خلافت امیر المومنینؑ سے انحراف کے علل واسباب (حصہ اول)

مقالہ نگار: جعفر علی سبحانی
چکیدہ
حضرت علیؑ سے مسلمانوں نے اس وقت مخالفت کی جب انہیں معلوم ہوا کہ اب علیؑ دین کو بچانے کیلئے تلوار نہیں نکالیں گے ورنہ پورے عرب میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ علیؑ کا مقابلہ کرے۔ علیؑ اس وقت صرف دین کی فکر میں تھے، اور دین کو بچانے کیلئے علیؑ کو اگر اپنے اہل و عیال کو بھی قربان کرناپڑے تب بھی تیارتھے اسلئے مسلمانوں میں جرات آئی اور خلافت علیؑ سے منحرف ہوگئے اور اس انحراف کی بہت ساری وجوہات ہیں ان میں سے ایک بنیادی وجہ دنیاکی محبت تھی جب انہیں معلوم ہوگیا کہ حضرت علیؑ اپنے دین کو دوسروں کی ہواو ہوس اور نفسیاتی خواہشات پر قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو سب ایک ہوکر آپ کی مخالفت پرکمربستہ ہوگئے جبکہ حضرت علیؑ خود اپنی ذات کیلئے لذت اور جاہ و مقام کے طلبگارنہیں تھےتو دوسروں کی خاطراپنے دین کو کیسے قربان کرسکتے تھے۔
کلیدی کلمات: حضر ت علیؑ، خلافت، انحراف، مخالفت
مقدمہ
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
الحمد اللّٰهِ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ غوص الْفِطَنِ، الْاَوَّلُ الَّذِیْ لَا غَایَةَ لَهٗ فَیَنْتَهِیَ، وَ لَاۤ اٰخِرَ لَهٗ فَیَنْقَضِیَ ثم قال علیہ السلام فی مقام آخر:اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اَحَقَّ النَّاسِ بِهٰذَا الْاَمْرِ اَقْوَاهُمْ عَلَیْهِ، وَ اَعْلَمُهُمْ بِاَمْرِ اللهِ فِیْهِ، فَاِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ، فَاِنْ اَبٰی قُوْتِلَ۔
اے لوگو! تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس کی سب سے زیادہ قوت و صلاحیت رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے تو پہلے اسے توبہ و بازگشت کیلئے کہا جائے گا۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ و جدال کیا جائے گا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نصوص کثرت سے موجود ہیں کہ میرے بعد امام اور خلیفہ کون ہو گا؟یہ نصوص دعوت ذو العشیرہ سے لے کر حضرت رسول اکرم ﷺ کی زندگی کے آخری لمحات تک موجود ہیں۔ یہاں ہم اجمالی طورصرف چند آیات و روایات کے عربی متن کامختصر جائزہ لیتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ آیات و روایات میں حقیقی خلیفہ کس کو کہا ہے؟ اور مسلمان کس طرف جارہےہیں؟
دعوت ذ والعشیرہ:حضرت رسول اکرم ﷺنے فرمایا: اِن ھذا اٴخی، ووصیی وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ و اٴطیعوا ( السبحانی شیخ جعفر کتاب بحوث فی الملل والنحل ج ۴۴ ص ۶۲)
حدیث منزلت: حضرت رسول اکرم ﷺنے فرمایا:اٴماترضیٰ اٴن تکونَ منی بمنزلة ھارون من موسیٰ اِلاّ اٴنہ لا نبی بعدی اِنّہ لا ینبغی اٴن اٴذھب اِلاّ و انتَ خلیفتی اِلاّ اٴنہ لا نبّی بعدی۔ ۔۔( البخاری امام حافظ ابی عبد اللہ محمد بن اسماعیل باب مناقب علی بن ابی طالب ص ۳۰۳ ناشر دار السلام للنشرو التوزیع و مکتبُۃ الکوثر)
یہاں جو استثنا پایا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے جتنے مناقب تھے نبوت کے علاوہ وہ سب حضرت علی علیہ السلام کی ذات اقدس میں موجود ہیں۔
