محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

فضائل حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کتاب ” فاطمہ زھرا (س)اسلام کی مثالی خاتون” سے اقتباس

مؤلف: آیت اللہ ابراھیم امینی
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ بہترین عورتیں چار ہیں، مریم دختر عمران، فاطمہ (ع) دختر محمد(ص) ، خدیجہ بنت خویلد، آسیہ زوجہ فرعون ۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۷۶)
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ بہشت کی عورتوں میں سے بہترین عورت فاطمہ (ع) ہیں۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۷۶)
جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، عرش سے اللہ کا منادی ندا دے گا، لوگو اپنی آنکھیں بند کر لو تا کہ فاطمہ (ع) پل صراط سے گزر جائیں۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۳، ذخائز العقبی ، ص ۴۸)
پیغمبراکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ خدا تیرے واسطے سے غضب کرتا ہے اور تیری خوشنودی کے ذریعہ خوشنود ہوتا ہے۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۴)
جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسی کو جناب فاطمہ (ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹)
امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم، اللہ نے فاطمہ (ع) کو علم کے وسیلہ سے فساد اور برائیوں سے محفوظ رکھا ہے ۔( کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے جناب فاطمہ (ع) اللہ تعالی کے یہاں نوناموں سے یاد کی جاتی ہے_ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا، فاطمہ (ع) کے نام رکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے محفوظ اور معصوم ہیں، اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۹)
جناب امام محمد باقر(ع) سے پوچھا گیا کہ جناب فاطمہ (ع) کا نام زہراء کیوں رکھا گیا؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ خدا نے آپ کو اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے آپ کے نور سے زمین اور آسمان اتنے روشن ہوئے کہ ملائکہ اس نور سے متاثر ہوئے اور وہ اللہ کے لئے سجدہ میںگر گئے اور عرض کی خدایا یہ کس کا نور ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میری عظمت کے نور سے ایک شعلہ ہے کہ جسے میں نے پیدا کیا ہے اور اسے آسمان پر سکونت دی ہے اسے پیغمبروں میں سے بہترین پیغمبر(ص) کے صلب سے پیدا کروں گا اور اسی نور سے دین کے امام اور پیشوا پیدا کروں گا تا کہ لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کریں وہ پیغمبر(ص) کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۰)
پیغمبراکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا بیٹی خداوند عالم نے دینا کی طرف پہلی دفعہ توجہ اورمجھے تمام مردوں پرچنا، دوسری مرتبہ اس کی طرف توجہ کی تو تمہارے شوہر علی(ع) کو تمام لوگوں پر چنا، تیسری مرتبہ اس کی طرف توجہ کی تو تمہیں تمام عالم کی عورتوں پر برتری اور فضیلت دی، چوتھی مرتبہ توجہ کی تو حسن (ع) اور حسین (ع) کو جنت کے جوانوں پر امتیاز دیا۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ا۹)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہشت چہار عورتوں کے دیکھنے کی مشتاق ہے ، پہلے مریم دختر عمران، دوسری آسیہ فرعون کی بیوی ، تیسری خدیجہ دختر خویلد ، چہوتھی فاطمہ (ع) دختر محمد (ص) (کشف الغمہ، ج ۲ ص 92)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اس کی اذیت میری اذیت ہے اور اس کی خوشنودی میری خوشنودی ہے ۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص 93)
