سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

میں فاطمہ علیہ السلام ہوں، جی ہاں! میں فاطمہؑ ہوں!

قالت: اٴيها الناس! اعلموا اٴنّی فاطمة و اٴہی محمّد، اٴقول عوداً و بدواً، و لا اٴقول ما اٴقول غلطاً، و لا اٴفعل ما اٴفعل شططاً <لقد جائکم رسول من انفسکم عزيزٌ عيه ما عنتم حريص عليکم بالمومنين رووف رحيمٌ>فان تعزوه و تعرفوه تجدوه اٴہی دون نسائکم، و اٴخا ابن عمّی دون رجالکم، و لنعم المعزّی اليه، فبلّغ الرسالة صادعاً بالنذارة مائلاً عن مدرجة المشرکين، ضارباً ثبجهم آخذاً باٴکظامهم داعياً الی سبيل ربّه بالحکمة و الموعظة الحسنة۔۔۔۔۔۔۔الخ
مسجد نبوی میں اپنے عمیق و بلیغ خطبے میں سامعین کے ذھنوں کو جھنجھوڑتی ہوئی سیدۃ نساء العالمین ؑ فرماتی ہیں:” لوگو: یہ جان لو کہ میں فاطمہ(س) ھوں،اور میرے باپ محمد مصطفےٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں-یہی اول وآخر کہتی ھوں اور نہ غلط کہتی ھوں نہ بے ربط-وہ تمھارے پاس رسول بن کر آئے،ان پر تمھاری زحمتیں شاق تھیں،وہ تمھاری بھلائی کے خواھاں اور صاحبانِ ایمان کےلئے رحیم ومہربان تھے-اگر تم انہیں اور ان کی نسبت کو دیکھوتو تمام عرب میں صرف میرے باپ،اور تمام مردوں میں صرف میرے ابن عم کوان کا بھائی پاوٴ گے،اور اس نسبت کا کیا کہنا؟
میرے پدر بزرگوار نے کھل کر پیغام خدا کو پھنچایا،مشرکین سے بے پرواہ ھو کر ان کی گردنوں کو پکڑ کر اور ان کے سرداروں کو مار کر د ین خدا کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دی۔۔۔الخ”
جب خاتونِ جنت نے اپنی جاودانہ گفتگو میں شریعتِ مقدسہ کے احکام و قوانین اور ان کے علل و تشریع کی توضیح و تشریح فرما دی تو حکومت سے اپنے مغصوب حق کا مطالبہ کیا۔ آپؑ نے اس عظیم اسلامی کانفرنس کے حاضرین کی طرف رخ کر کے خطاب فرمایا کیونکہ یہی وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے حق و حقیقت کو چھوڑ کر بیعت کر کے حکومت تشکیل دے دی تھی۔ کیونکہ اسی حکومت نے ہی ان کے حقوق کو غصب کیا تھا۔ سیدۂ عالم نے اپنے حقوق کا مطالبہ عوام کے جمِ غفیر میں پیش کیا تھا کہ جس فریق کے خلاف آپؑ کا مقدمہ تھا وہ حکومت تھی۔ اسی حکومت سے آپؑ عدل و انصاف طلب کر رہی تھیں۔
ملکۂ اسلام و ایمان کا ہدف تھا کہ وہ اپنی گفتگو کے بعد حکومت سے بحث و مناظرہ کر کے اسے محکوم کر دیں گی۔ جس طرح کسی مقدمہ کے اصول و شرائط ہوتے ہیں۔ آپ نے انہی شرائط کے سامنے رکھا کہ وہ خود مدعیہ ہیں اور دوسری طرف حکومت مدعا علیہ ہے، اس لئے آپؑ نے حاضرین میں اپنا تعارف پیش کیا جہاں ایک فریق حکومت ہے تو دوسرا فریق خاندانِ وحی و رسالت کی شہزادی سیدہ نساء العالمینؑ ہیں۔ آپؑ نے یہ مقدمہ اس وقت کے عظیم شخصیات کی موجودگی میں پیش کیا۔ یہ شخصیات مہاجرین و انصار تھے، جن کا جامعہ اسلامیہ میں ایک وزن تھا۔
موضوعِ مقدمہ بتولؑ عذرا کی وہ اراضی تھی جو کئی برسوں سے ان کی ملکیت میں تھی۔ حکومت نے اپنے حکومتی ذرائع سے ان کی اراضی پر قبضہ کر لیا تھا حالانکہ حکومت کے پاس کوئی شرعی جواز نہ تھا۔ اپنی سیاسی کارروائی سے خاندانِ وحی و رسالت کا حق غصب کر لیا۔
دختر فرزانہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اس اسلامی بے نظیر کانفرنس میں روئے سخن حاضرین کی طرف کیا اور فرمایا:
"أيُّها النّاسُ! اعْلَمُوا أنِّي فاطِمَةُ”
