سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

سیرت طیبہ میں ایک جدید اور منفرد کتاب: "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ "


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/jkrisalaat/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد شریف نفیس (فاضل جامعۃ الکوثرو پی ایچ ڈی سکالرانٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)
مقدمہ:
سیرت طیبہ کے موضوع پر قلم فرسائی مسلمان مؤرخین اور سیرت نگاروں کا شروع سے ہی پسندیدہ اور باعث اعزاز مشغلہ رہا ہے۔ رسول اکرمؐ کی حیات میں ہی آپؐ کے بعض اصحاب غزوات اور ان کے احوال لکھا کرتے تھے۔اسی لئے ابتداء میں آپؐ پر مسلط کی گئی جنگوں کے احوال پر لکھی گئی کتابیں "مغازی” کہلاتی تھیں۔ بعد میں ان کتابوں میں آپؐ کے جنگوں کے احوال کے علاوہ آپؐ کی حیات طیبہ سے متعلق حالات اور واقعات بھی لکھا جانے لگا۔ آپؐ کا حسب نسب، آپؐ کی ولادت، آپؐ کے آباء و اجداد کا تذکرہ سمیت آپؐ کی زندگی کے مختلف حالات و واقعات لکھنے کا یہ رجحان بعد میں باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کر گیا۔ جسے ہم آج ‘فنِ سیرت نگاری’ کے نام سے جانتے ہیں۔ شروع میں لوگ مغازی کے نام سے لکھتے تھے، بعد میں اسے سیرت یا سیرت نگاری کا نام دیا گیا۔ آج ہمارے پاس اس فنِ سیرت نگاری کی متعدد کتب موجود ہیں۔ جیسے سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام اور سیرت ابن کثیر وغیرہ۔ سیرت نگاری کا یہ سلسلہ جو عہد صحابہ اور تابعین سے شروع ہوا تھا آج تک بڑے آب و تاب سے چل رہا ہے۔ مختلف صدیوں میں آنے والے علماء نے اس موضوع پر نہایت خوبصورت کتابیں لکھی ہیں۔ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کا شمار بھی انہی شاہکار کتابوں میں ہوتا ہے جسے مرحوم سید جعفر مرتضیٰ عاملی نے لکھا ہے۔یہ کتاب اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سےاپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اس کے مؤلف آیت اللہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی کو علمی حلقوں میں فن تاریخ و سیرت کے مجتہد مانا جاتا ہے۔ انہوں نے سن ۲۰۱۹ء میں وفات پائی۔ الصحیح من سیرت النبی الاعظم کے علاوہ سیکڑوں کتابیں تالیف کئیں۔زیر ِنظر مقالے میں اس کتاب کا تعارف اور اس کی انفرادیت کو دو مباحث میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مبحث اول:کتاب کا تعارف
مکتب اہل سنت میں سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر "سبل الھدیٰ والرشاد” اور "امتاع الاسماع” جیسی تفصیلی کتابیں موجود ہیں،لیکن مکتب تشیع میں ایسی کوئی تفصیلی کتاب موجود نہ تھی۔ایسے میں حوزہ علمیہ قم کے فاضل سید جعفر مرتضی عاملی نے یہ ہمت کی کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر کوئی تفصیلی کتاب لکھی جائے۔چنانچہ بیسویں صدی کے اواخر میں انہوں نے یہ تحقیقی کام شروع کیا اور تقریباً 25 سالوں پر محیط انتھک محنت اور تحقیق کے بعد 35 جلدوں پر مشتمل کتاب "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ” تالیف کر کے مکتب تشیع میں موجود اس خلا کو پر کر دیا۔
35 جلدوں پر مشتمل یہ کتاب سیرت کے موضوع پر لکھی گئی کسی بھی شیعہ مؤلف کی مفصل ترین کتاب ہے۔ سید جعفر مرتضی عاملی انقلاب اسلامی ایران سے پہلے جب حوزہ علمیہ قم میں تاریخ اسلام کے طالب علم تھے،تب سے ان کے ذہن میں تھا کہ سیرت نبویہ پر ایک تفصیلی کتاب لکھی جانی چاہئے۔ انقلاب اسلامی کے بعد ان کی اس فکر کے لئے جب مواقع فراہم ہوئے توانہوں نے اس کتاب کی تالیف کی۔مؤلف نے اس کتاب کو چند مراحل میں تالیف کیا ۔ پہلے مرحلے میں اس کی چار جلدیں سن 1983ء ،میں طبع ہوکر منظر عام میں آئیں۔جامعۃ المدرسین کے زیر اہتمام موسسۃ النشر الاسلامی نے اسے قم المقدسہ سےنشر کیا۔ پھر اس کےتقریباً دس سال بعد مزید کچھ جلدوں کی تالیف سے فارغ ہوئے۔اور پہلے والے چار جلدوں پر تجدید نظر کے ساتھ ابتدائی دس جلدیں منتشر ہوئیں۔اور بالآخر سن 2006ء میں 35 جلدوں کی تالیف سے فارغ ہوئے۔
مولف نے ایک شیعہ عالم دین ہونے کے ناطے اپنے خاص اسلوب اور شیعہ اصول سیرت نگاری کے مطابق اس کتاب کی تالیف کی ہے۔لہٰذا متعدد مقامات میں اہل سنت سیرت نگاروں کی روش سے مختلف روش اپنائی ہے۔البتہ انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں بلاامتیاز فریقین کے 1700 سے زائد منابع سے استفادہ کیا ہے۔
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کی اہمیت:
"الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم” کتاب سیرت کے موضوع پر لکھی جانے والی اہم اور مفصل کتابوں میں سے ہونے کے علاوہ تحقیقی بنیادوں پر لکھی جانے والی کتابوں کی فہرست میں اہم حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ یہ کتاب گو کہ عہد حاضر کی ایک شاہکار ہے، لیکن اس کے منابع زیادہ تر بلاواسطہ سیرت کی امہات الکتب اور قدیمی کتابیں ہیں۔ مؤلف نے روایات سیرت میں تحقیق کر کے ان میں سے ضعیف اور غیر مستند روایات کو رد کردیا ہے اور فقط روایات صحیحہ کو انتخاب کر کے یہ ضخیم کتاب تالیف کی ہے۔لہذا یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔
یہ کتاب اپنی جامعیت اور پر کشش روش تالیف کی وجہ سے علمی حلقوں میں بہت پزیرائی حاصل کر چکی ہے۔ اور فن سیرت کے باحثین کے لئے ایک مستند منبع سمجھی جانے لگی ہے۔ حوزہ علمیہ قم،مشہد اور بیروت میں علماء اسے تحقیقی مقاصد کے لئے ایک اہم ذریعہ سمجھ کر استفادہ کرتے ہیں۔
اسی اہمیت کے پیش نظر سن ۱۳۸۰ش، میں جب اس کی پہلی دس جلدیں منظر عام پر آئیں تھیں ، جمہوری اسلامی ایران میں "جايزه كتاب سال جمهورى اسلامى ۱۳۸۰ش” کا ٹائٹل جیت چکی ہے۔ ایک بار "بہترین کتاب حوزہ” کا اعزاز بھی ملا ہے۔)مقالہ نگار کا سید محمد مرتضی عاملی،فرزند سید جعفر مرتضی عاملی سے انٹرویو، 28 فروردین 1396ھ ش۔بمطابق:17 اپریل 2017 بروز اتوار،بمقام مرکزی دفتر سید جعفر مرتضی عاملی،مجتمع حکیم،پردیسان، قم ،ایران۔(

الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کی خصوصیات:
اس کتاب کی نگارش میں مؤلف نے اپنے کلامی و تجزیاتی منہج کے علاوہ کچھ اصول اور مبانی وضع کئے ہیں، جن کے بابت خود مؤلف کا کہنا ہے کہ سیرت اور تاریخ میں تحقیق کے لئےیہ اصول تمام عقلاء عالم کے ہاں قابل قبول ہیں۔ ان اصولوں کے پیش نظر سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری خود کسی بھی تاریخی واقعے کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔ یہی اصول اس کتاب کو باقی کتب سیرت سے ممتاز کرتے ہیں۔(عاملی،سید جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم،ج33،دار الحدیث،قم، ایران، (سن 1426ھ) ص 280)
اس کتاب کے امتیازات میں سے ہے کہ مؤلف نے اس کی نگارش میں تاریخی ،قرآنی اور کلامی سمیت کئی پہلوؤں سے خوب تحقیق اور دقت نظر سے کام لیا ہے۔اس کے علاوہ تاریخی واقعات کو کاملاً تنقیدی انداز میں پیش کیا ہے۔جس کی مثالیں کتاب کے اندر جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔البتہ واقعات کی تجزیہ و تحلیل کرنے میں مؤلف نے زیادہ تر اپنی فکری و کلامی نظر سے استفادہ کیا ہے۔اور تاریخی اخبار و شواہد کو اکٹھے کرنے کے بعد ایک منطقی ربط قائم رکھتے ہوئے تجزیہ و تحلیل کیا ہےاور اپنےاجتہاد و استنباطات سے نتیجہ گیری کی ہے۔آغاز وحی ،عصمت، داستان شق صدر، تقیہ، حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقبول اسلام وغیرہ کے موضوعات پر اس کی مثالیں فراوان مل سکتی ہیں۔
اس کتاب کی خصوصیات میں سےیہ بھی ہے کہ مؤلف نے اس سیرتی مطالعے میں قرآن کریم کو محور قرار دیا ہے۔چونکہ قرآن کریم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی مرحلہ وار نازل ہوا، اور آپ کی حیات میں ہی محفوظ ہوا،جس میں کسی قسم کی تحریف کی گنجائش نہیں۔ جبکہ تاریخی روایات حیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی لکھی گئی ہیں۔ پس مؤلف نے اسے ادلہ اور مستندات سیرت میں سب سے اہم دلیل اور سب سے سچا شاہد قرار دیا ہے۔ لہٰذا تاریخی واقعات کی توثیق کرنے میں قرآن کریم پر استناد کیاہے۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ اگر قرآن کریم سے موافق نہ ہو تو نا قابل قبول سمجھتے ہیں، کیونکہ قرآن کریم حتماً ان تاریخی روایات پر ورودرکھتا ہے۔
"الصحیح من سیرة النبی الاعظمؐ”کی خصوصیات میں سے ایک اہم ترین خصوصیت اس کتاب میں نقل ہونے والی تاریخی روایات کو کلامی اعتقادات کے معیارپر کھنا ہے ۔سیدجعفر مرتضی ٰ عاملی نے ہر تاریخی واقعے کو اعتقادی اور کلامی معیار پر پرکھا ہے اور جو چیز قرآن اورعقل کی روشنی میں اسلامی اعتقادات کے خلاف تھی اسے جرح وتعدیل اور نقد ونظر کر کے دلیل وبرہان کے ساتھ رد کیا ہے ۔مئولف جب کلامی عقائد اور تاریخی واقعات کے درمیان تعارض دیکھتے ہیں تو جو چیز قطعی ویقینی نظر آتی ہے اور مستحکم حقائق کی عکاسی کرتی ہے اُسے منقولہ روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔( عاملی،سید جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ج2،ص63-64،محولہ سابق)
اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: "مسلمہ کلامی مسائل اور جو چیزیں ہمارے مسلّمہ یقینی عقائد کی حکایت کرتی ہیں ،وہ صحیح اور غلط کی پہچان میں بنیادی وحتمی کردار ادا کرتی ہیں ،لہٰذا ہم ان یقینی اعتقادات کے ساتھ تعارض کرنے والی روایت کو قبول نہیں کرسکتے اور یہ چیز ہم چاہیں یانہ چاہیں خود بخود پیش آجاتی ہے۔ ”(دو ماہی مجلہ آئینہ پژوھش،سال اول،بھمن و اسفند ۱۳۶۹ش،شمارہ 5،مدیر:محمد تقی سبحانی،ناشر:دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم،ص۶۴)
اسی بنیاد پر وہ بعض اُن تاریخی منقولات کو رد کردیتے ہیں جو مسلمہ دینی اعتقادات کے ساتھ تعارض رکھتی ہیں . ایک معیار کہ جس سے مئولف نے بہت سی تاریخی روایات کی تحقیق میں استفادہ کیا ہے ، عصمت انبیاء علیہم السلام کی کسوٹی ہے ۔ مثلا ً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے زمانے کے بارے میں بعض روایات اس کسوٹی کی بنا پر مئولف کی جانب سے رد کردی جاتی ہیں کہ ”انہ کان معصوماً عما یستقبح قبل البعثة وبعد ھا ” (آپؐ بعثت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ہر قسم کی قباحتوں سے دور تھے۔) (ابن حجر عسقلانی،شہاب الدین احمد بن علی بن محمد الکنانی،(م۸۵۲ھ)فتح الباری شرح البخاری،ج1،ناشر:دارالمعرفۃ،بیروت سن 1300ھ،ص401۔)
اس کتاب کے مؤلف علوم دینیہ کے مختلف موضوعات مثلاً ادب، فقہ، حدیث، تفسیر وغیرہ پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اہل سنت اور اہل تشیع دونوں مکاتب فکر کے مصادر تاریخ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انکی یہ مہارت اور آگاہی کتاب "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ” کو دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔
الصحیح من سیرۃ النبی ایک تجزیاتی کتاب ہے جس میں سیرت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے مربوط حوادث و واقعات کا تجزیہ و تحلیل کیا گیا ہے۔بہت کم موارد ایسے مل سکتے ہیں جن میں فقط کسی تاریخی متن کو نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہو۔ورنہ مؤلف کی روش یہ ہے کہ کسی بھی تاریخی واقعے کو بیان کرنے کے بعد اس کے موافق اور مخالف نظریات کو بیان کرتے ہیں۔ پھر ہر دو نظریات کے قرائن ودلائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اور آخر میں اصولی موقف کو لیتے ہوئے صحیح نظریہ بیان کرتے ہیں۔
اس کتاب کی ایک خصوصیت اس کے منابع ہیں۔ مؤلف نے اس کتاب کی تالیف میں تقریباً 1700 منابع فریقین سے بلا امتیاز اخذو استفادہ کیا ہے۔ کتاب کی آخری جلد میں کتابیات کی فہرست میں 1683 کتابوں کا نام لکھا ہے جن سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کتابوں میں سے بعض کے مجلدات سو سے زائد ہیں۔
ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کتاب کے مطالب دقیق اور عالمانہ ہیں۔کسی بھی مطلب کے دلائل جب تک مکمل اور واضح نہ ہوں، اس حوالے سے کوئی رائے نہیں دیتے۔یا کسی نظرئے کو منتخب نہیں کرتے۔ تاریخ اور سیرت کے کسی بھی موضوع پر کی جانے والی ہر بات کو اس کے منابع اولیہ سے حوالے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔کسی بات کا اگر منابع اولیہ میں حوالہ نہ ملے تو اسے قبول ہی نہیں کرتے ہیں۔
کتاب کے تراجم و تلخیص:
1۔ صفوۃ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ،ملخص:شیخ علی الرفیعی القوچانی و گروہ معارف۔
حوزہ علمیہ قم کا ایک گروہ معارف بنام”معاونیۃ شؤن طلبۃ العلوم الدینیہ فی بعثۃ قائد الثورۃ الاسلامیہ” نے شیخ علی الرفیعی القوچانی کی نگرانی میں تقریباً 400 صفحات پر مشتمل یک جلدی تلخیص لکھا ہے، جسے نور سوفٹ وئیر میں تالیفاتِ سید جعفر مرتضی کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
2۔ سیرہ پیامبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ڈاکٹر محمد سپہری۔
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم کی مکررات اور کچھ (مترجم کی نظر میں) غیر ضروری طولانی مطالب کو حذف کر کے 12 جلدوں پر مشتمل یہ شرح فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔اور اسے سازمان انتثارات پژوھشگاہ فرھنگ و اندیشہ اسلامی نے سن 1390 ش ،میں تہران سے نشر کیا ہے۔ لیکن اس ترجمے پر مؤلف نے شدید الفاظ میں ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ "کتاب من شہید شد” کے عنوان سے باقاعدہ ایک اعلامیہ لکھا ہے، جس میں یہاں تک کہا ہے کہ یہ ترجمہ اصلاً میری کتاب کا نہیں ہے۔ اور اسلامی جمہوری ایران کے وزارت ارشاد میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے ۔
3۔سیرت جاودانہ،ڈاکٹر محمد سپہری۔
کتاب "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ” کی دو جلدوں پر مشتمل یہ تلخیص "سیرت جاودانہ” کے نام سے ڈاکٹر محمد سپہری نے لکھی ہے۔ یہ تلخیص بھی سازمان انتثارات پژوھشگاہ فرھنگ و اندیشہ اسلامی،تھران سے سن ۱۳۸۴ ش، میں چھپ کر منظر عام میں آئی ہے۔
4۔ الصحیح من سیرت النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اردو ترجمہ)
اردو زبان میں ایک گروہ مصنفین نے اس کی پہلی دو جلدوں کا ترجمہ کیا ہے اور معارف اسلام پبلشرز سے چھپوایا ہے، لیکن بعد کے جلدوں کا ترجمہ نہیں ہوا۔
5۔سیرہ صحیح پیامبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فارسی ترجمہ)
حال ہی میں فارسی زبان میں اس کتاب کا ایک اور ترجمہ منظر عام میں آیا ہے۔ سترہ مجلدات پر مشتمل یہ ترجمہ ،دانش گاہ صنعتی مالک اشتر،تہران کی ایک ھیئت علمی(گروہ علمی) کے رکن ڈاکٹر حسین تاج آبادی نے کیا ہے۔اور اسے انتشارات سفیر اردھال نے سال 1395 ہجری شمسی بمطابق سن 2016ء میں چھاپ کر نشر کیا ہے۔
6۔فارسی ترجمہ
فارسی زبان میں کتاب کے ایک ترجمے پر خود مؤلف کی نگرانی میں ان کے فرزند ارجمند سید محمد مرتضیٰ عاملی کام کر رہے ہیں۔اس بات کا ذکر انہوں نےڈاکٹر سپھری کے ترجمے پر مؤلف کا اظہار ناراضگی کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے مقالہ نگارسے قم المقدسہ ایران میں ایک ملاقات کے دوران کیا۔امید ہے یہ ترجمہ جلد منظر عام پر آئے گا۔
6۔ الصحیح من سیرت النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،(اردو ترجمہ)
مدرسہ امام الصادق ،راجن پور،پنجاب کے پرنسپل، مولانا محمد تقی فاضل، یہ ترجمہ لکھ رہے ہیں، لیکن اب تک مکمل ہوکر منظر عام میں نہیں آیا۔
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم کے مطالب
۱۔مطالب کا اجمالی بیان ۔
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کل 35 جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس کی آخری دو جلدیں فہارس پر مشتمل ہے جلد اول سے لےکر جلد 33 تک کتاب الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ؐ کے مطالب کی اجمالی تقسیم بندی کتاب کےمختلف حصو ں،ابواب اور فصول کی بنا پر یوں وار کی جا سکتی ہے۔:
مؤلف نے جلدنمبر 1 تا 33 تک مطالب سیرت کو کلی طور پرمندرجہ ذیل دس حصوں میں تقسیم کیا ہے :
القسم الاول :
کتاب کے اس حصے میں تاریخ کی تدوین اور اس کے آثار و نتائج کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حصہ دو ابواب پر مشتمل ہے،ان میں سے ہر باب کے چار چار فصول ہیں۔
القسم الثانی:
کتاب کے اس حصے میں ولادت سےبعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تک کے آثار و احوال بیان کئے ہیں۔یہ حصہ بھی دو ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول کے دو،اور باب دوم کے تین فصول ہیں۔
القسم الثالث: من البعثہ الیٰ الھجرۃ ۔
کتاب کے اس حصے میں بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر ہجرت مدینہ تک کے احوال بیان کئے گئے ہیں۔اس حصے میں چار ابواب بنائے گئے ہیں۔ان میں سے باب اول تین فصول،باب دوم چھےفصول،باب سوم تین فصول اور باب چہارم چار فصول پر مشتمل ہے۔
القسم الرابع:من الھجرۃ الیٰ البدر ۔
ہجرت مدینہ سے لے کر غزوہ بدر تک کے احوال پر مشتمل اس حصے کو تین ابواب پر تقسیم کیا ہے ۔ان تینوں ابواب میں سے باب اول دو فصول اور باب دوم اور سوم چار چار فصول پر مشتمل ہیں ۔
القسم الخامس: حتیٰ الاحد۔
کتاب کے اس حصے میں غزوہ بدر اور غزوہ احد سے پہلے کے احوال کے علاوہ فن سیرت سے متعلق کچھ امور کا بیان کیا ہے۔یہ حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول ودوم چار چار فصول اور باب سوم سات فصول پر مشتمل ہے۔
القسم السادس : حتیٰ الخندق۔
چھے ابواب پر مشتمل اس حصے میں غزوہ احد ،سریہ بئر معونہ اور غزوہ بنی نضیر کے احوال بیان ہوئے ہیں۔ باب اول کے پانچ فصول ،باب دوم کے چھے فصول ، باب سوم وچہارم کے چار چار ،باب پنجم کے چھے اور باب ششم کے کل چار فصول ہیں۔
القسم السابع : من الخندق الیٰ الحدیبہ۔
