سیرتمکتوب مجالس

عزاداری اور سیرت معصومین علیھم السلام

کربلا درسگاہِ انسانیت ہے جہاں تشنہ لبوں کی قربانی نے قیامت کے روز تک حق کے متلاشی افراد کی پیاس بجھانے کا سامان کیا اور کربلا تعلیم وتربیت کا ایسا مکتب ہے جس نے ہر دور ہر زمانے میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں جن کی تاثیر ہر زندہ ضمیر انسان کے فطرت میں پیوست ہو چکی ہے گویا کربلا ہر ایک زمانے میں حق وباطل کی شناخت کا میزان بن گئی ہے اسی وجہ سے واقعہ کربلا کے بعدہر امام نے احیاءِ کربلا کا اہتمام کیا اور اپنے اپنےزمانے کی ضرورت کے مطابق عزاداری کی بنیاد رکھی اور جوں جوں واقعہ کربلا کو زمانہ گزرتا چلا گیا توں توں عزاداری اپنے دامن میں وسعتیں پیدا کرتی چلی گئی اور آج ایک تن آور و ثمر آور شجر کی مانند پورے عالم کو حقیقت ِکربلا سے روشناس کرانے کا عظیم ذریعہ بن چکی ہے ۔
لیکن اسکے ثمرات سے کماحقہ استفادہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب اسکو ائمہ طاہرین علیھم السلام کی تعلیمات کے مطابق منعقد کیا جائے اور اسکے لئے امام زین العابدین ع سے لیکر امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف تک ائمہ طاہرین علیھم السلام کا سیرت و کردار تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ ان ہستیوں نے کس قدر عزاداری کا انعقاد کیا اور اسکو کتنی اہمیت دی اور اسی کے ساتھ اس کو کس طرز پر انجام دیا اس مختصر تحریر میں ائمہ طاہرین علیھم السلام کے عزاداری امام حسین علیہ السلام کے متعلق کچھ فرمودات پیش کر کے ایک نتیجہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تا کہ ہم اسی روش اسی طرز پر عزاداری امام حسین ع کا خیال کرتے ہوئے انجام دہی کے فریضے سے سبکدوش ہو سکیں
امام زین العابدین علیہ السلام اور عزاداری امام حسین علیہ السلام
عبادت گزاروں کی زینت اور سجدہ کرنے والوں کے سردار امام سجاد علیہ السلام جو ہمیں واقعہ کربلا سے متصل کرنے کی پہلی کڑی ہیں نیز آپ ؑ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں اسی وجہ سے اس درد ناک واقعہ کے سب سے زیادہ اثرات ہمیں آپکی حیاتِ مبارکہ میں ملتے ہیں امام زین العابدین ع کے متعلق صاحب بحار نے کتاب المناقب سے نقل کیا :
وَ كَانَ إِذَا أَخَذَ إِنَاءً يَشْرَبُ مَاءً بَكَى حَتَّى يَمْلَأَهَا دَمْعاً فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ وَ كَيْفَ لَا أَبْكِي وَ قَدْ مُنِعَ‏ أَبِي‏ مِنَ‏ الْمَاءِ الَّذِي كَانَ مُطْلَقاً لِلسِّبَاعِ وَ الْوُحُوشِ وَ قِيلَ لَهُ إِنَّكَ لَتَبْكِي دَهْرَكَ فَلَوْ قَتَلْتَ نَفْسَكَ لَمَا زِدْتَ عَلَى هَذَا فَقَالَ نَفْسِي قَتَلْتُهَا وَ عَلَيْهَا أَبْكِي.
