سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا اجمالی تعارف

السید محمد رضا الحسینی الجلالی
مترجم: شیخ سردار حسین سکندری و شیخ محمد حسین مطہری
(کتاب: "سیرت ومناقبِ امام حسین علیہ السلام” سے اقتباس)
آپ کا اسم گرامی حسین ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:
لما ولد الحسن سماه (حمزۃ) فلما وُلد الحسین سماه بعمه (جعفر)
قال علی: فدعانی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال: ((إنی اُمرتُ أن اُغیّر اسم ابنى هذین))
فقلت: الله ورسوله أعلم
فسماهما ((حسناً)) و (حسیناً)
آپ ؑ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی ولادت ہوئی تو ان کا نام حمزہ رکھا گیا اور جب حسین کی ولادت ہوئی تو اپنے چچا کے نام پر ان کا نام جعفر رکھا گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا اور مجھے اپنے ان دونوں بیٹوں کے نام تبدیل کرنے کا حکم دیا اس پر میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں چنانچہ اس طرح انہوں نے ان دونوں کا نام حسن ؑ اور حسینؑ رکھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے یہ چاہا تھا کہ ان کے بیٹوں کے نام کے ساتھ چچا حمزہ اور بھائی جعفر کا نام زندہ رہے لیکن وحی الہٰی نے ان دونوں کے لیے دو اور ناموں کا انتخاب کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نئے نام رکھنے کا حکم دیا اور وہ آسمانی نام حسن وحسین تھے جو اہل جنت کے ناموں میں سے ہیں اور زمانہ جاہلیت میں یہ موجود نہیں تھا نبی اکرم اپنے ان
دونوں نواسوں کو انہی آسمانی ناموں سے یاد کرتے تھے اور دوسروں کو بھی حسن وحسین نام لینے کی تاکید فرماتے تھے آپ نے ان دونوں شہزادوں کا نام حسن و حسین رکھنے کی وجہ بھی بیان فرمایا:
چنانچہ حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جناب ہارون نے اپنے بیٹوں کا نام شبر و شبیر رکھا تھا اور میں نے انہی کے نام پر اپنے بیٹوں کا نام حسن و حسین رکھا ہے۔
آپ کا جناب ہارون کے بیٹوں کے نام پر حسن و حسین نام رکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت حسن علیہ السلام وحضرت حسین علیہ السلام کے والد گرامی علی بن ابی طالب کے معاملات اور امور کا جناب ہارون کے معاملات اور امور زندگی سے گہرا ربط اور تعلق ہے پس اسی قوی مشابہت اور ربط کی وجہ سے حضرت علی کے بارے میں آپ نے فرمایا:کہ علی کو میری نسبت وہی مقام و منزلت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہ وہی حدیث منزلت ہے جس کے بعض حفاظ نے ۵۰۰ اسناد نکالی ہیں اور اسے متوتر قرار دیاہے۔
پس جب حضرت علی علیہ السلام خلافت اور رضایت میں جناب ہارون کے مقام پرہیں تو ان کے بیٹوں کا نام بھی جناب ہارون کے بیٹوں کے نام جیسے ہونے چاہیے تاکہ ہارون کے ساتھ مماثلت کامل طور پر ثابت ہو۔
کنیت:
آپ کی کنیت کا ابو عبد اللہ ہونے پر تمام مورخین اور محدثین کا اتفاق رائے ہیں۔
القابات
۱۔ سبط رسول ۲۔ سید شباب اہل الجنۃ : یہ لقب اس مشہور حدیث سے مأخوذ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین علیہما السلام کے بارے میں فرمائی۔
"الحسن و الحسین سیدا شباب اهل الجنة”
۳۔ ریحان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کر دہ یہ لقب بھی حدیث نبوی سے مأخوذ چنانچہ ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ اور آپ کے بھائی حسن کے بارے میں فرمایا "ہمار ریحانتای من الدنیا ۔”
"دنیا میں یہ دونوں میرے دو پھول ہیں۔” (الصحیح البخاری، 3 : 1371)
والد گرامی:
آپ کے والد محترم امیر المؤمنین علیؑ ابن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قصی القرشی الہاشمی المطلبی الطالبی ہے۔
والدہ محترمہ
آپ کی مادر گرامی حضرت فاطمہ ؑبنت خدیجۃ بن خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی ہے۔
