سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھاکی شخصیت کی تجلّیاں

مؤلف: سید منذر حکیم اور عدی غریباوی
شہزادی کائنات علیہاالسلام ، اللہ تعالی کے سب سے عظیم الشان پیغمبر کی بیٹی،پہلے امام امیر الموٴمنین علیہ السلام کی شریکہٴ حیات، سلسلہ امامت کی دو درخشندہ ترین شخصیتوں کی مادر گرامی ہیں بیشک آپ ہی اخری رسالت الٰہیہ کاروشن ومنور آئینہ ہیں نیز عالمین کی عورتوں کی سیدہ ٴوسردار اور رسول اطہر کی پاک وپاکیزہ ذریت کا صدف اور ان کی طیب و طاہر نسل کا سر چشمہ آپ ہی کی ذات ہے
آپ کی تاریخ، رسالت کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ آپ ہجرت سے آٹھ سال پہلے پیدا ہوئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے چند مہینے بعدہی اس دنیا سے تشریف لے گئیں۔
آپ کی عظمت و منزلت نیزمقصدشریعت کے بارے میں آپ کی دوڑدھوپ کی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان وحی ورسالت سے اس کابارباراسی طرح اعلان کیا ہے جس طرح قران مجید نے صراحت کے ساتھ اہلبیت علیہم السلام کے فضائل و کرامات کا تذکرہ کرنے کے علاوہ شہزادی کائنات کی عظمت ومنزلت کا خصوصی تذکرہ بھی فرمایاہے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیھاقران مجید کی روشنی میں
جن لوگوں نے حق کی راہ میں قربانی دی ہے قران مجید کی آیتوں میں ان کی تجلیل و تعظیم کے ساتھ ساتھ ان کی مدح و ثنا بھی ہوئی ہے چنانچہ ان آیتوںکی تلاوت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
قران مجید نے جن لوگوں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے اور ان کے کردار اور فضائل و کمالات کی نمایاں طور سے تعریف کی ہے ان میں اہلبیت پیغمبر ہر مقام پر سر فہرست نظر اتے ہیں مورخین اور مفسرین نے نقل کیا ہے کہ ان حضرات کی مدح وثنا میں کثرت کے ساتھ قران مجید کی آیتیں نازل ہوئی ہیں بلکہ قران مجید کے متعدد سورے تو ان کے بتائے ہوئے جادہٴ حق اور ان کے حسن عمل کی تائید اور مدح سرائی کے ساتھ ان کی پیروی کی دعوت سے مخصوص ہیں۔
کوثر رسالت
کوثر یعنی خیر کثیر اور اگر چہ بظاہر اس میں وہ تمام نعمتیں شامل ہیں جن سے اللہ تعالی نے آپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نوازا ہے لیکن سورہٴ کوثر کی آخر ی آیت کی شان نزول کے بارے میں جو تفصیلات ذکر ہوئے ہیں ان سے یہ بالکل واضح ہے کہ اس خیر کثیر کاتعلق کثرت نسل اور اولاد سے ہے جیسا کہ آج پوری دنیا جانتی ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل طیبہ آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہراء ءسلام اللہ علیہا سے ہی چلی ہے جس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض احادیث میں بھی موجود ہے۔
مفسرین نے اس سلسلہ میں یہ نقل کیا ہے کہ عاص بن وائل نے ایک دن قریش کے بڑے بڑے لوگوں سے یہ کہا:محمد تو لا ولد،ہیں اور ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو ان کا جانشین بن سکے لہٰذا جس دن یہ دنیا سے چلے جائیں گے اس دن ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا
یہی شان نزول جناب ابن عباس اور اکثر اہل تفسیر نے ذکر کی ہے اور مشہور مفسر، فخر رازی نے کوثر کے معنی کے بارے میں اگر چہ مفسرین کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے واضح الفاظ میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ”اور تیسرا نظریہ،یہ ہے کہ کوثر سے مراد آپ کی اولاد ہے کیونکہ یہ سورہ اس شخص کے جواب میں نازل ہوا ہے جس نے آپؐ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا ہے لہذا اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو ایسی نسل عطا گئی ہے جوہمیشہ باقی رہے گی(اسکے بعد کہتے ہیں)چنانچہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اہلبیت علیہم السلام کا کس طرح قتل عام کیا گیا ہے؟پھر بھی دنیا ان سے بھری ہوئی ہے جب کہ بنی امیہ کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے نیز آپ یہ بھی دیکھئے کہ ان کے درمیان کتنے بڑے بڑے اور اکا بر علماء گذرے ہیں جیسے(امام محمد)باقر(امام جعفر)صادق(امام موسیٰ)کاظم(امام علی)رضاعلیہم السلام اور نفس زکیہ و غیرہ