جب بھی امام زین العابدین ع پانی پینے کے لئے برتن اٹھاتے اسقدر روتے کہ وہ آنسوؤں سے لبریز ہو جاتا جب آپ سے اس متعلق سوال کیا جاتا تو فرماتے میں کیسے نہ روؤں؟ کہ میرے بابا کو اس پانی سے روک دیا گیا جو ہر قسم کے درندوں اور جانوروں تک کے لئے جائز تھا امام علیہ السلام کو کہا گیا کہ کیا آپ ساری زندگی روئیں گے اگر آپ خود کو ہلاک بھی کر لیں تب بھی اس سے زیادہ نہیں رو سکتے ؟ تو امام ع نے فرمایا میں نے خود کو ہلاک کر لیا اور اسی پر رو رہا ہوں ۔۔۔(1)
ایک مقام پر امام جعفر صادق ع نے اپنے دادا امام سجاد ع کی کیفیت عزا کو بیان کیا اور فرمایا:
وَ مَا وُضِعَ بَيْنَ يَدَيْهِ طَعَامٌ‏ إِلَّا بَكَى‏ حَتَّى قَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ قَالَ‏ إِنَّما أَشْكُوا بَثِّي وَ حُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَ أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ ما لا تَعْلَمُونَ‏ إِنِّي لَمْ أَذْكُرْ مَصْرَعَ بَنِي فَاطِمَةَ إِلَّا خَنَقَتْنِي لِذَلِكَ عَبْرَةٌ.
جب بھی آپکے سامنے کھانا لایا جاتا تو گریہ فرماتے یہاں تک کہ ایک غلام نے کہا مولا میں آپ پر قربان جاؤں میں آپکی نسبت ڈرتا ہوں کہ کہیں روتے روتے آپکی جان نہ نکل جائے تو امام ع نے سورہ یوسف کی آیت 86 تلاوت کرتے ہوئے فرمایا: میں اپنا اضطراب اور غم صرف اللہ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اللہ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے فرمایا جب بھی مجھے قتل گاہ بنی فاطمہ ؑ یاد آتا ہے تو مجھے گریہ و غم دمن گیرہوجاتا ہے ۔ (2)
اور ایک مرتبہ تو ایک غلام نے کہا کہ مولا ؑ بالآخر یہ گریہ کب تک ؟
تو امام ع نے فرمایا : تجھ پر افسوس ہے یعقوب نبی ؑ کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے ایک نظروں سے اوجھل ہو ا تو انکی آنکھیں کثرت گریہ کے باعث سفید ہو گئیں انکی بال غم میں سفید ہو گئے اور غم سے کمرخم ہو گئی جبکہ انکا بیٹا دنیا میں زندہ و سلامت تھا اور میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے اردگرد اپنے بابا ،بھائی ،چچا، اور سترہ افراد اہل بیت ع سے شہید دیکھے تو میرا حزن کیسے ختم ہو؟ (3)
فَإِذَا حَضَرَ الْإِفْطَارُ جَاءَ غُلَامُهُ بِطَعَامِهِ وَ شَرَابِهِ فَيَضَعُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَقُولُ كُلْ يَا مَوْلَايَ فَيَقُولُ قُتِلَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ ع جَائِعاً قُتِلَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ ع عَطْشَاناً فَلَا يَزَالُ يُكَرِّرُ ذَلِكَ وَ يَبْكِي حَتَّى يَبْتَلَّ طَعَامُهُ مِنْ دُمُوعِهِ ثُمَّ يُمْزَجُ شَرَابُهُ بِدُمُوعِهِ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى‏ لَحِقَ‏ بِاللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَّ.