حد یث غد یر: حضرت رسول اکرم ﷺنے فرمایا: یا اٴیھاالناس اِن اللّٰہ مولاٴی واٴنا مولیٰ المؤمنین واٴنا اٴولیٰ بھم من اٴنفسھم فمن کنت مولاہ فھذا یعنی علیا۔مولاہ اللّٰھم وال من والاہ وعا د من عاداہ ۔ ۔۔( ابن حجرکتاب الصواعق المحرقہ ص ۴۳)
حدیث ثقلین: حضرت رسول خدا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:اِنی اوشک اٴن اُدعیٰ فاجیب،واِنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ عزوجل وعترتی،کتاب اللّٰہ حبل ممدود من السماء اِلی الارض وعترتی اَھل بیتی۔واِنّ اللطیف الخبیر اٴخبرنی اٴنّھما لن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض فانظروا کیف تخلّفونی فیھما۔( الحنبل مسند امام احمد بن حنبل ج ۳ ص ۱۷ ناشر موسسۃ الرسالۃبیروت لبنان)
حد یث سفینہ:حضرت رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتےہوئے سنا ہے:اٴلا اِنّ مثل اٴھل بیتی فیکم مثل سفینة نو ح فی قومہ مَن رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق۔ (المستدرک علی الصحیحین ج ۳ص۱۵۱ )
حدیث امان:حاکم، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہاکہ حضرت رسول اعظمﷺنے ارشاد فرمایا:النجومَ اٴمانٌ لاٴھلِ الارضِ من الغرق و اٴھلِ بیتیِ اٴمان لاٴمتی من اِلاختلاف فا ذا خالفتھا قبیلة من العرب اختلفوا فصاروا حزب اٴبلیس۔(المستدرک علی الصحیحین ج ۳ص۱۵۱)
قارئین کرام! ہم نے یہ چند ایک قطعی نصوص اور روایات نقل کی ہیں جو کہ حضرت رسول اکرم ﷺکی زبان مبارک سے بیان ہوئی ہیں اور جس طرح آپ نے ملاحظہ کیا کہ ان کو کتب اہلسنت نے بھی بیان کیا ہے۔ اب اس خاندان عصمت کے حق میں نازل شدہ چند آیات کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں حق تعالیٰ نے ان کی شان میں نازل کیا ہیں:
۱۔آیت ولایت: إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللّٰهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ۔ ۔۔( القرآن ۵ /۵۵ )
تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت علی ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
۲۔آیت تطہیر: إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا۔ ۔۔( القرآن ۳۳/ ۳۳)
اس آیت کے متعلق مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت امام علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اورحضرت امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
۳۔آیت مباہلہ: فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللّٰهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ۔۔۔(القرآن،۳ / ۶۱)
تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ پو ری دنیا سے حضرت رسول اکرمﷺکے ساتھ کوئی بھی مباہلہ کے لئے نہیں نکلا تھا مگر بیٹوں کی جگہ حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ تھے اور نساء کی نمائندگی حضرت جنا ب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہانے کی اور نفس رسول فقط حضرت علیؑ تھے۔ آپ لوگ اس آیت میں غور و فکر کریں۔
۴۔آیت اکمال د ین اور اتمام نعمت: الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا۔ ۔۔( القرآن ۵/ ۳)