جس طرح آیہٴ مباہلہ دلیل ہے کہ امام حسن و حسین علیہماالسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے ہیں اسی طرح اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعددحدیثیں بھی موجود ہیں کہ خداوندعالم نے ہر نبی کی ذریت اسکے صلب میں رکھی ہے اور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کو حضرت علی علیہ السلام کے صلب میں قرار دیا ہے نیز صحاح میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام کے بارے میں یہ فرمایاھے:میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے اور اللہ عنقریب اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے۔
فاطمہ زہراءعلیہا السلام سورہٴ دہرمیں
ایک روزامام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام مریض ہوئے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ لوگوں کے ساتھ ان کی عیادت کرنے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے علی علیہ السلام تم اپنے ان دونوں بیٹوں کی شفا کےلئے کچھ نذر کر لو!چنانچہ حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ علیہا السلام اور آپ کی کنیز فضہ نے یہ نذر کی کہ اگر یہ دونوں شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روز ے رکھیں گے چنانچہ دونوں شہزادے بالکل شفا یاب ہوگئے گھر میں کچھ نہیں ھےاحضرت علی علیہ السلام ،شمعون یہودی سے تین صاع(سیر) جو ادھار لیکر ائے جن میں سے شہزادی کائنات نے ایک سیر جو کا اٹا پیس کر اسی کی پانچ روٹیاں بنالیں اور سب لوگ انہیں آپنے سامنے رکھ کر افطار کرنے بیٹھ گئے کہ اسی وقت ایک سائل نے آکر سوال کیا:اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت علیہم السلام آپ حضرات کی خدمت میں سلام عرض ہے،میں مسلمان مسکینوں میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کھانا عطا فرما دیجئے اللہ تعالی آپ کو جنت کے کہانوں سے سیر وسیراب فرمائے:سب نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام روٹیاں سائل کو دے دیں اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں چکھا اور صبح کو پھر روزہ رکھ لیا شام کو جب روزہ کھولنے کےلئے بیٹھے تو ایک یتیم نے آکر سوال کرلیا اور انہوں نے اس یتیم کو اپنا کھانا دیدیا تیسرے دن ایک اسیر آگیا اور اس دن بھی گذشتہ واقعہ پیش آیا صبح کو حضرت علی علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لےگئے جب ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرپڑی تو دیکھا کہ وہ بھوک کی شدت سے لرز رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے لئے یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے یہ تمہاری کیا حالت ہے؟
پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر تشریف لےگئے تو کیا دیکھا کہ شہزادی کائنات محراب میں مشغول عبادت ہیں اور ان کاپیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھیں اندر دہنس چکی ہیں یہ دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی تب جناب جبرائیل آپ کی خدمت میں نازل ہوئے اور کہا:اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو مبارک ہو یہ لیجئے خداوندعالم نے آپ کو آپ کے اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں مبارکبادپیش کی ہے،پھر انہوں نے اس سورہ کی تلاوت فرمائی
