سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

اربعین اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر: محمد حسین چمن آبادی
ثقافت ِاسلامی اور معارفِ عرفانی میں چالیس کی عدد کو خاص قسم کی اہمیت حاصل ہےجیسے حاجات کی برآوری،عرفانی سیر وسلوک کے اہم ترىن مقامات تک رسائی کے لئے چالیس روزہ چلّہ کشی،چہل حدیث، چالیس روز کا اخلاص کی روایت"من أخلص‏ الله‏ أربعين‏ صباحا ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانه”(جامع الأخبار للشعيري، ص94)،چالیس سال کی عمرمیں بلوغ عقل والی حدیث،چالیس مومنین کیلئے دعا كرنے کی تاکید، بدھ کی چالیس راتیں ،مومن کے ساتھ چالیس لوگوں کا امضاء شدہ شہادت نامہ دفنانا وغیرہ ہماری روایات میں بہت زیادہ ہیں۔
اسلامی ثقافت میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپؑ کے جانثاروں کی شہادت کے چالیسویں رو ز کو اربعین کہتے ہیں۔امام مظلومؑ کی شہادت کےپہلے چالیسویں کو رسول خدا ﷺ کے بزرگ صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری اور عطیہ عوفی نے سب سے پہلے آپؑ کی قبر مطہر پر آ   کر زیارت کی۔ بعض روایات کے مطابق اسیران آل محمدؐ پہلے اربعین کو کربلا پہنچے اور وہاں پر جابربن عبداللہ سے ملاقات کی جبکہ دیگر بعض مؤرخین نے اس روایت کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ اہل بیتؑ پہلے اربعین کو کربلا نہیں پہنچے(منتہى الآمال ج۱، ص ۳۴۲)۔
اربعین حسینیؑ اور پیادہ روی تاریخ انسانیت میں ایک بے نظیرکارنامہ ہونے کےساتھ ساتھ امام حسین علیہ السلام کے مقدس اہداف کے تحقق ، شیعہ مذہب کا پرچار، عالمی سطح پر سیرت نبویؐ  اور علوی پر مشتمل سماج کی تشکیل میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس عظیم ظرفیت اور موقع سے استفادہ کرتے ہوئے پوری دنیا میں اسلام کے نورانی چہرے کو روشناس کرسکتے ہیں۔اس بہترین موقع پر زائرین ابا عبد اللہ امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری دو چنداں ہوجاتی ہے کیونکہ اس عظیم اجتماع کا بندوبست امام حسینؑ، اہل بیت پیغمبرؐ اور اصحاب باوفا نےخود ہی کردیا ہیں۔ پوری دنیا سے ہر رنگ ونسل، ہر مذہب وفرقہ، ہرطبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے باسی بے اختیار امام حسینؑ کی قبر مطہر کی طرف کھینچتے چلے آرہے ہیں کیونکہ رسول خداﷺ کا فرمان ہےکہ: قتلِ حسینؑ مؤمنین کے نفس وجان میں شعلہ بن کر بھڑک رہا ہے جو تا صبح قیامت خاموش نہیں ہوگا” إن لقتل‏ الحسين‏ حرارة في قلوب المؤمنين لا تبرد أبدا "(مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل ج:‏10 ،ص:311،رقم الحدیث49 / 318)۔
امام حسینؑ سے لوگوں کی محبت ومودّت میں روز افزوں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اور اس عشق ومحبت کے ایجاد میں کسی بھی انسان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ یہ سب کچھ آپؑ کی عظیم اور لازوال قربانی کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا کے لوگ رنگ ونسل کے جنجال، مذہب وفرقے کے جھگڑے، زبان و طبقہ بندی کے جکڑ سے ماوراء ہوکر لبیک یاحسینؑ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے راستے کی تمام تر مشکلات کو پشت سر گزارتے ہوئے کربلا معلیٰ کی طرف ٹھاٹھیں مارتے سمندر امنڈ کر آرہے ہیں۔ اس عظیم اجتماع کے وقوع کے بارے میں کسی قسم کی فکر نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ یہ اللہ کی منشاء کے مطابق وقوع پذیر ہوچکا لیکن فکر اس بات کی ہے کہ اس بحر  بیکراں اجتماع کے توسط سے درسِ کربلا اور اہداف عاشورا کو پوری دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے اور فرعونوں ،یزیدیوں ، نمرودوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پسی انسانیت کو ان کے چنگل سے کیسے نجات دلائی جائے۔مفاد پرستوں، عیاشی کے دلدادہ لوگوں، مقام ومنصب کے اسیروں کو اس دلدل سے کیسے باہر نکالے جائیں، اور ان کو عاشورائی اور کربلائی بنایا جائے۔ زائرین اباعبداللہؑ میں سے ہر ایک اپنی صلاحیت اور استعداد ومہارت کے مطابق اپنی ذمہ داری کا تعیین کرے۔ان وظائف میں بعض کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