کتاب کے اس حصے میں غزوہ خندق، غزوہ بنی قریضہ، غزوہ مریسیع،اور حدیث افک کا بیان ہوا ہے۔صلح حدیبیہ سے پہلے وقوع پزیر ہونے والے کچھ سرایا اور غزوات کے احوال بھی اسی حصے میں شامل ہیں۔اس حصے میں کل سات ابواب بنائے ہیں ۔ ان میں سے باب اول آٹھ فصول،باب دوم تین فصول ،باب سوم سات فصول ،باب چہارم تین فصول ،باب پنجم چودہ فصول،باب ششم پانچ فصول اور باب ھفتم چھے فصول پر مشتمل ہے۔
القسم الثامن :من الحدیبیۃ الیٰ فتح المکۃ۔
کتاب کےاس حصے کو کل گیارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے، جن میں بیعت رضوان، صلح حدیبیہ،غزوہ خیبر ،اور غزوہ موتہ وغیرہ کے احوال بیان ہوئے ہیں۔ان ابواب میں سے باب اول و دوم چھے چھے فصول ، باب سوم دو فصول باب چہارم پانچ فصول ،باب پنجم،ششم ،ھفتم،اور ھشتم چار چار فصول ،باب نہم دو فصول ،باب دھم سات فصول اورباب یازدھم نو فصول پر مشتمل ہے۔
القسم التاسع: فتح مکہ۔
کتاب کا نواں حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ اس حصے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کا مکہ پہنچنے کے احوال،فتح مکہ اورفتح مکہ کے بعد کے احوال بیان ہوئے ہیں۔ان ابواب میں سے باب اول کے آٹھ فصول ،باب دوم کے دس فصول اور باب سوم کے چار فصول ہیں۔
القسم العاشر : من الفتح الیٰ الشھادۃ۔
کتاب الصحیح من سیرت النبی الاعظم ؐ کا دسواں اور آخری حصہ کلاًچودہ ابواب پر مشتمل ہے۔اس حصے میں مختلف سریے اور وفود کے احوال کے علاوہ غزوہ حنین،غزوہ تبوک،حجۃ الوداع،سورہ برائت کی تبلیغ،حدیث غدیر وغیرہ کے احوال بیان ہوئے ہیں۔ اسی حصے کے اواخر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت مریضی میں زندگی کے آخری ایام کے احوال،آپؐ کی شہادت اور غسل و تجہیز و تدفین کے احوال بیان ہوئے ہیں۔
ان ابواب میں سے باب اول کے چار فصول ،باب دوم کے پانچ ،باب سوم کے چار ،باب چہارم کے چھے ،باب پنجم کے پانچ ،باب ششم کے بارہ ،باب دہم کے پانچ ،باب یازدہم کے نو، باب دوازدہم کےآٹھ ،باب سیزدہم کے چار اور باب چہاردہم کے پانچ فصول ہیں ۔ آخر میں کئی صفحات پر مشتمل خاتمہ ہے۔
کتاب کے منابع
سید جعفر مرتضیٰ عاملی نے ”الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”کی تالیف میں مختلف تاریخی ،کلامی ، تفسیری کتابوں سے استفادہ کیا ہے جن میں اہل سنت کی کتابیں بھی شامل ہیں اور اہل تشیع کی بھی ،اگرچہ اُن کے اکثر منابع اہل سنت ہی کی کتابیں ہیں لیکن اعتقادی وتفسیری ابحاث میں اُنہوں نے شیعہ کتب سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے ۔وہ اپنی کتاب کے منابع کے حوالے سے لکھتے ہیں :”ہم نے اپنی کتاب میں جتنے کم سے کم حوالوں ،شواہد ،دلائل اور ان کے منابع کی ضرورت تھی اسی پر اکتفا کیا ہے اگر چہ کتاب کے مطالب کی تائید اور ان پر تاکیدکے لئے اور بھی زیادہ حوالوں اور شواہد کا اضافہ کیا جاسکتا تھا ۔”
مؤلف نے اس کتاب کی تالیف میں قدماء اور معاصرین دونوں کی کتابوں کی طرف مراجعہ کیا ہے، لیکن اخبار و روایات سیرت کو انہوں نے قدماء کی کتابوں کے حوالے سے ہی اخذ کیا ہے۔ کیونکہ ان کے بقول معاصرین کی کتب میں کوئی نئے مواد سیرت نہیں ،بلکہ قدماء کی کتب میں موجود مطالب کو تکرار کیا ہے یا انہی مطالب کی ابواب بندی ، تخریج توجیہ وغیرہ کی ہے ۔
مؤلف نے اس ضخیم کتاب کی تالیف میں بعض کتابوں کے مختلف نسخوں سے استفادہ کیا ہے،اور بعض مقامات میں ان مختلف نسخوں کا حوالہ نہیں دیا ہے۔جس کا اعتراف خود مؤلف نے بھی کتاب کے مقدمے میں کیا ہے۔اسی طرح کتاب کی تالیف کے وقت کچھ کتابوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست ترتیب دیتے ہوئے ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔مؤلف کے بقول فہرست مصادر ترتیب دیتے وقت بعض کتابیں دسترس میں نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ (عاملی،سید جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم،ج1،ص8)
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کی انفرادیت:
سیرت نگاری کا رجحان مسلمانوں میں ابتداء اسلام سے ہی چلا آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس فن سیرت سے مربوط متعدد کتابیں موجود ہیں۔ سیرت کی ان تمام کتابوں میں ان کے مولفین نے اپنے اپنے رجحانات کے مطابق سیرت نگاری کی ہے۔ ہر کسی نے اپنے ذوق اور منہج کے مطابق واقعات سیرت کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ در حقیقت کسی بھی سیرت نگار کی انفرادیت اس کے ذوق اور منہج کی بناء پر ہوتی ہے۔ اس لئے سیرت کی قدیم و جدید کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف زمانوں میں سیرت نگاروں کا منہج اور ان کی روش مختلف رہی ہے۔ سید جعفر مرتضیٰ عاملی کا شمار عصر حاضر کے بڑے محققین اور سیرت نگاروں میں ہوتا تھا۔ اگرچہ انہوں نے مختلف فنون میں طبع آزمائی کی ہے اور گراں بہاء علمی آثار چھوڑے ہیں۔ تاہم فن سیرت نگاری اور تاریخ سے ان کی وابستگی ہی ان کی وجہ شہرت قرار پائی ہے۔ وہ تاریخ اور سیرت نگاری میں گہری تحقیق کے قائل تھے۔سیرت اور تاریخ کی موجودہ جدید و قدیم کتابوں میں موجود غیر تحقیقی مواد کا ایک بڑا حصہ باعث بنا کہ انہوں نے ضعیف و غیر تحقیقی روایات سے صحیح روایات کو الگ کر کے سیرت طیبہ کا نمایاں پہلو پیش کرنے کی کوشش کی۔وہ اپنی تحقیقات کی روشنی میں اپنی کتب سیرت کا نام الصحیح رکھتے تھے۔ جیسے الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، الصحیح من سیرۃ الامام علیؑ، الصحیح من سیرۃ الحسینؑ وغیرہ۔ بعض لوگ انہیں سیرت اور تاریخ کے مجتہد بھی مانتے ہیں۔ ذیل میں ان کی سیرت نگاری انفرادیت کے کچھ نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
قرآن کریم کی آیات کو بیان کرنے میں انفرادیت۔
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کےمؤلف سید جعفر مرتضیٰ نے عاملی کتاب کے اول سے آخر تک قرآن کریم کی کل 114 سورتوں سے تقریباً96 سورتوں کی ہزاروں آیات سے استدلال کیاہے۔ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کے علاوہ سیرت کی کسی کتاب میں اتنی کثرت سے آیات قرآنی سے استدلال نہیں کیاگیا۔