”جی ہاں! اے حاضرین و سامعین کرام! میں فاطمہؑ ہوں جی ہاں میں فاطمہؑ ہوں۔“
سیّدۂ عالم نے سب سے پہلے سامعین کے سامنےاپنا ملکوتی اسم پیش کیا۔ یہ وہ الہامی اور پُرمعنویت اسم تھا جس سے ہر شخص آگاہ تھا۔ سامعین کا ہر فرد اس نام کو لسانِ رسالت مآب سے نہایت ہی تجلیل و تعظیم سے کئی بار سن چکا تھا۔
وَأبي مُحمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ
”اور میرے والد سلطانِ انبیاء حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں۔“
پیغمبرِ گرامیؐ کی دختر یگانہ نے اپنا وہ عظیم و بلند و بالا نسب بیان فرمایا کہ جس کی مثال نہ کوئی عصر پیش کر سکتا ہے اور نہ کوئی نسل۔ کیونکہ یہ نسب افتخارِ جہاں ہے۔ دُرِ تاج آفرینش ہے کہ جس کے نُور سے آفتاب منور ہے۔
جی ہاں! فاطمہؑ حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی دختر ہیں اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سید الانبیاءؐ ہیں، اشرف الخلائق ہیں، اظہر الکائنات ہیں اور کائنات کے افضل ترین شخصیت کی پاکیزہ دختر ہیں۔
جی ہاں! اے حاضرین کرام! آپ سے عظیم باپ کی عظیم بیٹی گفتگو کر رہی ہیں۔ وہ شجاعت و شہامت سے احتجاج کر رہی ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بیان کر رہی ہیں۔ وہ اپنے اور معاشرے کے مستضعف لوگوں کے حقوق کا دفاع کر رہی ہیں اور اپنا حق مانگ رہی ہیں۔
انہوں نے اپنی مُعرفی اس لئے کرائی ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے انہیں نہیں پہچانا۔ کل کوئی بہانہ نہ تراش سکے کہ بی بی پاکؑ نے اپنا نام کیوں نہیں لیا تھا؟ اپنی شخصیت اور اپنے نصب کا تذکرہ کیوں نہیں کیا تھا؟
ملکۂ ایمان و اسلام نے اپنی صریح معرفی سے حجت تمام کر دی۔ کسی کے لئے چون و چرا کی گنجائش نہ چھوڑی۔اس طریقے سے آپؐ نے ان کےلئے تعریض و توبیخ کے سارے سامان اکٹھے کر دیئے۔
جی ہاں! حضرت فاطمہ بنت محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تشریف فرما ہیں، وہ اس لئے مسجد نبویؐ میں حاضرین کے مجمع میں تشریف لائی ہیں، تاکہ اپنے مغصوب حقوق کا مطالبہ کریں۔
أَقُولُ عَوْداً وَبَدْءاً
”جی ہاں! اے لوگو! جو کچھ میں نے اپنے خطاب کے اول میں کہا تھا آخر میں وہی میری زبان پر ہے۔“
جو کچھ کہہ رہی ہوں وہ میں بھر پور ایمان کی قوت و قدرت سے کہہ رہی ہوں۔
ایک دوسرے نسخہ میں آیا ہے: عوداً علی بدءٍ
دونوں جملوں کا ایک ہی معنی ہے۔"وَلا أقُولُ ما أقُولُ غَلَطاً”
”جو کچھ میں کہہ رہی ہوں وہ اشتباہ نہیں ہے۔ میری منطق و گفتار میں کوئی کذب، دھوکا اور مغالطہ نہیں ہے۔“
"وَلا أفْعَلُ ما أفْعَلُ شَطَطاً”
”میں جو بات بھی کروں گی وہ از راہِ ظلم و جور اور افراط و تجاوز سے نہیں کہوں گی۔“
لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤوفٌ رَحِيم
(سورہ توبہ: آیت/128)
شفیعہ روز محشر نے اپنی اس بحث کا آغاز اپنے والد گرامی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ذکر شریف کے ساتھ فرمایا اور اپنی گفتگو کو آیتِ کریمہ کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ خود رسول اللہؐ رب ہیں، تمہارا مصائب و آلام میں ہونا ان پر شاق ہے۔ وہ تمہارے سعادتوں کے لئے حریص ہیں۔ وہ اپنی امت کے اہل ایمان پر رؤف و رحیم ہیں۔“
رؤف اور رحیم دو کلماتِ مترادف ہیں یعنی ہم معنی ہیں: یعنی عاطف و محبت، لطف عنایت۔