ماں باپ اور خاندان کو حسب ونسب کے اعتبار سے جو فضیلت آپ کو حاصل ہے وہ روایت کیونکہ طولانی ہے لہٰذا ترجمہ کرنے پر اکتفاکرتے ہیں کہ ربیعہ السعدی کہتا ہے جب لوگوں کے درمیان فضیلت اور افضلیت کے بارے میں اختلافات ہوئے تو میں اپنا زاد راہ اور سواری لیکر مدینہ کی طرف نکل پڑا اورمدینہ میں حذیفہ یمانی سے جا کر ملا، انہوں نے پوچھا
کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا عراق سے ، کہا عراق کے کس شہر سے؟ میں نے جواب دیا کوفہ سے۔ انہوں نے خوش آمدید کہا میں نے ان سے کہا کہ لوگ افضلیت اور فضیلت میں اختلاف کر رہے ہیں میں آپ کے پاس آیا ۔
یہ معلوم کرنے کہ کون افضل اور کس کو باقیوں پر فضیلت حاصل ہے؟ جناب حذیفہ نے مجھ سے کہا تم ایک با خبر انسان کے پاس پہنچے ہولہٰذا اب میں تمہیں صرف وہی بات بتاؤں گا جو میرے کانوں نے سنی ہے ان آنکھوں نے دیکھی ہے اور دل نے محفوظ کی ہےاور وہ یہ ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آئے اور میں ان کی طرف اسی طرح دیکھ رہا تھا جس طرح میں ابھی تمہاری طرف دیکھ رہا ہوں انہوں نے حسین بن علی کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپ کے کف و دست مبارک حسین کے قدموں پر تھے ایسی حالت میں آپ نے فرمایا: اے لوگو میں اپنے بعد افضلیت اور برتری کے بارے میں اختلاف کو جانتا ہوں لہٰذا سنو کہ یہ حسین بن علی ہے جو نانا اور نانی کے اعتبار سے سب سے بہتر اور برتر ہے جس کا نانا میں محمد رسول اللہ سید المرسلین ہوں اور نانی خدیجہ بنت خویلد ہے جو اللہ اور رسول پر ایمان لانے میں عالمین کی عورتوں پر سبقت رکھتی ہیں۔ یہ وہ حسین بن علی ہے جو ماں باپ کے اعتبار سے تمام لوگوں پر فضیلت رکھتا ہے جس کا باپ علی ابن ابی طالب رسول اللہ کا بھائی اور ان کا وزیر اور ابن عم ہے اور رسول اللہ پر ایمان لانے میں عالمین کے تمام مردوں پر سبقت رکھتا ہے۔ان کی ماں فاطمہ بنت محمد ہے جو تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہے۔
یہ وہ حسین بن علی ہے جو چچا اور پھوپھی کے اعتبار سے باقیوں پر فضیلت رکھتا ہے ان کا چچا جعفر بن ابی طالب ہے جنہیں خدا نے دو پر دیئے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں سیر کر تے ہیں اور ان کی پھوپھی ام ھانی بنت ابی طالب ہے ۔
یہ وہ حسین بن علی ہے جس کی ماں بنت محمد رسول اللہ ہے یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کندھے سے حسین کو اتارا اور دونوں ہاتھوں کے درمیان بلند کر کے اپنے قریب کر لیا اور فرمایا: اے لوگوں یہ حسین بن علی ہے جس کے نانا نانی جنت میں ہونگے جس کے ماں باپ جنت میں ہونگے ان کے بھائی جنت میں ہونگے ۔ سنو کہ حضرت یوسف بن یعقوب علیہ السلام کے علاوہ ذریت انبیاء میں حسین بن علی کے علاوہ کسی کو بھی یہ فضیلت حاصل نہیں ہے۔
ولادت
تمام مورخین کا اتفاق اس بات پر ہے کہ آپ کی ولادت ۴ہجری کو ہوئی لیکن شیعہ محدثین اور علماء نے ہجرت کے تیسرے سال میں آپ کی ولادت ثابت کی ہے ابن عساکر نے شیعہ مورخین سے نقل کرتے ہوئے آپ کی ولادت ماہ شعبان کی ابتدائی تین یا چار راتوں میں بیان کی ہے لیکن مشہور تیسری رات ہے۔
جائے ولادت مدینہ منورہ
آپ کی ولادت حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اس گھر میں ہوئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے ساتھ اور مسجد نبوی (جو دوسرا حرم شریف ہے) اس کے وسط میں واقع تھا۔
شہادت
ابن عساکر کہتا ہے کہ اکثر اہل تاریخ کے نزدیک آپ کی شہادت ۶۱ ہجری محرم الحرام کی دس تاریخ کو ہفتہ کے دن ہوئی جبکہ بعض کے نزدیک جمعہ کے دن ہوئی۔
جائے شہادت
آپ کی شہادت کربلا مقدسہ میں نہر فرات کے کنارے واقع ہوئی جسے نینوا، غاضریہ اور حائر بھی کہا جاتا ہے۔
مدت عمر
آپ کی عمر ۵۵ سال نو ماہ دس دن تھی جن میں سے چھ سال چند ماہ اپنے نانا کے ساتھ اور تیس سال پانچ مہینے اور کچھ دن اپنے والد محترم کے ساتھ رہے اور نو سال پانچ مہینے دس دن اپنے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کی سرپرستی میں رہے۔
مدت امامت