مختصر یہ کہ شہزادی کائنات علیہا السلام ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ گواہی دی ہے کہ آپ ان نیک لوگوں میں سے ہیں جو اس جام شربت سے سیراب ہوں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی یہی وہ حضرات ہیں جو اپنی نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن کے شر سے خائف رہتے ہیں جس کا شر ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یہی وہ حضرات ہیں جو کھانے کی ضرورت ہونے کے باوجود اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے اسکی وجہ سے انہیں دشواریوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور وہ صرف خدا کی مرضی اور خوشی کےلئے کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کسی قسم کے شکریہ اور بدلہ کے خواہشمند نہیں رہتے یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے خدا کےلئے صبر وتحمل سے کام لیا ہےاور انہی کو خداوندعالم اس بد ترین دن کے شر سے محفوظ رکھا ہےاور ان کے صبر و تحمل کے انعام میں انہیں جنت و حریر سے نوازا ہے۔
فاطمہ زہراء ء علیہا السلام آیت تطہیرمیں
آیہٴ تطہیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر میں تشریف فرما تھے اور آپ نے اپنے دونوں نواسوں حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اور ان کے والد اور والدہ ٴگرامی کو اپنے پاس بٹھاکر اپنے اور ان کے اوپر ایک چادر ڈال دی تاکہ آپ کی ازواج اور دوسرے لوگ ان سے بالکل علٰیحد ہ ہوجائیں تو یہ آیت نازل ہوئی:
إنّما يريد اللّه ليذهب عنکم الرّجس أهل البيت و يطهّرکم تطهيرا
اے اہلبیت علیہم السلام اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور تمہیں اسی طرح پاک رکھےجوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
یہ حضرات ابھی اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ چادر سے اپنے ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف بلند کئے اور یہ دعا فرمائی:
”أللّهمّ هولاء أهل بيتی فأذهب عنهم الرّجس وطهّرهم تطهيراً “
بارالہٰا! یہ میرے اہلبیت ہیں لہٰذا تو ان سے رجس کو دور رکھنا اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھنا
آپ باربار یہی دہرا رہے تھے اور جناب ام سلمہ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز بھی سن رہی ہیں اسی لئے وہ بھی یہ کہتی ہوئی چادر کی طرف بڑھیں:اے اللہ کے رسول میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں؟ تو آپ نے ان کے ہاتھ سے چادر کا گوشہ اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا:نہیں تم خیر پر ہو؟
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اسلام کا مسلسل یہ دستور ھےا کہ آپ جب بھی صبح کی نماز پڑھنےکےلئے اپنے گھر سے نکلتے تھے تو شہزادی علیہا السلام کائنات کے دروازہ پر اکر یہ فرماتے تھے:
”الصلاة يا أهل البيت إنّما يريد اللّه ليذهب عنکم الرّجس ويطهّرکم تطهيراً“
نما ز!اے اہلبیت بیشک اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے ہر رجس اور برائی کو دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے۔
آپ کی یہ سیرت چھ یاآٹھ مہینے تک جاری رہی یہ آیت گناہوں سے اہلبیت علیہم السلام کے معصوم ہونے کی بھی دلیل ہے کیونکہ رجس گناہ کو کہا جاتا ہے اور آیت کے شروع میں کلمہٴ ” إنّما “ایا ہے جو حصرپردلالت کرتا ہے جسکے معنی یہ ہیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ ان سے گناہوں کو دوررکھے اور انہیں پاک وپاکیزہ رکھے اور یہی حقیقی اور واقعی عصمت ہے جیسا کہ نبہانی نے تفسیر طبری سے آیت کے یہی معنی وضاحت کے ساتھ بیان کئےہیں
مودت زہراءعلیہا السلام اجر رسالت
جناب جابر نے رو آیت کی ہے کہ ایک دیہاتی عرب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے مسلمان بنا دیجیئے
آپ نے فرمایا:یہ گواہی دو:
”لا اله الاا للّٰه وحده لا شریک له وان محمداً عبدہ ورسولہ
”اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے،وہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں“
اس نے کہا آپ مجھ سے کوئی اجرت طلب کریں گے؟