۱۔ مؤلف قرآن کریم کی آیات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔بعض اوقات کسی آیت کو یا کسی آیت کے ایک حصے کو کسی بحث کا عنوان قرار دیتے ہیں۔ جیسے کتاب کی آٹھویں جلد میں سریہ بئر معونہ کے باب میں ایک بحث کا عنوان، "ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا”( سورۃ آل عمران 3: 149 )
قرار دیتےہیں۔ اور شہداء بئر معونہ کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ، ج8، ص 310 )
۲۔ بعض اوقات کسی عنوان کے فوراً بعد اسی عنوان سے مربوط قرآن کریم کی آیت ذکر کرتے ہیں۔ پھر اس آیت کی روشنی میں مذکورہ عنوان پر بحث کرتے ہیں؛ جیسے غزوہ بن نضیر کے مباحث میں "اللہ ھو الذی اخرجھم” کے عنوان سے ایک بحث کرتےہیں۔ عنوان کے فوراً بعد سورہ حشر کی آیت 2 بیان کرتے ہیں۔ پھر اسی آیت کے ذیل میں بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں:
"فنجده تعالى ينسب ما جرى لبني النضير إلى نفسه، و يؤكد على ذلك بصور مختلفة .. حتى كأن ما فعله المسلمون ليس بشي‏ء يعتد به في موضوع إلحاق الهزيمة بهذا العدو” (عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ، ج9، ص223)
اسی طرح کتاب کی آٹھویں جلد میں "الیھود والرجم فی القرآن” کے عنوان کےذیل میں سورہ مبارکہ مائدہ کی آیت ۴۱-۴۵، ذکر کرتےہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات اسی موضوع پر نازل ہوئیں ۔ پھر انہی آیات کے شان نزول کے بارے میں نصوص میں جو اختلافات ہیں انہیں بیان کرکےبحث کرتے ہیں۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ،ج 8، ص87-88)
اسی طرح حدیث الافک کے بحث میں بھی آغاز ان آیات سے کرتے ہیں جو اس واقعے سے مربوط ہیں۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ، ج13، ص11)
۳۔ بعض مقامات میں کسی بات کو رد کرنے کےلئےمختلف دلائل کے علاوہ قرآن کریم کی آیات سے استدلال کرتےہیں۔ مثلاً؛ کتاب کی اکیس ویں جلد میں "النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یردّ السلام ولا یقبل التوبۃ” کے عنوان سے بعض روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان روایات کے مطابق ایک بار عبداللہ ابن ابی امیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ لیکن آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ اور اس سے منہ پھرلیا۔ اس وجہ سے عبداللہ کو ڈر لگا کہ اسے قتل کر دیا جائےگا۔
مؤلف ان روایات کی صحت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو مجسمہ اخلاق حسنہ ہیں۔ ان کے اخلاق کریمہ میں ہم کوئی ایسا واقعہ نہیں دیکھتے کہ کوئی آپ کو سلام کرے اور آپ اس کا جواب نہ دے۔ پھر قرآن کریم کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کیف وقد انزل اللہ تعالیٰ فی کتابہ الکریم: ﴿وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ حَسيبا﴾ (سورۃ النساء 4: 86)
(اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔) ۔
اس کے علاوہ چند دیگر آیات بھی پیش کرتے ہیں۔
۴۔ بعض اوقات کسی بات کی تائید کےلئے قرآن کریم کی آیات ذکر کرتے ہیں۔ مثلاًکتاب کی چوبیس ویں جلد میں "النبی صلی اللہ علیہ وآلہ والشعر” کے نام سے ایک عنوان قائم کیا ہے۔ اور اس کے ذیل میں بیان کیا ہے جب غزوہ حنین میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اصحاب کو غیبی مدد کا وعدہ کرنے کے باوجود اصحاب جنگ سے بھاگ گئے تو آنحضرتؐ نے بلند آواز میں فرمایا:
"انا النبیّ لا کذب – انا ابن عبدالمطلب”
چونکہ عام طور پر جنگوں میں رجز خوانی کےلئے شعر کہے جاتے ہیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ جملہ بھی بظاہر اوزان کے لحاظ سے شعر کی طرح ہے۔ تو کیا اسے شعر قرار دیں؟
سید جعفر مرتضیٰ عاملی کہتے ہیں کہ ضروری نہیں ہر وزن پر آنے والا کلام شعر کہلائے۔ کیونکہ بعض اوقات عام گفتگو بھی شعری وزن پر آجاتی ہے۔ پس جب تک شعر کا قصد نہ کریں۔ کوئی موزون گفتگو شعر نہیں کہلاتی۔ اور پھر اس پر شاہد کے طور پر قرآن کی کچھ آیات ذکر کرتے ہیں۔یہ آیات بظاہر شعری وزن پر ہیں لیکن کسی نے بھی انہیں شعر نہیں کہا۔ یہاں تک کہ مشرکین مکہ بھی ، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شاعر ہونےکی تہمت لگاتے تھے۔ لیکن پھر بھی ان آیات کو شعر نہیں قرار دے سکے۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ، ج24، ص36-335)
۵۔ بعض اوقات کسی خاص واقعے میں مختلف قسم کے لوگوں کے احوال بیان کرنےکے لئے قرآنی آیات کریمہ پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ غزوہ خندق کے موقع پر جب مشرکین نے مدینے کے گرد حصار لگا کر مسلمانوں کو شدید خوف اور رعب میں ڈالا ہواتھا۔ اور مشرکین خود اپنی قوت اور مسلمانوں کو بے بس دیکھ کر بہت خوش تھے۔سید جعفر مرتضیٰ عاملی اس موقع پر مختلف لوگوں کی حالات کی منظر کسی کرنےکےلئے قرآنی آیات پیش کرتےہیں۔
قرآنی آیات میں الفاظ کی تفسیر سے استنباط کرنے میں انفرادیت
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ؐ کے مختلف مقامات پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ مؤلف قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے منفرد استنباطات کرتے ہیں۔ مثلاً کتاب کی بیسویں جلد میں "اصول الحرب فی سورۃ عادیات” کے عنوان سے ایک بحث کرتے ہیں۔ اس بحث میں سورہ عادیات،خصوصا اس سورے کے الفاظ: والعادیات، ضبحاً،فالموریات، فالمغیرات اور فوسطن بہ جمعاً” کی تفسیر کرتے ہوئے نو نکات کی شکل میں جنگی اصول بیان کرتے ہیں۔ اور ان الفاظ میں موجود حکمتوں کے حوالے سے خوبصورت استنباط کرتے ہیں۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج20،ص256-26)
روایات نقل کرنے میں الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کی انفرادیت
۱۔ تحقیقی و تنقیدی انداز بیان
