علوم قرآنقرآنیاتمقالات قرآنی

فہم قرآن کی روش سے آشنائی

تحریر: ڈاکٹر محمد باقر حجتی

قرآن مجید نے بعض آیات میں اپنے آپ کی مبین کے عنوان سے معرفی کی ہے۔
” تِلْكَ آياتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ "۔ (قصص/ ۲)
یہ بیان کر نے والی کتاب کی آیتیں ہیں۔
اور عملی میدان میں بھی اس کے مخاطبین پہلے دور میں اپنی سعی و کوشش کے مطابق اس سے مستفید ہوتے تھے اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی کیفیت کو منظم کرنے کے لئے اس سے متمسک ہوتے تھے، اگر چہ اس دور اور اس کے بعد زمانے میں کچھ لوگوں نے انسانوں کو فہم قرآن سے متعلق بالکل مجبور معرفی کرتے اور بتاتے تھے یا قرآن کے کلام اور اس کی زبان کو ما فوق البشر زبان سمجھتے تھے۔ قرآن کی بہ نسبت اپنی اس (کھوکھلی) تعظیم کے ذریعہ انہوں نے اس کتابِ حیات کو تاثیر گزاری کے میدان سے خارج کردیا تھا۔
وحی کے پیغام کی حصول یابی اس طریقے سے کہ قرآن کے قصص، اس کی تشبیہات، مواعظ و نصائح، وصایا، وعدے و وعید کے درمیان سے انسانی سماج کے درد و الم اور افراد کی ضروریات کو درک کرسکے، اس کے لئے ایک خاص روش کی ضرورت ہے۔ ایک طرف سے قرآن کے صاف و شفاف اور خالص (مطالب) نئی تاویلوں کا شکار نہ ہوں۔ دوسری طرف زمانہ نزول کے قدیم حوادث آج کی ترقی یافتہ پیچیدگیوں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔
فہم قرآن کی اس روش اور اصول کی جستجو کے سلسلہ میں ہم نے عظیم استاد اور قرآنی مفکر جناب حجت الاسلام آقائی محمد باقر حجتی سے ایک انٹرویو لیا ہے، (جنہوں نے گزشتہ سالوں میں علوم اور معارف قرآنی کی تدریس و تالیف میں بڑی خدمتیں انجام دیں ہیں)۔ اس انٹرویو کو قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
ذرا فہم قرآن کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں،آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ اور بنیادی طورپر روشِ فہم قرآن مجید کے لئے کن مراحل کو طے کرنا چاہیے؟
قرآن کریم تاریخِ بشریت میں تمام کتابوں کے درمیان چند اعتبار سے بے مثال و بے نظیر ہے۔ پہلے یہ کہ وہ خدائی پیغام کی آخری کتاب ہے۔ تاریخ میں اس پیغام کے بعد کسی دوسرے پیغام کا خدا کی طرف سے دوسرے پیغمبر کے ذریعہ آنے کا ہمیں پتہ نہیں ملتا کہ جو آسمانی کتاب بھی رکھتا ہو اور پیغمبر جو لوگوں کی طرف خدا کی جانب سے (ہدایت کے لئے) بھیجا گیا ہو۔
دوسرے یہ کہ قرآن کریم ہوبہو اور مکمل طورپر خدا کا کلام ہے۔ اور خدا کا بنایا ہوا ہے۔ جیسے عالم طبیعت کی دوسری موجودات ہیں اور یہ ایک ایسی موجود ہے کہ انسان جس کا مثل لانے کے لئے زور آزمائی بھی کرے تو اس کا مثل نہیں لاسکتا ہے، کیونکہ بشر اس جیسے کلام کو وجود نہیں دے سکتا ہے۔
قرآن تمام نصوص ( کتابوں) اور متون کے درمیان تنہا وہ نص ( کتاب) ہے، جو ہر تحریف اور ترمیم سے محفوظ ہے۔
یہ تین خصوصیات صرف قرآن سے مخصوص ہے۔ یعنی اگر ہم ایک آسمانی یا غیر آسمانی تاریخی نص کا پتہ لگائیں تو اس میں ضرور تحریف اور ترمیم پائیں گے۔ وہ کلام مرور زمانہ کی وجہ سے تحریف و ترمیم سے محفوظ نہ رہ سکا، اپنے اور بیگانوں کے اعتراف کے مطابق یعنی مسلمان اور غیر مسلمان دونوں نے (اعتراف کیا ہے) کہ یہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب اور آسمانی نص تمام نصوص کے درمیان اس اعتبار سے یعنی اس کا (تحریف سے) محفوظ ررہنا بے مثال ہے اور بہت سے روشن فکروں نے بھی اس بارے میں اعتراف کی زبان کھولی ہے۔ ان تین خصوصیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے، سرسری طور پر اس کی طرف نظر نہیں کی جا سکتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ کل قرآن میں عمیق اور گہری نظر ڈالنا چاہیے نیز اس کے دوسرے پہلوؤوں میں غور و فکر کریں، اسی وجہ سے قرآن کریم نے کبھی کبھی قرآن میں تدبر نہ کرنے کی وجہ سے ہماری مذمت کی ہے۔ قرآن ہمیں غور و فکر اور تدبر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یعنی نزول وحی کے دوسرے پہلو کو بھی مدّنظر رکھنا چاہیے، جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے حروف اور الفاظ کے استعمال میں بھی غور و فکر اور عمیق و وسیع پیمانہ پر دقت کرنی چاہیے۔
