سیرتسیرت امام مھدیؑ

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی سلطنت میں علمی انقلاب

علامہ سید عاشور علی

علی بن ابراہیم القمی نے اپنی تفسیر میں مفضل بن عمر کی سند سے اس بات کو نقل کیا ہے:

مفضل: میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول

” وَ اَشرَقَتِ الاَرضُ بِنُورِرَبِّهَا “

(سورة الزمر آیہ ۹۶)

کے متعلق یہ سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:رب الارض سے مراد امام الارض ہے، زمین کے امام کی آمدسے زمین چمک اٹھے گی۔

مفضل: جب آپ علیہ السلام خروج کریں گے تو اس وقت کیا ہوگا؟

امام علیہ السلام: اس وقت لوگ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے بے نیاز ہو جائیں گے وہ امام علیہ السلام کے نور سے سارے کام چلالیں گے۔

(سورہ زمر آیت ۹۶ ۔تفسیرالقمی ج ۲ ص ۱۷۵)

کتاب المحجہ میں بھی مفضل کی روایت ہے:

مفضل : میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے یہ بات سنی ہے کہ:

” جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو زمین اپنے رب(اپنے امام) کے نور سے چمک اٹھے گی اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے، دن اور رات ایک ہو جائیں گے آپ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرد کی عمر ایک ہزار سال ہو گی ہر سال اس کے لئے ایک لڑکاپیدا ہوگا اس کے لئے لڑکی پیدا نہ ہو گی وہ اسے ایساکپڑا پہنائے گاکہ وہ اسی ایک ہی کپڑے میں بڑا ہوتا جائے گا تو وہ کپڑا بھی اسی طرح بڑھتا جائے گا اور جس رنگ کو چاہے گا اس کا رنگ وہی ہو جائے گا”۔

(المحجہ ص ۴۷)

اس قسم کی روایات ہمارے لئے عجیب لگتی ہیں اور ہمارے اذہان میں ان کے معانی نہیں سماتے اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ اگر ماں کے شکم میں موجود بچے کو یہ بتایا جاتا کہ تم ایک ایسی جگہ جانے والے ہو جہاں پر ہزار میل لمبا پانی کا دریا ہوگا سو فٹ اونچی کھجور ہو گی اتنی اقسام کے جانور ہوں گے اسی طرح کی جھاڑیاں بھی ہوں گی اورکئی کئی منزلہ مکانات ہوں گے جب اس کے سامنے دنیا میں موجود اشیاءکی تفصیل بیان کی جائے اور وہ بچہ عقل و شعور اور سمجھ بھی رکھتا ہو تو وہ یہ سب کچھ سن کر تعجب کرے گا اور اسے انہونا کہے گا یہی ہمارا حال ہے کہ ہم اس وقت جن حالات میں پھنسے ہیں اس کے بعد والے حالات کا تصور ہمارے لئے مشکل ہے جس طرح سوسال پہلے کے لوگوں کے لئے ہوائی جہازوں، جیٹ طیاروں، ایٹم بم وغیرہ جیسی نئی ایجادات، ٹیلیفون کی جدیدترین سروس، کمپیوٹر جیسی صنعت کو قبول کرنا مشکل تھا۔

اب امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا جو دور ہوگا ظاہر ہے اس میں علمی ترقی اس قدر ہو گی جس کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے سارا علم اول سے آخر تک دو حروف کا ہے اور جب امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف تشریف لائیں گے تو باقی پچیس حروف کا علم بھی کھل جائے گا تو پھر اس زمانہ کے حالات وواقعات اور زندگی کی سہولیات کا ادراک ہم کیسے کر سکتے ہیں؟اور کیونکر کر سکتے ہیں؟ یہی حال قبر کے اندر کے حالات، میدان محشر کے حالات،جنت اور جہنم کی کیفیات بارے ہے،ہم تو بس اتنا کہتے ہیں کہ صادق اور امین ذوات جو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے ترجمان ہیں انہوں نے یہ سب کچھ بیان کیا ہے ہماری سمجھ میں اگر نہ بھی آئے تو ہم اس سب کچھ کو تسلیم اور قبول کرتے ہیں انکار نہیں کر سکتے، انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔( مترجم)

البحار میں مفضل سے روایت ہے کہ میں نے سنا ہے:

حضرت امام ابوعبداللہ علیہ السلام:

"جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے تو زمین اپنے رب کے نور سے (اپنے امام کے نور سے)چمک اٹھے گی لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہو جائیں گے ظلمت اور تاریکی ختم ہو جائے گی”۔