۱: امام حسینؑ کی زیارت اور پیادہ روی میں شرکت
زیارت اربعین اور پیادہ روی اہل بیت پیغمبرﷺ کی سنت میں سے ایک ہےجو دور حاضر میں زور پکڑتی جارہی ہے۔اس سنّت حسنہ کے احیاء اور اجراء کے لیے تمام مومنین خاص کر علماء دین، طلاب کرام کو خصوصی دلچسپی لینی چاہیئے کیونکہ روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو حج وعمرہ سے بالاتر گردانتے ہوئے امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:” زيارة الحسين‏ تعدل‏ مائة حجة مبرورة و مائة عمرة متقبلة” "امام حسینؑ کی زیارت سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کے برابر ہے” (كشف الغمة في معرفة الآئمة ،ط :القديمة ،ج‏2 ،ص41)۔دوسری روایت میں صادق آل محمدؑ زیارت امام حسینؑ کو واجب قرار دیتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: ” زيارة الحسين بن علي ع واجبة على كل من يقر للحسين ع بالإمامة من الله عز و جل”۔آپؑ کی امامت کا اقرار کرنے والے ہر شخص پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت واجب ہے۔(كشف الغمة في معرفة الآئمة ،ط : القديمة، ج‏2 ،ص41) ۔معتبر رواىات میں آیا ہے کہ ثروتمند افراد سال میں تین بار اور فقراء سال میں حدّ اقل ایک بار امام حسینؑ کی زیارت کے لیے کربلا تشریف لے چلے۔
امام حسن عسکریؑ نے مومن کی پانچ علامات ذکر فرمایا ہے: ان میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔"علامات المؤمن خمس: صلاة الخمسين، و زيارة الاربعين، و التختم فى اليمين، و تعفير الجبين و الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم”(وسائل الشيعه، ج 10 ص 373 / التهذيب، ج 6 ،ص 52)۔
ہماری ذمہ داریوں میں سے سب سے پہلے خود امام حسینؑ کی زیارت کو عظیم سے عظیم تر اور پُر رونق انداز میں بجالانا ہے۔زیارت ربعین شعائر اللہ میں سے ہے،لہٰذا اس کے لیے جتنا ممکن ہو سکے باشکوہ انداز میں منعقد کرنا ہم سب کا فریضہ ہے۔دوسری طرف اس مقدس سفر کے آداب جیسے زائرین کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا، اول وقت میں نماز کی ادائیگی، کثرت سے صلوات پڑھنا، ذکر پڑھتے رہنا، زیارت امام حسینؑ کے آداب کا رعایت کرنا واجب ہے۔
۲: ثقافتی کاموں کو اہمیت دینا
زیارت امام حسینؑ فقط تعبدی اور عبادی پہلو نہیں رکھتی بلکہ اس کے کئی جہات ہیں۔ان میں سے ایک اہم پہلو دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والے زائرین کو مذہب اہل بیتؑ کی غنی ثقافت سےآشنا کرنا ہے کیونکہ امام حسینؑ سے بڑا کوئی اوروسیلہ نہیں کہ جس کے ذریعےسے لوگوں کو تو حید، عدل، نبوت، امامت ، معاد، نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ، خمس، امر بالمعروف، نہی از منکر، تولیٰ وتبریٰ اور دیگر ضروریات دین کے بارے میں بتایا جائے۔ان واجبات کی اہمیت اور بجاآوری کی ضرورت کے متعلق لوگوں کی معرفت میں اضافہ کیا جائےکیونکہ یہ امور ہزاروں مساجد بنانے،بے شمار کار خیربجالانے،لاکھوں فقراء کی مدد کرنے سے بھی زیادہ تاثیر گذار ہے،بلکہ بہت کم وقت اور نہایت قلیل خرچے کے ساتھ بے شمار لوگوں کے قلب وروح پر عمیق اور جاودانہ اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