اس صورت میں قرآن مسلمانوں کے لئے کار ساز بن سکتا ہے۔ ورنہ اگر پرانی روش پر قرآن کی تفسیر میں اقدام کرنا چاہیں تو اگرچہ فردی ضرورتیں پوری ہوجائیں گی، لیکن دوسروں کی ضرورتوں کو پوری نہیں کر سکتی، جس طرح کہ عملی طور پر اس کی ضرورت پوری نہیں ہوئی ہے۔
روایات کے مطابق اہل قرآن میں ہرگز کسی فرد کا پتہ نہیں لگایا جاسکتا جو دوسروں کا مطیع ہو، بلکہ سبھی کامیاب و سر بلند ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ قرآن کو صحیح طریقہ سے حاصل کیا ہو۔
فارسی اصطلاح میں کہ قرآن کے انجن کو روشن کریں تاکہ وہ اپنے سنگین اور بھاری و بہرکم بوجھ کو رکھ کر کھینچ سکے اور مسلمانوں کو زمین کی وراثت کے مقصد تک پہنچا دے۔
قرآن کا خود ایک خاص بیان اور اس کی ایک زبان ہے، جس کو خلاصہ کے طور پر خدا کا بیان اور اس کا لب و لہجہ کہا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) دو قسم کی گفتگو کرتے تھے۔
ایک یہ کہ خود گفتگو کرتے تھے لیکن اس کا مضمون وحی ہوتا تھا۔ یعنی خداوند عالم نے پیغمبر (ص) کو مطالب کو تفصیل سے بیان کرنے اور لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے وحی کرتا تھا۔
” اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا يوحَی اِلَیَّ "۔
ہم صرف وحی پروردگار کی اتباع کر تے ہیں۔
نہ صرف یہ کہ ان کا کلام وحی تھا، بلکہ ان کا ہر فعل جو لوگوں کی ہر حاجت کو بیان کرنے کے لئے پیغمبر کے وجود مقدس سے صادر ہوئے ہیں اس کی بنیاد وحی پر ہوتی تھی۔
یعنی ان کی رفتار و گفتار اور ان کی تقریر و تائید سب کو وحی مانا جاتا ہے۔
دوسری قسم جو کچھ وحی کے عنوان سے فرماتے تھے۔ اگر خود ان کے بیان اور گفتگو کے قالب میں ہوتا تو اس کو حدیث کہا جاتا تھا۔ اور اگر بعینہ خدا کے بیان کو منتقل کرتے تو اس کو قرآن کہا جاتا تھا اور یہ بات مسلم ہے کہ بشر کا کلام اس عظمت و اہمیت اور قداست کا حامل نہیں ہے۔ جس عظمت و اہمیت و قداست کا حامل خدا کا کلام (قرآن) ہے۔ بشر کی صنعت کا محصول وہ قیمت نہیں رکھتا ہے جو قدر و قیمت طبیعی صنعت کا محصول رکھتا ہے کہ جن کا بنانے والا خدا ہے۔ یعنی بشری صنعت اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے جتنی اہم قدرتی چیزوں کی ہے۔ اگرچہ اس کی صنعت اور ٹیکنالوجی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہو۔
لہٰذا ہمیں کلام خداوندی میں موجود زاویوں میں ہر ایک زاویہ پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیر نے اس سلسلہ میں کوئی کام کیا ہو، لیکن اگر اجمالی طور پر ہم نے قرآن کریم کے زاویوں میں سے تھوڑا بہت اپنی تحقیق و جستجو کا مقصد قرار دیا تو یقیناً ہم عمیق مطالب تک پہنچ جائیں گے کہ جو اس کے شائستہ و لائق ہے، کیونکہ فہم قرآن کے بارے میں ابھی تک علماء و مفکرین نے جو سعی و کوشش انجام دی ہے اور پیش آنے والی ضرورتوں کے جواب میں قرآن کریم سے جو استفادہ کیا ہے نیز صحیح مطالب و معانی درک کئے ہیں، انہیں کی روشنی میں خود قرآن ہی میں ان کی تلاش و تحقیق کرنے کی سعی و کوشش کریں، اگرچہ یہ کام بہت مشکل ہے، اسے گروہی شکل میں انجام دینا چاہیے، یعنی تمام دانشور و علماء جنہوں نے علوم قرآنی، خواہ وہ تفسیر ہو یا غیر تفسیر اور سارے علوم جو قرآن سے وابستہ ہیں نیز تمام اقتصادی وسائل میں ارتباط برقرار ہو اور قرآن کے متعلق ایک نیا کام انجام دیں تاکہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کی ضرورتوں کا مکمل اور قانع کنندہ جواب دے۔
حقیر کی نظر میں قرآن کی زبان یہ ہے۔ ” و ما ارسلنا من رسول الا بلسان قومه "۔ (ابراہيم / ۴ )
اور ہم نے جس رسول کو بھیجا اسی قوم کی زبان میں بھیجا۔