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کے مختلف مقامات پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی جب بھی کسی موضوع کے متعلق مختلف منابع سے روایات نقل کرتے ہیں تو ایک تنقیدی انداز نظر آتاہے۔ یعنی پہلے ایک موضوع سے مربوط روایات کو مختلف منابع سے مختلف عبارات کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ پھر ان کے آپس میں موازنہ اور مقائسہ کرکے ان کے درمیان موجود تعارض اور اختلافات کو واضح کرتے ہیں۔ اگریہ تعارض اور اختلاف قابل جمع نہ ہوا تو ایسی روایات کو مسترد کرتےہیں۔ اور ان کے متبادل دلائل سے اسی موضوع پر استدلال کرتے ہیں۔لیکن ان روایات کا اختلاف قابل جمع اور قابل حل ہے تو انہیں جمع کرکے نتائج اخذ کرتےہیں۔ چنانچہ مختلف مقامات پر روایات ذکر کرتے ہوئے: "قالوا” یا "انھم یذکرون”، "یقولون”،” ورووا” جیسے الفاظ کے ساتھ روایات بیان کرتےہیں۔ بعد میں ان روایات پر تجزیہ کرتے ہوئے "نقول”، "نحن نقول” جیسے الفاظ استعمال کرتےہیں۔ مثلاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زینب بنت جحش سے شادی کی تاریخ کے بحث میں لکھتے ہیں:
"ویذکرون ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ قد تزوج بزینب ۔۔۔ ھی امیمہ بنت عبدالمطلب” (عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ؐ،ج14، ص49-51)
مؤلف اس روایت کے ایک ایک جزء کو بڑی تفصیل سے اسی تحقیقی و تنقیدی انداز میں بیان کرتے ہیں اور "ونقول” کے ساتھ ہر جزء کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہیں: اس بحث کے آخر میں "ماذایقول الافّاکون” کے عنوان کے ساتھ اس شادی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان لگانے والوں کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ اور ان کے جوابات دیتے ہیں۔ یہاں بھی وہی تحقیقی و تنقیدی انداز نظر آتاہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: "وقد زعموا: ان زینب مکث عند زید ماشآءاللہ۔۔۔” (عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ،ج14، ص83)
اس ضمن میں متعدد روایات بیان کرتےہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس شادی کے حوالے سے بہت سی تہمتیں لگائی گئی ہیں۔ اور آخر میں ان تمام روایات پراشکال کرتے ہیں۔ چنانچہ "نقد الروایات المتقدمۃ” کے عنوان کے ساتھ لکھتے ہیں:
ونقول: إنه يرد على الروايات المتقدمة العديد من الإشكالات التي تظهر زيفها.و نحن نذكر هنا ما تيسر لنا من هذه الإشكالات، و نجيب عنها، و ذلك على النحو التالي‏( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ،ج14، ص94)
۲۔ متعدد منابع کا حوالہ
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ مؤلف عام طور پر ایک ایک روایت کو مختلف منابع کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔بعض اوقات کچھ روایات کو بیسیوں منابع سے نقل کرتے ہیں۔ حواشی میں ان تمام منابع کا مختصر حوالہ دیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب قاری کسی روایت کو اس کے مصادر اولیہ میں دیکھنا چاہتاہے تو اسے مصادر اولیہ تک رسائی آسان ہوتی ہے۔ کیونکہ ان متعدد مصادر میں سے کوئی تو قاری کےدسترس میں ہوتا ہے۔ اس کےبرخلاف اگر کسی روایت کو فقط ایک مصدر سے یا کم صادر کے حوالے سے نقل کرتے ہیں تو ان مصادر تک رسائی مشکل ہوجاتی۔ کیونکہ کسی مصدر کا جونسخہ مؤلف کے پیش نظر رہاہو۔ ہر قاری کی دسترس اس مصدر تک ہونا مشکل ہے۔ مثلاً جنگ اوطاس سے مربوط روایات کو نقل کرتے ہوئے متعدد منابع کا حوالہ دیا ہے۔ اسی طرح حدیث ردّ الشمس کے سو سے زائد منابع نقل کیاہے۔ (عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ،ج19،ص27)
۳۔ کثیر تعداد میں روایات نقل کرنا۔
سید جعفر مرتضیٰ عاملی کےتفردات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ بیشتر اوقات کسی موضوع پر بحث کرتے ہوئے اس سے مربوط روایات کثرت سے نقل کرتے ہیں۔ پھر ان پر تجزیہ کرکے نتیجہ گیری کےلئے بھی روایات نقل کرتے ہیں مثلاً حدیث افک کے موضوع پر پہلے مختلف منابع سے 24 روایات نقل کرتے ہیں۔ پھر ان کی تائید میں پانچ اورروایات نقل کرتے ہیں۔ پھر ان روایات کے درمیان موجود تعارض کو بیان کرنےکےلئے مزید 37 روایات بیان کرتے ہیں۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج،13، ص15-31)
۴۔ روایات کے اسناد پر نقد
الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ کے بعض مقامات پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مؤلف نے کچھ روایات کے اسناد پر تفصیلی نقد کیا ہے۔ مثلاً حدیث افک مجموعی طورپرکل آٹھ صحابہ کرام سے روایت کی گئی ہے۔ یہ آٹھ صحابہ کرام حضرت ابن عمر، ابن عباس، حضرت عبداللہ ابن زبیر، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابوالیسر انصاری، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت ام رومان اور حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہم جمیعاً) ہیں۔
سید جعفر مرتضیٰ عاملی ان میں سے ہر ایک سے مروی روایت کی سند پر تفصیلی بحث کرتےہیں۔ اور ان سب پر اعتراض کرتے ہیں۔( دیکھئے: عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج،13، ص53-81)

اشعار سے استدلال کرنے میں انفرادیت
سید جعفر مرتضیٰ عاملی چونکہ خود ایک برجستہ شاعر ہیں۔ مختلف موضوعات پرانکے شعری نمونے موجود ہیں۔ جن میں سے بعض کی طرف اسی مقالے کے پہلے باب میں اشارہ ہواہے۔ لہٰذا سیرت نگاری میں بھی انہوں نے اپنے اس شاعرانہ ذوق کی وجہ سے مختلف اشعار استناد کیا ہے۔ خصوصاًجنگوں کے مواقع پر رجز خوانی کرتے ہوئے کہے گئے اشعار کو بڑے اہتمام سے پیش کیاہے۔ مثلاً جنگ خیبر کے موقع پر میدان جنگ میں خیبر کے یہودیوں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان رجز خوانی کے مقابلے میں جو اشعار کہے گئے ہیں، مؤلف انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک مقام پر یہودی پہلوان عنتر اور اس کے لشکر کو مخاطب کرکے فرمایا:
ھٰذا لکم معاشر الاحزاب من فالق الھامات والرقاب
فاستعجلوا للطعن والضراب واستبسلوا للموت والمآب
صیرکم سیفی الیٰ العذاب بعون ربی الواحد الوھاب
(عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ، ج18، ص157)
مرہ بن مروان کو مخاطب کرکے کہا:
"انا علی وابن عبدالمطلب اخوالنبی المصطفیٰ والمنتجب
رسول رب العالمین قد غلب بیّنہ رب السماء فی الکتب
وکلھم یعلم لا قول کذب ولا بزور حین یدء بالنسب
صیافی الاَدیم والجبین کالذھب الیوم اَرضیہ بضرب وغضب
ضرب غلام اَرب من العرب لیس بخوار یریٰ عند النکب”
(عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ، ج18، ص158)
بعض مقامات پر کسی بات کو ثابت کرنے کےلئے دلیل کے طور پراشعار نقل کرتے ہیں۔ مثلاً جنگ بدر کے موقع پر مشرکین کی طرف سے جنگ میں پہل کرتے ہوئے عتبہ، شیبہ اور ولید میدان میں اترے۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے تین انصار گئے۔ مشرکین کی طرف سے اپنے ہم پلہ قریش کو مقابلے میں آنے کا کہا۔ لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تینوں اصحاب کرام کوواپس بلاکر حضرت حمزہ، حضرت علی ؑ اور حضرت عبیدہ ابن الحارث(رضی اللہ عنہم) کو بھیجا۔ جنگ میں سب سے پہلے حضرت علی ؑنے ولید کو قتل کیا۔ پھر حضرت حمزہ کے پاس آئے تو شیبہ سے لڑرہے تھے۔ حضرت علی ؑنے انکی مدد کرکے شیبہ کو قتل کیا۔ پھر جب عبیدہ کے پاس گئے تو عتبہ نے ان کے پاؤں پر زخم لگایا تھا۔ حضرت علی ؑنے عتبہ کو بھی قتل کیا۔ پس حضرت علی ؑ ان تینوں کے قتل میں شریک تھے۔اس بات پر دلیل کے طور پر پہلے ہندہ کے کچھ اشعار پیش کرتے ہیں:
ماکان لی عن عتبۃ من صبر ابی و عمی،وشقیق صدری
اخی الذی کان کضوء البدر بھم کسرت یا علی ظھری
اسی طرح امیر المؤمنین حضرت علی ؑ کی تعریف میں سید الحمیری کے اشعار نقل کرتے ہیں:
ولہ ببدر وقعۃ مشھورہ کانت علی اھل الشقاء دمارا
فاذاق شیبۃ ولاولید منیۃ اذصبحاہ جحفلا جرارا
واذاق عتبۃ مثلھا اھویٰ لھا عضبا صقیلا مرھفا بتارا
(عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج،5، ص311)
بعض اوقات کسی واقعے کو بیان کرنےکےلئے اشعار پر استناد کرتےہیں۔ اور اشعار کےذریعے ہی کسی واقعے یا حالت کی منظر کشی کرتےہیں۔ مثال کے طور پر پانچویں جلد میں مسجد نبوی کی تعمیر کی منظر کشی کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام "حرہ” نامی جگہے سے پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی مسجد کے پتھر لانے میں بنفس نفیس شریک تھے۔ چنانچہ کسی نے اسی وقت شعر کہا:
لئن قعدنا النبیؐ یعمل لذالک منا العمل المضلل
اسی طرح مسجد کی تعمیر کرتے وقت مسلمان رجز پڑھتےتھے:
اللھم ان الاجر اجرالآخرہ فارحم الانصار والمھاجرۃ
(عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج،5، ص311)
اسی طرح مختلف مقامات میں سید جعفر مرتضی عاملی اشعار سے استدلال کرتے ہیں۔
تاریخی واقعات پر وارد ہونے والے اشکالات کے تفصیلی جوابات:
سید جعفر مرتضی عاملی کے ہاں یہ انفرادیت بھی پائی جاتی ہے کہ بعض تاریخی واقعات ، جو اپنی نوعیت کی غیر معمولی حادثات ہیں، ان پر لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں یا کوئی بھی اس پر اشکال کر سکتا ہے۔ انہوں نے ایسے اعتراضات کے ہرممکنہ جوابات تفصیل سے دئے ہیں۔ مثلاً واقعہ "شق القمر ” جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے، اس کا وقوع مسلّم ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے اس واقعے پر مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے ہیں:
۱۔ اگر واقعاً چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے تو دنیا میں سب لوگوں کو نظر آنا چاہئے تھے۔
۲۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مشرق و مغرب کے سارے اہل قلم اس انوکھے واقعے کو اپنی تحریروں میں لکھ لیتے، کیونکہ یہ عجیب ترین آسمانی نشانیوں میں سے تھا۔
۳۔ اگر یہ واقعہ رونما ہوا ہوتا تو لوگ اسے مختلف طریقوں سے اکثر و بیشتر سنایا کرتے اور لکھا کرتے۔ جنکہ یہ واقعہ دنیا میں اس طرح مقبول نہیں جس طرح ہونا چاہئے تھا۔( الطباطبائی،سید محمد حسین،(م1981ء)،المیزان فی تفسیر القرآن، ط ثانیہ،موسسہ اسماعیلیان،قم،ایران،(سن1972ء) نیز دیکھیے: عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج ج19،ص64)
سید جعفر مرتضٰی عاملی ان سوالات کے جوابات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اوّلاً: تمام زمینی اور آسمانی حوادث کے بارے میں معلومات کا محفوظ ہونا کوئی ضروری نہیں۔ ہوسکتا ہے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے واقعات بھی بھول جائیں۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے بارے میں پوری دنیا کے لوگ متوجہ نہ ہونے کے کچھ اور اسباب بھی علماء نے بیان کئے ہیں۔
چنانچہ لکھتے ہیں:
"۱۔ یہ انشقاق کرہ زمین کے ایک حصے پر واقع ہوا تھا۔ کیونکہ ایک طرف رات تھی، دوسری طرف دن تھا۔پس جس طرف دن تھا وہاں یہ واقعہ نہیں دیکھا گیا۔
۲۔ اور جس طرف یہ حادثہ پیش آیا تھا وہاں بھی بہت سارے لوگ اسے نہیں دیکھ سکے۔ کیونکہ عرب کے مشرق میں واقع بہت سارے علاقوں میں جہاں رات کا آدھا حصہ گزر گیا تھا،وہاں لوگ نیند کی وجہ سے اس غیر معمولی واقعے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔
۳۔ اس کے علاوہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا ، ان میں سے ممکن ہے بعض منطقوں میں آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوں، اس وجہ سے نظر نہ آیا ہو۔
۴۔ اس طرح کے آسمانی حادثات کی طرف سب لوگ اس وقت متوجہ ہوتے ،اگر یہ کسی بلند آواز کے ساتھ واقع ہوجائے، یا کوئی غیر معمولی حالت ہوجائے۔ مثلاً سورج گرہن کی طرح روشنی کم ہوجائے۔ جبکہ چاند کے دو ٹکڑے ہوتے وقت نہ کوئی آواز آئی تھی اور نہ ہی کوئی تاریکی چھائی تھی۔
۵۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اس دور کے لوگ اس طرح کے آسمانی حوادث کی تحقیق کرنے اور ان کو محفوظ رکھنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے تھے۔