جب افطار کا وقت ہوتا تو غلام انکا کھانا او رپانی لاتا اور امام ؑ کے سامنے رکھتا پس وہ کہتا میرے آقا تناول فرمائیے تو امام ؑ فرماتے رسول اللہ ﷺ کا فرزند بھوکا اور پیاسا شہید کر دیا گیا اور اسی طرح ان جملوں کو بار بار کہتے رہتے اور روتے رہتے یہاں تک کہ کھانا آنسؤوں سے تر ہوجاتا اور پانی بھی آنسؤوں سے مل جاتا اور آپ ؑ ہمیشہ اسی طرح کرتے رہے یہاں تک کے پروردگار سے جا ملے (4)
اسکے علاوہ متعدد روایات ہمیں کتب میں ملتی ہیں جہاں کسی قصاب کو جانور ذبح کرتے دیکھتے تو گریہ کرتے کسی مسافر کو غربت کی صدا دیتے ہوئے سنتے تب بھی اپنے بابا کو یاد فرماتے گویا امام سجاد ع بعد از کربلا اپنی پینتیس سالہ زندگی کو عزاداری امام حسین علیہ السلام میں وقف کر چکے تھے ۔
یہاں سے ہمیں ایک درس یہ بھی ملتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کا کردار ہر عزادار امام حسین ع کے لئے آئڈیل ہے جہاں ہر موقع و مناسبت پر ذکر امام عالی مقام بھی ہو رہا ہے اسکے باوجود نہ امام ع نے کسی واجب کو ترک کیا اور نہ ہی کسی محرم کا ارتکاب کیا گویا سیرت امام ؑ نے امام حسین ؑ کے عزادار کو یہ پیغام دیا کہ غم حسین ؑ مناؤ مگر نماز کے ساتھ ایک کامل عزادار وہی ہو سکتا ہے جو عزاداری جیسی عبادت بھی انجام دے اور اپنے واجبات کی بجاآوری اور محرمات سے اجتناب کی پابندی بھی اختیار کرئے ۔
عزاداری اور امام محمد باقر علیہ السلام
واقعہ کربلا کے شاہدین میں دوسری شخصیت امام محمد باقر علیہ السلام کی ہے جنہوں نے کم سنی کے عالم میں ایسے درد ناک حالات کا مشاہدہ فرمایا آپ نے بھی اپنے بابا کی سیرت کو قائم رکھتے ہوئے سلسلہ عزا کو دوام بخشا ایک مرتبہ کمیت بن زید اسدی نے امام باقر ع کی خدمت میں امام حسین ؑ کے متعلق اشعار کہے تو روایت میں ہے :

فَبَكَى ع وَ بَكَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ سَمِعْتُ جَارِيَةً تَبْكِي مِنْ وَرَاءِ الْخِبَاء
حضرت امام محمد باقرو امام صادق علیھما السلام نے گریہ کیا اور راوی کہتا ہے میں نے پردے کے پیچھے سے کنیز کا گریہ بھی سنا پھر جب مزید اشعار کہے تو امام محمد باقر ع نے فرمایا :

مَا مِنْ رَجُلٍ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ مَاءٌ وَ لَوْ مِثْلُ جَنَاحِ الْبَعُوضَةِ إِلَّا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ جَعَلَ ذَلِكَ الدَّمْعَ حِجَاباً بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ
جو شخص بھی ہمار اذکر کرئے یا اسکے سامنے ہمارا تذکرہ کیا جائے اور اسکی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر آنسو جاری ہو جائے تو اللہ اسکے لئے جنت میں گھر بنائے گا اور اسکا یہ آنسو اسکے اور جہنم کے درمیان حجاب بن جائے گا(5)

عزاداری اور امام جعفر صادق علیہ السلام
امام جعفر صادق علیہ السلام کی دینی خدمات ایک طویل فہرست رکھتی ہیں امام عالی مقام ؑ نے جہاں دیگر موارد میں اپنے علم سے فیضیاب تشنگان علم کو سیراب کیا وہاں امام حسین ؑ کی صف عزا کا بھی اہتمام کیا اور نہ صرف خود بلکہ اہل خانہ کو بھی اس میں شامل کیا جیسا کہ روایت ہے :