قرآن کی زبان اس کی قوم کی زبان یعنی عربی ہے۔ تمام زبانوں اور تمام سماج کے درمیان سے پیغمبر (ص) کو عرب سماج کے اندر سے انتخاب کیا گیا۔ پیغمبر کو عرب سماج سے انتخاب کرنے کی علت یہ ہے کہ اگرچہ ہر رسول اپنی قوم کی زبان میں خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا رہا ہے لیکن عربی زبان ایک فصیح و بلیغ زبان ہے۔ یعنی وہ خاموشی اور گونگاپن جو عجمی زبان میں پایا جاتا ہے وہ عربی زبان میں نہیں ہے، وہ خصوصیت جو عربی زبان میں پائی جاتی ہے، وہ کسی اور زبان میں نہیں پائی جاتی ہے، لیکن عربی زبان میں ممکن ہے ایک لفظ بہت سے معانی رکھتا ہو در حالانکہ وہ الفاظ جو دیگر اقوام اور دوسری زبانوں میں پائے جاتے ہیں، وہ اس عربی زبان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں ہیں۔ یعنی عربی زبان (ے الفاظ) کوتاہ ہونے کے ساتھ ساتھ پُر معنی بھی ہیں۔ مختصر سی عبارت میں بیشتر معانی کا افادہ کرتے ہیں (یعنی مختصر الفاظ میں بہت ہی عظیم معانی کو سمو دیتا ہے)۔ مثال کے طور پر اگر فارسی میں ایک معانی کو لفظی قالب میں پیش کرنا چاہیں تو عاجز و مجبور ہیں کہ لفظ اور عبارت کو طولانی کریں، تاکہ صحیح طور پر معانی کو درک کر سکیں، مثلاً ہم نے کہا کہ میں گیا، شیر خریدا، معلوم نہیں یہ کہنے والا چڑیا گھر کا مالک ہے، جس نے شیر خریدا یا کوئی معمولی انسان ہے۔ جس نے شیر (دودھ) خریدا یا پانی کی ٹوٹی خریدی۔
لیکن جب (اسد) یا (لبن) کہتا ہے تو ہر لفظ کے معنی واضح ہیں۔ (اسد) کا معنی حیوان درندہ ہے اور (لین) کامعنی دودھ کے ہیں۔
حروف کی تعداد کے اعتبار سے شیر اور اسد ایک جیسے ہیں، لیکن لفظ اسد سے حیوان درندہ سمجھتے ہیں۔ دودھ وغیرہ نہیں، اس کے علاوہ شیر درندہ کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ (بعض) کی گردن میں بال نہیں پائے جاتے (بعض) مذکر ہیں (بعض) مونث ہیں، ان میں ہر ایک کے لئے عربی زبان میں الگ الگ الفاظ پائے جاتے ہیں، (مانند) اسد، لیث، غضنفر، قسورہ اور ہم نے بارہا سنا ہے کہ ابن عباس فرماتے تھے کہ میں ابھی تک فاطر کے معانی کو نہیں سمجھا ہوں، کیا وہ عرب نہیں تھے؟ فاطر، خالق، باری سب کے معانی پیدا کرنے والا ہے۔ لیکن کیوں ان میں سے ہر ایک لفظ کوئی ایک خاص جگہ استعمال ہوتا ہے، اگر ان الفاظ میں سے ہر ایک کو عربی کہا جاتا ہے۔ اور میں بھی لباس عربیت سے متصف رہوں، میرے عربی ذوق کا تقاضا یہ ہوگا کہ میں لفظ فاطر سے ایسے معانی کو درک کروں جو لفظ خالق سے استفادہ نہ کیا جاسکتا ہو، یعنی قرآن مجید میں ہر لفظ ایک خاص مقام اور مناسبت رکھتا ہے ان خصوصیات کے ساتھ جو اس لفظ کے عام معنی میں پائی جاتی ہے، اگر خداوند عالم فرماتا ہے: "اَ فِی اللّٰهِ شَكّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْض” ( سورہ ابراھيم / ۱۰ )۔
کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے،جو آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا ہے۔
گویا خدا تعجب کر رہا ہے (کیونکہ اس میں تاتیر پذیری کا گزر نہیں ہے) لیکن (یہ جملہ) اس لہجہ میں ہے کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اس جملہ کو کہتا تو اسے تعجب کا عنوان دیا جاتا، کیوں نہیں کہا: "اَ فِی اللّٰهِِ شَكّ خَالقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْض”۔
کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے، یا دوسرے الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔علماء کرام کا کہنا ہے کہ قرآن میں مترادف الفاظ نہیں ہیں۔ قرآن کے ترجموں اور کبھی کبھی تفسیروں میں بھی ان سب کلمات کو پیدا کرنے والے ( خالق ) کے معانی میں استعمال کرتے ہیں، اور دوسرے الفاظ مانند فطر، فصل، فطم اور دوسرے کلمات جن کا آغاز حرف (فاء) سے ہوتا ہے، جدا کرنے اور شگاف کرنے کے معنی میں ہیں۔ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطر کے معانی کو نہیں سمجھتا، یعنی جس طرح ایک خالص عرب اس سے کوئی معنی سمجھتا ہے وہ اس طرح نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ فاطر میں کوئی ایسی خصوصیت ہے کہ ایسے موقع پر استعمال کیا جا رہا ہے آیا وہ خدا جو فاطر ہے اس کے بارے میں شک کیا جاسکتا ہے، یعنی استفہام کا لہجہ ہے۔ ابن عباس کو اس لفظ کے معنی صحراء میں ملے، انہوں دیکھا کہ ایک کنویں کے بارے میں دو مرد نزاع و جھگڑا کر رہے ہیں، ایک کہہ رھا ہے، "انا فطرتھا "، یعنی میں نےاس (کے کھودنے کے) کام کی پہل کی تھی، تم میرے بعد آئے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس وقت میں نے سمجھا کہ فاطر، موجود کے آغاز کرنے والے کو کہتے ہیں، ورنہ ایک ہنر مند بھی خالق ہے لیکن ان کا آغاز کرنے والا (آغازگر) نہیں ہے۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام سلسلہ علل و معالِیل اور تمام اسباب و مسببات اور تمام متحرکات اور محرکات کی بازگشت ایک ایسے محرّک کی طرف ہو جو خود متحرک نہ ہو، ایسے سبب کی طرف بازگشت کر رہا ہو کہ وہ خود مسبب نہ ہو۔ اس کی ایک ایسی علت کی طرف بازگشت ہو رہی ہو جو خود معلول نہ ہو، ورنہ دور و تسلسل کا سبب بنے گا، اور تسلسل بھی دلیل عقلی سے یعنی برھان تطبیق و سلم اور دوسری دلیلوں کی رو سے باطل ہے۔ پس کوئی بھی انسان خدا کے بارے میں شک نہیں کرسکتا، چونکہ وہ آغاز کرنے والا ہے۔ یعنی اس کائنات کے آغاز کرنے والے کو پہچاننا چاہیے۔ اور وہ خدا ہے۔ سورہ بقرہ کی ابتداء میں جس وقت وہ متقین، کفار اور منافقین کے اوصاف کو بیان کر رہا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ نزول قرآن کے وقت تین گروہ سے تشکیل پایا تھا کیونکہ قرآن کا لوگوں کے سامنے پیش کرنا ایسا ہی تھا۔ جیسے موجودات عالم طبیعی کے سامنے آفتاب کا پیش کرنا۔
اگر پھول ہے تو خوشبو بھی ہوگی، اگر مردار ہے تو بدبو بھی ہوگی، کچھ چیزیں چھپی اور زیر پوشش ہیں، ان کے اندر سے اتنی بدبو نہیں آتی۔ دوسر ے الفاظ میں کچھ تو قرآن کے سایہ میں ہیں، ان کی روح میں وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے، کچھ لوگ مردہ ہیں۔
"انَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيهمْ ءاََنذَرْتَهمْ اَمْ لَمْ تُنذِرْهمْ لاَيؤْمِنُونَ، خَتَمَ اللّٰهُ عَلَی قُلُوبِهمْ وَ عَلَی سَمْعِهمْ وَ عَلَی اَبْصَارِهمْ غِشَاوَةٌ وَ لَهمْ عَذَاب عَظِيم "۔ ( البقرہ ۷،۶ )
اے رسول جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، ان کے لئے ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے۔ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، خدا نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر گویا مہر لگادی، اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہیں، آخرت میں ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔
ان کے وجود کی بدبو آس پاس کے ماحول کو خراب کر رہی ہے، یعنی کفار تیسرا گروہ ہے۔
” وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ يقُولُ آمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيوْمِ الْآخِرِ وَ مَا همْ بِمُؤْمِنِينَ "۔ (البقرہ ۸ )
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور آخرت پر ایمان لائے، حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے۔
یہ اپنے کو نفاق آمیز کپڑے کے نیچے چھپائے ہو ئے ہیں، جس کی بدبو ابھی کسی کی ناک تک نہیں پہنچ رہی ہے۔
آپ مشاہدہ کریں کہ ان آیات میں خداوند عالم ” وَ اُوْلَٰئِكَ ہم الْمُفْلِحُونَ "کے بعد کفار کی معرفی کر رہا ہے، درمیان میں کوئی حرف استعمال نہیں کررہا ہے۔ اور فرمارہا ہے:
” اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا۔۔۔ "
لیکن جب منافقین کی معرفی کر رہا ہے تو حرف واؤ کو ذکر کررہا ہے:
” وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ يقُولُ آمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيوْمِ الْآخِرِ وَ مَا همْ بِمُؤْمِنِينَ "۔
اگر ہم عربی ذوق سے آشنا ہے تو معلوم ہوگا کہ خالص و اصیل عرب حروف عطف مانند واؤ، ثم، فاء، بل، لا وغیرہ کو ایک خاص جگہ پر استعمال کرتے ہیں، عرب اس وقت واؤ کا استعمال کرتے ہیں، جب اس سے اشتراک کے معانی کا استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ (اس سے قبل ہم نے عرض کیا ہے کہ قرآن عربی میں ہے، اور خدا نے تمام زبانوں کے درمیان فقط عربی زبان کو اپنے مقاصد کو بیان کرنے کے لئے مناسب سمجھا ہے، پس اگر کوئی اس زبان کو سمجھ لے اور اس کو عمدہ طریقہ سے ہضم کرلے تو اس پر حجت تمام ہو جاتی ہے)۔
خدا وند عالم، پیغمبر (ص) سے ارشاد فرماتا ہے:
” وَ اِنْ اَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فََاَجِرْه حَتَّیٰ يسْمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْه مَاْمَنَه ذَلِكَ بِاَنَّهمْ قَوْم لاَ يعْلَمُونَ "۔ ( توبہ/ ۶ )