فرمایا: نہیں صرف قرابتداروں کی محبت،اس نے کہامیرے قرابتداروں یا آپ کے قرابتداروں کی؟ فرمایا میرے قرابتداروں کی وہ بولا میں آپ کی بیعت کرتا ہوں لہذا جو شخص بھی آپ اورآپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہو،آپ نے فرمایا امین۔
مجاہد نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس مودت سے آپ کی پیروی آپ کی رسالت کی تصدیق اور آپ کے اعزاء سے صلہٴ رحم کرنا مراد ہے جب کہ ابن عباس نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ:آپ کی قرابتداری کا خیال رکھ کر اس کی حفاظت کی جائے
زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا:اے اللہ کے رسول آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر واجب کی گئی ہے؟آپ نے فرمایا:علی علیہ السلام فاطمہ سلام اللہ علیہااور ان کے دونوں بیٹے۔
فاطمہ زہراء ءعلیہا السلام آیہٴ مباہلہ میں
تمام اہل قبلہ حتی کہ خوارج کا بھی اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مباہلہ کےلئے عورتوں کی جگہ صرف جناب فاطمہ زہراء کو اور بیٹوں میں دونوں نواسوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اور نفسوں میں صرف حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیاجو آپ کےلئے ویسے ہی تھےجیسےموسیٰ کےلئے ھارون اور عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کےلئے تشریف لےگئے اور صرف یہی حضرات اس آیت کے مصداق ہیں اور یہ ایک ایسی واضح و آشکار چیز ہے جس کا انکارکسی کےلئے ممکن نہیں ہے اوراس فضیلت میں کوئی بھی آپ حضرات کا شریک نہیں ہے اور جو شخص بھی تاریخ مسلمین کی ورق گردانی کرے گا اسے روز روشن کی طرح یہی نظر آئے گا کہ یہ آیت ان ہی سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کےلئے نازل نہیں ہوئی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان حضرات کو اپنے ساتھ لے کر عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کےلئے تشریف لےگئے اور آپ نے ان پر فتح حاصل کی، اس وقت امھات المومنین(ازواج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سب کی سب آپنے گھروں پر موجود ہیں مگر آپ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلایا اور نہ ہی اپنی پھوپھی جناب صفیہ اور اپنی چچازاد بہن جناب ام ھانی کوساتھ لیا اور نہ ہی خلفائے ثلا ثہ کی ازواج یا انصار و مھاجرین کی عورتوں میں سے کسی کو آپنے ساتھ لےگئے
اسی طرح آپ نے جوانان جنت کے دونوں سرداروں یعنی امام حسن اور امام حسین کے ساتھ بنی ہاشم یاصحابہ کے کسی بچہ اور جوان کو نہیں بلایا اور نہ ہی حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ آپنے اعزاء واقرباء اور ابتدائی اور قدیم مسلمانوں اور اصحاب میں سے کسی کو دعوت دی اورجب ان چاروں حضرات کولے کر آپ باہر نکلے تو آپ کالے بالوں والی چادر اوڑہے ہوئے تھے جیسا کہ امام فخر رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام آپ کی اغوش میں اور امام حسن علیہ السلام آپ کی انگلی پکڑے ہوئے تھے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ کے پیچھے اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام چلے آرہے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے یہ فرما رہے تھے: جب میں دعا کروں توتم لوگ امین کھنا، اُدھر اسقف نجران نے کہا:اے میرے عیسائی بھائیو!:میں ان چھروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے پھاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی دعا کردیں تو وہ اسے وھاں سے،ہٹادے گا لہذا ان سے مباہلہ نہ کرناورنہ مارے جاوٴگے اور قیامت تک روئے زمین پر کسی عیسائی کا نام ونشان باقی نہیں رہ جائے گا فخر رازی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:یہ آیت دلیل ہے کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندہیں کیونکہ آپ نے یہ وعدہ کیا ھے کہ وہ آپنے بیٹوں کولے کر ائیں گے اور آپ حسن و حسین علیہم السلام کو ساتھ لائے تھے لہذا ان دونوں کا فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھونا بالکل طے شدہ بات ہے۔