(بحارالانوارج ۲۵ ص ۰۳۳ باب ۷۲ حدیث ۲۵)

وضاحت

لوگوں کا سورج کے نور سے بے نیاز ہونے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ امام علیہ السلام کا مادی نور ظاہر ہوگا یعنی اس سے مراد نور کی مادی روشنی ہی لیں یا اس سے مراد علمی انقلاب ہے روشنیاں اور انوار اس قدر عام ہوں گے کہ دن رات ایک لگیں گے جب کہ اس وقت رات کو بعض تجارتی صنعتی سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں زراعت کے کام رک جاتے ہیں جب کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں یہ ساری رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو اس وقت دن رات کے سارے اوقات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا اس طرح دن رات ایک ہو جائیں گے اس سے مرادیہ نہیں کہ رات کا وجود ختم ہوجائے گا۔

روضة الکافی میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے۔

"جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کے لئے ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں کو وسعت عطاءکر دے گا ان کے درمیان اور قائم علیہ السلام کے درمیان فاصلہ نہ رہے گا اوران کے درمیان میں واسطہ کی ضرورت نہ ہوگی جب امام علیہ السلام سے گفتگو کریں گے تو وہ سن لیں گے وہ بولیں گے تو اسے مومنین سن لیں گے اور وہ سب کچھ دیکھ سکیں گے جب کہ امام علیہ السلام اپنی جگہ پر موجود ہوں گے”۔

(الکافی ج ۸ ص ۰۴۲ ذیل ۹۲۳)

امام علیہ السلام سے ایک اور حدیث میں آیاہے:

"مومن قائم علیہ السلام کے زمانہ میں اس طرح ہوگا کہ اس کا جو بھائی مشرق میں ہوگا وہ مغرب میں بیٹھ کر اسے دیکھ لے گا اسی طرح جومغرب میں ہوگا تو وہ مشرق میں بیٹھ کر دیکھ لے گا”۔

(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۱۹۳ حدیث ۳۱۲)

یہ حدیث ٹیلی ویژن کی سکرین پر نمودار ہونے والی تصاویر اور ٹیلیفون پر آنے والی تصویر موجودہ ترقی کے دور میں نشاندہی کرتی ہے لیکن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیان سے یہ لگتا ہے کہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہوگا کیونکہ وہ ایسی حالت ہو گی جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھی ہو گی۔

حضرت امام عصر علیہ السلام کے دور میں علوم کی کثرت

بحارالانوار میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

"آپ مومنوں کے اذہان میں علم کو ڈال دیں گے کوئی بھی مومن معلومات لینے کے حوالے سے کسی دوسرے مومن کا محتاج نہیں رہے گا اس دن اس آیت کی تاویل آئے گی :

” یُغنِ اللّٰهُ کُلّاً مِّن سَعَتِه “

(سورہ نساءآیت ۰۳۱)

(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۶۸)

اصول الکافی میں حضرت امام ابوجعفر علیہ السلام سے اپنی اسناد کے ذریعے یہ روایت نقل کی ہے:جس وقت ہمارے قائم علیہ السلام قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندگان پر اپنی قدرت کا ہاتھ رکھ دے گا اس طرح ان کے لئے ان کی عقلوںکو اکٹھا کر دے گا اور اسی طرح ان کے سارے خیالات، احلام، تصورات، افکار کامل ہو جائیں گے اور الخرائج میں ہے کہ مومنوں کے اخلاقیات کو کامل کر دے گا۔

(الکافی ج ۱ ص ۵۲ باب العقل حدیث ۱۲ کمال الدین ج ۲ صفحہ ۷۶ باب ۸۵ ذیل ۰۳)

علامہ مجلسی ثانی نے مرآة العقول میں اسی ضمن میں فرمایا ہے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ ”ومسح یدہُ“یدہُ میں ”ة“ ضمیر کا اشارہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ االلہ تعالیٰ اپنا ہاتھ بندگان پر رکھے گا یا حضرت قائم علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے کہ قائم علیہ السلام اپنے ہاتھ کو بندگان کے سروں پر رکھیں گے دونوں صورتوں میں یہ رحمت و شفقت یا قدرت کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ اس وجہ سے انہیں پورا تسلط اور غلبہ حاصل ہوگا اور ساری معلومات ان کوحاصل ہو جائیں گی۔

