سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

پردہ اور سیرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا

سیرت خود ایک ساکت و صامت حقیقت ہوتی ہے اس لیے اس سے استدلال قائم کرنے سے پہلے اس کی نوعیت پر نظر کرنا ضروری ہے کیونکہ نوعیت کو دریافت کیےبغیر اس سے استدلال کرنا ایک بے معنیٰ امر ثابت ہوگا۔مثال کے طور پر یوں سمجھ لیجیئے کہ آپ نے کسی معصوم کودو رکعت نمازپڑھتے دیکھا تو ظاہر ہے اس سے اتنا تو ضرور اندازہ ہوگا کہ اس وقت میں دو رکعت نماز قائم کرنا جائز ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ یہ سنت ہے یا واجب؟ واجب ہےتو صرف معصوم ے لیےواجب ہے یا عام افراد کےلیےبھی واجب ہے۔ اس نماز کی نوعیت درایفت کرنے کےلیے مذہب کےدوسرے قوانین کی طرف نظرکرنا ہوگی۔مثلا یہ دیکھا جائے گا کہ اسلام میں معین نمازوں کی تعداد کتنی ہے اور معصوم کے خصوصیات کی بھی تحدید کی جا چکی ہے اس لیے یہ نماز واجب نہیں ہوسکتی اور نہ اس کا شمار خصوصیات معصومین میں ہوسکتا ہے اس لیے اس نمااز کا مستحب ہونا امر یقینی ہے۔
یہی حال جملہ سیرتوں کا ہے جب تک ان کی نوعیت معلوم نہ ہو اس وقت تک ان کا فیصلہ کرنا غیر ممکن ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پردے کے بارے میں بھی اسلام کا موقف دریافت کیا جائے تا کہ اس کی روشنی میں سیرت کا تجزیہ کیا جاسکے۔
قرآن و سنت کے اکثر بیانات سے اس موقف کی وضاحت کرنے کے لیے اس وقت معصومہ عالم جناب فاطمہ زہراء کا یہ فقرہ پیش نظر ہے جو آپ نے سرور کائنات کے سوال پر ارشادفرمایا تھا:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لاڈلی دختر سے پوچھا کہ بیٹی ایک عورت کے لیےسب سے اچھی چیز کیا ہے؟
معصومہ کائنات نے جواب دیا: عورت کے لیےسب سے بہتریہ ہے کہ کسی مرد کی اس پر نگاہ نہ پرے اور وہ کسی مرد کو نہ دیکھے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ پردہ یک طرفہ ستر کا کام نہیں ہے بلکہ اس میں طرفین کی حیاء و غیرت کا دخل ہے پردہ صرف گھربیٹھنے کا نام نہیں ہے بلکہ گھر سے نکلنے کےبعد بھی مردوں کی نظر سے بچنے کا نا م ہے۔ اور گھرمیں رہ کر بھی نا محرم کی نگاہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کا نام ہے۔ عورت کو قانونی اعتبار سے گھر کے اندر رہ کر امور خانہ داری کی نگرانی کرنی چاہیے اور اگر کبھی بر بنائےضرورت نکل بھی آئے تو اپنے آپ کو مردوں کی نظرسے بچائے رکھنا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت پر حکومت کادرجہ اسی معنیٰ میں دیا ہے کہ وہ عورت کو گھر سے باہر نہ جانے دےبیرون خانہ کی مصلحتوں کو مرد عورت کی نسبت زیادہ بہتر جانتا ہے اور ان حالات کے جانتےہوئے بھی باہر جانے کی اجازت دیتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی شرم وحیا رخصت ہوچکی ہے اور ظاہر ہے کہ جس کی شرم و حیا رخصت ہوجائے اس دین ومذہب کہاں رہ جاتا ہے۔
لادین لمن لا حیاء لہ
معصومہ عالم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں آپ کی سیرت کو دیکھا جاسکتا ہے کہ آپ کے دروازے پر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے محترم صحابی کو لےکر آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی تو معصومہ نے اجازت دے دی لیکن آپ نے دوبارہ سوال کیا تو مخدومہ کائنات نےعرض کی بابا یہ گھر آپ کا ہی ہےتو اجازت کی کیا ضرورت ہے؟
