔ رجوع کریں: ابصار العین محمد بن طاھر السماوی، ابصار العین في انصار الحسین علیہ السلام۔ص94۔
86۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ الکوفی، الفتوح، ج5، ص37۔
87۔ منذر بن جارود عبدی نے اس زمانے میں اپنی بیٹی ابن زیاد سےبیاہی تھی۔ (رجوع کریں: الأخبار الطوال:231، الفتوح:37/5۔) امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس صوبہ فارس کے علاقے اصطخر کا حاکم قرار دیا اور۔۔۔ (رجوع کریں:الطبقات الکبري:561/5، المعارف:339، تاريخ دمشق:281/60۔) وہ ظاہری طور پر مقبول لگتا تھا لیکن اس کا باطن ناہنجار و ناہموار تھا۔ چنانچہ اس نے بیت المال میں خیانت کرکے کچھ رقم اپنے لئے اٹھا لی جس پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس کو برطرف کرکے اس پر 30 ہزار درہم جرمانہ عائد کیا اور اسے قیدخانے میں ڈال دیا اور صعصعہ بن صوحان کے کہنے پر اس کو اصلاح احوال کی شرط پر رہا کردیا۔ (أنساب الأشراف:391/2، تاريخ اليعقوبي:203/2) یا بقول اعمش، امیرالمؤمنین(ع) نے اس کو فارس کی حکومت سونپ دی تو اس نے چار لاکھ درہم کی رقم اپنے لئے اٹھا لی اور۔۔۔ (الغارات:522/2۔ نيز، رجوع کریں:أنساب الأشراف:391/2)۔
88۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص37؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص199۔
*۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج8، ص157 – 158۔
89۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص37؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص199۔
90۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص231؛ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37 و الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص199۔
91۔ تاریخ الطبری، ج3، ص358۔
92۔ تاریخ الطبری، ج3، ص358؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37۔
93۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص166؛ محمد بن جریر تاریخ الطبری، ج5، ص401؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص62؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص41۔
94۔ تاریخ الطبری،ج5، ص401؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص62۔
95۔ تاریخ الطبری، ج5، ص400؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص63؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص77-78؛ ابن اثیر، الکامل، ص46۔
96۔ تاریخ الطبری، ج3، ص401-402؛ شیخ مفید، الارشاد، ص78-79؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص76؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ماخذ، ص62؛ ابن اثیر، الکامل، ص47۔
97۔ تاریخ الطبری، ج3، ص402؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص232؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص78؛ شیخ مفید، الارشاد، ص79-80؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص62-63؛ ابن اثیر، الکامل، ص47۔
98۔ تاریخ الطبری، ج3، ص402-403؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص81؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص64؛ ابن اثیر، الکامل، ص48۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button