آپ کی مدت امامت دس سال نو مہینے بیس دن رہی ہے اور ۶۱ ہجری ۱۰ رجب سن ۶۱ ہجری کو معاویہ کی موت کی خبر سننے کے بعد آپ نے مدینہ کو چھوڑا اور مکہ کا رخ کیا اور مکہ سے ۶۰ ہجری دس ذی الحجہ پیر کے دن عراق کی طرف سفر کا آغاز کیا اور ۶۱ ہجری دو محرم الحرام کو سر زمین کربلا میں وارد ہوئے اور اسی ۶۱ ہجری کے دس محرم یعنی عاشور کے دن آپ کو شہید کیا گیا۔
شکل و شمائل
آپ شکل و شمائل کے اعتبار سے اپنے نانا کے مشابہہ تھے اور جسامت و رنگت کے اعتبار سے بھی آپ سے بڑھ کر کوئی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشابہہ نہ تھے ۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مشابہت آپ اور آپ کے بھائی حسن کے حصہ میں ہی آئی اور آخر کیوں نہ ایسا ہو کہ یہ دونوں ایک ہی درخت کے ایک ہی پھل کے دو حصے ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أنا الشجرة، وفاطمة أصلها۔ أوفرعها۔ وعلی لقاحها، والحسن والحسین ثمرتها، وشیعتنا ورقها فالشجرة أصلها في جنة عند، والٓأصل والفرع واللقاح والثمر والورق في الجنة.
روایت کی گئی ہے کہ عبد الرحمن بن عوف کہا کرتے تھے کہ کیا تم لوگ احادیث کے اندر من گھڑت باتیں داخل ہونے سے پہلے سے نہیں پوچھو گے کہ میں بتاؤں گا کہ حسن بن علی سینہ سے لے کر سر مبارک تک سب سے زیادہ رسول سے مشابہہ اور حسین علیہ السلام سینے سے لیکر قدموں تک رسول کے مشابہہ تھے۔
حضرت علی علیہ السلام حسنین کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مشابہہ ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں:
جو شخص گردن اور لب ہائے مبارک رسول کے سب سے زیادہ مشابہہ انسان کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حسن علیہ السلام کی طرف دیکھے اور جو گردن سے لیکر پاؤں تک خلقت اور رنگت میں رسول اللہ کی مشابہت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حسین کو دیکھئے۔
دوسری حدیث میں فرمایا :
رسول کی شباہت ان دونوں میں تقسیم ہوئی ہے تاکہ ان دونوں کے وجود سے رسول اکرم ﷺ کا وجود لوگوں کی آنکھوں کے سامنے رہے اور رسول کا ذکر لوگوں کے دلوں میں موجزن رہے اورحضرت حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے والے اور آپ کے دندان مبارک پر چھڑی مارنے والوں کے لیے باعث عبرت بنے کہ انہوں نے حسین علیہ السلام کو نہیں بلکہ رسول کو قتل کیا ہے اور رسول ﷺکے دندان مبارک پر چھڑی ماری ہے یہی شباہت تھی جب خادم رسول انس بن مالک نے ابن زیاد کو دیکھا کہ وہ ابا عبد اللہ الحسین کے دندان مبارک پر چھڑی مار رہاتھا تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم حسن اور حسین ہی تھے جو سب سے زیادہ رسولﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔
اخلاق حسنہ
خلق عظیم کے مالک نبی کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا گہوارہ ہی وہ بہترین درس گاہ ہے جس میں اسی اخلاق طیبہ پر اولاد کی تربیت ہو سکتی ہے اس کے باوجود جب حضرت زہراء نے اپنے بابا کو حالت احتضار میں دیکھا اور سمجھ گئیں کہ اب رسول اپنے مالک حقیقی سے ملنے والے ہیں تو حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور یہ کوشش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں چھوٹے بچوں کو کچھ وراثت عطا کریں اور روایان حدیث اس کو آگے نقل کریں۔ روایت یوں نقل ہوئی ہے :۔
طهارت الهٰيه
لوح محفوظ پر جب حسین علیہ السلام کا ائمہ میں سے ہونا قرار پایا تو جس وحی کے سایہ میں حسین کی زندگی گذر رہی تھی اور بیت رسالت میں جہاں ان کے نانا پر وحی آسمانی اترتی تھی اسی کے صحن میں زمانہ طفلی گذر رہا تھا اب ضروری تھا کہ آسمانی فیصلہ زمین والوں پر واضح اور ثابت ہو اور ایسا ہی ہوا چنانچہ ام المومنین جناب ام سلمہ کہتی ہیں :
نزلت هذه الآية في بیتی:
إنمایرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت و يطهركم تطهيرا