اگر یہ مشرکین تم سے پناہ مانگیں، تو ان کو پناہ دو، تاکہ وہ اللہ کے کلام کو سنیں، پھر ان کو آزاد کرکے ان کو کسی امن کی جگہ پہنچا دو اور یہ مراعات اس وجہ سے ہے کہ یہ جاہل لوگ ہیں۔
انہیں پناہ دو تاکہ خداوند عالم کا کلام سنیں کیونکہ وہ عرب ہیں۔ وہ اپنی عربی فطرت و طبیعت کے ساتھ کلام خدا کو ہضم کرسکتا ہے۔ اسی وجہ سے خاص طور پر فرمایا کلام اللہ، یعنی خدا کا کلام موثر ہے۔ آپ جب کسی ایک طبیعت کے پہلو میں بیٹھیں گے، تو آپ کا دل کھل جاتا ہے اور دل کو سکون و اطمینان ملتا ہے۔ لیکن اگر مصنوعی محصول کے پہلو میں ایک مدت تک بیٹھیں پھر بھی آپ میں کسی قسم کی دگرگونی ایجاد نہیں ہوگی، کلام اللہ، یعنی اثر ڈالنے والا، لغت میں کلام کے معنی، زخم کے ہیں۔ اور زخم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنا اثر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا اثر باقی رہتا ہے، عرب یہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ اگر ایمان لایا تو بہت اچھا، اگر نہیں لایا تو اس کو امن کی جگہ پہنچا دو۔
ہم کو قرآن میں کلام خدا کی ظریف علت کے استعمال کی تحقیق کرنی چاہیے، واؤ حرف عطف دو چیز کے درمیان اشتراک اور جمع کے لئے آتا ہے، اس بناپر یہ کہنا چاہیے کہ منافقین اور کفار کے درمیان ایک اعتبار سے اور منافقین و مومنین کے درمیان ایک دوسرے اعتبار سے اشتراک پایا جاتا ہے۔ یقیناً ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے منافقین، مسلمین کی طرح ہیں، لیکن باطنی لحاظ سے وہ کفار سے اشتراک رکھتے ہیں۔
بہر حال واؤ کا کام جمع کرنا ہے، چاہے واؤ عطف ہو، چاہے استیناف، ہر حال میں اشتراک کے معنی پائے جاتے ہیں۔ سر انجام اگر انسان ظاہری یا باطنی طور پر ایمان کے حدود سے باہر پیر پھیلائے گا تو ہلاکت کے گڑھے میں گرجائے گا پھر اس سے نکل نہیں سکے گا۔
” اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا۔۔۔ " یعنی جو شخص اپنے کفر پر ڈٹا رہتا ہے، تو اس کا دل سیاہ اور اس کا وجود تاریک ہو جاتا ہے، لہٰذا اس کا علاج کیا جائے یا نہ کیا جائے دونوں برابر ہے، اس کو شفا حاصل نہیں ہوگی، نہ تو کوئی گولی اس کا علاج کر سکتی ہے، اور نہ کوئی کیپسول اور نہ کوئی آپریشن کوئی بھی شئی اس کا علاج نہیں کر سکتی ہے۔
پس مومنین اور کفار کے درمیان ایک اجنبیت پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے خدا نے (مومنین کے ذکر کے بعد بغیر واؤ کے کفار کا ذکر کیا ہے) درمیان میں واؤ کا استعمال نہیں کیا، وہ اجنبیت جو اس کو راہ مستقیم کی طرف واپس جانے کو محال کردیتی ہے اور وہ جتنا بھی تیزی سے آگے بڑھتا رہے گا۔ اتنا ہی سیدھے راستے سے دور ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جس مقام سے وہ کبھی بھی اپنے پہلے مقام کی طرف واپس نہیں جاسکتا، اس لئے کہ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے راستے سے منحرف ہوچکا ہے۔ اور جو شخص بھی اپنے کفر پر باقی اور حقائق کے انکار پر ڈٹا رہتا ہے۔ قہری طور پر اس کا یہی انجام ہونا چاہیے۔
” ختم اللّٰه علیٰ قلوبهم "۔
یعنی ان لوگوں نے اپنے تمام حواس و ادراک کے راستوں کو بند کر رکھا ہے۔
لیکن منافقین کے بارے میں فرماتا ہے:
” وَ مِنْ النَّاس۔۔ ۔”
یعنی ان کے لئے دو واپسی کا راستہ پایا جاتا ہے یا وہ کفار کی طرف چلے جائیں یعنی کھل کر اپنے کفر کا اعلان کردیں جیسا کہ ہوا ہے۔ اور اسلامی معاشرے کی سمجھ میں آگیا کہ یہ کافر تھے، یا ان کے ساتھ تھے، جیسے ابو عامر راھب جس نے مسجد ضرار تعمیر کرائی تھی، لیکن بعد میں خدا نے اس کا راز فاش کردیا کہ یہ مسجد مسلمانوں کی دلسوزی کے لئے نہیں بنائی گئی ہے، بلکہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے اور خدائی راہ کو مسدود کرنے کے لئے بنائی گئی تھی، وہ کافر ہوگیا، پیغمبر نے اس کا خون مباح قرار دے دیا، وہ روم بھاگ گیا، تاکہ وہاں جاکر کفار کو اکھٹا کرے اور پھر پیغمبر (ص) سے جنگ کرے، پہلے تو یہ کہہ رھا تھا کہ مسجد کو خدا کی خوشنودی اور مسلمانوں کے آرام کے لئے تعمیر کروا رہا ہے تاکہ بوڑھے مرد اور عورتیں جو بارش کے اوقات، اندھیری رات اور ٹھنڈی کے موسم میں مسجد پیغمبر میں نہیں جا سکتے، وہ یہاں آکر عبادت کریں، لیکن آہستہ آہستہ اس کا راز کھل گیا، لہٰذا وہ بھاگ کھڑا ہوا اور راستے ہی میں واصل جہنم ہوگیا۔