ثقافتی فعالیات میں سے بعض کی طرف اشارہ کروں گا جیسے مجالس ابا عبد اللہؑ کا انعقاد،خوبصورت روایت گری،شیعہ مذہب کے اہم ترین واقعات کو کارٹونز کی شکل میں لوگوں میں تقسیم کرنا، امام حسینؑ کے گوہربار کلمات کے ساتھ بینرز نصب کرنا،علماء ومراجع عظام اور شہدا ء کی تصاویر کی نمائش، بچوں کے لیے نقاشی کے مسابقے، کوئز مقابلے،پمفلٹ شائع کرکے تقسیم کرنا، واقعہ عاشورا، اربعین کی زیارت کی اہمیت کے متعلق روایت پر مشتمل تحلیلی میگزین کی اشاعت جیسے ہزاروں ثقافتی کام کرنا لازمی ہے۔ہرموکب میں معمم عالم دین کا وجود اور ان کا مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہنا چاہیئے۔ ان فعالیات میں سے ایک اوّل وقت کی نماز باجماعت اور بیان احکام شرعی، ادّعیہ وزیارات کو خوبصورت وجذاب لحن میں پڑھنا ہے۔
۳: اربعین کی ثقافت کا نشر واشاعت
میڈیا پیغام رسانی کا ایک بہترین وسیلہ ہے لیکن ہمارے دشمن اس وسیلے کو ہمارے ہی خلاف نہایت خطرناک انداز میں استعمال کررہا ہے۔طاغوتی اور ان کے اشاروں پہ چلنے والے بے دین حکمران مسلمانوں میں افتراق و اختلاف کا بیج بوکر اپنے سیاہ کرتوتوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا پر ہمارے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔نجف اشرف سے کربلا معلیٰ تک متصل پیدل چلنے کروڑوں انسانوں کے اس سیلاب عظیم دنیا کی میڈیا پہ کہیں بھی تذکرہ نہیں ہوتابلکہ اس بے نظیر اجتماع پر پردہ ڈالنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں،حتی الامکان اس کو چھپاتے ہیں کیونکہ یہ عظیم اجتماع دنیا بھر کے ستمگر، بے غیرت،بے دین،ہوا وہوس کے اسیر حکمرانوں اورانسانی اقدار سے بے خبر عوام کے خون چوسنے والے مفاد پرست ٹولےکے خلاف سراپا احتجاج اور ان سے اظہار بیزاری کا نام ہے،اس لیے وہ دنیا کے سب سے بڑے اجتماع کو میڈیا کی زینت بنانے سے کتراتے ہیں،اس لیے ہمارے درمیان بہت ماہر اور تربیت یافتہ گروہ ہونا چاہیئے جو صرف ابا عبد اللہ امام حسینؑ کے عشق میں کربلا کی طرف بڑھتے عوامی سمندر کا کوریج دے، پیغام کربلا ، صدائے حق، لبیک یا حسینؑ کی آواز کو پوری  دنیا کے انسانوں کے گوش گذار کرے تاکہ حق کے متلاشی اور حقیقت کی جستجو کرنے والوں تک پیغام عاشوراءپہنچنے میں کوتاہی نہ ہو۔
پیادہ روی اربعین اپنے تمام تر زیبائی و خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک بہترین فرصت ہے کہ ہم جدید اسلامی تمدن کو بہترین انداز میں میڈیا کے ذریعے سے اہل دنیا تک پہنچائے۔اس عظیم موقع سے استفادہ کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے انسان ساز قیام کے اہداف کو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا کے وسیلے سے دنیا کو دکھایا جائے۔میڈیا پیادہ روی اربعین کے صرف عاطفی اور احساساتی پہلو پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے اہداف کی تبیین، اربعین کی خصوصیات اور زیارت کے ثواب، قیام اما حسینؑ کے مقاصد ،آپؑ کے دشمنوں کے سیاہ کرتوت اور امامؑ کا ان راہ ہدایت کی طرف نصیحت کے ساتھ بلند اہداف کے حصول کے لیے جان ومال واولاد کی قربانی،شہدا ئےکربلا کے آثار وفداکاری کا جذبہ جیسے بے شمار حسن وجمال سے بھرے پہلوؤں کو بھی روش کرایا جائے۔ حماسہ حسینی نے طولِ تاریخ میں اپنے استمرار میں کبھی خلل آنے نہیں دیا۔کبھی ہاتھ پاِؤں کٹوا کر تو کبھی عزیز واقارب کی جان کی قربانی دے کر، کبھی چھپ کر تو کبھی کھلے عام زیارت ابا عبد اللہ امام حسینؑ کی زیارت کا سلسلہ جاری وساری رکھ۔ میڈیا اس خوبصورت پہلو کو بھی اپنے پروگرام کی زینت بنائے۔
۴: امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے لیے زمینہ سازی کرنا
