خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:271)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 11 اکتوبر 2024ء بمطابق 07ربیع الثانی 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: تواضع اور انکساری
ہم کچھ عرصے سے حضرت لقمان کی قرآن میں بیان کی گئی حکمتوں اور نصیحتوں پر بات کر رہے ہیں۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان حکیم کی دس حکمتیں اور نصیحتیں بیان کی ہیں ۔ ان میں سے پانچ حکمتیں ہم گزشتہ خطبوں میں بیان کر چکے ہیں جوکہ یہ تھیں:
پہلی حکمت میں شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِابۡنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِۖ إِنَّ الشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيم
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسری حکمت میں اللہ تعالیٰ کے حساب و کتاب سے ڈرایا کہ اس میں ذرہ بھر کمی بیشی نہ ہوگی:
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في‏ صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ لَطيفٌ خَبيرٌ (سورہ لقمان آیۃ: 16)
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
تیسری حکمت میں نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرمارہے ہیں :
يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ؛اے بیٹے نماز کو قا‏‏‏ئم کرو
چوتھی اور پانچویں حکمت میں فرمایا:
حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں:
وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر اے بیٹے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔
چھٹی حکمت و نصیحت :
اس چھٹی حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہیں:
وَ اصْبِرْ عَلى‏ ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اے بیٹا! ۔۔جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔
حضرت لقمانؑ  کی ساتویں حکمت و نصیحت:
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی ہو‏‏‏ئی نصیحتوں میں ساتویں نصیحت تواضع اور فروتنی ہے کہ جس کو تمام کمالات کی کنجی جانا جاتا ہے اس نصیحت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو فرمارہے ہیں:
وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْض مَرَحاً إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُور
اور لوگوں سے (غرور و تکبرسے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
تواضع کا مفہوم:
تواضع اصل میں لفظ وضع سے لیا گیا ہے جس کا ایک معنی تسلیم کرنا اور حقیر جاننا ہے اور اخلاق کے اعتبار سے اس کا معنی یہ بنتا ہے کہ انسان اپنے پروردگار کے سامنے اور دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر جانے جبکہ اس کے برعکس تکبر اور غرور ہے یعنی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا اور خود پر غرور کرنا جوکہ ایک بری صفت ہے اور فکری انحراف کا باعث بنتی ہے ۔
البتہ اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ تواضع سے مراد خود کو لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار کر نا نہیں ہے ۔ بلکہ تواضع کی علامات میں سے ہے کہ انسان دوسرے لوگوں سے ملاقات کرتے وقت ان کے ساتھ خوش روی اور اچھے انداز کے ساتھ ملا کرے اور اسی طرح سے ان سے جدا ہوتے وقت بھی بہت ہی خوش مزاجی کے ساتھ ان سے خدا حافظی کرے ان کی وہ جدا‏‏‏ئی محبت آمیز ہونی چاہیے نہ کہ کینہ اور دشمنی کے ساتھ ہو ۔