عَنْ سُفْيَانَ بْنِ مُصْعَبٍ الْعَبْدِيِّ، قَالَ:دَخَلْتُ عَلى‏ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام‏ فَقَالَ قُولُوا لِأُمِّ فَرْوَةَ تَجِي‏ءُ فَتَسْمَعُ‏ مَا صُنِعَ‏ بِجَدِّهَا قَالَ فَجَاءَتْ فَقَعَدَتْ خَلْفَ السِّتْرِ
سفیان بن مصعب العبدی کہتا ہے میں امام صادق ع کے پاس حاضر ہوا تو امام ع نے فرمایا ام فروہ (بنت قاسم زوجہ امام محمد باقر ؑ) کو کہو وہ بھی تشریف لائیں اور سنیں ہمارے جد کے ساتھ کیا برتا ؤکیا گیا راوی کہتا ہے وہ آئیں اور پردہ کے پیچھے تشریف فرما ہوئیں پھر اسکے بعد امام ؑ نے مجھے کہا کہ شعر پڑھو اور راوی کہتا ہے جب میں نے اشعار پڑھے تو ام فروہ بھی بلند آواز سے روئیں انکے ساتھ دیگر خواتین نے بھی بلند گریہ کیا ۔۔۔۔ (6)
ایک روایت میں امام حسین ؑ کے متعلق اشعار کہنے والوں کے لئے بزم عزا منعقد فرمائی اور اشعار کہنے والوں کا اجر وثواب بیان کیا :
عَنْ أَبِي عَمَّارٍ الْمُنْشِدِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِي يَا أَبَا عَمَّارٍ أَنْشِدْنِي فِي الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع قَالَ فَأَنْشَدْتُهُ فَبَكَى ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ فَبَكَى قَالَ فَوَ اللَّهِ مَا زِلْتُ أُنْشِدُهُ وَ يَبْكِي حَتَّى سَمِعْتُ الْبُكَاءَ مِنَ الدَّارِ قَالَ فَقَالَ لِي يَا أَبَا عَمَّارٍ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَأَبْكَى خَمْسِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى ثَلَاثِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ فَأَبْكَى عِشْرِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ فَأَبْكَى عَشَرَةً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ فَأَبْكَى وَاحِداً فَلَهُ‏ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ فَبَكَى فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ فَتَبَاكَى فَلَهُ الْجَنَّة
ابوعمار نے امام جعفر صادق ؑسے نقل کیا کہ آپ ؑنے مجھے فرمایا:اے عمار مجھے مرثیہ حسین ؑ پر مشتمل اشعار سناؤ میں نے اشعار پڑھے تو امام علیہ السلام نے گریہ فرمایا پھر میں اشعار پڑھتا رہا امام علیہ السلام روتے رہے یہاں تک کہ حتی میں نے اندروں خانہ سے بھی رونے کی آوازیں سنی پھر امام علیہ السلام نے مجھے فرمایا : اے عمار جو شخص حسین بن علی ؑ کی رثا میں شعر کہے اور پچاس افراد کو رلائے تو بہشت اسکا صلہ ہے ، جو شخص امام حسین بن علی ؑکے رثا میں ایک شعر کہے اور چالیس افراد کو رلائے اسکا اجر بھی بہشت ہے یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے ایک شعر کے ساتھ تیس پھر بیس پھر دس پھر ایک شخص کو رلانے کا اجر جنت بیان کیاا اور پھر فرمایا جو ایک شعر کہے اور خود روئے اسکا اجر بھی جنت ہے اور جو رونے کی صورت بنائے اسکے لئے بھی جنت ہے ۔ (7)
امام عالی مقام ع کا اس قدر اہتمام اور پھر ایک شعر کہنے پر اس قدر ثواب کا تذکرہ عزاداری امام حسین ؑ کو مزید اجاگر کر دیتا ہے حتی امام ع نے معمولات زندگی میں بھی اسکی اہمیت کا اجاگر کیا ایک روایت میں ملتا ہے
عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِذَا اسْتَسْقَى الْمَاءَ فَلَمَّا شَرِبَهُ رَأَيْتُهُ قَدِ اسْتَعْبَرَ وَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِدُمُوعِهِ ثُمَّ قَالَ لِي يَا دَاوُدُ- لَعَنَ‏ اللَّهُ‏ قَاتِلَ‏ الْحُسَيْنِ‏ ع وَ مَا مِنْ عَبْدٍ شَرِبَ الْمَاءَ فَذَكَرَ الْحُسَيْنَ ع وَ أَهْلَ بَيْتِهِ وَ لَعَنَ قَاتِلَهُ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَ حَطَّ عَنْهُ مِائَةَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ دَرَجَةٍ وَ كَأَنَّمَا أَعْتَقَ مِائَةَ أَلْفِ نَسَمَةٍ وَ حَشَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلِجَ الْفُؤَاد
راوی کہتا ہے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو ا آپ ؑ نے پانی طلب فرمایا جو لایا گیا جب پیا تو میں نے دیکھا کہ آپکی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے اور آپکی آنکھیں آنسؤوں سے لبریز ہو گئیں اور پھر فرمایا اے داؤد! خدا امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت کرے فرمایا: کب بھی کوئی بندہ پانی پئے اور امام حسین اور انکی اہل بیت کو یاد کرے انکے قاتل پر لعنت بھیجے تو خدا اسکے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور لاکھ برائیاں مٹاتا ہے اور اسکے لئے ایک لاکھ درجے بلند کرتا ہے ( جس نے ایسا کیا ) گویا اس نے ایک لاکھ غلام آزاد کئے اور بروز قیامت خدا اسکو ٹھنڈے دل سے محشور کرئے گا (8)
پانی انسان کے معمولات حیات میں آتا ہے جسکے بغیر انسانی بقا نا ممکن ہے اور ہر انسان دن میں کئی بار اس عمل کو انجام دیتا ہے اسی لئے امام علیہ السلام نے ایک عزادار کو ذکر امام حسین ؑ کا تحفہ دیا جب بھی کوئی انسان پانی پی کر امام حسین ؑ اور انکے رفقاء کی پیاس کو یاد کرئے گا وہ ان تمام نیکیوں سے دامن بھر لے گا اور انسان کے معمولات حیات میں ذکر حسین ؑ رچ بس جائے گا ۔
موت کے سیلاب میں ہرخشک وتر بہہ جائے گا
ہاں مگرنامِ حسینؑ بن علی ؑ رہ جائے گا
عزاداری اور امام موسی کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے بابا امام موسی کاظم ؑ کے متعلق فرمایا:
كَانَ أَبِي ع إِذَا دَخَلَ شَهْرُ الْمُحَرَّمِ لَا يُرَى ضَاحِكاً وَ كَانَتِ الْكِئَابَةُ تَغْلِبُ عَلَيْهِ حَتَّى يَمْضِيَ مِنْهُ عَشَرَةُ أَيَّامٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْعَاشِرِ كَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ مُصِيبَتِهِ وَ حُزْنِهِ وَ بُكَائِهِ وَ يَقُولُ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ الْحُسَيْنُ ع‏
جب محرم کا مہینہ شروع ہوتا تو میرے بابا کو مسکراتے نہ دیکھا گیا اور شدید غم ان پر غالب آ جاتا یہاں تک کہ دس دن گزر جاتے پس جن دس محرم کا دن ہوتا تو وہ دن انکے لئے مصیبت، حزن ،بکاء کا دن ہوتا اور وہ کہتے کہ یہی وہ دن ہے جس میں حسین ؑ کو شہید کر دیا گیا (9)
عزاداری اور امام علی رضا علیہ السلام
امام علی رضا علیہ السلام کے متعلق صف عزا کا اہتمام کرنے کے متعدد واقعات ملتے ہیں جہاں امام عالی مقام ع نے اپنے ہاں عزاداری امام حسین ع کا اہتمام کیا اور اپنے عمل سے اپنے جد کی عزاداری اور انکی یاد کا طریقہ سمجھایا ایک مرتبہ دعبل خزاعی نے آپ کے سامنے امام حسین ؑ کے متعلق اشعار کہے

