سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا؟

آیت اللہ ابراہیم امینی
امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کے ذریعے کیا ہدف یا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟
شہادت، احیائے اسلام، اصلاحِ امت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، خدا کی طرف سے عائد فریضے کی ادائیگی، یزید کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام، وہ نمایاں نقطہ ہائے نظر ہیں جو امامؑ کی تحریک کی تفسیر اورآپ ؑ کے مقاصد و محرکات کی تشریح کے سلسلے میں محققین اوراہلِ نظرافراد کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اہداف اور اس بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اورآپ اپنی رائے کا دوسری آرا، خیالات اور نظریات سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟
امام حسین ؑ کے قیام کے ہدف و مقصد کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پائے جاتے ہیں مصنفین و متکلمین نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مختلف مقاصد بیان کیے ہیں کبھی اس تحریک کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کاپورا دستورِ عمل (program)خداوندِ عالم کی جانب سے مقرر کردیا گیا تھا اور امام حسین ؑ کا کام محض اس کو جامہ عمل پہنانا تھا اور آپ ؑ پر لازم تھا کہ خداوندِ متعال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے آپ ؑ جن کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں انہیں بغیر کسی معمولی ردوبدل کے قدم بقدم انجام دیں۔
بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں امام حسین ؑ کی تحریک ایک سوچی سمجھی تحریک تھییہ لوگ کبھی اس تحریک کے مقصد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کبھی حکومتِ وقت یعنی یزید کی حکومت سے ٹکراؤ اور بسا اوقات حکومتِ اسلامی کے قیام کے لیے جدوجہد قرار دیتے ہیںکچھ دوسرے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ امام حسین ؑ پر ایک فریضہ عائد ہوتا تھا اورآپ ؑ نے تعبداً اپنی یہ ذمے داری پوری کی، وغیرہ، وغیرہ۔
اِس بارے میں اور دوسری باتیں بھی بیان اور تحریر کی جاتی ہیں باوجود یہ کہ اس بارے میں کافی کتب تحریر کی گئی ہیں اور مختلف نظریات اور افکار کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ مسئلہ بخوبی واضح نہیں ہوا کہ اس تحریک میں امام حسین ؑ کی سوچ کیا تھی۔
یہ محض تاریخی بحث نہیں، بلکہ ایک ایسی بحث ہے جو تحریکِ اسلامی، حکومتوں، حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ایسے افراد کے لیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں بطورِ کلی ایک مشعلِ راہ ہوسکتی ہےامام حسین ؑ جو ایک معصوم فرد اور امام تھے، اُن کا طرز و اسلوب قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہےافسوس کی بات ہے کہ جس طرح اِس مسئلے کی وضاحت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہی (امام ؑ کی) اس تحریک سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے۔
امام حسین ؑ کے کلمات آپ ؑ کے ہدف اور محرکات کی ترجمانی کرتے ہیں اِس موضوع پر تحقیق اور اِس کی تشریح کے لیے ایک مفصل اور جداگانہ تالیف کی ضرورت ہے جو سرِ دست اِس مختصر موقع اور وہ بھی انٹرویو کی صورت میں ممکن نہیںالبتہ مختصر طور پر کہوں گا کہ ہمیں امام حسین ؑ کے مقصد اور ہدف کو خودآنجناب ؑ کے کلمات سے اخذ کرنا چاہیےجن لوگوں نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد پر گفتگو کی ہے، اُن میں سے بھی اکثر نے امام ؑ کے کلمات کا سہارا لیا ہےلیکن کیونکہ امام حسین ؑ کے کلمات بکھرے ہوئے اور}موقع محل کی مناسبت سے مختلف ہیں اِس لیے اِن حضرات میں سے ہر ایک نے ان میں سے کسی ایک حصے کو لے کر اس سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے مفاہیم سے صرفِ نظر کیا ہے اور صرف کسی ایک پہلو پر اپنی فکر مرکوز رکھی ہے۔
