سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہج البلاغہ کی روشنی میں

مؤلف: سید حسنین عباس گردیزی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسوہ حسنہ:
معاشرے کو قابل عمل نمونے (آئیڈیل )کی ضرورت ہو تی ہے جس کی پہچان لازمی ہے ۔قرآن مجید اسلامی معاشرے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ ترین نمونہ (اسوہ) قراردیتا ہے ۔ارشاد ہو تا ہے ۔
لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ
(الاحزاب ٢١)
” یقینا تمہارے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہے ۔ ”
لہذا انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے مختلف پہلوں کا دقت نظر سے مطالعہ کیاجائے اور اُسے معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ معاشرہ ان سے الہام لیتے ہو ئے ترقی اور سعادت کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسی بات پر زور دیا ہے ،وہ فرماتے ہیں :
وَلقد کان فِی رَسُولِ اللّٰه ( صلّی الله عليه وآله) کافٍ لَکَ فِی الْاسْوَةِ وَدَلِيل لَکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنيا وعَيبِها وکَثْرَةِ مَخَازِيها ، ومَسَاوِيها،اِذ قُبِضَتْ عَنْه اَطْرَ فُها وَوُطِّئَتْ لِغَهرِه اَکْنَا فُها وَفُطِمَ عَنْ رَضَا عِها وَزُوِیَ عَنْ زخارِ فِها۔
(نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین خطبہ نمبر ١٥٨،ص٤٣٠، نہج البلاغہ دکتر صبحی الصالح ،خطبہ ١٦٠،ص٢٢٦)
” یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لیے راہنما ہے اس لیے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اوردوسروں کے لیے اس کی وُسعتیں ہموار کر دی گئیں آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا ۔”
اسی خطبے میں آپ کے اُسوہ ہونے اور اس کی پیروی کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :
فَتَأَسَّ بنَبِيکَ الْاَ طيبِ الاَ طْهرِ صلی الله عليه وآله فَاِنَّ فِيه اُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی ، وعَزَآ ئً لِمَنْ تَعَزَّیٰ وَاَحَبُّ العِبَادِ اِلَی اللّٰه الْمُتَأَ سِّیْ بِنَبِيه، وَالْمُقْتَصُّ لِاَ ثَرِه،قَضَمَ الدُّنيا قَضْماً وَلَمْ يعْرِها طَرْفاً اَهضَمَ اَهلَ الدُّينَا کَشْحاً وَاَخْمَصَهمْ مِنَ الدُّنيا بَطْناً عُرِضَتْ عَلَيه الدُّينا فَاَبیَ اَنْ يقْبَلَها ، وَعَلِمَ اَنَّ اللّٰه سُبْحَانَه اَبْغَضَ شَيئاًفَاَبْغَضَه وحَقَّرَ شئياً فَحَقَّرَه،وصَغَّرَ شَياً فَصَغَّره وَلَو لَمْ يکُنْ فِينَا اِلَّا حُبُّنَا ما اَبْغَضَ اللّٰه وَرَسُولُه ،وتعظيماً ما صَغَّرَاللّٰه ورَسُولُه لَکَفٰی بِه شِقَاقًا لِلّٰه وَمُحَادَّةً عَنْ اَمْ ِاللّٰه
(نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین خطبہ نمبر ١٥٨،ص٤٣٢)
” تم لو گ اپنے طیب و طاہر پیغمبر کی پیروی کرو چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والوں کے لیے بہترین نمونہ اور صبر و سکون کے طلب گاروں کے لیے بہترین سامان صبر و سکون ہے ،اللہ کی نظرمیں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے رَسُول کی پیروی کرے اور ا ن کے نقش قدم پر قدم آگے بڑھائے ۔انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھرکر دیکھا بھی نہیں ساری دنیا میں سب سے زیادہ خالی شکم پیٹ رہنے والے اور شکم تہی میں بسرکرنے والے تھے۔ان کے سامنے دنیا کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو پسند نہیں کیا تو آپ نے بھی اُسے ناپسند کیا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپ نے بھی اُسے حقیر ہی سمجھا ہے اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپ نے بھی اُسے پست قرارد یا ہے اور اگر ہم میں اس کے علاوہ کو ئی عیب نہ ہوتا کہ ہم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبغوض کو محبوب سمجھنے لگے ہیں اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں چھوٹے اور حقیر کو عظیم اور بڑا سمجھنے لگیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سر تابی کے لیے یہی عیب کافی ہے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت وعدہ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا وعدہ دیا تھا اور گزشتہ انبیا ء کی زبانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر دی تھی پس اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اُسے تکمیل کیا جس کی خبر پہلے دی تھی ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ء سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا ئیں اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بشارت دیں اور جب آپ کوپائیں تو پیروی کریں قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں جو انبیا ء کے میثاق کی بات کی ہے وہ اسی طرف اشارہ ہے ۔