حضرت رسول اعظم ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: اللّٰہ اٴکبرعلیٰ اکمال اِلدین و اتمام النعمہ و رضا الربْ برسالتی و الولا یةَ لعلی من بعدی۔
یہ سننے کے بعد لوگ جو ق درجوق حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی خدمت میں جا کر تہنیت و مبارک باد عرض کرنے لگے۔ صحابہ کرام میں سب سے پہلے مبارکباد دینے والے شیخین تھے۔ یعنی حضرت عمر اور حضرت ابو بکر اور ان کامبارک باد دینے کا انداز یہ تھا:
بخٍ بخٍ لکَ یا بنِ اٴبی طالب اٴصبحت مولای و مولیٰ کل موٴمن و موٴمنة۔ ۔۔( سبحانی شیخ جعفر کتاب الھٰیات ج ۲ ص ۵۸۶)
۵۔آیت مود ت:قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی۔ ( القرآن ۴۲/ ۲۳ )
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا ؟ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے وہ قریبی رشتہ دار کون ہیں جن کی محبت و مودت کو ہم پر واجب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا:وہ علیؑ فاطمہؑ اور ان کے دو بیٹے ہیں۔
ان تما م آیات و روایات کو دیکھ کریقین ہوناچاہیے تھاکہ نبی ﷺ کے بعد خلیفہ و جانشین حضرت علی بن ابی طالبؑ ہیں لیکن مسلمان کونسی چیزوں کی وجہ سے خلافت امیرالمومنین سے انحراف ہوئے؟ ان شااللہ ہم اس مختصر مقالے میں کچھ علل و اسباب بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علوم دینیہ کو صحیح معنوں میں سمجھ کراس پرعمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔
حضرت علیؑ کے خلافت سےانحراف کے علل واسباب
حدیث قرطاس اولین سبب ہے۔
واقعہ قرطاس تاریخ اسلام کا بدترین سانحہ ہے اور اس میں کلمہ پڑھنے والوں نے اپنے پیغمبر کو زندگی کے آخری لمحات میں اذیت دی تھی اور آپ کے دماغ پر سوالیہ نشان عائد کرتے ہوئے آپ کے فرمان کی اس حد تک بے توقیری کی کہ آپ کے فرمان کو ہذیان کہا گیا جبکہ
رسول خدا ﷺ کے متعلق خدا کا فرمان ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
رسول خدا کبھی بھی اپنی خواہش سے گفتگو نہیں کرتا وہ تو بس وہی کہتا ہے جو وحی کہتی ہے۔ رسول خدا ﷺکی زندگی کے آخری لمحات تھے۔ آپ ﷺنے اپنے حجرہ میں موجود افراد سے فرمایا:میرے پاس لکھائی کا سامان لاؤ تا کہ میں تمھارے لیے ایسی دستاویز تحریر کروں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہو ں گے۔
اگر رسول اکرم ﷺکے بجائے کوئی عام شخص بھی اسی طرح کی خواہش کا اظہار کرتا تو بھی لوگ اُسے لکھائی کا سامان فراہم کر دیتے لیکن یہاں دیکھ کر انسان کو حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ نے رسول اکرمﷺ کی اس خواہش کو پورا نہیں ہونے دیا اور ان کی طرف سے اس مزاحمت کے اسباب سے بھی ہر باشعور انسان واقف ہے کہ خلیفہ دوم نے رسول خدا کی مخالفت کیوں کی یاکونسا ایسا سبب تھا جس کی وجہ سے اس عظیم ہستی کی مخالفت کی۔
روایات بیان کرتی ہیں کہ یہ حضرت اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کی پارٹی کے اور افراد بھی موجود تھے جنھوں نے فرمانِ پیغمبرﷺ سن کر خوب شور شرابہ برپا کیا تھا اور پیغمبراکرامﷺ کی آخری خواہش کو پورا نہیں ہونے دیا تھا۔ ہمیں مکتب خلافت کے کچھ خواہوں پر تعجب ہوتا ہے جنھوں نے حضرت عمر کی اس حرکت کو اُن کی ولایت کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک صاحب نے یہ لکھا کہ حضرت عمر نےپیغمبر اکرمﷺ کو وصیت نہیں لکھنے دی تھی۔ ان کا یہ فعل ان کی فقہ اور اُن کے فضائل اور دقیق نظری پر مبنی تھا۔