پیغمبر اکرم (ص) نے اس حالت میں جب کے فاطمہ (ع) ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فرمایا جو شخص اسی پہچانتا ہے تو وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ یہ فاطمہ(ع) پیغمبر (ص) کی دختر ہے اور میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میرا دل اور روح ہے جو شخص اسے ذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جوشخص مجھے اذیت دے گا اس نے خدا کو اذیت دی ہے۔ (کشف الغمہ ، ج ۲ ص ۹۲)
جناب ام سلمہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شباہت پیغمبر اسلام (ص) سے جناب فاطمہ (ع) کو تھی۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۷)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) انسانوں کی شکل میں جنت کی حور ہیں۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۵۳)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۴۳ ص ۴۴)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) کا نام فاطمہ (ع) اس لئے رکھا گیا ہے کہ لوگوں کو آپ کی حقیقت کے درک کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۶۵)
پیغمبر(ص) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن و حسین کو ایک نور سے پیدا کیا ہے۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۱)
ابن عباس فرماتے ہیںکہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ وہ کلمات کہ جو اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو بتلائے اور ان کی وجہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی وہ کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کہ جناب آدم نے خدا کو محمد(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے حق کی قسم دی اسی وجہ سے آپ کی توبہ قبول ہوئی۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۱)
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا اگر علی نہ ہو تے تو جناب فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا۔ (کشف الغمہ، ج ۲ ص ۹۸)
پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ جب میں معراج پر گیا تو بہشت کی سیر کی میں نے جناب فاطمہ (ع) کا محل دیکھا جس میں ستر قصر تھے کہ جو لولو اور مرجان سے بنانے گئے تھے۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۷۶)
پیغمبراکرم (ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ جانتی ہو کہ کیوں تیرا نام فاطمہ (ع) رکھا گیا ہے؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ (ص) کیوں فاطمہ (ع) نام رکھا گیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا چوں کہ آپ اور اس کے پیروکار دوزخ کی آگ سے امان میں ہیں۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۴)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ (ع) کو زیادہ بوسہ دیا کرتے تھے ایک روز جناب عائشےہ نے اعتراض کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے جواب میں فرمایا جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں بہشت میں داخل ہوا، جبرئیل مجھے طوبی کے درخت کے نزدیک لے گئے اور اس کا میوہ مجھے دیا میں نے اس کو کھایا تو اس سے نطفہ وجود میں آیا، جب میں زمین پر آیا اور جناب خدیجہ(ع) سے ہمبستر ہوا تو اس سے جناب فاطمہ (ع) کا حمل ٹھہرا یہی وجہ ہے کہ جب میں فاطمہ (ع) کو بوسہ دیتا ہوں تو درخت طوبی کی خوشبو میرے شام میں پہنچتی ہے۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۶)
ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن علی (ع) اورفاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) پیغمبر(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توپیغمبر(ص) نے فرمایا اے خدا مجھے علم ہے کہ یہ میرے اہلبیت ہیں اور میرے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھ ان کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما انہیں تمام برائیوں سے پاک رکھ اور تمام گناہوں سے محفوظ رکھ روح القدس کے ذریعے ان کی تائید فرما اس کے بعد آپ نے فرمایا، یا علی (ع) تم اس امت کے امام اور میرے جانشین ہو اور مومنین کو بہشت کی طرف ہدایت کرنے والے ہو، گویا میں اپنی بیٹی کو دیکھ رہا ہوں کہ قیامت کے دن ایک نورانی سواری پرسوارہے کہ جس کے دائیں جانب ستر ہزار فرشتے اور بائیں جانب ستر ہزار فرشتے اس کے آگے ستر ہزار فرشتے اور اس کے نیچے ستر ہزار فرشتے چل رہے ہیں اور تم میری امت کی عورتوں کو بہشت میں لئے جا رہی ہو پس جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے خانہ کعبہ کا حج بجالائے اور اپنے مال کو زکوة ادا کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے اور علی ابن ابیطالب کو دوست رکھتی ہو وہ جناب فاطمہ (ع) کی شفاعت سے بہشت میں داخل ہوگی، فاطمہ (ع) دنیا کی عورتوں میں سے بہترین عورت ہے_
عرض کیا گیا یا رسول اللہ (ص) فاطمہ (ع) اپنے زمانے کی عورتوں سے بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو جناب مریم ہیں کہ جو اپنے زمانے کی عورتوں سے بہتر ہیں، میری بیٹی فاطمہ (ع) تو پچھلی اور ا گلی عورتوں سے بہتر ہے، جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اللہ تعالی کے ستر ہزار مقرب فرشتے اسے سلام کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اے فاطمہ (ع) اللہ نے تجھے چنا ہے اور پاکیزہ کیا ہے اور تمام عالم کی عورتوں پرتجھے برتری دی ہے_
اس کے بعد آپ علی (ع) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یاعلی (ع) ، فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میری آنکھوں کا نور اور دل کا میوہ ہے جو بھی اسے تکلیف دے اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اسے خشنود کیااس نے مجھے خوشنود کیا فاطمہ (ع) پہلی شخصیت ہیں جو مجھ سے ملاقات کریں گی میرے بعد اس سے نیکی کرنا، حسن (ع) اور حسین (ع) میرے فرزند ہیں اور میرے پھول ہیں اور جنت کے جوانوں سے بہتر ہیں انہیں بھی آپ آنکھ اور کان کی طرح محرّم شمار کریں_
اس کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ میں ان کے دوستون کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں۔( بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴)
فاطمہ زھرا (س) کا علم و دانش
عمار کہتے ہیں ایک دن حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) آپ میرے نزدیک آئیں تا کہ میں آپ کوگزشتہ اور آئندہ کے حالات بتلاؤں، حضرت علی (ع) ، فاطمہ (ع) کی اس گفتگو سے حیرت میں پڑ گئے اور پیغمبر (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور سلام کیا اور آپ کے نزدیک جا بیٹھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آپ بات شروع کریں گے یا میں کچھ کہوں؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی کہ میں آپ کے فرمان سے استفادہ کرنے کو دوست رکھتا ہوں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا گویا آپ سے فاطمہ (ع) نے یہ کہا ہے اور اسی وجہ سے تم نے میری طرف مراجعت کی ہے_ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) کیا فاطمہ (ع) کا نور بھی ہمارے نور سے ہے_ پیغمبر(ص) نے فرمایا کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ حضرت علی (ع) یہ بات
سن کر سجدہ شکر میں گر گئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا_