ارشاد ہو تا ہے :
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰه مِيثَاقَ النَّبیينَ لَمَآ اَتَيتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَاءکُمْ رَسُوْل مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِه وَلَتَنْصُرُنَّه قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْ تُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِي قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهدُ وْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهدِينَ۔
(آل عمران ٨١)
”اور اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کردوں پھر آئندہ رسول تمہارے پاس آئے اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کر ے تو تمہیں اس پر ضرور ایمان لا نا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنا ہو گی۔پھر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کر تے ہو اور میری طرف سے عہد کی ذمہ داری لیتے ہو انہوں نے کہا ہاں ! ہم نے اقرار کیا ۔اللہ نے فرمایا :پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔”
امیر المومنین نہج البلا غہ میں فرماتے ہیں :
اِلٰی اَنْ بَعَثَ اللّٰه سبحانه محمّدًا رسولَ اللّٰه صلّیٰ الله عليه وَآله وسلم لِاَ نجاز عِدَ تِه واِتْمام نَبُّوتِه مأ خوذاً عَلیَ النبِين ميثاقُه مَشْهورةً سِماتُه کريمًا مِيلادُہُ
”یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد اور اتمام نبوت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا ۔جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود ومبارک تھی ۔”
اسی مطلب کو امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایک اور مقام پر واضح طور پربیان فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سے پہلے آنے والے تمام انبیا ء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ ہمارے نبی کے مبعوث ہونے کی خبر اور ان کے فضائل اپنی اپنی امتوں کو بیان کریں اور انہیں ان کے آنے کی بشارت اور تصدیق کرنے کا حکم دیں۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١،ص٩٠،بحار الا نوار ،١١،١٢،بلاغ المبین ،ص٨٥)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں کی سیاسی اور معاشرتی حالت : امیر المومنین علی علیہ السلام خطبہ نمبر١ میں فرماتے ہیں :
وَاَھلُ الْاَرْضِ يوْ مَئِذٍ مِلَل مُتَفَرِّقَة وَاَهوَ آئ مُنْتَشِرَة وَطَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَة بَينَ مُشَبِّه لِلّٰه بِخَلْقِه اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِه اَوْ مُشِيرٍ اِلٰی غَيرِه فَهدَاهم بِه مِنَ الضَّلالَةِ وَاَنْقَذَهمْ بِمَکانِه مِنَ الجَهالَةِ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١،ص٩٠)
”اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب ،منتشر خواہشات اور الگ الگ راستوں پر گامزن تھے ۔اس طرح سے کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ،کچھ اس کے ناموں کوبگاڑدیتے کچھ اُسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کر تے تھے ۔پس خداوند عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سب کوگمراہی سے ہدا یت دی اور آپ کے وجود سے جہا لت سے با ہر نکالا۔”
خطبہ نمبر ٢میں انہوں نے عربوں کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں :
وَالنّاسُ فِی فِتَنٍ اَنْجَذَمَ فَيها حَبْلُ الدِّين وتَزَعْزَعَتْ سَوَارِیِ اليقِين وَاخْتَلَفَ النَّجْرُوتَشَتَّتَ الاَ مْرُ وضَاقَ المَخْرَجُ وعَمِیَ المَصْدَرُ فالْهدَی خَامِل وَالْعَمَیَ شامِل عُصِیَ الرَّحٰمنُ ونُصِرَ الشَّيطاٰنُ وخُذِلَ الِايمٰانُ فَانْهارَتْ دَعَائِمُه،وتَنَکَّرَتْ مَعَالِمُه ودَرَسَتْ سُبُلُه وعَفَتْ شُرُکُه اَطَاعُوا الشَّيطانَ فَسَلَکُوا مَسَالِکَه وَوَرَدُوا مَنَا هلَه ،بِهمْ سَارَتْ اَعْلَامَه وَقَامَ يوَ اؤُه فَی فَتَنٍ دَاسَتْهمْ بِاَخْفَا فِها ،وَوَطِئَتْهمْ بِاَظْلَافِها ،وقَامَتْ عَلیَ سَنَا بِکِها فَهمْ فِيها تَائِهونَ حائِرُوْنَ جَاهلُونَ مَفْتُونُونَ فِی خَیرِ دارٍ ،وشَرِّ جِیرَانٍ ،نُومْهمْ سُهود وکُحْلُهمْ دُمُوع باَرْضٍ عَالِمُها مُلْجَم وجَا هلُها مُکْرَم
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ٢ ،ص٩٩)
”یہ بعثت اس وقت ہو ئی جب لو گ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے دین کی رسی ٹوٹ چکی تھی ،یقین کے ستون متزلزل ہو گئے،اصول میں شدید اختلاف تھا اور امو ر میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے ،ہدایت گمنام تھی اور گمراہی بر سر عام ،رحمن کی نا فرمانی ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت ،ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا ،اس کے ستون گرگئے تھے اور آثار ناقابل شناخت ہو گئے تھے ،راستے مٹ گئے تھے اور شاہرائیں بے نشان ہو گئی تھیں لو گ شیطان کی اطاعت میںاسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموں پر وارد ہورہے تھے انہیں کی وجہ سے شیطان کے پر چم لہرا رہے تھے اور اس کے عَلمَ سر بلند تھے ،یہ لو گ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیرون تلے روند دیا تھااور سُموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے ۔یہ لوگ فتنوں میں حیران وسرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے ایک ایسے گھر (مکہ )میں یہ لوگ تھے جو خود اچھا مگراس کے بسنے والے بُرے تھے ، جہاں نیند کی بجائے بیداری اور سُرمے کی جگہ آنسو تھے ،اس سر زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معززو سرفراز تھا ۔ ”
حضرت علی علیہ السلام مزیدان کے حالات ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں۔
بَعَثَه وَالنَّاسُ ضُلَّال فِی حَيرَةٍ وخاطِبُونَ فِی فِتْنَةٍ ،قَدْ اسْتَهوَتْهمْ اْلاَهوَاءُ واسْتَزَلَّتهمُ الْکِبْرياءُ ، واسْتَخَفَّتْهمُ الْجَاهلِيةُ الجَهلَاءُ حَيارَیٰ فِی زِلْزَالٍ مِنَ الآ مْرِ وَبَلاَ ئٍ مِنَ الجَهلِ و مَبَالَغَ صلی الله عليه وآله فِی النَّصِيحَةِ ومَضَی عَلیَ الطَّرِيقَةِ، وَدَعَا اِلَی الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ٩٣ ،ص٢٩٧)
”اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں سرگرداں تھے فتنوں میں ہا تھ پائوں ماررہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی،جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیا تھا اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلائوں میںحیران وسرگرداں تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصحیت کا حق ادا کر دیا ،سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کوحکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔”
امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے دیگر خطبات میں بھی ان کے حالا ت کی تصویر کشی کی ہے ۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١٥٦ ،ص٤٢٧،خطبہ نمبر ١٨٩،ص٥٢٣)
آپ نے ایک اور مقام پر جاہلیت عرب کی وضاحت فرمائی ہے ۔
”یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لیے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین ‘بنا کر بھیجا ہے۔اے گروہ عرب ! اُس وقت تم بدترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہر یلے سانپوں میں تم بودوباش رکھتے تھے تم گدلا پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کر تے تھے ایک دوسرے کاخو ن بہاتے تھے اورقرابتداروں سے قطع تعلقی کرتے تھے ،بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے ۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ٢٦ ،ص١٦٤۔١٦٥)