انھیں یہ خوف تھا کہ عین ممکن ہے کہ رسول خدا آخری لمحات میں ایسا کچھ لکھا دیں جس پر اُمت کے افراد عمل نہ کر سکیں اور نافرمانی کی وجہ سے گناہ گار قرار پائیں اور مستحق عقوبت ٹھہریں کیونکہ اگر نبی اکرم ﷺ سے حکم کی تحریر آجاتی تو پھر وہ منصوص ہوتی اور اُمت کے پاس اجتہاد کا جو دروازہ تھا وہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا۔ ۔۔( نووی شرح صحیح مسلم نووی، جلد ۱ص ۹۹، بر حاشیه، حدیث ۱۶۳۷)
خدا جانے کہ نووی نے یہ کیوں لکھ ڈالا جبکہ رسول کہہ رہے ہیں کہ میں ایسی دستاویز لکھنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے تم گمراہی سے بچ جاؤ گے۔ مگر نووی اور اس کے قبیل کے علماء یہ تاثر دے رہے ہیں کہ رسول کا وصیت نامہ عذاب کا سبب بنتا تھا۔ اور یہ حضرت عمر کی فقہ اور دقیق نظری تھی کہ اُمت کو اس سے بچا لیا تھا۔
افسوس کا مقام ہیں کہ یہاں ” إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى” ہستی کی رائے اور ہے اور خلیفہ ثانی کی رائے اور ہے مگر اس میں خلیفہ کی رائے کو صائب قرار دیا جا رہا ہے۔( شہری رئیس المحقیقین علامہ محمد الری کتاب انسائیکلوپیڈیا امام علیؑ ج ۱ ص۱۶۰)
رحلت رسول خدا کو جھٹلانا
تاریخ شاہد ہے کہ حضرت علیؑ دعوت اسلام کے آغاز سے لے کر زمانہ اختتام تک اسلام کی خدمت و نصرت پر کمر بستہ رہے اور پیغمبر اکرم ﷺ انہی کے ذریعہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی حفاظت کا سامان کرنا چاہتے تھے جس کا اعلان دعوت ذ و العشیرہ سے لے کر حجۃ الوداع تک اور حجۃ الوداع سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک مختلف طریقوں سے کرتے رہے۔ اس بنا پر صحابہ کرام اور مہاجر ین و انصار میں سے کسی کو اس میں ذرہ برابر شبہ نہیں تھا کہ حضرت علیؑ ہی مسند خلافت پر متمکن ہوں گے۔
ابن ابی الحدید تحریر کرتے ہیں:
وَكَانَ عَامَّةُ الْمُهَاجِرِينَ وَجُلُّ الْأَنْصَارِ لَا يَشْكُونَ أَنَّ عَلِيًّا هُوَ صَاحِبُ الْأَمْرِ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰهِ
مہاجرین اور انصار کی اکثریت کو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں تھا کہ پیغمبر کےبعد علی ولی امر ہوں گے۔ (شرح نہج البلاغه ابن ابی الحدید، ج ۶ ص ۲۱)
اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ایک گروہ نبوت و خلافت کو ایک ہی گھر میں دیکھنا پسندنہیں کرتے تھے۔ اس ناپسندیدگی کی وجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ خود اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے پیغمبر اکرم ﷺکی زندگی میں ہی اقتدار کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی اور ہر اس کارروائی کے آگے دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جو ان کے مقاصد کی تکمیل میں حائل ہو سکتی تھی۔