انبیاء کرامؑشخصیات

سورہ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡ زُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ
ابراھیم:37
اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے رب! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔
مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ: میں لفظ مِنْ تبعیضی ہے۔ اس سے ’’ بعض اولاد‘‘ سمجھا جاتا ہے جس سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کو یہاں بسایا تھا۔
عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ: بیت سے مراد کعبہ ہے جو اس وقت بَیۡت یعنی گھر کی شکل میں آ گیا تھا۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عمر کے آخری حصے میں بیت اللہ کی تعمیر کے وقت مانگی ہے کیونکہ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام آپؑ کے عالم پیری میں پیدا ہوئے ہیں:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ۔۔۔۔
(ابراہیم: ۳۹)
ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحق عنایت کیے۔۔۔
اور بیت اللہ کی تعمیر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جوانی کے وقت عمل میں آئی:
وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ۔۔۔۔
(بقرۃ: ۱۲۷)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔۔۔۔
رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ: یہ وادی پتھریلی اور ریتلی ہونے کی وجہ سے آج تک قابل زراعت نہیں ہے۔ یہاں اپنی اولاد کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس لیے بسایا کہ وہ نماز قائم کریں۔ کیا نماز قائم کرنے کے لیے بے آب و گیاہ خشک بیابان کی ضرورت تھی؟ حضرت علی علیہ السلام اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ اس گھر کو سخت چٹانوں اور گہری ریت کے درمیان کیوں قرار دیا؟
وَلَکِنَّ اللّٰہَ یَخْتَبِرُ عِبَادَہُ بِاَنْوَاعِ الشَّدَائِدِ وَ یَتَعَبَّدَھَمْ بِاَنْوَاعِ الْمُجَاہِدِ وَ یَبْتَلِیْھِمْ بَضُرُوبِ المَکَارِہِ، اِخْراجاً لِلتَّکَبُّرِ مِنْ قُلُوبِہِمْ وَ اِسْکَاناً لِلتَّذَلُّلِ فِی نُفُوسِہِم ۔۔۔۔
(نہج البلاغۃ ص ۲۹۲۔ خطبہ قاصعہ)
لیکن اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو گوناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے کہ جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہو اور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تکبر کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے۔
فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ: لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل بنا دے۔ فاجعل میں فاء برائے تفریع ہے۔جیسے ہم اردو میں ایک مطلب بیان کرنے کے بعد نتیجے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں تو ’’ لہٰذا ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں : میں نے اپنی ذریت کو تیرے گھر کے پاس بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا صلہ کے طور پر لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا دے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ سے لوگوں کے دلوں میں اپنی اولاد کی محبت کی درخواست کر رہے ہیں۔
اس جگہ ہم آپ کے لیے تفہیم القرآن کی عین عبارت لکھ دیتے ہیں جو انہوں نے آیۃ المودۃ کے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی شان میں ہونے کو بڑی شدّومد سے رد کرتے ہوئے لکھی ہے:
تیسری بات جو ان سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت الی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ (تفہیم القرآن ۴: ۵۰۳)
صاحب تفہیم القرآن کا ذوق اس قدر سلیم ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا ذوق سقیم معلوم ہوتا ہے جو اپنے کارنامے کے صلے میں اولاد کی محبت مانگتے ہیں۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ
رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ
ابراھیم:39،40
ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحاق عنایت کیے، میرا رب تو یقینا دعاؤں کا سننے والا ہے۔
میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما۔
توریت کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کے وقت حضرت ابرہیم علیہ السلام 84 سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ کی عمر 100 سال تھی۔ پیرانہ سالی میں اولاد نرینہ بڑی نعمت ہے اور خصوصاً جب وہ دعا اور تمناؤں سے ملی ہو۔
اقامہ صلوٰۃ یعنی معاشرے میں نماز کا رواج قائم کرنا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کا فرض اولین بھی ہے اور ان کی دعا و تمنا بھی۔ چنانچہ فرزند خلیل حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں ہم کہتے ہیں اشہد انک قد اقمت الصلوۃ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی۔
الکوثر فی تفسیر القرآن

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button