بَكَى‏ الرِّضَا ع‏ بُكَاءً شَدِيداً ثُمَ‏ رَفَعَ‏ رَأْسَهُ‏ الشَّرِيفَ‏ إِلَيَ‏ وَ قَالَ يَا خُزَاعِيُّ نَطَقَ رُوحُ الْقُدُسِ عَلَى لِسَانِكَ بِهَذَيْنِ الْبَيْتَيْن‏
تو امام رضا علیہ السلام نے شدید گریہ فرمایا پھر اپنے سر قدس کو میری جانب بلند کیا اور کہا اے خزاعی یہ دو اشعار تیری زبان پر روح القدس نے جاری کئے ہیں (10)
عَنْ أَبِي بَكَّارٍ قَالَ: أَخَذْتُ مِنَ التُّرْبَةِ الَّتِي عِنْدَ رَأْسِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَإِنَّهَا طِينَةٌ حَمْرَاءُ فَدَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا ع فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ فَأَخَذَهَا فِي‏ كَفِّهِ‏ ثُمَّ شَمَّهَا ثُمَّ بَكَى حَتَّى جَرَتْ دُمُوعُهُ ثُمَّ قَالَ هَذِهِ تُرْبَةُ جَدِّي‏
ابو بکار راوی کہتا ہے میں نے امام حسین ؑ کی قبر کے سرہانے سے تربت کو اٹھایا وہ سرخ مٹی تھی پس میں امام علی رضا علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا اور وہ مٹی امام ؑ کی خدمت میں پیش کی امام ؑ نے اسکو اپنی ہتھیلی پر لیا پر اسکی خوشبو کو محسوس کیا پھر امام ؑ علی رو ئے یہاں تک کہ انکے آنسو جاری بہنے لگے پھر فرمایا یہ میرے جد حسینؑ کی تربت ہے (11)
یہ امام عالی مقام ؑ کا خاک اطہر کو دیکھ کر یاد ِامام کا عملی مظاہرہ تھا اس کے علاوہ میں واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جنکوں یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ امام علی رضا ؑ نے اس امر کے احیاء پر بہت زور دیا ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
قَالَ الرِّضَا ع‏ مَنْ تَذَكَّرَ مُصَابَنَا وَ بَكَى لِمَا ارْتُكِبَ مِنَّا كَانَ مَعَنَا فِي دَرَجَتِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ مَنْ ذُكِّرَ بِمُصَابِنَا فَبَكَى وَ أَبْكَى لَمْ تَبْكِ عَيْنُهُ يَوْمَ تَبْكِي الْعُيُونُ وَ مَنْ جَلَسَ مَجْلِساً يُحْيَا فِيهِ أَمْرُنَا لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ
جو ہماری مصیبت کا تذکرہ کرئے اور جو کچھ ہمارے ساتھ برتا گیا اس پر روئے اور بروز قیامت ہمارے ساتھ ہمارے درجہ میں ہوگا اور جس کے پاس ہمارا ذکر کیا جائے وہ روئے اور رولائے تو اسکی آنکھ اس روز نہیں روئے گی جب دوسری آنکھیں رو رہی ہوں گی اور جو ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں ہمارے امر کو زندہ کیا جا رہا ہو تو اسکا دل اس دن مردہ نہ ہوگا جب دوسروں کے دل مردہ ہو جائیں گے ۔(12)
نتیجہ بحث
عزاداری امام حسین ؑ کے متعلق روایات سے تاریخ بھری پڑی ہے جس سے ہمیں اس عظیم عبادت کا حقیقی مقصد اور اسکی روش کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے اور آپ نے ملاحظہ کیا کہ ائمہ طاہرین ؑ کے ہاں یہ عمل کس قدر گراں قدر تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ ملا کر اس کا انعقاد کیا کرتے تھے اور یہی ہمارے لئے بھی نمونہ عملی ہے ۔
یادِ امام مظلوم ؑ اپنے دامن میں کئی مقاصد رکھتی ہے اور اگر اسکے تمام تر مقاصد کا خلاصہ کیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ “ عزاداری امام حسین ؑ تربیت نفس کا بہترین ذریعہ ہے ”