ہم ابتدا میں امام حسین ؑ کے ان کلمات میں سے کچھ کو بیان کریں گے جو آپ ؑ نے اپنے ہدف کے بارے میں فرمائے ہیں اور اس کے بعد ان کی جمع بندی کر کے ان سے نتیجہ اخذ کریں گےاگر ہم ان مختلف کلمات کا باہم اور یکجا کرکے تجزیہ کریں، تو سب ایک ہی راہ کی وضاحت کرتے ہیں، اور یوں ان میں تضادا ور اختلاف نظر نہیں آتا، بلکہ یہ سب ایک ہی ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہدف بھی بخوبی روشن اور واضح ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکراپنی اصلاحی تحریک کے لیے امام ؑ کا وسیلہ
جب مدینہ میں امام حسین ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ کو مشورہ دیا کہ آپ ؑ اِس سفر پر روانہ نہ ہوئیے، تو امام ؑ نے ان کی بات قبول نہ کی اورسفر پر روانہ ہوتے ہوئے ایک وصیت نامہ تحریر کیا، جس کے ایک حصے سے امام حسین ؑ کے مقصد کی وضاحت ہوتی ہےامام ؑ اس وصیت نامے کے ایک حصے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی اُریدُأَنْ آمُرَبِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهیٰ عَنِ الْمُنْکَرِوَأَسیرَبِسیرَةِ جَدّی وَأَبی عَلیِّ بْنِ أَبی طٰالِبٍ‘‘
’’میں خود خواہی، غرور، فتنہ انگیزی اور ظلم کے لیے نہیں نکل رہا، بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ معروف کا حکم دوں اور منکر سے روکوں اور اپنے نانااور والد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر عمل کروں۔‘‘
(موسوعہ کلماتِ امام الحسین ؑ ص۲۹۱)
یہ اصلاح طلبی دراصل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ہے، اس سے مختلف کوئی چیز نہیں یعنی امام ؑ چاہتے ہیں کہ امت کی اصلاح کریں اور اصلاح کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے جامہ عمل پہنے۔
امامؑ کس قسم کی اصلاح چاہتے ہیں؟ وہ آپ ؑ کے اِس جملے سے ظاہرہےفرماتے ہیں:
میں اپنے جد اور والد کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔
اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐ سے اسلامی معاشرے اور حکومت کا انحراف
امام حسین ؑ نے محسوس کیا تھا کہ معاویہ اور اُن کے بعد یزید اور کچھ اُن سے قبل کی حکومتوں کے دوران لوگوں کے درمیان ایسے اعمال رواج پاگئے ہیں جو پیغمبر اکرم ؐ اور حضرت علی ؑ کی سیرت کے برخلاف ہیں۔
پیغمبر اسلام ؐاپنی حکومت میں ایک خاص سیرت اور طریقے پر کاربند تھےاقتصاد کے بارے میں آنحضرتؐ کی ایک خاص روش تھیدوسرے معاملات میں بھی آپ کا خاص طریقہ کار تھاحضرت علی ؑ کی بھی وہی سیرت رہیلیکن افسوس کہ پیغمبرؐکی رحلت کے بعد اگرچہ کچھ مدت تک ایک حد تک آپؐ کی سیرت پر عمل جاری رہا لیکن بعد میں بعض انحرافات نے سر ابھارا۔
جب حکومت کی باگ ڈور علی ابن ابی طالب ؑ نے سنبھالی، تو آپ ؑ نے معاملاتِ حکومت کو پیغمبراسلام صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلمی نہج پر واپس لانے کی کوشش کیاسی وجہ سے آپ ؑ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ لوگ دوسرے طریقوں کے عادی ہوچکے تھےلہٰذا امیر المومنین ؑ کو اس سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، شاید آپ ؑ کوشہید بھی اسی بنا پرکیاگیا۔
اسلامی معاشرے کا بھی یہی حال تھا، وہاں بھی لوگوں کی عبادات میں، اُن کے اخلاق میں اور اُن کے سماجی امور میں ایسی چیزیں وجود میں آگئی تھیں جو اسلام سے موافق نہ تھیں، اس لحاظ سے اسلام کے لیے ایک خطرہ جنم لے رہا تھا۔
ایک اور بات یہ تھی کہ وہ حکمراں جو خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے، پیغمبر ؐ کے جانشین کے طور پر حکومت کر رہے تھے، اُن کا طرزِ عمل پیغمبرؐ کے طرزِ عمل سے مختلف تھا، اسلام کی تعلیمات کے منافی تھا۔