منافقین کے لئے ایمان کی طرف راستہ پایا جا رہا ہے چونکہ ان کی شکل و صورت اسلامی ہے اور اندر سے بھی واپسی کی امید پائی جارہی ہے اور اس معانی کو ہم لفظ واؤ کے ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن کفر پر ڈٹے رہنے والا کافر، مومن سے کسی قسم کا کوئی اشتراک نہیں رکھتا ہے بلکہ دونوں کے درمیان بڑا فرق پایا جا رہا ہے۔
قرآن بعینہ خدا کا کلام ہے جیسے اس نے عالم خلق میں اس درخت اور اس حیوان کو خلق کیا ہے۔ جبرائیل نے عین الفاظ کو حاصل و دریافت کیا ہے اور پیغمبر تک منتقل کیا ہے، یہی وجہ تھی کہ پیغمبر (ص) اطمینان سے ان سے مضمون کو حاصل کرتے تھے، اور یہ کہ الفاظ ادھر ادھر نہ ہوجائیں، بڑی تیزی سے حفظ کرتے تھے، اور وحی کے دریافت کرنے میں عجیب و غریب شوق رکھتے تھے۔ جبرئیل نے عین لفظ کو حاصل و دریافت کیا ہے لیکن نہ وہ لفظ جو منہ کے مخرج سے ٹکرا کر نکلتا ہے، اگر ہم کلام اللہ کے الفاظ پر توجہ کریں، تو ہماری مشکل حل ہوجائے گی، لیکن یہ کہ کلام الٰہی کیسے صادر ہوتا ہے، اس کا تعلق ماوراء طبیعت سے ہے۔ وہ مادیات یعنی فیزیکل پیرا میٹروں سے قابل درک نہیں ہیں، جیسے خدا کے اوصاف جنت و جہنم کے اوصاف ہم کبھی بھی ان کی حقیقت کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے مثلاً جنت کے اوصاف کو فقط اس لئے بیان کیا ہے تاکہ ہمارا ذہن مطلب کے نزدیک ہوجائے تاکہ اس کا ایک خاکہ ذہن میں آجائے، ورنہ جنت کے اوصاف کا ایک دوسرے عالم سے تعلق ہے، جس کا نام آخرت ہے۔
عقلی مطالب کی محسوس شکل میں تصویر کشی نہیں کی جا سکتی مگر یہ کہ اس کو تشبیہ دیں، اگر قرآن میں انار و انگور (کا ذکر) ہے ان کی کامل وضاحت نہیں کی جاسکتی، اسی وجہ سے مختلف قسم کی مَثَل لائی گئی ہے، تاکہ معقول کو محسوس کے ذریعہ ذہن سے نزدیک کریں، نہ یہ کہ ان کے ذریعہ معقول کو تشخیص دیں، لیکن جس کا تعلق حیات سے ہے، اس کو ملموس طریقے سے قرآن میں ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی، اجتماعی، انفرادی اخلاقی پہلو سے جو امکان پذیر ہے۔
لیکن جہاں پر قابل لمس نہیں ہے اس جگہ خدا وند عالم مثل بیان کر تا ہے یا اس کی تشبیہ بیان کرتا ہے۔ اس موقع پر ممثل لہ کو پہچاننا چاہیے۔ خود مثل کے ارکان ملموس ہیں، اگرچہ وجود خارجی میں اس کا کوئی مصداق نہیں پایا جاتا ہے، لیکن پھر بھی مثل بیان کرتا ہے:
"ايوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُونَ لَه جَنَّة مِنْ نَخِيلٍ وََ اَعْنَاب "۔ ( بقرہ آیت ۲۶۶ )
کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجور اور انگور کے درخت ہوں۔
عمل کے حبط ہوجانے کے بارے میں مثال بیان کرتا ہے کہ انسان ایک مدت تک کام کرتا ہے لیکن آخر میں وہ سب برباد ہوجاتا ہے در حالانکہ ضروری نہیں ہے کہ واقعا ًکوئی باغ رہا ہو۔
ہاں یہ خدا کا کلام ہےاور خود اس کی گفتگو ہے لیکن بحث کی گئی ہے کہ آیا خدا کا کلام قدیم ہے یا حادث، یہ بحث ہماری اس وقت کی بحث سے متعلق نہیں ہے اگرچہ روشن ہے کہ خداوند عالم، کلام کو ایجاد کرتا ہے اور تکلم خدا کی صفت فعل ہے یہ کبھی بھی قدیم نہیں ہوسکتی، ہاں اس کا علم اس کی قدرت اس کا قدیم ہونا اس کی عین ذات ہے، لیکن خدا کا متکلم ہونا اس کی صفت فعل ہے۔ اس کی عین ذات اور قدیم نہیں ہوسکتی، ورنہ اس کو ہمیشہ کلام ایجاد کرنا چاہیے، یا ہمیشہ اپنے بندوں کو روزی دینا چاہیے، در حالانکہ ” یقبض و یبسط” پتہ پلتا ہے کہ حادث ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن خدا کا کلام ہے۔ اس وجہ سے اس کا مثل نہیں لایا جا سکتا، ایک درخت کے پتے کو اسی طرح نہیں بنایا جا سکتا، ایک مکھی کو نہیں خلق نہیں کیاجاسکتا ہے:
” ياَيها النَّاسُ ضرب مثل فَاسْتَمِعُوا لَه اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰہ، لَنْ یَخْلُقُوا ذُبَابًا " (حج / ۷۲ ) سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ حادث ہے۔ اے لوگو تمھارے لئے ایک مثل بیان کی گئی ہے، لھٰذا اسے غور سے سنو، یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو۔ یہ سب مل بھی جائیں، تو ایک مکھی نہیں پیدا کر سکتے ہیں۔