تواضع کے مختلف درجات اور نشانیاں ہیں ضروری ہے کہ ہم ان کوپہچان لیں اور خاص طور پر ان کی رعایت کریں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:
وَ قَالَ ع‏ التَّوَاضُعُ‏ الرِّضَا بِالْمَجْلِسِ‏ دُونَ شَرَفِهِ وَ أَنْ تُسَلِّمَ عَلَى مَنْ لَقِيتَ وَ أَنْ تَتْرُكَ الْمِرَاءَ وَ إِنْ كُنْتَ مُحِقّا; اصل تواضع یہ ہے کہ انسان کسی مجلس میں اپنی شان اور منزلت سے کمتر پر راضی ہو جا‏‏‏ئے اور جب دوسروں سے ملاقات کرے تو سلام کرنے میں پہل کرے اور فضول گفتگو سے پرہیز کرے اگرچہ حق پر ہی کیوں نہ ہو ۔ (بحارالانوار ج‏78، ص 176)
کسی نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا تواضع کی حد کیا ہے ؟ اگر کو‏‏‏ئی اس کی رعایت کرے تو وہ متواضع کہلا‏‏‏ئے گا ؟ تو امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا :تواضع کے کئی درجات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی قدر اور منزلت کو جان لیں اور اسی کو اپنے محل میں قرار دیدے اور دوسروں کیلئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور جب کسی سے برا‏‏‏ئی دیکھے تو اس کے بدلےمیں اسے نیکی کرے اپنا غصے پر کنٹرول کرے اور دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرے کہ خدا وند عالم نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔
تواضع انسان کے خضوع اور خشوع کی ایک اندرونی حالت ہے جو انسان کے کردار اور رفتار اور اس کی گفتا رسے ظاہر ہوتی ہے۔
اور کبھی ممکن ہے کہ انسان معنوی اعتبار سے اس حالت تک نہ پہنچے لیکن عملی اعتبار سے اپنے آپ کو اس تواضع کی میزان میں ڈال دیں تو ایسا شخص عملی طور پر متواضع کہلا‏‏‏ئے گا۔
تواضع کی اقسام:
تواضع کی دو قسمیں ہیں:
1۔ خدا کے مقابل میں تواضع: اس میں حق اور قانون خدا کے مقابل میں عاجزی و تواضع کرنا بھی شامل ہے اور اسی طرح سے پیغمبروں اور اماموں اور اولیاء کے سامنے تواضع کرنا بھی شامل ہے ۔
2۔ معاشرے میں لوگوں کے مقابل میں تواضع: جیساکہ دوست ہمسایہ والدین اور استاد و شاگرد وغیرہ کے سامنے تواضع عاجزی اور ادب کا مظاہرہ کرنا۔
اور یہ بات واضح ہے کہ خداوند عالم کے سامنے جو تواضع ہے وہ سب سے بلند ترین درجے پر ہے کہ جس کا مخالف تکبر اور غرور ہے جو سب سے بڑا گناہ اور شرک شمار ہوتا ہے اسلیے خدا تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
خدا کے مقابل میں جو تواضع ہوتی ہے وہ ایمان کا جزء اور معرفت خدا کو حاصل کرنے کے لئے راہ ہموار کرتی ہے ۔
جس کا نتیجہ احکام الہی کے مقابل میں تسلیم اور ان کی اطاعت کرناہے اور خدا کی عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع حاصل کرناہے۔
اس طریقے سے انسان خود کو خدا کے مقابل میں حقیر جانے اور اس کے حق پر کو‏‏‏ئی اعتراض نہ کرے اور اپنی زندگی کے تمام امور کو خدا کی رضایت کی خاطر انجام دے اور اسی کو راضی کرنے میں قدم اٹھا‏‏‏ئے اور اسی کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔
امام صادق علیہ السلام پیغمبر اسلام کی خصوصیات اور صفات بیان کرتے ہو‏‏‏ئے فرما رہے ہیں:
قَالَ‏ مَا أَكَلَ‏ رَسُولُ‏ اللّٰهِ‏ مُتَّكِئاً مُنْذُ بَعَثَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ نَبِيّاً حَتَّى قَبَضَهُ اللّٰهُ إِلَيْهِ مُتَوَاضِعاً لِلّٰهِ عَزَّ وَ جَل‏; جب پیغمبر اسلام خداوند عالم کی طرف سے رسالت پر مبعوث ہو‏‏‏ئے تو خدا کے سامنے اتنے متواضع ہو‏‏‏ئے کہ اپنی رحلت تک کبھی بھی کسی چیز پر ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھا‏‏‏یا اس حد تک تواضع کی رعایت کیا کرتے تھے۔
پیغمبر اسلام ایک دن اپنے غلاموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر ‏‏‏ گفتگو کر رہے تھے ایک عورت وہاں سے گزری اور پیغمبر اسلام پر اعتراض کرتے ہو‏‏‏ئے کہنے لگی اے محمد آپ کیوں زمین پر بیٹھے ہو‏‏‏ئے ہیں اور کیوں غلاموں کے ساتھ ہمنشین ہو‏‏‏ئے ہیں اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ؟ جبکہ آپ پیغمبر ہیں آپ بزرگوں کے ساتھ بیٹھا کریں؟ تو پیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں کہا:
وَيْحَكِ‏ أَيُ‏ عَبْدٍ أَعْبَدُ مِنِّي ; افسوس ہو تم پر مجھ سے بڑھ کر کو‏‏‏ئی بندہ ہے؟( كحل البصر، ص 100و101)
پیغمبر اکرم اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کی وہ خاشعانہ اور مخلصانہ نمازیں اور ان کی خضوع اور خشوع کے وہ طولانی سجدے اور دعا‏‏‏ئیں سب کے سب یا ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے درس ہے ہمیں خدا کے مقابل میں بہترین تواضع حاصل کرنے کادرس دیتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ ہم صحیفہ سجادیہ کو پڑھیں اور اس میں موجود دعاؤں کا مطالعہ کریں تاکہ تواضع کی حقیقت کو حاصل کر سکیں کہ ہمارے آئمہ کس طرح اپنے رب کے سامنے عاجزی اور تواضع کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں:
اللّٰهُمَ‏ ذَلِّلْ‏ نَفْسِي‏ فِي‏ نَفْسِي‏ وَ عَظِّمْ شَأْنَكَ فِي نَفْسِي
خدایا مجھے میرے اپنے نزدیک چھوٹا کردے اور اپنا مقام میرے نزدیک عظیم بنا دے۔ (اعیان الشیعہ ج 1، ص 333)
سیدہ کی دعا میں یہ درس ہے کہ انسان خود کو اپنی نظر میں کمزور اور حقیر سمجھے تاکہ خدا کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کرے اور تکبر و غرور سے بچ سکے جبکہ خدا کی عظمت و کبریائی کو اپنے دل و دماغ پہ حاوی رکھے۔
تواضع ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو انسان کی شرافت اور اس کی وقار و زینت کا باعث بنتی ہے اور شیطان کے مقابل میں ایک ہتھیار اور اسلحہ شمار ہوتی ہے اور انسان کے عقل میں اضافہ ہونے کا باعث بنتی ہے۔
حضرت لقمان کی تواضع کے متعلق بیان کی گئی حکمت کا مقصد بھی یہی ہے یعنی دوسروں کے مقابل میں تواضع اختیار کرنا جو خصوصی طور پر اسی کی نصیحت کی ہے ۔اسی طرح سے حضرت لقمان ایک اور مقام پہ اپنے بیٹے کو نصیحت فرمارہے ہیں: تَوَاضَعْ‏ لِلْحَقِ‏ تَكُنْ أَعْقَلَ النَّاس‏;حق کے مقابل میں تواضع اختیار کرو تاکہ عاقل ترین انسانوں میں سے شمار ہو جا‏‏‏و۔ (بحارالانوار، ج‏1، ص‏136)
مختصر یہ کہ تواضع تمام نیکیوں کا خزانہ ہے جیسا کہ بتایا گیا کہ تمام امور کی کنجی ہے اور تمام فضیلتوں کی ماں شمار ہوتی ہے جیسا کہ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
بِخَفْضِ الْجَنَاحِ‏ تَنْتَظِمُ‏ الْأُمُور; تواضع اور فروتنی سے زندگی کے تمام امور منظم ہوتے ہیں۔ (غررالحكم ، ج 1، ص 335.)