شہزادی ٴ کائنات سلام اللہ علیھا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
اٴنّ اللّه ليغضب لغضب فاطمة، و يرضی لرضاها
بیشک اللہ تعالی فاطمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی سے ناراض اور ان کے خوش ھوجانے سے راضی ھوجاتا ہے-
فاطمة بضعة منی؛ من آذاها فقد آذانی، و من اٴحبّها فقد اٴحبّنی
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ہے
فاطمة قلبی و روحی التی هین جنبی
فاطمہ میرا دل اور میرے دونوں پہلووں کے درمیان موجود میری روح ہے۔
فاطمة سيّدة نساء العالمين
فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔
اس قسم کی شہادتیں کتب حدیث وسیرت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کثرت کے ساتھ مروی ہیں اورجو اپنی خواہش سے کوئی کلام ہی نہیں کرتے تھے نیز رشتہ داری یا دوسرے وجوہات سے بالکل متاثر نہیں ھوتے تھے اور خدا کی راہ میں آپ کو کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروانہیں ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کو اسلام کی تبلیغ کےلئے بالکل وقف کر رکھا ہےاور آپ کی سیرت تمام لوگوں کےلئے نمونہ عمل ہے،مختصر یہ کہ آپ کے دل کی دھڑکن،آنکھوں کی جنبش، ہاتھ پیر کی نقل و حرکت اور آپ کے افکار کی شعاعیں قول،فعل اور تقریر(یعنی آپ کی سنت)بلکہ آپ کا پورا وجود ہی دین کی علامت،شریعت کا سر چشمہ، ہدایت کا چراغ اور نجات کا وسیلہ بن گیا۔
جتنا زمانہ گذرتا جارہا ہے اور اسلامی سماج جتنی ترقی کر رہا ہے اتنا ہی ان سے ہماری محبتوں میں اضافہ ہی ھوتا جارہا ہے یا جب بھی ہم آنحضرت کے کلام میں اسلام کے اس بنیادی نکتہ کو دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا ہے: ”يا فاطمة إعملی لنفسک فانّی لا اغنی عنک من اللّه شيئاً‘اے فاطمہ علیہا السلام آپنے لئے عمل کرو کیونکہ میں خدا کی طرف سے تمھارے لئے کسی چیز کا ذمہ دار نہیں بن سکتا ہوں یعنی ہر شخص آپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کمل من الرجال کثير، و لم يکمل من النساء الّا مريم بنت عمران، و آسية بنت مزاحم امراٴة فرعون، و خديجة بنت خويلد و فاطمة بنت محمدصلی اللّه عليه وآله وسلّم
کامل مردتو بہت سارے ہیں مگر کامل عورتیں مریم بنت عمران،فرعون کی زوجہ اسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انما فاطمة شجنة منی، يقبضنی ما يقبضها، و يبسطنی ما يبسطها- و ان الاٴنساب يوم القيامة تنقطع غير نسبیی سببی وصهری
فاطمہ میری ایک شاخ ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے اسی سے مجھے بھی خوشی ھوتی ہے اور قیامت کے دن میرے نسب وسبب اور دامادی کے علاوہ تمام نسب ایک دوسرے سے الگ ھوجائیں گے۔
ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب فاطمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من عرف هذه فقد عرفها، و من لم يعرفها فهی فاطمة بنت محمد، وهی بضعة منی، وهی قلهی الذی بين جنهی؛ فمن آذاها فقد آذانی، و من آذانی فقد آذی الله
جو اسے جانتا ہے وہ تو اسے جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ اسے پہچان لے کہ یہ فاطمہ بنت محمد ہے اور یہ میرا ٹکڑا ہے اور یہ میرے دونوں پہلووں کے درمیان دھڑکنے والا میرا دل ہے لہذا جس نے اسے ستایا اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجہے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی ہے۔
نیز فرمایا: فاطمة اٴعزّ البريّة علي
فاطمہ سلام اللہ علیھا تمام مخلوقات میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں آپ کی عصمت کی طرف موجود ان اشاروں کے بعد ہمارے لئے ان احادیث کی تفسیر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے
بلکہ یہ احادیث توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے ساتھ اس بات کی شاہد ہیں کہ آپ صرف خدا کےلئے ناراض ھوتی ہیں اور خدا کےلئے راضی اور خوش ھوتی ہیں۔