فَإنْ تَعْزُوه وَتَعْرِفُوهُ
”اگر تم چاہو کہ اُن کی نسبت کس سے بنتی ہے یا تم انہیں پہچاننا چاہتے ہو تو تم انہیں صرف میرے والد پاؤگے، انہی عورتوں میں سے کسی اور کا باپ نہیں پاؤ گے۔“
ایک اور نسخہ میں آیا ہے:
فَاِن تَعزِرُوہُ وَ تُوَقِّرُوہُ
”یعنی تم ان کی تعظیم و توقیر کرو۔“
وَتَجِدُوہ أَبی دُونَ نِسَآئِکُم
”جی ہاں! میں ہی ان کی اکلوتی دختر ہوں۔ وہ میرے ہی والد گرامی ہیں۔ تمہاری خواتین اس عظیم نسب میں میرے شریک نہیں ہیں۔“
وَأخا ابْنِ عَمَّي دُونَ رِجالِكُمْ
”جی ہاں! برادر رسولؐ اللہ میرے شوہر نامدار ہیں۔ تم مردوں میں سے کوئی بھی اخوتِ رسالتؐ میں ان کا شریک نہیں ہے۔“
اس اخوت سے مراد نسبی اخوت نہیں ہے۔ یہ وہ تمغہ اخوت ہے جو انہیں مواخات کے دن حاصل ہوا تھا جب رسول اللہؐ نے اپنے صحابہ میں سے ایک صحابی کو دوسرے کا بھائی بنایا تھا تو رسول اللہؐ نے میرے شوہر امام علیؐ کو اپنا بھائی قرار دیا تھا۔ اس قرآنی اخوت و برادری کی بنا پر رسول اللہؐ اکثر مقامات پر امام علیؑ کو اسی اخوت کی نسبت سے یاد کرتے تھے، یا بلاتے تھے جیسا کہ آپ فرماتے تھے:
اَدْعُوا لِیْ اَخِیْ
”میری طرف میرے بھائی کو بلاؤ۔“
یا آپ فرماتے تھے:
اَیْنَ اَخِیْ؟
”میرے بھائی کہاں ہیں؟“
آپؐ نے کسی وقت فرمایا:
اِنَّہُ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَةِ
”وہ میرے دین و دنیا کے بھائی ہیں۔“
امیرِ عدالت و حریت اس جاودانہ برادری پر فخر کرتے تھے۔
آپؐ نے اپنی اس ملکوتی عزت و عظمت کو نظم و نثر و گفتار میں بیان فرمایا:
أَنا أَخُو الْمُصْطَفٰى لَا شَكَّ فِیْ نَسَبي مَعَهُ رَبَّيْتُ وَسِبطَاهُ هُمَا وَلَدِيْ
”میں رسولِ مصطفیٰؐ کا بھائی ہو، میرے نسب میں کوئی شک نہیں ہے۔ میں نے ان کے ہمراہ پرورش پائی ہے۔ ان کے دونوں سبط میرے فرزند ہیں۔“
مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ أخيْ وصِهْرِيْ وَحَمْزَةُ سَيِّدُ الشُّهَدَآءِ عَمِّيْ
”حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اللہ کے عظیم نبی ہیں اور میرے ابنِ عم ہیں اور حضرت حمزہ سید الشہداء میرے چچا ہیں۔“
آپؐ کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے:
وَمَن ْحِیْنَ اَخِی بَیْنَ مَنْ کَانَ حَاضِراً دَعَانِیْ وَاَخَانِیْ وَ بَیْنَ مِنْ فَضْلِیْ
”آپؐ وہ عزت و عظمت والے پیغمبرؐ ہیں جس وقت آپؐ نے اپنے اصحاب میں پیمانِ اخوت کا نظام جاری فرمایا تو آپؐ نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میرے اور اپنے درمیان قرآنی اخوت کا عہد و پیمان جاری فرمایا۔ اسی طرح آپؐ نے اسی وسیلہ سے میری برتری اور شائستگی کو روشن اور آشکار فرمایا۔“
آپؐ کا یہ مشہور فرمان بھی ہے:
اَنَا عَبدُاللہ، وَاَخُو رَسُولِ اللہ وَاَنَا الصّدّیْقُ الْاَکْبَر، وَالفَارُوقَ الاَعْظمُ لَا یَقُولَہُ غَیرِیْ اِلَّا کَذَّابَ
”میں اللہ کا عبد ہوں، رسول اللہؐ کا بھائی ہوں، میں ہی صدیق اکبر اور فاروقِ اعظم ہوں۔۔۔“
وَلَنِعْمَ المَعْزِیُّ اِلَیْہِؐ
”وہ آدمی کس قدر پاک و پاکیزہ و برتر و اعلیٰ ہے جو ان سے منسوب ہے کیونکہ وہ آفرینش جہاں کی غرض و غایت ہیں۔ اللہ ان کے وجود کی برکت سے انسان اور دیگر موجودات کو رزق عطا فرماتا ہے۔“

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button