اس کے بعد جناب فاطمہ (ع) کے پاس لوٹ آئے۔حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) گویا میرے بابا کے پاس گئے تھے اور آپ(ص) نے یہ فرمایا؟ آپ نے فرمایا ہاں اے دختر پیغمبر (ص)۔ فاطمہ (ع) نے فرمایا ، اے ابوالحسن (ع) خداوند عالم نے میرے نور کو پیدا کیا اور وہ اللہ تعالی کی تسبیح کرتا تھا اس وقت اللہ تعالی نے اس نور کو بہشت کے ایک درخت میں ودیعت رکھ دیا میرے والد بہشت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالی نے آپ کو حکم یا کہ اس درخت کامیوہ تناول کریں، میرے والد نے اس درخت کے میوے تنال فرمائے اسی ذریعہ سے میرا تور آپ(ص) کے صلب میں منتقل ہوگیا اورمیرے بابا کے صلب سے میری ماں کے رحم میں وارد ہوا_ یا علی (ع) میں اسی نور سے ہوں اور گزشتہ اور آئندہ کے حالات اور واقعات کو اس نور کے ذریعہ پالیتی ہوں_ یا ابالحسن، مومن نور کے واسطے سے خدا کو دیکھتا ہے۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت فاطمہ (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی کہ میری ماں عاجز ہے اسے نماز کے بارے میں بعض مشکل مسائل در پیش ہیںمجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ میںآپ سے سوال کروں، اس نے مسئلہ پیش کیا اور جناب فاطمہ (ع) نے اس کا جواب دیا اس عورت نے دوسری دفعہ دوسرا مسئلہ پوچھا جناب فاطمہ (ع) نے اس کا بھی جواب دیا، اس عورت نے تیسری دفعہ پھر تیسرا مسئلہ پوچھا اور اسی طرح آپ سے دس مسئلے پوچھے اور حضرت زہرا (ع) نے سب کے جواب دیئے اس کے بعد وہ عورت زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے شرمسار ہوئی اور عرض کی، دختر رسول(ص) اب اور میں مزاحم نہیں ہوتی آپ تھک گئی ہیں، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا شرم نہ کر جو بھی سوال ہو پوچھو تا کہ میں اس کا جواب دوں_ میں تیرے سوالوں سے نہیں تھکتی بلکہ کمال محبت سے جوال دوں گی اگر کسی کو زیادہ بوجھ چھت تک اٹھا کرلے جانے کے لئے اجرت پر لیا جائے اور وہ اس کے عوض ایک لاکھ دینار اجرت لے تو کیا وہ بارے کے اٹھانے سے تھکے گا؟ اس عورت نے جواب دیا نہیں، کیوں کہ اس نے اس بار کے اٹھانے کی زیادہ مزدورں وصول کی ہے حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ خدا ہر ایک مسئلے کے جواب میں اتنا ثواب عنایت فرماتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے کہ زمین اور آسمان کو مروارید سے پر کر دیا جائے تو کیااس کے باوجود میںمسئلے کے جواب دینے میں تھکوں گی_
میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ میرے شیعوں کے علماء قیامت میں محشور ہوں گے اور خدا ان کے علم کی مقدار اور لوگوں کو ہدایت اور ارشاد کرنے میں کوشش اور جد و جہد کے مطابق خلعت اور ثواب عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کو دس لاکھ حلے نور کے عطا فرمائے گا اور اس کے بعد حق کامنادی ندا دے گا، اے وہ لوگو کو جنہوں نے آل محمد(ص) کے یتیموں کی کفالت کی ہے، اور اس زمانے میں کہ ان کے امام کا سلسلہ ان سے منقطع ہوچکا تھا یہ لوگ تمہارے شاگرد تھے اور وہ یتیم ہیں کہ جو تمہاری کفالت کے ماتحت اپنی دینداری پر باقی رہے ہیں اور ارشاد اورہدایت کرتے رہے ہیں، جتنی مقدار انہوں نے تمہارے علوم سے استفادہ کیا ہے ان کو بھی خلعت دو اس وقت میری امت کے علماء اپنے پیروکاروں کو خلعت عطا فرمائیں گے، پھر وہ پیروکار اور شاگرد اپنے شاگروں کو خلعت دیں گے، جب لوگوں میں خلعت تقسیم ہوچکے گی تو اللہ کی طرف سے دستور دیا جائے گا جو خلعت علماء نے تقسیم کی ہیں ان کو مکمل کیا جائے یہاں تک کہ سابقہ تعداد کے برابر ہوجائے، پھر دستور ملے گا کہ اسے دوبرابر کردو اور اس طرح ان کے پیروکاروں کو بھی اسی طرح دو۔
اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا: اے کنیز خدا اس خلعت کا ایک دھاگا ہزار درجہ اس چیز سے بہتر ہوگا جس پر سورج چمکتا ہے اس لئے کہ دنیاوی امور مصیبت اور کدورت سے آلودہ ہوتے ہیں، لیکن اخروی نعمات میںکوئی نقص اور عیب نہیں ہوتا۔ (بحار الانوار، ج ۲ ص ۳)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو عورتیں کہ ان میں سے ایک مومن اور دوسری معاند اور دشمن تھی، ایک دینی مطلب میں آپس میں اختلاف رکھتی تھیں اس اختلاف کے حل کرنے کے لئے جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے مطلب کو بتلایا چونکہ حق مومن عورت کے ساتھ تھا تو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی گفتگو اور دلائل اور برہان سے اس کی تائید کی اور اس ذریعے سے اس پر فتح مند کردیا اور وہ مومن عورت اس کامیابی سے خوشحال ہوگئی_ جناب فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت سے فرمایا کہ اللہ تعالی کے فرشتے تجھ سے زیادہ خوشحال ہوئے ہیں اور شیطان اور اس کے پیروکاروں پرغم و اندوہ اس سے زیادہ ہوا ہے جو اس معاند اوردشمن عورت پر وارد ہوا ہے۔
اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا اس وجہ سے خدا نے فرشتوں سے فرمایا ہے کہ اس خدمت کے عوض جو فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت کے لئے انجام دی ہے، بہشت اور بہشتی نعمتوں کو اس سے جو پہلے سے مقرر تھیں کئی ہزار گناہ مقرر کردیا جائے اور یہی روش اور سنت اس عالم کے بارے میں بھی جاری کی جاتی ہے جو اپنے علم سے کسی مومن کو کسی معاند پر فتح دلاتا ہے اور اس کے ثواب کو اللہ تعالی کئی کئی ہزار برابر مقرر کردیتا ہے۔( بحار الانوار، ج ۲ ص ۸)
فاطمہ زھرا (س) کا ایمان اور عبادت
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی کا ایمان فاطمہ (ع) کے دل کی گہرائیوں اور روح کے اندر اتنا نفوذ کر چکا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے لئے اپنے آپ کو ہر ایک چیز سے مستغنی کرلیتی ہیں۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۶)
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری والدہ شب جمعہ صبح تک اللہ تعالی کی عبادت میںمشغول رہتی تھیں اور متواتر رکوع اور سجود بجالاتی تھیں یہاں تک کہ صبح نمودار ہوجاتی میں نے سنا کہ آپ مومنین کے لئے نام بنام دعا کر رہی ہیں لیکن وہ اپنے لئے دعا نہیں کرتی تھیں میں نے عرض کی امّاں جان: کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتیں؟ آپ(ع) نے فرمایا پہلے ہمسائے اور پھر خود”۔ (کشف الغمہ،ج ۲ ص ۱۴ و دلائل الامامہ، ص ۵۲)
امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والی تھیں اللہ تعالی کی عبادت میں اتنا کھڑی رہتیں کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص۷۶)
پیغمبر اکرم(ص) فرماتے تھے کہ میری بیٹی فاطمہ عالم کی عورتوں سے بہترین عورت ہیں، میرے جسم کا ٹکڑا ہیں، میری آنکھوں کا نور، دل کا میوہ اور میری روح رواں ہیں، انسان کی شکل میںحور ہیں، جب عبادت کے لئے محراب میں کھڑی ہوتیں تو آپ کا نور فرشتوں میں چمکتا تھا، خداوند عالم نے ملائکہ کوخطاب کیا کہ میری کنیز کو دیکھو میرے مقابل نماز کے لئے کھڑی ہے اور اس کے اعضاء میرے خوف سے لرز رہے ہیں اور میری عبادت میں فرق ہے، ملائکہ گواہ ہو میں نے فاطمہ (ع) کے پیروکاروں کو دوزخ کی اگ سے مامون قرار دے دیا ہے۔ (بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۷۲)
البتہ جو شخص قرآن کے نزول کے مرکز میں پیدا ہو اور روحی کے دامن میں رشد پایا اورغور کیا ہو اور دن رات اس کے کان قرآن کی آواز سے آشنا ہوں اور محمد(ع) جیسے باپ کی تربیت میں رہا ہو کہ آنجناب اس قدر اللہ تعالی کی عبادت کرتے کہ آپ کے پائے مبارک ورم کرجاتے تھے اور علی جیسے شوہر کے گھر رہی ہو تو اسے اہل زمان کے افراد سے عابدترین انسان ہونا ہی چاہیئےسے عبادت میںاتنا بلند مقام رکھنا چاہیئے اور ایمان اس کی روح کی گہرائیوں میں سماجانا چاہیئے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button