فاطمہ زہراء علیہم السلام ائمہ،صحابہ اور مورخین کے اقوال کی روشنی میں امام زین العابدین علیہم السلام نے فرمایا ہے:” لم يولد لرسول اللّه(صلی اللّه عليه وآله وسلّم) من خديجة علی فطرة الاسلام الّا فاطمة “اعلان اسلام کے بعد جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے علاوہ جناب خدیجہ علیہا السلام سے رسول اکرم کی کوئی اور اولاد نہیں ہوئی۔
امام محمد باقر سے منقول ہے:
و الله لقد فطمها اللّه تبارک و تعالی بالعلم
خدا کی قسم اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کو علم سے سیر و سیراب فرمایاہے۔
امام جعفر صادق سے منقول ہے:
انّها سُمِّيتْ فاطمة لانّ الخلق فَطَمُوْا عَنْ مَعرِفَتها
آپ کا نام فاطمہ اس لئے رکہا گیا ہے کیونکہ مخلوقات کو آپ کی معرفت سے عاجزرکھا گیا ہے۔
ابن عباس سے منقول ہے ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرماتھے اور آپ کے پاس علی علیہ السلام ،فاطمہ اور حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام بھی موجود تھے،تو آپ نے ارشاد فرمایا:
اللّهم انّک تعلم اٴنّ هوٴلاء أهل بيتی و اٴکرم الناس علی؛ فاٴحبب من اٴحبّهم واٴبغض من اٴبغضهم، ووآل من والاهم و عاد من عاداهم، و اٴعن من اٴعانهم، و اجعلهم مطهرين من کل رجس، معصومين من کل ذنب و اٴيدهم بروح القدس منک
پروردگارا تو بہتر جانتا ہے یہ میرے اہلبیت ہیں اور میرے اوپر ہرایک سے زیادہ کریم و مہربان ہیں لہذا جو ان سے محبت رکھے اس سے محبت رکھنا اور جو ان سے بغض رکھے اس سے بغض رکھنا جوان کا چاہنے والا ہو اس سے دوستی رکھنا اور جو ان کا دشمن ھو اس سے دشمنی رکھنا جو ان کی نصرت کرے اس کی مدد فرما نا اور انہیں ہر برائی اور گندگی سے طیب و طاہر اور ہرگناہ سے محفوظ رکھنا اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید فرمانا
جناب ام سلمہ سے یہ رو آیت ہے:کہ انہوں نے کہا فاطمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنت رسول اللہ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکل و صورت میں سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔
ام المومنین عائشہ نے کہا ہے:میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بابا کے علاوہ کسی کو ان سے زیادہ زبان کا سچانہیں پایا سوائے ان کی اولادکے! اور جب وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچتی ھےیں تو آپ ان کے احترام میں کھڑے ھوجاتے تھے ان کو بوسہ دیتے خوش آمدیدکہتے اور ان کا ہاتھ پکڑکرانہیں اپنی جگہ بٹھاتے تھے اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے تھے تو وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر ان کو بوسہ دیتی ہیں اور ان کا کاندھا پکڑکراپنی جگہ بٹھاتی ہیں اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل انہیں آپنے اسرار(راز)بتاتے رہتے تھے اوراپنے کاموں میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
حسن بصری سے منقول ہے:اس امت میں فاطمہ سلام اللہ علیھا سے بڑا کوئی عابد نہیں آپ اتنی نمازیں پڑھتی ہیں کہ آپ کے دونوں پیروں پر ورم آجاتا۔
ایک روز عبد اللہ بن حسن، اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے پاس گئے اس وقت اگر چہ وہ بالکل نو عمر تھے مگر اتنے پر وقار تھے کہ عمر بن عبد العزیز اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اوراس نے اگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا اور آپ کی ضروریات پوری کرنے کے بعد آپ کے پیٹ پر اتنی زور سے چٹکی لی کہ وہ درد سے چیخ پڑے پھر ان سے کہا:اسے شفاعت کے وقت یاد رکھنا جب وہ وآپس چلےگئے
