قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام(حصہ اول)

مقدمہ
مختصر تاریخ دمشق میں ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں: "ما نزل القرآن یا ایها الذین آمنواالا علی سیدها و شریفها وامیرها و ما احد من اصحاب رسول اللّٰه الا قد عاتبه اللّٰه فی القرآن ما خلا علی بن ابیطالب فانه لم یعاتبه بشیء… ما نزل فی احد من کتاب اللّٰه ما نزل فی علی… نزلت فی علی ثلاثماة آیة۔"(1)جہاں بھی قرآن میں "یا ایہا الذین آمنوا” اے ایمان والو، آیا ہے حضرت علی علیہ السّلام ان مومنوں کا سید اور سالار ہے اور مومن کا مصداق کامل، حضرت علی علیہ السّلام ہیں۔ قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہر صحابی پر عتاب کا ذکر ہواہے سوائے حضرت علی علیہ السّلام کے،ان پر کسی عتاب کا ذکر نہیں ہوا۔ حضرت علی علیہ السّلام کے فضائل کی قرآن میں اتنی آیتیں ہیں جتنی کسی کے فضائل کی نہیں۔ قرآن کی تین سو ۳۰۰ آیتیں ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
ہم نے اس مقالہ میں حضرت علی علیہ السّلام کو قرآن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت علی علیہ السّلام قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں: ان اللّٰه تعالٰی انزل کتاباهادیا، بین فیه الخیر والشر فخذوا نهج الخیر تهتدوا و اصدفوا عن سمت الشر تقصدوا۔(2)
اللہ تعالیٰ نے ہدایت کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے، اس مبارک کتاب میں خیر اور شر کو بیان کیا گیا ہے تاکہ خیر کے راستے کو اپنا کے ہدایت یافتہ بن جاؤاور شر سے دور رہو تاکہ اچھی اور میانہ زندگی بسر کرو۔
"واعلموا ان هذا القرآن هو الناصحالذی لایغش والهادی الذی لایضل و المحدث الذی لایکذب”۔۔۔(3)
جان لو قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو خیانت نہیں کرتا، ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا، ایسا سچا کلام ہے جس میں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے۔
قرآن کریم میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل پر مشتمل تین سو۳۰۰آیتیں ہیں، اور حضرت علی علیہ السّلام نے قرآن کے بارے میں بلندوالا خطبے ارشاد فرمائے ہیں۔ ثقل اکبر، ثقل اصغر کی اورثقل اصغر، ثقل اکبر کی معرفت کا وسیلہ ہے یعنی قرآن حضرت علی کی پہچان کرواتا ہے اور حضرت علی علیہ السّلام قرآن کے فضائل بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق قرآن اور حضرت علی علیہ السّلام ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔جب کوئی طہارت کے بغیر قرآن کے قریب نہیں جا سکتا "لایمسه الا المطهرون"(4)تو کوئی کیسے طہارت کے بغیر اہلبیت علیہم السّلام کو سمجھ سکتا ہے۔ ہم بھی اہلبیت علیہم السّلام میں سے پہلے فرد حضرت علی علیہ السّلام کی معرفت کیلئے قرآن سے مدد لیتے ہیں۔
قرآن میں کئی اسباب کی وجہ سے علی کا نام ذکرنہیں ہوا،(5) لیکن اہل سنت کے علماءو بزرگان نے کئی مقامات پر اعتراف کیا ہے کہ قرآن میں حضرت علی علیہ السّلام کی شان میں کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ قرآن میں اہل بیت علیہم السّلام کی شان بیان ہوئی ہے۔ اہلبیت علیہم السّلام کی شان جیسی کسی کی شان بیان نہیں ہوئی۔ اس نکتہ سے بھی غافل نہ رہیں کہ ممکن ہے ایک آیت عام ہو بہت سارے مصداق رکھتی ہو لیکن اس آیت کا مصداق کامل حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام ہوں۔
پہلے بیان ہوا کہ ابن عباس کے قول کے مطابق قرآن میں حضرت علی علیہ السّلام کے فضائل کی تین سو ۳۰۰ آیات ہیں۔ ہم اس مقالے میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان آیتوں کا شان نزول بھی اہلسنت کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں تاکہ برادران اہلسنت ان کتابوں کی طرف مراجعہ کرکے مطمئن اور مسرور ہوں۔
1۔ آیہ تبلیغ
یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالته واللّٰه یعصمک من الناس ان اللّٰه لایهدی القوم الکافرین۔(6) اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔
تمام شیعہ مفسرین کے ساتھ اکثر اہل سنت (7)مفسرین کا ماننا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