تو آپ نے فرمایا:کہ میرے ساتھ ایک صحابی بھی ہے،
جناب سیدہ نے عرض کی بابا آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس ایک ہی چادر ہے جس سے میں یا تو سر کو چھپا سکتی ہوں یا پھر پیروں کو تو انہیں اجازت کیسے دے سکتی ہوں؟
واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معصوم عالم صحابی کو گھر اندر آنے سے روکنا نہیں چاہتیں بلکہ پردے کی حدود پرروشنی ڈالنا چاہتی ہیں۔ یعنی اگر میرے پاس چادر ہوتی تو ضرور اجازت دےدیتی اور یہی وجہ ہے کہ جن حضرت نے اپنی عبا عنایت فرما دی تو جناب سیدہ نے بخوشی صحابی کو اندر کی اجازت دے دی۔
معصومہ کے گزشتہ ارشاد سے بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ عورت یا مرد کے دیکھنے کا مطلب اس کے چہرے اور صورت کو دیکھنا ہےلیکن آپ کی سیرت نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ اس کی حدود میں قد و قامت بھی آجاتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے کہ آپ نے اسماء سے یہ شکوہ کیا کہ مدینہ میں جنازہ اٹھانے کا یہ طریقہ ناقص ہے اس سے مردے کا قد و قامت نمایاں ہوجاتا ہے اور جب اسماءبنے حبش کی طرز پر تابوت بنا کر دکھایا تو آپ کے لب ہائے مبارک مسکراہٹ آگئی۔
ظاہر ہے کہ آپ کا اضطراب مرنے کے بعد کےلیے تھا جب انسان سے ہر حکم اورفریضہ ساقط ہوجاتا ہے لیکن یہ اضطراب بتاتا ہے کہ آپ مرنے کے بعد بھی قد و قامت کو نمایاں نہیں ہونے دینا چاہتیں تھیں اور جو مرنے کے بعد اس بات کو پسند نہ کرتا ہو وہ زندگی میں کیسے پسند کر سکتا ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو مباہلے میں لے کر چلے تو آگے خود اور پیچھے حضرت علی علیہ السلام کو کردیا تاکہ فاطمہ کا قد نمایاں نہ ہونے پائے۔ اور فاطمہ کے نقش قدم پر کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی یہی بلندی نفس تھی جس کی عظمت کا انداازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن مکتوم نابینا صحابی کو ساتھ لےکر اپنے گھر تشریف لائے اور اپنی دو بیویوں سے کہا کہ حجرے میں چلی جاو تو دونوں نے کہا یہ تو نابینا صحابی ہے اس سے پردہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ نے فرمایا یہ یہ سچ ہے وہ نابینا ہے لیکن تم دونوں تو نابینا نہیں ہو۔
اسلام جہاں اس کا نظرکرنا پسند نہیں کرتا وہیں تمہارا بھی نظر کرنا پسند نہیں کرتاہے۔
مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ عورت کی اصلی منزل و حدود خانہ ہے اور اس کی اصلی منزل حدود خانہ ہے اور اس کا اصل منصب امور خانہ کی نگرانی ہے اس کےرخ و رخسار کو نگاہ مردم سے بچانے میں خیر ہے اور اس کے قدوقامت کو اجنبی نظروں سے بچائے رکھنے میں عافیت ہے یہی کردار معاشرہ کی اصلاح کا ضامن ہےاور یہی اصول حیات سماج کی فلاح و بہود کا ذمہ دار ہےاگرچہ اس کے حدود واجبات سے زیادہ ہیں اور ان واجبات میں ان میں سے بہت سی چیزیں شامل نہیں ہیں لیکن خیر بہر حال خیر ہے اور حتی الامکان اس کا لحاظ ضروری ہے بلا ضرورت خیر کو ترک کردینا بعض اوقات شر کا باعث ہے۔
خداوندعالم امت توحید و رسالت اور پیروان مسلک والایت کو اس خیر حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائےہمارے معاشرے جو ہر شر وآفت سے محفوظ رکھے۔
(نقوش عصمت سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button