وفي البیت سبعة: جبریل، ومیکائیل، ورسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، وعلي، وفاطمة، والحسن، والحسین۔
قالت: وأنا علي باب البیت، فقلت: یا رسول الله ألست من أهل البیت؟
قال: إنک علی خیرٍ، إنک من أزواج النبي صلی الله عليه وآله وسلم وماقال: ((إنک من أهل البیت!))( مختصر تاریخ دمشق لابن منظور ۷۔۱۲۰)
فرماتی ہیں کہ یہ آیۂ
"إنمایرید الله لیذهب عنکم الرجس أهل البیت و يطهركم تطهيرا "
میرے گھر میں نازل ہوئی جبکہ گھر میں سات افراد موجود تھے جبرئیل، میکائیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین اسوقت میں دروازے کے پاس تھی میں نے رسول سے کہا کیا میں اہلبیت میں سے نہیں ہوں تو آپ نے فرمایا تو خیر پر ہے اور تُو ازواج نبی میں سے ہے یہ نہیں فرمایا اہلبیت میں سے ہے۔
دوسری حدیث:
رسول اللہ ؐام سلمہ کے ہاں تھےآپ نے حسن ؑ کو ایک زانو پر بٹھایا حسین ؑ تو دوسرے زانو پر اور فاطمہ کو سامنے بٹھا کر فرمایا اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہیں اے اہل بیت یقیناً اللہ قابل حمد و ستائش ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب مباہلہ کا امر ہوا تو فرمایا:
فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءکم ونساءنا ونساءکم وانفسناء وانفسکم ثم ينتهل منجعل لعنة الله علی الکاذبین.
اس بارے میں امیر المؤمنین فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل نجران سے مباہلہ کے لیے مجھے، فاطمہ اور حسن وحسین علیہما السلام کو لیکر نکلے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے بیٹے حسن ؑ حسینؑ ہمارے نفس علیؑ اور ہماری نساء فاطمہ ؑہے پس جب اس عظیم اور اہم موقع پر اہلبیت رسول کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تو ضروری ہےکہ اہلبیت کے اندر بھی وہی طہارت قدامت اور عظمت ہوجو رسول کے اندر موجود ہے۔
پس ان احادیث کے اندر واضح دلالت ہے کہ اہلبیت پاکیزہ ہستیاں ہیں۔
غیبی طاقت
ولادت کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کا بچپن اس گھر میں گذرا جہاں فرشتوں کا آنا جانا رہتا تھا اوروہ آپ کے نانا پر وحی آسمانی اور غیبی اسرار لے کر اترتے رہتے
تھے فرشتوں کی آمد ورفت سے اگر ان کے بال و پر میں سے کچھ گر جاتا تو یقیناً اہلبیت ان بال و پر کو اٹھاتے اور اس غرض سے محفوظ کر لیتے کہ رسول اللہ نے انہیں وحی جبرئیل کے پر و بال جمع کر کے حسنین کے لیے تعویذ بنا کر دیئے اور یہ دونوں ہمیشہ ان تعویزوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ یہ ان دونوں کے اور آسمان والوں سے ارتباط پر بہترین دلیل قرار پائے۔
عبد اللہ بن عمر سے منقول ہےکہ
حسن وحسین علیہما السلام کے پاس دو تعویز تھے جن میں جبرئیل کے گرے ہوئے پرو بال جمع تھے۔حضرت جبرئیل کا حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ایک خاص تعلق بھی تھا جو مادی طور پر حسین علیہ السلام کی قوت اور شجاعت کو بڑھاتا تھا حدیث ہے۔
خضاب لگانا
عمر بن عطاء نقل کرتا ہے کہ میں نے حسین بن علی کو کالا خضاب لگاتے ہوئے دیکھا اس وقت جب آپ ساٹھ سال کے تھے اور آپ کے بال اور داڑھی بالکل کالے نظر آتے تھے۔
تواضع اور کرم
ابی بکر بن حزم نقل کرتا ہے ایک بار حضرت امام حسین علیہ السلام کا گذر بعض مساکین کے قریب سے ہوا جو مسجد نبوی کے قریب واقع چبوترہ صفہ پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے تب آپ ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرمایا اور پھر فرمایا خدا تکبر کرنے
والوں کو پسند نہیں کرتا یہ فرمانے کے بعد آپ نے ان فقراء سے کہا کہ میں نے تم لوگوں کی دعوت قبول کی ہے لہٰذا اب آپ لوگ بھی میری دعوت قبول کریں اور میرے ساتھ میرے گھر چلیں انہوں نے آپ کی دعوت قبول کی اور آپ کے ہمراہ آپ کے گھر پہنچے آپ نے اپنی زوجہ سے فرمایا کہ جو کچھ گھر میں موجود ہے وہ سب مہمانوں کے لیے پیش کردیں۔ (تاریخ دمشق لابن منظور ۷۔۱۲۲)