شان نزول
یہ آیت غدیر خم سےمتعلق ہے۔ علامہ امینی نےاپنی کتاب الغدیر میں حدیث غدیر کو معتبر اور مختلف اسناد کے ساتھ ۱۱۰، اصحاب کرام سے نقل کیا ہے ان روایتوں میں اس آیت کا شان نزول کچھ اس طرح سے ہے، ہم یہاں مختصر بیان کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی حیات طیبہ کے آخری سال حجۃ الوداع کے اعمال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حضور کی برکت سےشان و شوکت سے انجام پائے۔ واپسی کے سفر میں یہ قافلہ بیابانوں سے گذرتا ظہر کے وقت غدیر خم پہنچا۔ اس وقت عید قربان کو آٹھ دن گذرے تھے۔ اچانک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی طرف سے رکنے کا حکم آیا: جو آگے نکل گئے تھے انہیں واپس بلایاگیا، جو پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا۔ جب سب جمع ہوئے تو سول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اقتدا میں نماز جماعت انجام پائی، گرمی میں جلتے صحرا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کیلئے سائبان بنایا گیا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے تمام لوگوں کو حکم خداوندی سننے کیلئے آمادہ ہونے کا حکم دیا۔ لوگ زیادہ تھے ہر ایک کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا چہرہ مبارک دکھائی نہیں دے رہا تھا، اس لئے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔ رسول اکرم اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور پر معنی خطبہ ارشاد فرمایا:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نےخدا کی حمد و ثنا کے بعد کچھ اس طرح سے خطاب کیا: میں عنقریب داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جانے والا ہوں۔ تم لوگوں سے بھی سوال ہوگا اور مجھ سے بھی پوچھا جائے گا۔ تم لوگ میرے بارے میں کیا گواہی دوگے؟تمام افراد نے ملکر ایک جواب دیا : "نشهد انک قد بلغت و نصحت و حمدت فجزاک اللّٰه،ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے وظیفہ رسالت کو بخوبی نبھایا اوراپنی تمام کاوشوں کو انسانی ہدایت کیلئے بروئے کار لائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ا س کی نیک جزا عنایت فرمائے۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے تمام مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اپنی رسالت، مرنے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اقرار لیا اور اس اقرار پراللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا اور فرمایا: میں تم لوگوں میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جو میری یادگار ہیں، دیکھو تم لوگ ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟ ایک عظیم چیز، اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب ہے اور دوسری عظیم چیز میری اہلبیت (علیہم السلام) ہے۔ مجھے رب جلیل نے بتایا ہے کہ یہ دو نوں کبھی بھی جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ جنت میں مجھ سے مل جائیں۔ ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ان سے پیچھےبھی نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
لوگوں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نظریں لوگوں کا طواف کرنے لگیں ہیں جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نظریں حضرت علی علیہ السّلام پہ پڑی تو ان کو بلایا اور ان کا ہاتھ تھام کر اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ تمام افراد کو حضرت علی علیہ السلام نظر آنے لگے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: "ایها الناس من اولی الناس بالمؤمنین من انفسهم؟؛ اے لوگو!مومنوں کی جانوں پر ان سے بھی زیادہ حق کس کا ہے؟سب نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) بہتر جانتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور مومنین کی جانوں پر ان سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں "فمن کنت مولاه فعلی مولاه"جس کا میں مولا ہوں اس کا حضرت علی(علیہ السلام) مولا ہے۔