اگر یہی صورتحال جاری رہتی، تواسلام کی ایک غلط تصویر لوگوں کے سامنے آتی، اور وہ اسی کو اسلام سمجھ بیٹھتےعلاوہ ازایں خود لوگوں کے درمیان بھی ایسی باتیں رائج ہوگئی تھیں جو اسلام اور سیرتِ پیغمبر ؐکے موافق نہ تھیں۔
امام ؑ کی اصلاحی تحریک کا عنوان: سیرتِ پیغمبر ؐاور سیرتِ علی ؑ کا احیا
ان وجوہات کی بنا پر امام حسین ؑ سمجھتے تھے کہ اصلاح کاعمل ناگزیرہے، اور یہ اصلاح پیغمبر ؐاور علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت کا احیا تھییہ دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا ہدف اور مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ اور امیر المومنین علی ؑ کی سیرت کا احیا تھایعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر احیا کا وسیلہ ہے، خود ہدف اور مقصد نہیں ہدف درحقیقت پیغمبر اسلام ؐ اور حضرت امیرؑ کی سیرت کو زندہ کرناتھا۔
اموی حکومت کی دونمایاں خصوصیات:حدودِ الٰہی کا تعطل اور علانیہ فسق وفجور
امام حسین ؑ نے جب مکہ سے کوفہ کے ارادے سے اپنے سفر کا آغاز کیا، تو اثنائے راہ میں آپ ؑ کی ملاقات فرزدق سے ہوئیامام ؑ نے اس سے عراق کے حالات دریافت کیےاس نے جواب دیا:
لوگوں کے دل آپ ؑ کے ساتھ ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ ؑ کے خلاف ہیں۔
امام ؑ نے اُس سے اپنے سفر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ فِی الْأَرْضِ وَاَبْطَلُوا الْحُدُودَ وَشَرِبُوا الْخُمُورَ وَ اسْتَأْثَروُا فی أَمْوٰالِ الْفْقَرٰاءِ وَالْمَسٰاکینَ وَأَنا أَوْلیٰ مَنْ قٰامَ بِنُصْرَةِ دینِ اللّٰهِ وَاعْزٰازِ شَرْعِهِ وَالْجِهٰادِ فی سَبیلِهِ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلَیٰا‘‘
یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے، رحمن کی اطاعت کو ترک کردیاہے۔
البتہ یہاں ممکن ہے ” ھٰؤُلاٰءِ“ حکام کی جانب اشارہ ہو (اور زیادہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں) اور ممکن ہے پورے معاشرے کے لیے ہو۔
ان لوگوں نے فساد کو ظاہر کیا ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی فساد کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فساد کا اظہار کرتا ہے، علیٰ الاعلان فسق وفجور کا مرتکب ہوتا ہےاِن لوگوں کے بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر فساد کو ظاہر کیا ہے، یہ لوگ درحقیقت فساد کو رواج دینے والے ہیں یہ ایک اہم اور خطرناک مسئلہ ہے۔
انہوں نے حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے۔
یعنی شرعی حدود پر عمل نہیں کرتےان کا اندازِ حکومت کچھ اور ہےپیغمبر ؐ نے حکومت کی تھی لیکن اُن کی حکومت دینی اور اسلامی قوانین کی حدود میں تھیلیکن ان لوگوں نے اس اندازِ حکومت کو ترک کردیا ہے، حدودِ الٰہی کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔
یہ لوگ شراب پیتے ہیں۔
حالانکہ شراب نوشی اسلام میں حرام ہے۔
فقرا اور مساکین کے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔
فقرا کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، بیت المال کومن مانے طریقے اور اپنی حکومت کے استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں، فقرااور محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتےجبکہ پیغمبر اسلام ؐکے دور میں اس کا استعمال عوام الناس اور فقرا کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے کیاجاتا تھادلائل یہ ثابت کرتے ہیں اور خود پیغمبر اکرم ؐ نے بھی اسی طرح عمل کیا اور امیر المومنین ؑ بھی اسی طرح عمل کرنا چاہتے تھےمگر افسوس کہ آپ ؑ کو بکثرت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
جب عنانِ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں آئی، تواُن کاطرزِ عمل یہ کہہ رہا تھا کہ یہ اموال ہمارے اختیار میں ہیں، ہم مسلمانوں کے حاکم ہیں، اس مال کواپنی حکومت کی حفاظت کے لیے خرچ کریں گے، اب فقرا کا جو حال ہوہوا کرے۔!
