انسانی تاریخ کا عظیم اور بابرکت دن

تحریر:ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کچوروی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ ہر طرف کفر و ظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندھیرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا۔اغواء، قتل و غارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذرا سی بات پر تلواریں نکل آتیں اور خون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمتِ حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔دنیا چشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی۔راہزن رہنماء بن گئے۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرا بن گئے اور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔
تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑ دیئے۔ دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں،انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اور آپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے۔
امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں۔وہ تمام معارف و علوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے،ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف و علوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم و ادراک سے اس کا مافوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای مدظلہ اس بابرکت دن کے بارے میں فرماتےہیں،روز بعثت بےشک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اور جس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الٰہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الٰہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی (یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی) ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔لہذٰا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
اس عظیم دن کی مناسبت سے ہم یہاں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بعض اہداف بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں،(و لیعقل العباد عن ربهم ما جهلوه، فیعرفوه بربوبیته بعد ما انکروا، و یوحدوه بالالوهیة بعد ما عندوا)اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت، ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔
آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں:(لیستادوا میثاق فطرته)تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری،(و یذکروهم منسی نعمته) انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے۔(و یحتجوا علیهم بالتبلیغ) تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا،(و یثیروا لهم دفائن العقول) تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا،(و یروهم الایات المقدرة، من سقف فوقهم مرفوع، و مهاد تحتهم موضوع ….) تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپر موجود بلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کے ذریعے۔۔۔۔
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پر اتمام حجت کرنا،(و جعلهم حجة له علی خلقه، لئلا تجب الحجة لهم بترک الاعذار الیهم) اللہ نے انبیاء کو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔
آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہے اور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:
1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے۔
2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل و شہود اور حواس ہیں جو محدود ہونے کی بناء پر ہدایت اور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔علاوہ ازیں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتے بلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل بھی کراتی ہیں۔اسی بناء پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کا محتاج ہوتا ہے۔خداوند متعال کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے،( رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلىَ اللَّهِ حُجَّةُ بَعْدَ الرُّسُل) یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کے اہداف میں شمار کرتا ہے:
1۔ لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا،(وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فىِ كُلّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت) یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا،(لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط) بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔ انسان کی تعلیم و تربیت، (هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَة) اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہی میں سے ہے تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔ باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا،(كاَنَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنذِرِينَ وَ أَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقّ لِيَحْكُمَ بَينْ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيه)،(فطری لحاظ سے) سارے انسان ایک قوم تھے۔ پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الٰہی ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔امام موسی کاظم علیہ السلام انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں۔(و ان لله علی الناس حجتین، حجة ظاهرة و حجة باطنة، فاما الظاهرة فالرسل و الانبیاء و الائمة علیهم السلام و اما الباطنة فالعقول)۔
خواجہ نصیر الدین طوسی، انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و اخروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہو نیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر و کمال پر مشتمل ہو اور امور دینی میں ان کی مدد کرے علاوہ ازیں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں۔
حوالہ جات۔
۔امام خمینی رح
۔امام خامنہ ای،[17 نومبر 1998ء]۔
۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
۔ نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
۔سورہ نساء،165۔
۔سورہ نحل،36۔
۔سورہ حدید،25۔
۔سورہ جمعہ،2۔
۔سورہ بقرۃ،213۔
۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
۔تلخیص المحصل،ص367۔