پھر آسمان کی طرف منہ کر کے فرمایا : "اللّٰهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله و ادر الحق معه حیث دار؛ پروردگارا !حضرت علی (علیہ السّلام) کے دوست کو اپنا دوست قرار دے اور حضرت علی کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دے، جو حضرت علی(علیہ السّلام) سے محبت کرےتو بھی اس سے محبت کر، جو حضرت علی (علیہ السّلام) سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی کر، جو حضرت علی(علیہ السّلام) کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر، جو حضرت علی سے منہ موڑے تو اس سے منہ موڑ لے،جہاں حضرت علی(علیہ السّلام) ہو وہاں حق کو قرار دے۔
آخر میں رسول اکرم ﷺنے تاکید کی کہ جو یہاں موجود نہیں ان تک اس بات کو پہنچائیں۔ اس کے بعد تمام مسلمانوں نے ابوبکر اور عمر کے ساتھ حضرت علی علیہ السّلام کو یہ کہہ کہ مبارک باد پیش کی: علی ابن ابو طالب(علیہ السلام) تم کو مبارک ہو! آپ آج سے تمام مومن مرد اور عورتوں کے مولا بن گئے۔ (8)
۲۔ آیہ ولایت
"انما ولیکم اللّٰه و رسوله والذین امنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة و هم راکعون"۔(9) ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
الغدیر میں علامہ امینی نےان بزرگان اہلسنت کے نام لکھے ہیں جو اس آیت کے شان نزول میں حضرت علی علیہ السّلام کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں(10)تمام اہل تشیع نے اس آیت کے شان نزول میں حضرت علی علیہ السّلام کا نام لکھا ہے۔
شان نزول
سیوطی نے اپنی کتاب "الدر المنثور” میں اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام)نماز کی حالت رکوع میں تھے جب کسی سائل نے اللہ کی راہ میں مدد کا سوال کیا، حضرت علیؑ نے اپنی انگوٹھی سائل کوصدقے میں دے دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے سائل سے پوچھا تمہیں یہ انگوٹھی کس نےدی ہے؟ سائل نے حضرت علیؑ کی طرف اشارہ کیا اور کہا اس مرد نے جو کہ حالت رکوع میں ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی "انما ولیکم اللّٰه و رسوله۔۔۔” ((11)
۳۔ آیہ اولی الامر
” یا ایها الذینامنوا اطیعوا اللّٰه و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم"؛ ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو۔ یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔
شان نزول
حاکم حسکانی حنفی نیشاپوری اہلسنت کے معروف مفسر ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں اس آیت کے ذیل میں پانچ روایتیں نقل کرتے ہیں۔ ان پانچوں روایتوں کا عنوان اولی الامر ہے اور سب کی سب حضرت علی علیہ السلام پر صادق آتی ہیں۔ آخری روایت میں وہ خود حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں حضرت علی علیہ السّلام نے نقل کیا ہے کہ: رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: میرے شریک وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نےاپنے ساتھ اور میرے ساتھ اس آیت میں بیان کیا ہے " یا ایها الذینامنوا اطیعوا اللّٰه و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم؛۔ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) سے پوچھا”یا نبی اللّٰہ من ھم؛ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اولی الامر کون ہیں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے جواب دیا "قال: انت اولهم؛تم اولی الامر کے پہلے فرد ہو۔(12)
اہل سنت کی بعض روایتوں میں بارہ امام(علیہم السّلام) میں سے ہر ایک کا نام ذکر ہوا ہے۔(13)
۴۔ آیہ صادقین
"یا ایها الذین آمنوا اتقوا اللّٰه و کونوا مع الصادقین۔(14)ایمان والواللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔
شان نزول
درالمنثور میں معروف مفسر سیوطی اس آیت”اتقوا اللّٰه و کونوا مع الصادقین” کے ذیل میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا ہے: "مع علی بن ابی طالب؛ حضرت علی (علیہ السّلام)کے ساتھ ہوجاؤ۔(15)