اس حدیث میں جو یہ جملہ ہے کہ ”تجمع بها عقولهم “ تو اس میں دو احتمال ہیں

ایک احتمال ہے کہ ان سب کے عقول کو حق کا اقرار کرنے پر اکٹھا کر دیں گے اس طرح کہ ان میں کسی قسم کا حق بارے اختلاف نہ رہے گا سب حق کی تصدیق کریں گے ۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے عقل مجتمع ہو گی تو یہ اکٹھا ہونے کا مطلب ہے کہ تمام نفسانی قوات اور صلاحیتیں عقل کے تابع ہوں گی نفسانی خواہشات کے متفرق ہونے کا اثر نہ پڑے گا سب عقل کے تابع ہوں گے ۔

پہلا احتمال زیادہ واضح ہے عبارت میں ”بہ“ میں ”ھائ“ کا اشارہ دفیع اور…. کی طرف ہے جب کہ ”بھا“میں”ھائ“کااشارہ ”ید“ہاتھ کی طرف ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت قائم علیہ السلام بندگان کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے جس سے سارے علوم انہیں حاصل ہو جائیں گے، عقول کی بالادستی ہو گی قدرتمند ہوں گی، سب حق کی تصدیق کریں گے، حق بارے اختلاف نہ رہے گا نہ ہی کسی کو دلائل مانگنے کی ضرورت ہو گی نفسانی خواہشات عقلوں کے تابع ہوں گی احلام، حِلم کی جمع ہے اس سے مراد بھی عقل ہے، اس جگہ علامہ مجلسی کی بات ختم ہوئی۔

(مکیال المکارم ج ۱ ص ۶۷)

بعض علماءرضوان اللہ علیہم کا بیان ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ معجزاتی طور پر اپنے جسمانی ہاتھ کو تمام بندگان کے سروں پر رکھ دیں گے۔

اس بات کی دلیل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے الکافی میں روایت ہے :

"اور یہ امر اس کے لئے ہوگا جس کے لئے گھٹی دی جائے گی۔ جب اللہ تعالیٰ کی اس بارے اجازت ہوگی تو وہ خروج کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے یہ کہے گا یہ وہ ہے جسے ہونا ہے اللہ تعالیٰ اپنا دست قدرت اپنی رعیت کے سر پررکھ دے گا”۔

(بصائرالدرجات ص ۴۰۲/۹۳)

اس سب سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عقلیں قدرت مند ہو جائیں گی انکی سوچ بڑھ جائے گی انکی سوچوں میں تبدیلی آئے گی، آسمان، فضاءسمندر ماحولیات، زمین کے اندرون ہر جگہ ترقی ہو گی ایسی ترقی ہو گی جس کاکسی نے تصور تک نہ کیاہوگا۔

منتظرین کے علم کی وسعت

ابوخالد: میں نے عرض کیا یابن رسول اللہ : یہ سب کچھ ہوگا؟

حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:جی ہاں! میرے رب کی قسم! یہ سب کچھ ہمارے پاس اس صحیفہ میں درج ہے جس میں وہ تمام مصائب اور مشقتیں درج ہیں جو ہمارے اوپرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آئیں گے۔

ابوخالد:یابن رسول اس کے بعد پھر کیا ہوگا؟

حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام: حضرت رسول اللہ کے بعد جو اوصیاءاور آئمہ ہیں ان میں جو بارہویں ہیں ان کے لئے غیبت ہے:

"اے اباخالد! جو آپ کی غیبت میں موجود لوگ ہوں گے وہ آپ کی امامت کے قائل ہوں گے اور آپ کے ظہور کی انتظار کرنے والے ہوں گے وہ سارے زمانوں کے لوگوں سے افضل ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے عقول اور ایسی سمجھ عطاءکر دی ہوئی ہے کہ ان کے ہاں غیبت ایسے ہو گی جس طرح امام علیہ السلام ان کے درمیان موجودہوں غیبت ان کے لئے بمنزلہ مشاہدہ ہو گی اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے لوگوں کو ایسے مجاہدین کا مقام دیں گے جنہوں نے تلوار لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ان کے ہمراہ جہاد کیا یہ حقیقت میں مخلصین ہوں گے اور سچے شیعہ ہوں گے اور اللہ عزوجل کے دین کی جانب ظاہر میں اور مخفیانہ انداز سے دعوت دینے والے ہوں گے”۔

(کمال الدین ج ۱ ص ۹۱۳ حدیث ۲ ،النجم الثاقب ج ۱ ص ۳۱۵)

(اقتباس از”حکومت مہدی علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں”)

مترجم: السید افتخار حسین نقوی النجفی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button