امیر المؤمین اپنے کسی کلام میں پیغمبروں کی اس طرح سے تعریف کرتے ہیں:
وَ لَكِنَّهُ سُبْحَانَهُ كَرَّهَ‏ إِلَيْهِمُ‏ التَّكَابُرَ وَ رَضِيَ لَهُمُ التَّوَاضُعَ فَأَلْصَقُوا بِالْأَرْضِ خُدُودَهُمْ وَ عَفَّرُوا فِي التُّرَابِ وُجُوهَهُمْ وَ خَفَضُوا أَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِينَ; ( نهج البلاغه، خطبه 192)
خداوند عالم نے تمام پیغمبروں کو تکبر سے نفرت دلا‏‏‏ئی ہے اور تواضع و فرتنی کو ان کے لئے پسندکیا ہے وہ اپنے رخسار کو زمین پر رکھتے تھے اور اپنے چہرے کو خاک میں ملا دیتے تھے اور اپنے ہاتھوں کو مؤمنین کے لئے پھیلادیتے تھے۔
ایک اور مقام پر عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہو‏‏‏ئے فرمایا:
… وَ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ تَعْفِيرِ عِتَاقِ‏ الْوُجُوهِ‏ بِالتُّرَابِ تَوَاضُعاً وَ الْتِصَاقِ كَرَائِمِ الْجَوَارِحِ بِالْأَرْضِ تَصَاغُراً وَ لُحُوقِ الْبُطُونِ بِالْمُتُونِ مِنَ الصِّيَامِ تَذَلُّلًا;نماز میں اپنے چہرے کی بہترین جگہ اپنی پیشانی کو خاک پر رکھ کر سجدہ کرنا تواضع کا باعث بنتا ہے اور اسی طرح سے اپنے جسم کے تمام اعضاء کو زمین پر رکھنا خود کو(خدا کی بارگاہ میں ) حقیر جاننے کی نشانی ہے اور روزہ کی حالت میں اپنے پیٹ کو کمر کے ساتھ لگا ‏‏نا (بھوک پیاس برداشت کرنا) فروتنی کا باعث بنتا ہے۔ (نہج البلاغہ )
اس بات کی طرف توجہ کرنا بہت ہی ضروری ہے کہ تواضع ذلت اور خواری یا چاپلوسی جیسی صفات کا باعث نہ بنے جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ تواضع یہ ہے کہ انسان خود کو دوسروں کے مقابل میں ذلیل و خوار کرے اور ایسے اعمال انجام دے تاکہ لوگوں کی نظروں سے گر جا‏‏‏ئے اور اس کو سوء ظن کی نسبت دے دیں، لیکن اسلام کبھی بھی کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ تواضع کے نام پر خود کو حقیر کرے،لوگوں کے سامنے ذلت و خواری کو قبول کرے اور انسان کی جو کرامت اور عزت نفس ہے وہ پا‏‏‏ئمال ہو جا‏‏‏ئے۔
اس کے بارے میں فیض کاشانی لکھتے ہیں کہ دوسری عام اخلاقی صفات کی طرح تواضع بھی دو اطراف یعنی (افراط اور تفریط ) پر مشتمل ہے افراط یعنی ( تکبر ) اور تفریط یعنی(ذلت اور پستی کو قبول کرنا ) اور ان کے درمیانی حد وہی تواضع ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ تواضع وہی ہے جو انسان اپنے کو چھوٹا سمجھے یعنی بغیر کسی ذلت اور خواری کے ! مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور ان کو پیچھے چھوڑدے تو وہ متکبر کہلا‏‏‏ئے گا لیکن جو آپنے آپ کو سب سے پیچھے کرکے دوسرے کو آگے بڑھنے کاموقع دے وہ شخص متواضع کہلا‏‏‏ئے گا لیکن اگر کو‏‏‏ئی معمولی شخص مثلا کسی دانشمند یا کسی بڑے عالم کے پاس حاضر ہو جا‏‏‏ئے اور وہ عالم اس کا احترام کرتے ہو‏‏‏ئے کھڑا ہو جا‏‏‏ئے اور اس کو اپنی جگہ پر بٹھادے اور اس کے جوتے اٹھانے لگے تو یہ اس کی تواضع نہیں کہلا‏‏‏ئےگا بلکہ یہ ایک قسم کی ذلت ہے جو قابل مذمت ہے۔ (المحجة‏البیضاء، ج 6، ص 271)
پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہواہے جیسا کہ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے۔
وَ مَنْ‏ أَتَى‏ ذَا مَيْسَرَةٍ فَيَخْشَعُ لَهُ طَلَبَ مَا فِي يَدِهِ ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِه‏; اگر کو‏‏‏ئی شخص کسی امیر اور مالدار شخص کے پاس آ‏‏‏ئے اور وہ اس کی دولت کی خاطر یا اس سے کچھ حاصل کرنے کی امید سے اس کے سامنے تواضع اور فروتنی اختیار کرے تو اس کے دین کا تیسرا حصہ ضائع ہو جا‏‏‏ئے گا۔ (بحارالانوار، ج 73، ص 169)
امام جعفر صادق ؑ کا فرمان ہے:
مَا أَقْبَحَ‏ بِالْمُؤْمِنِ‏ أَنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ;
مؤمن شخص کے لئے برا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کے ساتھ تعلق اور رغبت پیدا کرے جو اس کو ذلت اور خواری میں مبتلا کرے۔(اصول كافی، ج 2، ص 320)
چاپلوسی ایک قسم کی ذلت اور پستی کو قبول کرنے کا نام ہے جو عام طور پر حرص اور طمع سے وجود میں آتی ہے اور بعض لوگ کبھی تواضع کا غلط معنی کرتے ہو‏‏‏ئے اسے ہلکا سمجھتے ہیں جبکہ یہ چاپلوسی اکثر بری سمجھی جاتی ہے جو انسان کی عزت نفس پر بہت ہی بھا‏‏‏ری چوٹ لگا دیتی ہے۔
امام علی علیہ السلام ایک کلام میں فرماتے ہیں:
الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ‏ الِاسْتِحْقَاقِ‏ مَلَقٌ; حد سے بڑھ کر کسی کی تعریف کرنا چاپلوسی ہے۔ (نهج البلاغه، حكمت 347)
اور بسا اوقات بعض افراد تواضع کے عنوان سے حد سے بڑھ کر تعریف کرتے ہیں یا حد سے بڑھ کر اس کی تعظیم ‏‏‏و تکریم کرتے ہیں تو یہی وہ چاپلوسی ہے کہ جس کے بارے میں امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
لَيْسَ‏ مِنْ‏ أَخْلَاقِ‏ الْمُؤْمِنِ‏ التَّمَلُّقُ‏ وَ لَا الْحَسَدُ ‏; چاپلوسی اور حسد مؤمن کے اخلاق میں سے نہیں ہے۔
تواضع کی علامتیں:
تواضع اور اس کی علامات کے بارے میں پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے اقوال میں تواضع کے بعض صحیح طریقوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:
1۔ مجلس و محفل میں سب سے آخر میں بیٹھنا۔ 2۔سلام میں پہل کرنا۔ 3۔ اونچی آواز میں سلام کرنا۔
4۔خود نما‏‏‏ئی اور اپنی تعریفوں سے پرہیز کرنا۔ 5۔امیر اور فقیر لوگوں کے درمیان فرق کا قا‏‏‏ئل نہ ہو نا۔
6۔ راستے میں دوسروں سے آگے نہ بڑھنا وغیرہ۔
امام جعفر صادقؑ  نے فرمایا: إِنَّ مِنَ التَّواضُعِ أَن یَرضَى الرَّجُلُ بِالمَجلِسِ دونَ المَجلِسِ وَأَن یُسَلِّمَ عَلى مَن یَلقى وَأَن یَترُکَ المِراءَ وَإِن کانَ مُحِقّا وَلایُحِبَّ أَن یُحمَدَ عَلَى التَّقوى۔
تواضع یہی ہے کہ مجلس کے آخر میں رہے، ہر کسی کو سلام کرے، بحث کرنے کو ترک کرے اگرچہ حق اس کے ساتھ ہو، اور اپنی پرہیزگاری کی تعریف کو پسند نہ کرے۔(بحار الأنوار، ج۷۵، ص۱۱۸)
امیر المؤمنینؑ کا فرمان ہے: مَا أَحْسَنَ‏ تَوَاضُعَ‏ الْأَغْنِيَاءِ لِلْفُقَرَاءِ طَلَباً لِمَا عِنْدَ اللّٰه‏;
جزاء الہی کو حاصل کرنے کی غرض سے فقیروں کے لیے امیروں کا تواضع اور فروتنی سے پیش آنا کتنا اچھا ہے۔ (نهج البلاغه، حكمت 406)
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button