اس آیت کے شان نزول میں دونوں مکتبوں یعنی اہلسنت اور اہل تشیع سے اور بھی روایتیں موجود ہیں۔(16) غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ مومنین کوحکم دے رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ یہ حکم مطلق ہے اس میں کوئی قید یا شرط نہیں، کسی حالت سے مخصوص نہیں اس طرح کا حکم امام معصوم کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ غیر معصوم سے غلطی ممکن ہے اور جب غلطی کرے گا اس حالت میں اس سے جدا ہونا پڑے گا۔ جس کی ہر حالت میں پیروی کی جاسکتی ہے وہ امام معصوم ہے۔ اس مطلب کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ صادقین سے مراد ہر سچا نہیں بلکہ امام معصوم ہے جس کی گفتار میں جان بوجھ کے یا بھولےسے غلطی کی گنجائش نہیں۔
اس آیت سے مراد حضرت علی علیہ السّلام اور ان کے معصوم گیارہ بیٹےعلیہم السلام ہیں جو امت کے ہادی ہیں۔ اس مطلب کے اثبات کیلئے ڈاکٹر تیجانی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام بھی یہی رکھا ہے کہ "کونو ا مع الصادقین” یعنی صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس کتاب نے اکثر مسلمانوں پر عجیب اثر چھوڑاہے۔
۵۔ آیہ قربیٰ
"قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"۔(17) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔
شان نزول
حاکم حسکانی جو پانچویں صدی ہجری کے مشہور دانشمند ہیں، اپنی کتاب "شواہدالتنزیل” میں سعید ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں "لما نزلت قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی قالوا یا رسول اللّٰه من هولاء الذینامرنا اللّٰه بمودتهم! قال: علی و فاطمة و ولدهما۔”
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)سے پوچھا وہ کون ہیں جن کے ساتھ ہمیں محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے فرمایا وہ حضرت علی (علیہ السلام)، حضرت فاطمہ(علیہا السلام)، حضرت حسن(علیہ السلام)، حضرت حسین(علیہ السلام) ہیں۔(18)
حوالہ جات
1)۔مختصرتاریخ دمشق،ج18،ص11
2)۔نہج البلاغہ،صبحی صالح،خطبہ167
3)۔خطبہ176
4)۔الواقعہ،آیہ79
5)۔اس بارے میں شواہد التنزیل میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے جو بتاتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کا نام قرآ ن میں کیوں نہیں آیا؟ ابو بصیر امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ میں نے اس آیت کے بارے میں سوال کیا ؟ امام نے فرمایا اس سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔ میں نے سوال کیا لوگ پوچھتے ہیں امام علی علیہ السلام ا ور آئمہ علیہم السلام کا نام قرآن میں کیوں نہیں آیا؟ امام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز کا حکم دیا ہے لیکن رکعتیں نہیں بتائیں۔ مسلمانوں کو حج کا حکم دیا طواف کعبہ کی تعداد نہیں بتائی کہ وہ سات بار ہے اس لئے تاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی تفسیر کریں۔ یہاں بھی اسی طرح ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺنے فرمایا میں تم لوگوں کو قرآن اور اہلبیت علیہم السلام کی وصیت کرتا ہوں ۔ (شواہدالتنزیل،ج1،ص148)
6)۔المائدہ،آیہ67
7)۔اہلسنت کے معتبر منابع میں سے ۲۰ سے زائد کتابوں میں اس آیت کا امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا ذکر ہے جن کا عنوان خلیفہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حاکم نے شواہدالتنزیل میں، سیوطی نے الدرمنثور میں، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں، رشید رضا نے المنار میں مزید اس بارے میں رجوع کریں۔ (الغدیر،ج1،ص223 – 214، کونو مع الصادقین،تیجانی،ص51 و 52)
8)۔پیام قرآن سے خلاصہ،ج9،ص187 – 184
9)۔المائدہ،آیہ55
10)۔الغدیر،علامہ امینی،ج2،ص53 و 52؛کونو ا مع الصادقین،تیجانی،ص47 – 46
11)۔الدرالمنثور،ج2،ص293
12)۔شواہدالتنزیل،ج1،ص148، اس بات کو ذکر کرنا ضروری ہے کہ تمام تفسیروں میں سے شواہد التنزیل ایسی تفسیر ہے جو کامل تر ہے اور اس میں شان نزول تفصیلاً بیان ہوا ہے اس لئے ہم اکثر اس تفسیر کا حوالہ دیتے ہیں۔
13)۔تفسیربرہان،ج1،ص381 تا 387
14)۔التوبہ،آیہ 119
15)۔المیزان،ج9،ص408 درالمنثور سے نقل کیا ہے۔
16)۔اس سے زیادہ معلومات کیلئے رجوع کریں: احقاق ا لحق،ج14،ص274 و 275؛والغدیر،ج2،ص277
17)۔الشوریٰ،آیہ23
18)۔الشوریٰ،،آیہ33
https://erfan.ir/urdu/84427.html