اس فضائی دور میں یا گزشتہ ادوار میں بلکہ آئندہ بھی قیامت تک ایک مکھی کو نہیں پیدا کیا جاسکتا، اگرچہ ہر قسم کے اسباب کو اس کے لئے فراہم کردیا جائے، چاہے وہ اسباب اپنی خصوصیت کے ساتھ میلیونوں تک پہنچ جائیں۔
فہم قرآن کو ابتدا سے شروع کرنا چاہیے۔ حروف شناسی یعنی قرآن کے الفاظ کو عربی اور قرآنی صورت میں شناسائی کریں، ایک دانشمند کے بقول کسی بھی قرآنی کام کے شروع کرنے اور قرآن سے کسی ضرورت کا مطالبہ کرنے سے قبل اس چیز کو درک کرنا چاہیے کہ یہ کتاب عربی ہے، وہ اپنی عربیت پر فخر کرتی ہے۔ مطالعہ کر کے حقائق کو حاصل کرنا چاہیے کہ یہ قرآنی الفاظ کس رو سے بہترین تعبیر اور بہترین لفظ اور ساخت و ساز کے ہیں۔
مثلا اس گھاس میں کیا رمز پایا جاتا ہے کہ اس کی جڑ بے رنگ پانی اور بے مزہ خاک سے استفادہ کرتی ہے۔ اور جب اس میں تنا، شاخ، اور پتّہ نکل آتا ہے۔ اس کا رنگ بدل جاتا ہے اور اس میں مزہ پیدا ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے جو ایک خالص عرب قرآن سے معانی سمجھتا ہے اسے درک کرنا چاہیے پھر اس کے بعد قرآن سے دوسرے مطالب کی درخواست کرنی چاہیے یعنی قرآن کے الفاظ کی جان وہی چیز ہے جس کو عرب درک کرتے ہیں، پہلے اس کو حاصل کرنا چاہیے۔ پھر اس کو نئے قالب اور نئے سانچے میں ڈھالنا چاہیے۔ تب اس میں کوئی اشکال نہیں ہونا گا، ورنہ جو ہمیں قرآن سے آج ملتا ہے، خاص کر عبارت کے ترجموں میں وہ بے روح کے جسم کے مانند ہے۔ اس کی اصل روح وہی معنائے اول ہیں، ہم اس وقت فاطر سے خالق سمجھتے ہیں۔ لیکن عرب سمجھتا ہے، ” انا فطرتھا "یعنی میں مخلوق کا آغاز کرنے والا ہے۔ ابن عباس کے مطالعہ کا سرچشمہ صحرا تھا، کیونکہ صحرائی عربوں کی زبان خالص تھی۔ عرب اپنی فطرت کے تحت عربی لغات کو سمجھتا ہے، لغت کی روح اس کے ہاتھ میں تھی، نہ معانی جو مرور زمانہ سے اس لغت میں استعمال ہونے لگے، مثلا ًکلمہ انتقاد یعنی کھوٹے سکے کو خالص سکے سے جدا کرنا، لیکن اس دور میں ہم نے اس کے معانی میں عمومیت دے دی، اور ہر نا خالص سے خالص کو جدا کردینے کو انتقاد کھتے ہیں، اس وقت اس کے معانی میں کافی وسعت ہوگئی ہے لیکن ابتدا میں صرف سکے کی بحث میں استعمال ہوتا تھا۔ نقود و نقدین یعنی سونا چاندی وغیرہ یہ معانی پوری تاریخ میں معنائے اول پر حمل ہوا ہے، لیکن اس وقت ان معانی میں کیوں استعمال ہونے لگا ہے، اس کے تاریخی تناسب کو دیکھنا چاہیے۔
ہمیں ہمیشہ قرآن کے الفاظ کو پہچاننے کے لئے (پچھلی تاریخ کی طرف) پلٹنا چاہیے اور نزول آیات کی فضا اور اس کے معنائے اصلی کی حقیقت کو اس فضا میں شناسائی کرنی چا ہیے، کیا اس دور میں معانی قرآن کی پیدائشی تاریخ سے متن قرآن کو جدا کرنا، اس کی جاویدانگی اور قرآنی پیغاموں کی عمومیت سے تضاد نہیں رکھتا ہے؟
وہ نئے معنی جو لفظ کے لئے مرور زمانہ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، کوئی اشکال کا سبب نہیں بنتے۔ پیغمبر (ص) نےخود الفاظ کو جدید معانی میں استعمال کیا ہے اور درحقیقت انہوں نے حقیقت متشرعہ اور حقیقت شرعیہ کا موقع فراہم کیا ہے۔ آخر کار اس چیز کو جاننا چاہیے کہ اس نئے معانی کا اس کے اصلی معانی سے کیا ربط ہے۔ کیوں نماز کو نماز کہتے ہیں، حالانکہ اس کے اصل معانی دعا کے ہیں۔ اس کے اصلی معانی کی طرف توجہ کرنا چاہیے،صلٰو ۃ یعنی دعا اس بنا پر کہ اکثر نماز میں خدا سے نیائش اور دعا ہے، اس اصطلاحی نماز کا نام بھی صلٰو ۃ رکھا گیا۔ آیا اگر معانی اصلی اور نزول کی فضا کی طرف توجہ کی تاثیر زیادہ ہے، افسوس اس صورت میں ہم روایات تفسیری جو شان نزول کو بیان کرتی ہیں، اس میں ایک قسم کی تاریخی فقر کے شکار ہیں، فہم قرآن میں ایک قسم کا ابہام اور خلل ڈالنے والا ایہام ایجاد نہیں ہوتا؟