اربعین کے اس عظیم اجتماع میں فرزند زہراء سلام علیہا، منتقم خو نِ سید شہداؑ حضرت امام مہدی ارواحنا لہ الفدیٰ ضرور تشریف لاتے ہیں۔ اپنے ظہور اور امّت کی مظلومیت دیکھ کر اپنے جدّ بزرگوار امام حسینؑ کے روضہ اطہر پر گریہ کرتے ہوں گے، تو کیوں نہ ہم ان کے ظہور اور عافیت کے لیے دعا وگریہ نہ کریں۔اہداف عاشوراء کا تحقق آپؑ کے بابرکت ظہور کے ساتھ منسلک ہے۔اس لیے اربعین کے بے نظیر اجتماع کے دوران بعض موکب اور خیموں کو امام مہدیؑ کے وجود مقدس،ظہور بابرکت، ظہور کے علامات، ظہور کے بعد کے حالات و واقعات، حکومتِ جہانی، عدالت وانصاف کے ییام کا دور،ظالم وستگروں کا انجام، آپؑ کی حکومت کی کیفیت وخدو خال وغیرہ کے متعلق احادیث کی تبیین و تحلیل کے لیے مختص کیا جانا چاہیئے کیونکہ عالمی عدالت سے خوفزدہ دشمنوں کی طرف سے امام مہدیؑ کی ولادت،ظہور، امام عسکریؑ کے فرزند ہونے،دنیا کو عدل وانصاف سے بھرنے ، ظالموں و خونخواروں کی حکمتوں کا قلع قمع کے بارے میں ہزاروں قسم کے شبہات ایجاد کیے جارہے ہیں۔خود مؤمنین کے ذہنوں کو مشوّش اور اقسام وانواع کے شبہات پیدا کیے گیے ہیں۔
۵: اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کرنا
اربعین حسینی کے بے مثال اجتماع میں متعدد ممالک، مختلف زبان بولنے والے،مختلف ادیان ومذاہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں کیونکہ ان سب کو حسین بن علیؑ اپنے عشق میں یکجا کیے ہیں۔دنیا کا امن دگرگون ہونے کے بعد فرقہ پرستی کے جنّ تھیلی سے باہر آنے کےبعد، قوم وزبان علاقہ پرستی کے دلدل میں پھنس جانے کے بعد،ایک دوسرے کی تکفیر کے بعد، دین و مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کو بے جرم وخطا ءنابود کرنے کے بعد، دھماکوں اور خودکش حملوں کے بھیانک تباہی کے بعد، اب انسانوں کو امام حسینؑ کی زیارت اربعین کی شکل میں اتحاد ویکجہتی کا عظیم پلیٹ فارم ہاتھ آیا ہے جسے دیکھ کر مشرق ومغرب کے طاغوت اور ان کے پیروکاروں پر وحشت ودہشت طاری ہوچکی ہے اور آئے روز اتحاد کے اس عظیم نکتے کو خراب کرنے، دوسرے فرقوں کے مقدسات کے خلاف غلیظ زبان استعمال کروا کر ایک دوسرے کے جانی دشمن بنانے، رشد کرتے نوخیز تمدن اسلامی کو ابتدائی مرحلے میں ہی تباہ کرنے کے در پے ہیں، لیکن امام حسینؑ کی ذات ہی ایسی ہے کہ ہر انسان آپؑ کے عشق و محبت میں اربعین کے ایام میں ٹھاٹھیں مارتے انسانی سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام نکتہ وحدت واتحاد ہے،اس لیے ہمیں ہر اس چیز سے اجتناب کرنا چاہیئے جو ہمارے درمیان اختلاف و تفرقے کا باعث ہو۔مشترکات اور عامل اتحاد کی رعایت کرتے ہوئے آپس میں محبت واحترام، ایثار وفداکاری، عزت و مہربانی، عطوفت ورحمدلی سے پیش آنا چاہیئےتاکہ دنیا ہمارے سلوک اور آداب دیکھ کر خودبخود امام حسینؑ کے مقدس اہداف کے بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور ہوجائے۔اگر ہم امام حسینؑ کے عشق میں بے تاب بعض افراد کے مذہب کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرے یا ان کی مذہبی شخصیات کی توہین کرےیا مقدسات مذہب کے خلاف گندی زبان استعمال کرے تو یقیناًہم امام حسینؑ کے اہداف کے خلاف دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں، کیونکہ اسلام اور ہمارا مذہب اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ہم آپس میں دست وگریباں ہوں اور دشمن کے اہداف کے حصول میں ان کا معاون ومددگار ہو لہٰذا ایسے عوامل واسباب کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیئے جو تفرقے اور دنگا فساد کا سبب ہو۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button