۶۔ اور اس دور میں ذرائع ابلاغ کے ایسے وسائل بھی نہیں تھے کہ کسی خبر کودنیا کے مختلف جگہوں تک فوراً پہنچا دیتے تاکہ سارے لوگ متوجہ ہوں۔
۷۔ پھر ہم تک جو تاریخ پہنچی ہے، یہ بہت ناقص ہے۔ آج سے پہلے دنیا میں کتنے سارے حادثات و واقعات پیش آئے ہونگے، لیکن ان سب کے بارے میں معلومات ہمیں تاریخ میں نہیں ملتے۔
پس ان جیسے وجوہات سے معلوم ہوتا ہے کہ شق القمر کے واقعے سے سارے لوگوں کا آگاہ ہونا ضروری نہیں۔ اور نہ ہی اس واقعے کا تاریخ میں تفصیل کے ساتھ محفوظ ہونا ضروری ہے۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج3،ص340)
ثانیاً: اس زمانے میں منطقہ عرب میں امور فلکیات کا کوئی مرکز نہیں تھا جو اس واقعے کو محفوظ کرتا۔ روم اور یونان وغیرہ میں ایسے مراکز تھے لیکن آسمانی افق مختلف ہونے کی وجہ سے شاید انہیں یہ منظر نظر نہ آیا ہو۔اس کے علاوہ بعض روایات کے مطابق "شق القمر” کا یہ واقعہ چاند کے طلوع ہوتے وقت پیش آیا تھا۔اور فقط تھوڑی دیر تک باقی رہا۔ پس اہل مغرب کو نظر نہ آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی چاند وہاں طلوع ہی نہیں ہوا تھا۔”( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج3،ص341)
جدید علمی و سائنسی نظریات سے استفادہ
سید جعفر مرتضیٰ عاملی بعض موضوعات پر بحث کرتے ہوئے جدید علمی اور سائنسی نظریات سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔اور یہی خصوصیت بھی الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ؐ کو باقی کتب سیرت سے منفرد بناتی ہے۔ چنانچہ واقعہ "شق القمر”کے بحث میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات دینے کے بعد اپنی طرف سے اس واقعے پر ایک سوال یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ "کیا علمی لحاظ سے اجرام فلکی کا ٹوٹ جانا یا دو حصوں میں تقسیم ہونا ممکن ہے؟ اگر ٹوٹ جانا ممکن ہے تو ان کا واپس جڑجانا ممکن ہے؟ کیونکہ دونوں حصوں کے درمیان ایک دوسرے کو جذب کرنے کی کشش ختم ہونے کی وجہ سے دوبارہ جڑ جانا محال ہوتا ہے۔”
پھر ان سولات کے جوابات دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کسی کام کا خلاف معمول واقع ہونا کوئی محال نہیں۔ اس کے علاوہ جدید علوم کے ماہرین کے مطابق کچھ خاص عوامل کی وجہ سے اجرام فلکی میں اس طرح کے بہت سے حادثات پیش آ چکے ہیں۔ مثلاً
۱۔ تقریباً پانچ ہزارسالوں سے سورج کے گرد چھوٹے بڑے کچھ اجرام فلکی گھوم رہے ہیں،جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب کسی سیارے کے باقیات ہیں جو کسی زمانے میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان میں ہوتا تھا۔پھر نا معلوم وجوہات کی وجہ سے ٹوٹ گیا اور اس کے ٹکڑے بکھر کر سورج کے گرد گھومنے لگے۔
۲۔ نظام شمسی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اصل میں یہ سب ایک تھے۔ پھر نامعلوم اسباب کی وجہ سے ایک دھماکہ ہوا ، جس کے نتیجے میں موجودہ شکل وجود میں آئی۔ پس نامعلوم وجوہات کی وجہ سے اتنا بڑا اور منظم حادثہ وجود میں آسکتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے چاند کے دو ٹکڑے کیوں نہیں کر سکتا۔”
دوسرا سوال کہ اگر چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا تو واپس کیسے جڑ گیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ماہرین کے مطابق ہر بڑے اجرام فلکی میں جاذبیت موجود ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ سورج اپنے گرد گھومنے والے بہت سے اجرام کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پس ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ چاند کے اندر جو جاذبیت ہے اس میں اگر جزوقتی طور پر کوئی قوت مانعہ آجائے ،جس کی وجہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوں۔ پھر جب اس قوت مانعہ کی تاثیر ختم ہوجائے تو دونوں ٹکڑے اپنی جاذبیت کے ذریعے دوبارہ ایک دوسرے سے مل جائیں۔اس میں عقلی طور پر کوئی مانع نہیں۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج3،ص342)
مؤلف اسی ضمن میں کچھ اور ادلہ پیش کرنے کے بعد ، تین فروری 2004ء بروز منگل ،ایک ایرانی جریدہ "کیھان” میں نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ فضا میں موجود امریکی ریڈار نے اپنی جدید تحقیقات میں بتایا ہے کہ ایک بار کچھ خاص وجوہات کی بناء پر چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا ۔ اس کے بعد دوبارہ سے مکمل طور پر جڑ گیا تھا۔( عاملی، سید جعفر مرتضیٰ، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ ج3،ص343)

مصادر
1۔ابن حجر عسقلانی،شہاب الدین احمد بن علی بن محمد الکنانی،(م۸۵۲ھ)فتح الباری شرح البخاری،ج1،ناشر:دارالمعرفۃ،بیروت سن 1300ھ،ص401۔
2۔ ابن کثیر،ابوالفداء اسماعیل بن عمر القعشی الدمشقی(م 774ھ)،السیرۃ النبویہ،تحقیق: مصطفیٰ عبد الواحد، ج4،دارالمعرفہ للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت(سن 1395ھ)، ص201
3۔ ابن ہشام،السیرۃ النبویہ،ج2،شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفیٰ البابی الحلبی واولادہ،مصر،(سن 1375ھ)،ص641،محولہ سابق۔
4۔ الدیار البکری ،تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس،ج2،دار صادر،بیروت،(سن ندارد)،145 محولہ سابق۔
5۔ الطباطبائی،سید محمد حسین،(م1981ء)،المیزان فی تفسیر القرآن، ط ثانیہ،موسسہ اسماعیلیان،قم،ایران،(سن1972ء)
6۔ العاملی،سید جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم،ج33،دار الحدیث،قم، ایران، (سن 1426ھ) ص 280
7۔ المظفر،محمد رضا(م ۱۳۸۳ھ)،اصول الفقہ،تحقیق:صادق حسن زادہ المراغی،ط،اولیٰ ،ناشر مکتبۃ العزیزی،قم(۱۴۲۷ھ)ص۴۳۲
8۔ مقالہ نگار کا سید محمد مرتضی عاملی،فرزند سید جعفر مرتضی عاملی سے انٹرویو، 28 فروردین 1396ھ ش۔بمطابق:17 اپریل 2017 بروز اتوار،بمقام مرکزی دفتر سید جعفر مرتضی عاملی،مجتمع حکیم،پردیسان، قم ،ایران۔


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/jkrisalaat/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button