تو اس کے حوالی موالیوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ایک نو عمر بچہ کا اتنا احترام کیوں؟تو اس نے جواب دیا:مجھ سے ایسے قابل اعتماد اور ثقہ شخص نے نقل کیا ہے جیسے میں نے خود اپنے کانوں سے رسول کی بابرکت زبان سے یہ جملے سنے ہوں کہ آپ نے فرمایا:فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس سے وہ خوشی ہوتی ہے اسی سے مجھے بھی خوش ہوتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا زندہ ہوتیں تو ان کے بیٹے کے ساتھ میں نے جو یہ نیک برتاوٴ کیا ہے وہ اس سے ضرور خوش ہوتیں پھر انہوں نے پوچھا کہ مگر یہ چٹکی لینے اور یہ سب کہنے کی کیا ضرورت ہیں؟اس نے کہا:بنی ہاشم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو حق شفاعت حاصل نہ ہو لہذا میری یہ آرزوہے کہ مجھے ان کی شفاعت نصیب ہوجائے۔
ابن صباغ مالکی نے کہا ہے:یہ اس شخصیت کی بیٹی ہیں جن پر ”سبحان الّذی أسریٰ“پاک وپاکیزہ ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا)،نازل ہوئی سورج اور چاندکی نظیرخیرالبشر کی بیٹی، دنیا میں پاک وپاکیزہ پیدا ہونے والی،اور محکم و استوار اہل نظرکے اجماع کے مطابق سیدہ و سردارہیں۔
حافظ ابو نعیم اصفہانی نے آپ کے بارے میں یہ کہا ہے:چندہ عابدوں اور زاہدوں میں سے ایک، متقین کے درمیان منتخب شدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا،سیدہ،بتول،رسول سے مشابہ اور ان کا ٹکڑاآپ دنیا اور اسکی رنگینوں سے کنارہ کش اور دنیا کی برائیوں کی پستیوں اور اس کی افتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔
ابو الحدیدمعتزلی یوں رقمطراز ہیں:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کا اتنا زیادہ احترام کیا ہے جس کے بارے میں لوگ گمان بھی نہیں کرسکتے ہیں،حتی کہ آپ اس کی بنا پر باپ اور اولاد کی محبت سے بھی بلندتر مرتبہ پر پہنچ گئے اسی وجہ سے آپ نے نجی نشستوں اور عام محفلوں میں ایک دوبار نہیں بلکہ باربار فرمایا اور ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد جگہوں پر یہ ارشاد فرمایا: انّها سيدة نساء العالمين، و انّها عديلة مريم بنت عمران، و انّها اذا مرت فی الموقف نادی مناد من جهة العرش: يا اٴهل الموقف! غضّوا اٴبصارکم؛ لتعبر فاطمة بنت محمد
یہ عالمین کی عورتوں کی سید وسردار ہے یہ مریم بنت عمران کی ہم پلہ ہے اور جب روز قیامت میدان محشرسے ان کا گذر ہوگا تو عرش کی طرف سے ایک منادی یہ آواز دے گا: اہل محشر اپنی نظریں جھکا لوتاکہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا) بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گذر جائیں،یہ صحیح احادیث میں سے ہے اور ضعیف حدیثوں میں نہیں ہے اور ایک دوبار نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ جانے کتنی بار یہ ارشاد فرمایا: يؤذينی ما يؤذيها، يغضبنی ما يغضبها،و انّها بضعة منّی؛ يريبنی ما رابها جس بات سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے اور جس بات سے اسے غصہ آتاہے اسی سے میں بھی غصہ (ناراض) ہوجاتا ہوں اور وہ تو میرا ٹکڑا ہے۔
موجودہ دور کے مورخ ڈاکٹر علی حسن ابراہیم نے لکھا ہے:جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی زندگی،تاریخ کا وہ نمایاں ورق ہے جسمیں عظمت کے مختلف رنگ بھرے ہوئے ہیں اور آپ بلقیس کی طرح نہیں ہیں جن کی عظمت و منزلت کاکل دار مدار ان کے بڑے تخت(بے پناہ دولت و ثروت اورلاجواب حسن و جمال پر ہے اور نہ ہی آپ عائشہ کی طرح ہیں جنہوں نے لشکر کشی اور مردوں کی قیادت کی وجہ سے شہرت حاصل کی بلکہ ہم ایک ایسی شخصیت کی بارگاہ میں حاضر ہیں جن کی حکمت و جلالت کی چھاپ پوری دنیا میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے ایسی حکمت جسکا سر چشمہ اور ماخذ علماء اور فلاسفہ کی کتاہیں نہیں ہیں بلکہ یہ وہ تجربات روزگار ہیں جو زمانہ کی الٹ پھیراور حادثات سے بھرے پڑے ہیں نیز آپ کی جلالت ایسی ہے جسکی پشت پر کسی طرح کی ثروت و دولت اور حکومت کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے نفس کی پختگی کا کرشمہ ہے۔
(اقبتاس از کتاب منارہٴہدایت ج ۳ سیرت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button