یہ جملے جناب امیر علیہ السلام نے عربوں کی تحقیر کرنے کرلیے نہیں فرمائے تھے بلکہ آپ نے چاہا کہ عظیم نعمتیں انہیں یاد دلائیں بالخصوص عربوں کے لیے عظیم ترین افتخار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کے درمیان مبعوث ہونا ،انہیں یا د لائیں یہ وہ وقت تھاجب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے درمیان بھیجاجن کی وجہ سے جہالت اور گمراہی کا اندھیرا چھٹ گیا اور ہر طرف آپ کے نور سے اجالا چھا گیا اور عرب دنیا تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد:
امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مختلف بیانات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد یوں بیان فرمائے ہیں۔
١۔حق کی طرف دعوت دینا:
اَرْسَلَه دَاعِياً اِلَی الحَقِّ وَشَاهدًا عَلَی الخَلْقِ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١١٤ ،ص٣٤٣)
”اللہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلام اور حق کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا”۔
٢۔لوگوں کو عذاب الہی سے متنبہ اور ڈرانے کے لیے:
اِنَّ اللّٰه بَعَثَ مُحَمَّدًاصلّیٰ اللّٰه عليه وَاٰلِه وَسَلَّمَ نَذِيرً لِّلْعٰالَمِينَ وَامِينًا عَلَی التَّنْزِيلِ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٩٤ ،ص٥٦٣۔٥٦٢)
”بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا”۔
٣۔بت پرستی اور اطاعت شیطان کی ذلتوں سے نکالنا :
فَبَعَثَ اللّٰه محمّداً ،صَلّٰی اللّٰه عَلَيه وَآلِه بِالحقِّ لِيخْرِج عِبَادَه الَاوْثَانِ اِلٰی عبادَة ،وَمنْ طَاعَةِ الشَّيطَانِ اِلیٰ طاعَتِه ،بِقُرآنٍ قَدْ بَيّنَه وَاَحْکَمَه لِيعْلَمَ الِعبَادُ رَبَّهمْ اِذجَهلُوه ، وَلِيقِرُّوا بِه اذجَحَدُوه ولِيثْبِتُوه بَعْدَ اِذْانَکَرُوه
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ١٤٥ ،ص٣٩٩)
”پروردگار نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمن کی اطاعت کر ائیں اس قرآن کے ذریعہ جسے اُس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تا کہ بندے اپنے رب سے جا ہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے پہچان لیں ، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں ۔۔ ”
٤۔اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا :
ثُمَّ اِنَّ اللّٰه سبحانه بَعَثَ مُحَمَّدًا صلّی الله عليه وآله بالحَقِّ حين دَنَا من الدُّینا الْا نْقِطَاعُ ، وَاَقْبَلَ الآخِرَةِ الِا طِلّاَعُ۔۔۔۔۔جَعَلَه اللّٰه بَلَاغاً لِرِسَالَتِه ،وَکَرَامَةً لِاُمَّتِه ، وَ رَبِيعاًلِاَھْلِ زَمانه ورِفْعَةً لِاَ عْوَانِه وَشَرَفاً لِاَ نْصَارِه
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٩٦ ،ص٥٧٠)
”اس کے بعد اللہ سبحانہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا جب دنیا فنا کی منزل کے قریب تر ہو گئی اور آخرت سر پر منڈلا نے لگی ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ ،امت کی کرامت ، اہل زمانہ کی بہار ،اعوان وانصار کی بلندی کا ذریعہ اور ان کا یارومددگار افراد کی شرکت کاواسطہ قرار دیا ”۔
دوران رسالت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانفشانی اور جدوجہد:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے اہداف کو کس طرح حاصل کیا اور الٰہی اہداف کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ،اس بارے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
اَرْسَلَہُ داعِياً اِلَی الحَقِّ وشَاهدًا عَلَی الْخَلْقِ مَبَلَّغَ رِسَالاتِ رَبِّه غَيرَ وَانٍ ولا مُقَصِّرٍ وَجَاهدَ فِی اللّٰه اَعْدَائَه غَيرَ وَاَهنٍ ولا مُعَذِّرٍ اِمَامُ مَنِ اِتَّقیٰ وَبَصَرُ ِمنِ اهتَدیٰ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١١٤ ،ص٣٤٣)
”اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کی طرف بلانے والا ،او ر مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام الٰہی کو مکمل طور پر پہنچا دیا نہ اس میں کوئی سُستی کی نہ کوتاہی ،اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اس میں نہ کو ئی کمزوری دکھائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متقین کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔”