ماتمی لاکھوں ہیں نفسِ بے ریا کس کس میں ہے
دیکھنا ہے تیرے اسوہ کی ادا کس کس میں ہے
جس کو انجام دے کر ہم اپنے نفس کی تربیت بھی کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو اپنے سینے پر مار کر خود کو یاد دلاتے ہیں کہ ہمارا کس عظیم قبیلہ حسینی سے تعلق ہے اور اپنے تربیت شدہ نفوس کو لیکر زبان پر ذکر حسین ؑ کرتے ہوئے جب ہم معاشرے میں نکلتے ہیں جو ہر دور کا باطل ہر زمانے کی یزیدیت سب کے سب لرز جاتے ہیں اور حق کا پرچم بلند سے بلند ہوتا چلا جاتا ہے اس سے آنے والی نسلیں جان لیتی ہیں کہ 61 ھ میں کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا کون مظلوم تھا اور کون ظالم تھا اور آج کون کون ظالم کا ہمایتی ہے اور کون کون مظلوم کے ساتھ کھڑا ہے ۔
ہم اپنے نفس میں عمل کی آبیاری اسی مقدس غم سے کیا کرتے ہیں اور اپنی زرخیر فکر کی حامل نسلوں کی سینچائی کے لئے اشکوں کا تحفہ اس عزاداری کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تا ظہور امام قائم ؑ جاری و ساری رہے گا ۔
خداوند عالم سے دعا ہے جہ جس طرح یہ مقدس فریضہ ہمارے مقدر میں قرار دیا اسکو صحیح معنوں میں انجام دینے اور آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس عمل کو ہماری بخشش کا وسیلہ قرار دے آمین
طالب دعا: نعیم عباس نجفی
حوالہ جات
1. بحار الأنوار: محمد باقر بن محمد تقى المعروف بعلامہ مجلسی ؒ ، محقق / مصحح: محققین کی جماعت ،ج‏46، ص: 109، ناشر: دار إحياء التراث العربي، ‏بیروت 1403 ق‏
2. الأمالي: محمد بن على ابن بابويه المعروف بشیخ الصدوق ، ص: 141 مجلس التاسع والعشرون ، ناشر: كتابچى‏، تهران‏ 1376 ش‏
3. الخصال : محمد بن على ابن بابويه المعروف بشیخ الصدوق ، ص517 ح4، ناشر: جامعه مدرسين‏, قم‏. 1362 ش ‏
4. اللهوف على قتلى الطفوف : على بن موسى‏ ابن طاووس مترجم: احمد فهرى زنجانى، ص: 209, ناشر: جهان‏, تهران‏, 1348 ش‏
5. بحار الأنوار: محمد باقر بن محمد تقى المعروف بعلامہ مجلسی ؒ ، محقق / مصحح: جمعى از محققان ، ج‏36، ص: 391، ناشر: دار إحياء التراث العربي، ‏بیروت 1403 ق‏
6. الكافي: كلينى، محمد بن يعقوب‏ محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد، ج‏8، ص: 216، ناشر: دار الكتب الإسلامية، تهران‏ 1407 ق‏
7. الأمالي: محمد بن على ابن بابويه المعروف بشیخ الصدوق ؒ ، ص: 142، ناشر: كتابچى‏، تهران‏ 1376 ش‏
8. الأمالي: محمد بن على ابن بابويه المعروف بشیخ الصدوق ، ص: 142، ناشر: كتابچى‏، تهران‏ 1376 ش‏
9. الأمالي: محمد بن على ابن بابويه المعروف بشیخ الصدوق ، ص: 128 مجلس السابع والعشرون ، ناشر: كتابچى‏، تهران‏ 1376 ش‏
10. كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثني عشر: على بن محمد خزاز رازى، محقق / مصحح: حسينى كوهكمرى، عبد اللطيف‏، ص: 276 ،طبع قم‏ ، 1401 ق
11. كامل الزيارات ؛ جعفر بن محمد، ابن قولويه ؛ ص283 ، نجف اشرف، چاپ: اول، 1356ش.
12. الأمالي: محمد بن على ابن بابويه المعروف بشیخ الصدوق ؒ ، ، ص: 73 المجلس السابع عشر، ناشر: كتابچى‏، تهران‏ 1376 ش‏

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button