جب پیغمبر اکرم ﷺ بستر مرگ پر قلم و دوات طلب کرتے ہیں تو ہنگامہ کھڑا کر کے انہیں وصیت نامہ لکھنے نہیں دیا جاتا تاکہ علی کی نیابت کے متعلق تحریری دستاویز نہ چھوڑ جائیں۔ پھر انہی ایام میں ایک ایک کو حکم دیتے ہیں کہ وہ لشکر اسامہ میں شریک ہو کر یہاں سے چلے جائیں مگر اسے عملاً مسترد کردیا جاتا ہے تاکہ انکی عدم موجودگی کی وجہ سے خلافت کسی اور کی طرف منتقل نہ ہوجائے اور جب پیغمبراکرم ﷺ دنیا سے رحلت فرماتے ہیں تو اس خطرہ کا انسداد ضروری تھا کہ کہیں اندر ہی اندر علیؑ کی بیعت کی تکمیل نہ ہوجائے اور ایسا ہو بھی جاتا اگر امیر المومنینؑ یہ گوارا کرلیتےکہ پیغمبر اکرم ﷺکے غسل و کفن سے پہلے بیعت ہو جائے مگر ان کی حمیت آڑے آئی اور انہوں نے اسے گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ بلاذری نے لکھا ہے۔
لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰهِ، أَخْرُجُ حَتَّى أَبَايِعَكَ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ،لِعَلَا يَخْتَلِفَ عَلَيْكَ اثْنَانِ فَأَبيٰ وَقَالَ،أَوْ مِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِحَقِّنَا وَيَسْتَبدُ عَلَيْنَا؟ فَقَالَ الْعَبَّاسُ،سَتَرى أَنَّ ذَلِكَ سَيَكُونُ
جب رسول خدا رحلت فرما گئے تو ابن عباس نے کہا کہ اے علی ؟ ! باہر نکلے میں لوگوں کے روبرو آپ کی بیعت کرو ں گا تا کہ آپ کے بارے میں کوئی اختلاف نہ کرے مگر علیؑ نے انکار کیا اور کہا کہ کون ہمارے حق سےانکار کرسکتا ہے اور کون ہم پر مسلط ہوسکتا ہے۔ابن عباس نے کہا کہ پھر دیکھ لیجیے گا کہ ایسا ہو کر رہے گا۔( مفتی جعفرحسین انساب الاشراف ج ۱ ص ۵۸۳ بحوالہ سیرت امیرالومنینؑ ج ۱ ص ۴۰۷ ناشر دار التحقیق پاکستان اسلام آباد )
حضرت عمر جو اس گروہ کے ایک فرد تھے جو نبوت و خلافت کو ایک گھر میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ بیعت کی یہ تحریک کہیں عملی صورت اختیار نہ کرلے اسلئے وہ اس تحریک کو ابھر نے سے پہلے ہی دبا دینا چاہتا تھا، اس وقت کوئی اور تدبیراس نے نہ سوجھی تو پیغمبر کے زندہ ہونے کا شاخسانہ کھڑا کر دیا تا کہ کسی کی بیعت کا سوال ہی پیدا نہ ہوں۔ چنانچہ یہ تدبیر ایک حد تک کامیاب ثابت ہوئی اور لوگوں میں آنحضرت ﷺ کی موت وحیات کا مسئلہ چھڑ گیا اور حضرت ابوبکر کے آنےتک اسی بحث میں اُلجھے رہے اور ان کے آتے ہی وہ تمام شور و ہنگامہ جو آنحضرت ﷺ کو زندہ ثابت کرنے کے لیے تھا یکدم ختم ہو گیا اور انہوں نے ایسا افسوں پھونکا کہ حضرت عمر نے فورا ً اپنا موقف بدل لیا اور آنحضرت کی موت کے اعتراف کے ساتھ حضرت ابوبکر کی بیعت کا بھی مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ مطالبہ انہی تصورات کا رد عمل تھا جو خلافت کے سلسلہ میں ان کے ذہن میں نشو و نما پا رہے تھے اور اس قرارداد کے ماتحت تھا جو پہلے سے آپس میں طے شدہ تھی ورنہ جب دعویٰ یہ ہے کہ خلافت جمہور کی صوابدید اور اس کی رائے سے وابستہ ہے تو بیعت کے مطالبہ کا جواز ہی کیا تھا جبکہ نہ ابھی انتخاب عمل میں آیا تھا اور نہ رائے عامہ معلوم کی جاسکی تھی۔ غرض اس مطالبہ بیعت کے بعد یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی کہ وفات رسول ص سے انکار نہ حواس کی پراگندگی کی بنا پر تھا اورنہ آیت قرآنی سے بے خبری و نا واقفیت کی وجہ سے بلکہ سیاسی ضرورت کے پیش نظر تھا تا کہ خلافت رسول ص کے سلسلہ میں کوئی آواز بلند ہو تو اسے دبادیا جا سکے اور پھر جمہور کی آڑ میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جائے۔ چنانچہ واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ اس کے شاہد ہیں کہ انہوں نے پیغمبر ص کے دفن و کفن پر حکومت کی تشکیل کو مقدم سمجھا اور انصار کوسیاسی شکست دے کرحکومت قائم کرلی۔ یہ کامیابی اور موافقت کی مرہون منت تھی بلکہ ان کی سیاسی بصیرت اور موقع شناسی کی احسان مند تھی۔( مفتی جعفرحسین سیرت امیرالومنینؑ ج ۱ ص ۴۰۸ ناشر دار التحقیق پاکستان اسلام آباد )
کتاب مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۲۵۸۴۲ میں اس مسئلہ (رحلت رسول خدا کو جھٹلانے والے) کو تفصیل سے لکھا ہے اس کا آخری حصہ یہ ہے کہ
۔۔۔ مغیرہ بن شعبہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما رسول اکرم ﷺکی طرف دیکھا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر بے ہوش ہو گئے، پھر وہ اٹھے اور جب دروازے کے قریب پہنچے تو مغیرہ نے کہا: اے عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!مر گئے ہیں آپ نے فرمایا:نہیں تم جھوٹ بولتے ہو بلکہ تم فتنہ میں مبتلا آدمی ہو، فتنہ پھیلانا چاہتے ہو،رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نہیں مریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو ختم نہ کر دے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے پردہ اٹھایا ان کے طرف دیکھا اور کہا: اناللہ واناالیہ راجعون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی طرف سے آگے تشریف لائے۔ اپنا منہ نیچے کیا اور اس کی پیشانی کو بوسہ دیا، پھر فرمایا:” وانبیاءہ“ پھر اس نے اپنا سر اٹھایا، پھر اپنا منہ نیچے کیا اور اس کی پیشانی کو بوسہ دیا، پھر فرمایا: ”واصفیاہ“ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اپنا منہ نیچے کیا اور بوسہ دیا۔ پھر ”واخلیلاہ“ اپنے دوستوں کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ مسجد کی طرف نکلے اور عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول! ﷺ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو نیست و نابود نہ کر دے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلام کیا اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ” ( القرآن ۳۹/۳۰ )
اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی"وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ”۔( القرآن۳ /۱۴۴)
یہاں تک کہ آپ نے آیت ختم کی۔اور آگے کہتے ہیں کہ ” پس جو شخص خدائے بزرگ و برتر کی عبادت کرتا ہے تو خدا زندہ ہے اور جو محمد کی عبادت کرتا ہے تو محمد فوت ہوگیا، عمر نے کہا: کیا یہ آیت کتاب خدا میں ہے؟ میں نے محسوس نہیں کیا کہ یہ خدا کی کتاب میں موجود ہے، پھر عمر نے کہا: ” یاایھا الناس ھذا ابوبکرٍوھو ذوشیبۃ المسلمین فبایِعوہ فبایَعوہ” اے لوگو، یہ ابوبکر ہیں، اور مسلمانوں میں سفید بالوں والے ہیں لہٰذا اس کی بیعت کرو، تو انہوں نے اس کی بیعت کی۔(الحنبل مسند امام احمد بن حنبل ج ۴۳، ص ۳۵ ، ناشر موسسۃ الرسالۃبیروت لبنان )