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کے متعلق فرماتے ہیں :
اَرْسَلَه بوُجُوب الحُجَج، وظُهورِ الفَلَجِ،وَاِيضَاحِ المَنْهجِ،فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صَادِعاً بِها وحَمَلَ عَلَی المَحَجَّةِ دَالّا ًعَلَيها وَاَقَامَ اَعْلَامَ الِا هتِدَاءِ ومَنَارَ الِضّياءِ ، وَجَعَلَ اَمْرَ اسَ الِاسْلامِ مَتِينَةً وَعُرَیٰ الاِ يمٰانِ وَثِيقَةً
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٨٣ ،ص٥٠١)
”اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نا قابل انکار دلیلوں ،واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت)کی راہنما ئیوں کے ساتھ بھیجا آپ نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کر دیا اورلوگوںکو سیدھے راستے کی راہنمائی کر دی ۔ہدا یت کے نشان قائم کر دیے اور روشنی کے منارے استوار کر دیے اسلام کی رسیوں کو مضبوط بنا دیا او ر ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کر دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان اور ان کا مقام و مرتبہ:
خطبہ ١٦١ میں بیان کرتے ہیں:
اِبْتَعَثَه بالنُّور المُضِيئِ ،والبُرْهانِ الجَلِیَّ وَالمِنْهاجِ البَادِی ،والکتاب الهادِیْ، اُسْرَتُه خَيرُ اَسْرَةٍٍ وَشَجَرَتَه خَيرُ شَجَرَةٍ ،اغضا نُھَا مُعْتَدِ لَة ،وَثِمَارُ ها مُتَهدِّ لة
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٥٩ ،ص٤٣٥۔٤٣٤)
”پروردگار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روشن نور (واضح دلیل )نمایاں راستہ اور ہدا یت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان بہترین خاندان اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شجرہ بہترین شجرہ ہے ، جس کی شاخیں معتدل ہیں اور ثمرات دسترس کے اندر ہیں ۔”
خطبہ١٠٦ میں بیان فرمایا ہے :
اِخْتَارَه مِنْ شَجَرَ ةِ الْاَ نْبَياءِ مِشْکَاةِ الِضّياءِ وَذُؤَابَةِ الْعَلْياءِ وَسُرَّ ةِ البَطْحاءِ ومَصَاِبَيحِ الظُّلْمَةِ، وينَا بِيع الحِکْمَةِ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٦ ،ص٣١٩)
”رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نے انبیا ء کے شجرہ ،روشنی کے مرکز (آل ابراہیم )بلندی کی جبیں (قریش ) بطحاء کی ناف (مکہ)اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا ۔ ”
خطبہ٩٢ میں بیان کرتے ہیں :
”انبیا ء کرام کو پروردگار نے بہترین مقامات پر ودیعت رکھا اور بہترین منزل میں ٹھہرایا ، وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے ،جب ان میں سے کو ئی گزرے والا گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی یہاںتک کہ یہ الہیٰ شرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا اس نے انہیں بہترین نشوونما والے معدنوں اور ایسی اصلوں سے جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہت باوقار تھیں ،پیدا کیا اس شجرہ سے جس سے بہت سے انبیا ء پیدا کیے اور اپنے امین منتخب فرمائے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عترت ،بہترین عترت اور ان کا خاندان شریف ترین خاندان ہے ،ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ہے جو سر زمین حرم پراُگا ہے اور بزرگی کے سایہ میں پروان چڑھا ہے ،اس کی شاخیں بہت طویل ہیں اور اس کے پھل انسانی دسترس سے با لا تر ہیں۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٢ ،ص٢٩٦)
توصیف و تعریف:
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی اوصاف اور آپکی سچی تعریف اور دقیق ہے کہ انسان اس کی سحر انگیزی اور معنی کی گہرائی میں ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے،چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام خطبہ نمبر ١٠٥میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یوں تعریف کر تے ہیں :
حَتَّی بَعَثَ الله محمّدًا صلی الله عليه وآله،شهيداً وبَشِيراً، ونذيراً،خَير الَبرِّيةِ طِفلاً،واَنْجَبَها کَهلاً، وَاَطْهرَ الْمُطَهرِينَ شِيمَةً،وَاَجْوَدَ المُسْتَمطَرِیْنَ دِيمَةً
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٤٥ ،ص٣٩٩)
”یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امت کے اعما ل کا گواہ ،ثواب کی بشارت دینے والا ،اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ،جو بچپن میں بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہو نے پر بھی اشرف کائنات تھے ، عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد سے زیادہ پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ”۔
ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح یوں کر تے ہیں :
فَهوَ اِمامُ مَنِ اتَّقٰی،وبَصيرَة مَنِ اھْتَدیٰ،سراج لَمَعَ ضَوْءُ ه،وَشِهاب سَطَعَ نُورُه وَ زَنْدٌ بَرَقَ لَمْعُهُ ،سِیْرَتُه الْقَصْدُ،وسُنَّتُه الرُّشْدُوکَلَا مُه الْفَصْل،وحُکْمُه الْعَدْلُ،اَرْسَلَه عَلَیٰ حِينَ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَهفْوَةٍ عَنِ العَمَلِ،غَبَاوَةٍ مِنَ اْلُامَمِ
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٢ ،ص٢٩٦)
”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے سر چشمہ بصیرت ہیں ،آپ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لَوْ دے رہی ہے اور ایسا ستارہ جس کا نور درخشاں ہے او ر ایسا چقماق ہیں جس کی چمک شعلہ فشاں ہے ، ان کی سیرت میانہ روی،سنت رشد وہدایت ، ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلا نہ ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت بھیجا جب انبیا ء کا سلسلہ موقوف تھا اور بد عملی کا دور دورہ تھا ،اور امتوں پر غفلت چھائی ہو ئی تھی ۔”
ایک اور مقام میں بیان فرمایا :
”بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام بہترین مقام اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے ،نیک کرداروں کے دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھکا دئیے گئے اور نگاہوں کے رخ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف موڑ دیے گئے ،اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ کینوں کو دفن کر دیا اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے،لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور کفر کی برادری کو منتشر کر دیا اہل ذلت کو با عزت بنا دیا ،اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کر دیا ،آپ کا کلام شریعت کا بیان اور آپ کی خاموشی احکام کی زبان ”۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر٩٤ ،ص٢٩٨)
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق :
رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيمٍ
(القلم ٤)
”بے شک آپ اخلا ق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں ”
خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ،آپ کا فرمان ہے :
اِنَّما بعثت لاُ تَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ
(بحارالانوار ،ج ١٦ ،ص٢٨٧،ح١٤٢)
یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے اسی طرح آپ انہی اعلیٰ اخلاق وصفات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں ، نہج البلاغہ میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ ہے انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔
زہد و پارسائی:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيا وَصَغَّرَ ها وَأَهوَنَ بِها وَهوَّنَها ،وَعَلِمَ أَنَّ اللّٰه زَوَاها عَنْه اَخْتِياراً،وَبَسَطَها لِغَيرِه احْتِقَاراً،فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأَمَاتَ ذِکْرَها عَنْ نَفْسِه ،وَأَحَبّ أَن تَغِيبَ زِينَتُهاعَنْ عَينِه، لِکَيلَا يتَّخِذَمِنْها رِياشاً ،أَو يرْجُوَ فِيها مَقَاماً ،بَلّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً،وَنَصَحَ لِأُ مَّتِه مُنْذِراً،وَدَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَخَوّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٧ ،ص٣٢٩۔٣٢٨)
”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جا نتے تھے اللہ نے آپ کی شان کو با لا تر سمجھتے ہو ئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہو ئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے لہذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہو ں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کر یں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو ئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا ”
اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں
وَلَقَدْکَانَ صَلَّی اللّٰه عَلَيه وَآلِه وَسَلَّمَ،يأ کُلُ عَلَیٰ اْلَارضِ ،وَيجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ ،وَيخْصِفُ بِيدِه نَعْلَه ،وَیَرْقَعُ بِیده ثَوْبَه،ویَرْکَبُ الْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَيرْدِفُ خَلْفَه وَیَکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَيته فَتَکُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ ،فَيقُولُ :یا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِه غَيبيه عَنِّی ،فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَيه ذَکَرْتُ الدُّنْيا وَزَخَارِفَهافَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأمَاتَ ذِکْرَها مِنْ نَفْسِه ،وَأَحَبّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُها عَنِ عَينِه ،لِکَيلَا يتَّخِذَ مِنْها رِیَاشاً ،وَلَا یَعْتَقِدَها قَرَاراً،وَلَایَرْجُوَ فِيها مُقَاماً ،فَأَخْرَجَها مِنَ النَّفْسِ ، وَأَشْخَصَهاعَنِ الْقَلْبِ،وَغَيبَهاعَنِ اَلْبَصَرِ وَکَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَياً أَبْغَضَ أَنْ ينْظُر اِلَيه ،وَأَنْ يذْکَرَ عِنْدَه
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٥٨ ،ص٤٣٣۔٤٣٢)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا تے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنےہا تھ سے جو تی ٹانکتے تھے اور اپنے ہا تھو ں سے کپڑوں میں پیو ند لگائے تھے اور بے پا لا ن گدھے پر سوار ہو تے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے،گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو ،جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجا تی ہیں ،آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیاتھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کر یں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں ،انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یو نہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے”۔
حسن سلوک اور مہربانی:
قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اورمہربانی وعطوفت بیان کر تا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا ،ارشاد ہو تا ہے۔
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ
(آل عمران ١٥٩)
”پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہو تے تو یہ لو گ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے ”۔
حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
وَاَطْهرَ المُطَهّرِينَ شِيمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَرِينَ دِيمَةً
(نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر١٠٣ ،ص٣١٢)
”عادات کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور بارا ن رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔”
لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قران مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيز عَلَيه مَا عَنِتُّمْ حَرِيص عَلَى کُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَئُ وْف رَّحِيم
(التوبہ ١٢٨)
فَلَعَلّکَ بَا خِع نّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِهمْ اِنْ لَّمْ يؤْ مِنُوْا بِهذَا الْحَدِيثِ اَسَفاً
(الکہف ،٦)
حضر ت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں ہا تھ پاوں مار رہے تھے ،نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھے اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے ”۔
فَبَالَغَ صلی الله عيله وآله وسلَّم فِی النّصِيحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّريقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ
(نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین ،خطبہ نمبر٩٣ ،ص٢٩٧)
”چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے ”۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جا تے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کر تے تھے
اس بارے میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا :
طبیب دَوّاربِطِبِّه قَدْ اَحْکَمَ مَرَ اهمَه ،وَاَحْمیٰ مَوَا سِمَه يضَعُ ذٰلِکَ حَيثُ الحَاجَةُ اِلَيه ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ ،وَآذانٍ صُمٍّ،وَاَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَمَوَاطِنَ الحَيرَةِ
(نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین ،خطبہ نمبر١٠٦ ،ص٣١٩)
”آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لیے ہو ئے چکر لگا رہا ہو ،جس نے اپنے مرہم کودرست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو ،وہ اندھے دلوں ،بہرے کانوں گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ )میں جہاں ضرورت ہو تی ہے ،ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لیے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہو ئوں کی کھوج میں لگا رہتا ہو ۔”
شجاعت و بہادری:
امیر المومنین علی علیہ السلام کہ جو خود اشجع الناس تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
کُنَّا اِذَاحْمَرّ الْبُأْسُ اتَّقَينَا بِرَسُولِ اللّٰه صلّیٰ اللّٰه عَلَيه وآله وسلّم فَلَمْ يکُنْ اَحَد مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی العَدُوِّ مِنْه
(نہج البلاغہ فصل فذکر فیہ شیئا ً من اختیار غریب کلامہ المتحاج الی التفسیر، حدیث ٩)
”ہمیشہ ایسا ہو تا ہے کہ جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی او ر دو گروہ بر سر پیکار ہو جا تے تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ میں آجاتے اور آپ کو اپنی سپر قرار دیتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کو ئی بھی دشمن کے قریب نہ ہو تا”۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت پر امیر المومنین علیہ السلام کے تاثرات:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا :
بَاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّی يا رَسُولَ اللّٰه ! لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مالم ينْقَطَعَ بِمَوْتِ غَيرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَاْلَانْبَاءِ وَاَخْبَارِ السَّمَاءِ خعَّصتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاکَ،وَعَمَّمْتَ حَتَّی صَارَ النّاسُ فهلَ سَوَائً ،ولَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بالصَّبْرِ وَنَهيتَ عَنِ الجَزَعِ ،لَاَ نْفَدْ نَا عَلَيلَ ماءَ النتُّؤُونِ ولَکَانَ الدَّاءُ مُمَا طِلاً، وَالْکَمَدُمُحَالِفا ،وَقَلَّا لکَ ولٰکِنَّه مالا يمْلَکُ رَدُّه ،ولا يسْتَطَاعُ دَفْعُه ! بِاَبی انت اُمِّی! اذکُرْنَا عِنْدَ رَبِّکَ،وَاجْعَلْنَا مِنْ بالِکَ
(نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین ،خطبہ نمبر ٢٣٢،ص٦٤١۔٦٤٠)
”یا رسول اللہ ! میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوں ،آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت ،الٰہی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی اور نبی کے انتقال سے قطع نہیں ہو اتھا ،آپ کا غم اہل بیت کے ساتھ یوں خاص ہوا کہ ان کے لیے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لیے عام ہواکہ سب برابر کے شریک ہو گئے ،اگر آپ نے صبرکا حکم نہ دیا ہو تا اور نالہ و فریاد سے منع نہ کیا ہو تا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کر تا اور یہ رنج و الم ہمیشہ ساتھ رہتا پھر بھی یہ گریہ و بکا اور حزن و اندوہ آپ کی مصیبت کے مقابلے میں کم ہو تا لیکن موت ایسی چیزہے جس کا پلٹانا کسی کے بس میں نہیں اور جس کا ٹال دنیا کسی کے اختیار میں نہیں ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان مالک کی بارگاہ میں ہمار ابھی ذکر کیجیے گا اور اپنے دِل میں ہمارا بھی خیال رکھیے گا ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Source:
http://alhassanain.org/urdu/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button