اگر منابع میں تلاش کریں، تو یقیناً روایات بھی پائی جاتی ہیں، لیکن اس کے لئے فرصت اور کافی افراد کی ضرورت ہے، اچھا خاصہ مالی بجٹ بھی چاہیے۔ اس وقت جو ہمارے پاس اسباب نزول پائے جاتے ہیں، اھل سنت کے منابع سے لئے گئے ہیں، اسباب نزول جو ہم شیعوں کے پاس تھے وہ مل نہیں رہے ہیں، جیسے ابن شہر آشوب کا اسباب نزول صرف ان کے قلمی آثار میں اس کی فہرست ملتی ہے۔ اسباب نزول کو حدیث کے معیار سے تحقیق کریں۔ تاکہ اس سبب نزول کو حاصل کریں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ سبب اس زمانے سے مخصوص تھےبلکہ یہ سبب ہمیشہ ہر زمانے میں پائے جاتے رہے ہیں، در واقع تاریخ تکرار ہوتی رہتی ہے۔ طول تاریخ میں انسان کے کام میں کافی اشتراک پایا جاتا رہا ہے۔ سر انجام اگر اس زمانے کا سبب نزول مل گیا، ہمارے زمانے میں بھی ایسے اسباب پائے جاتے ہیں، جو ہم کو اس سے مربوط آیت کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے لئے علم حدیث کے اسناد میں تحقیق کی ضرورت ہے، اس کا تعلق مطالعات حدیث سے ہوتا ہے۔
انقلاب کے بعد تھوڑا بہت دین زندگی کے امور میں داخل ہوگیا، لیکن پھر بھی ہم ابھی ابتدائی راہ میں ہیں، اس کے لئے ایک ہمہ گیر و منظم کوشش کی ضرورت ہے۔
قرآن کی اپنے زمانے کے مسائل پر نگرانی کیسی ہے؟ کس حد تک تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ قرآن اپنے زمانہ کی تہذیب و تمدن سے تاثیر پذیر ہوا ہے؟ قرآنی قصے جو شبکہ یعنی جزیرہ العرب کے باشندوں کے نظریہ کے مطابق جن کے لگنے، باغ و باغیچہ اور دوسرے مہم مسائل کو پیش کرتے ہیں، اس کو زمان و مکان سے ہٹ کر ہونے کی کس طرح توجیہ کرتے ہیں۔
قرآن کبھی بھی دوسروں کے اثر کو قبول نہیں کرتا، قرآن کبھی بھی متأثر نہیں ہوتا ہے۔ جن کے لگنے کی بات صرف ایک اڑتی پھرتی خبر اور اس زمانے سے محدود نہیں تھی بلکہ اس کی ایک حقیقت ہے، درحقیقت وہ اس وقت بھی تھی اور اس وقت بھی ہے۔
کیا جن انسان میں حلول نہیں کرتے، کیا جن انسان کو نہیں لگتے؟
ہاں، ہم جن کو نہیں پہچان سکتے، خود اس کے نام سے معلوم ہے کہ وہ پوشیدہ (موجود) ہے۔ اس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ خدا فرما رہا ہے کہ ایسی موجود پائی جاتی ہیں لیکن تم آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے اور اگر کبھی دیکھ بھی لیا تو اس کی تشخیص نہیں دے سکتے۔ لیکن وہ بھی تمھاری طرح ہیں۔ سورۂ جن اور اس کے متعلق آیتیں قرآن میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگر قرآن کو ہمہ گیر ہونا چاہیے تو اس بارے میں کوئی محدودیت نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ گزشتہ سے متعلق ہے اس وقت بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ہمارے اس دور میں بھی ایسے واقعات اور سوالات ہیں جن کا قرآنی آیتیں جواب دے رہی ہیں۔ قرآن ثابت رہنے والی چیزوں کے مانند ہے۔ جو مرور زمانہ سے بدلتا نہیں ہے جیسے پانی پینا جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ ہر انسان کو پانی پینا چاہیے یہ کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ دقیانوس کے زمانے کے لوگوں کو پانی کی ضرورت تھی، وہ چلے گئے، اب ترقی ہوچکی ہے۔ پس اس وقت بھی بشر میں کوئی تبدیل نہیں ہوا۔ اس وقت بھی جھوٹ، ظلم، کم فروشی بری چیز ہے۔ عھد کا پورا کرنا اور سچائی اچھی چیز ہے۔ (آج بھی ایسا ہے) اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔
روایات کی بنیاد پر آیات قرآن میں ظاہر و باطن پایا جاتا ہے۔ ذرا یہ بتائیں کہ اس اعتبار سے قرآن کے نازل ہونے کی کیا حکمت ہے؟ کیا یہ مختلف ازمان کے لوگوں کے سمجھ اور فہم کی استعداد اور قابلیت سے متعلق ہے کہ کچھ اس کے ظاہر سے مستفید ہوں اور کچھ اس کے باطن سے یا کوئی دوسری وجہ پائی جارہی ہے؟
تاویل، بطن یا بطون (کی بحث) بہت مہم اور مبنائی ہے۔ اس کی تفصیل سے بحث کرنے کے لئے کافی فرصت کی ضرورت ہے کہ درحقیقت تاویل کے کیا معنی ہیں، اس بارے میں بحث کرنا دوسری نشستوں میں زیادہ بہتر ہے۔ عام طور سے تاویل، لفظ کو غیر راجح محتمل معانی پرحمل کرنے کوکہتے ہیں، درحالانکہ قرآن میں لفظ تاویل کو ہرگز اس معنی میں نہیں استعمال کیا گیا ہے۔ اس بناپر ہم سنت قطعی اور عقلی دلیل کے ذریعہ کسی لفظ کو غیر واضح معانی پر، جس کو باطن کہتے ہیں حمل کریں، جو چیز پوشیدہ ہے، ہم صرف اس کو ایک چیز ہونے کا احتمال دیتے ہیں، کلام کو اس پر حمل کریں، اس کے لئے ایک ہمہ گیر بحث کی ضرورت ہے کہ یہ تمام الفاظ تاویل جو کہ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان مختلف معانی اور کلماتِ تاویل کے درمیان ان کا کیا تعلق ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button