امام ؑ کی تحریک اسلام کی حفاظت کے لیے دفاعی جہاد
مذکورہ کلمات سے پتا چلتا ہے کہ امام حسین ؑ کے مدینہ سے نکلنے اور اس طویل سفر کے آغاز کا سبب ان خرابیوں کا مشاہدہ اور اُن کی اصلاح کا عزم تھا۔ آپ ؑ فرماتے تھے کہ میں دین خدا کی نصرت، اس کی شریعت کی بالادستی اور اس کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمے دار ہوں۔
امام حسین ؑ کے قیام کا محرک(motive) اُس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اُس زمانے کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا کہ جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقرا بُرے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز مدوں میں خرچ ہو رہے تھے حضرت ؑ اس صورتحال کے خاتمے کے لیے قیام چاہتے تھے اور ا س قیام کے لیے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمے دار سمجھتے تھے کیونکہ آپ ؑ نواسہ رسولؐ اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
پس معلوم ہوا کہ امام ؑ کا یہ اقدام ایک قسم کا جہاد تھا، اسلام کے تحفظ کے لیے دفاعی جہاد تھاایرانی عوام کی اسلامی تحریک بھی اسی طرح تھی، اور رہبر انقلاب امام خمینیؒ کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ تحریک ایک دفاعی جہاد ہے۔
امام حسین ؑ نے بصرہ کے معززین کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’وَقَدْبَعَثْتُ رَسُولی اِلَیْکُمْ بِهٰذَاالْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اللّٰهِ وُسُنَّةِ نَبیِّهِ فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ وَاِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْاُحیِیَتْ‘‘
’’میں نے اِس خط کے ہمراہ اپنا سفیر تمہاری جانب روانہ کیا ہے، اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دیتا ہوں درحقیقت سنت مردہ ہوچکی ہے(یعنی لوگ اِس پر عمل پیرا نہیں۔ ) اور بدعت زندہ ہوگئی ہے۔“
(موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۳۶)
یعنی وہ چیزیں جو دین کا جز نہیں دین کے اندر داخل کردی گئی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور میرے فرمان کی اطاعت کرو، تو میں راہِ راست کی جانب تمہاری رہنمائی کروں گایہ راہِ راست وہی سیرتِ پیغمبرؐ اور سیرتِ علی ؑ ہے یعنی وہی خالص اور حقیقی اسلام ہے۔
البتہ یہاں امام ؑ نے یہ توفرمایا ہے کہ میں راہِ راست کی جانب تمہاری راہنمائی کروں گا، لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ راہِ راست حکومت کا قیام ہے یا کوئی دوسری چیزیہاں بھی امام ؑ نے اپنی تحریک کا مقصد سنت کا احیا اور بدعت کا خاتمہ بیان کیا ہے۔جب مروان نے امام حسین ؑ سے کہا کہ وہ یزید کی بیعت کرلیں، تو امام ؑ نے اس کے جواب میں جو کلمات ادا کیے وہ بھی آپ ؑ کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہیں:
’’اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ‘‘
’’جب لوگ یزید جیسے شخص کی حکومت میں مبتلا ہوجائیں، تو اسلام کو خداحافظ کہہ دینا چاہیے۔‘‘
(موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۴)
اِن کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ یزید کی حکومت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اِسے اسلام و مسلمین کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔آپ ؑ نے اسی گفتگو کے ذیل میں فرمایا:
’’وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان‘‘۔
میں نے اپنے نانا سے سنا ہے، انہوں نے فرمایاتھا کہ خلافت آلِ ابی سفیان پر حرام ہے۔پتا چلا کہ امام حسین ؑ کا مقصد یزید کی خلافت کے خلاف قیام تھا اور یہ تحریک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک صورت تھیایک دوسرے مقام پر امام ؑ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
’’یٰاأَخی وَاللّٰهِ لَوْلَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیٰا مَلْجَأً وَلاٰمَأْویً لَمٰابٰایَعْتُ یَزیدَ بْنَ مُعٰاوِیَةَ‘‘
’’اے میرے بھائی! اگر مجھے دنیا میں کوئی بھی جائے پناہ نہ ملے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔‘‘
(موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۹)
امام حسین ؑ کے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یزید خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے مسلمانوں پر حکومت کرتا تھا، اس کی رفتار و گفتار پیغمبر کی رفتار و گفتار سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس کے وہ اعمال و افعال بھی جو اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐکے برخلاف تھے، پیغمبر ؐاور اسلام ہی کے حساب میں شمار کیے جاتے اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔
(آیت اللہ ابراھیم امینی کی کتاب’’امام حسینؑ نےقیام کیوں فرمایا؟ ‘‘سے اقتباس)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button