یہی رویت طبقاتِ کبریٰ میں اسی طرح موجود ہے لیکن آخر میں حضرت عمرنے حیران ہوکر کہا: کیایہ آیت کتاب اللہ میں ہے؟
اس پر حضرت ابوبکر نے کہا: جی ہاں اللہ کی کتاب سے ہی نقل کررہاہوں اس وقت حضرت عمر نے کہا: لوگو! یہ ابوبکرہیں اور مسلمانوں میں معمرشخص ہیں ہم سب سے بڑااور سفید ریش والاہے تم سب ان کی بیعت کرلو تو لوگوں نے حضرت ابوبکرکی بیعت کرلی۔( طبقاتِ الکبریٰ ج ۲ ص۲۶۷ بحوالہ شہری رئیس المحقیقین علامہ محمد الری کتاب انسائیکلوئیڈیا امام علیٰ ج ۱ ص ۲۶۹)
جب حضرت ابوبکر کی یہ تقریر سنی تو حضرت عمر کو سکون محسوس ہوا اور ان کی اضطرابی حالت ختم ہوگئی۔ اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اس دن مجھے یوں لگا جیسا کہ میں نے زندگی میں یہ آیت پہلی بار سنی ہو۔اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ جو ان کے رویہ کی تائید کرتےہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عمر کو اس آیت کا پہلے سے کوئی علم نہ تھا اور کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ حبیب خداﷺ اس دور فانی سے کوچ کر گئے ہیں؟
کچھ حضرات نے یہ کہا ہے کہ واقعی حضرت عمر نہیں جانتے تھے کہ لوگ حبیب خداﷺ کی وفات کی خبر سن کر اسلام سے ہی منحرف نہ ہو جائیں جبکہ ہم یہ سجھتے ہیں کہ حضرت عمر نہایت ذہین اور موقع و مناسبت کے مطابق فیصلہ کرنے والے انسان تھے اور بالخصوص وہ پیغمبر اکرم ﷺ کی لمحہ بہ لمحہ گرتی ہوئی حالت سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ اُنھوں نے جان بوجھ کر یہ اقدام اُٹھایا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وفات رسول ﷺسے کوئی فریق فائدہ اُٹھا کر کسی کو خلیفہ رسول نہ بنا ڈالے۔
وہ جانتے تھے کہ سر دست حضرت ابوبکرہ موجود نہیں ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی آمد تک لوگوں کو اس غیر یقینی صورت حال میں مبتلا رکھیں۔ اور ہمارے نظریہ کی تائید خود ان کے اس بیان سے ہو جاتی ہے کہ حضرت ابو بکر آئے، اُنھوں نے مختصر خطبہ دیا تو مجھے تسکین حاصل ہوگئی اور میرے ہوش و حواس ٹھکانے آگئے۔
حضرت عمر نے جان بوجھ کر یہ جملے کہا تھا اور اس کے پس منظر میں ان کے مخصوص مقاصد کار فرما تھے۔ ورنہ حضرت عمر اتنے سادہ بھی نہ تھے جتنا کہ وہ اپنے آپ کو ظاہر کر رہے تھے اور وہ شخص جو چند لمحات پہلے ہذیانی کیفیت میں تھا اُس نے جیسے ہی اپنے مربی کو دیکھا تو وہ فوراً ٹھیک ہو گیا تھا۔( شہری رئیس المحقیقین علامہ محمد الری کتاب انسائیکلوپیڈیا امام علیؑ ج ۱ ص ۲۶۷)
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ روایت خود دلیل ہے کہ ہم نے پہلے بیان کیا یہ لوگ رسول خداﷺ کی زندگی میں ہی اقدار کے لیے راہ ہموارکررہے تھے اور کسی موقع کے انتظار میں تھے۔ ابھی چونکہ ابوبکر بھی مسجد میں آیا اور بہترین تقریر بھی کی تو عمر نے یہی موقع پاتے ہی بیعت کا مطالبہ کیا اور جبراً سب سے بیعت لی۔ اسی وجہ سے انصارنے سقیفہ بنی ساعدہ میں ہنگامی اجلاس بلایا۔ جب خلافت پر حقیقی حقدار کو نہیں لانا ہے تو اُن لوگوں سے بہتر ہم انصار ہے کیونکہ یہ حضرات پہلے مشرک تھے اور بعد میں مجبوراً مسلمان ہوئے تھے۔