امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و فکری عظمت اور مرتبہ

اسلامی قوانین اور احکام الٰہی کی روح اور بقا کا اصلی راز فکری آزادی ہے۔ بحث و مباحثہ اور احکام الٰہی پر تحقیقات سے افکار اور کمالات کے چشمے پھوٹتے ہیں اور محققین کے لئے مزید علمی راہیں روشن ہو جاتے ہیں۔ علم و دانش اور دانشمندوں کے افکار سے صحیح استفادہ کی روش امام صادقؑ کے علمی درسگاہ کی ایک عظیم خصوصیت ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں ’’لو علم الناس ما فی طلب العلم لطلبوہ ولو بسفک الدماء‘‘ (۱) اگر لوگوں کو حصول علم کے فضائل معلوم ہو جائیں تو وہ ضرور علم حاصل کریں گے،چاہے اس کے لئے خون سل بہانا پڑے۔
امام صادقؑ نے علمی دریا اس طرح بہائے کہ ہر صاحب عقل و منطق آپ کے ادلۂ علمیہ کے سامنے سر بسجود نظر آتا ہے۔ آپؑ نے مکتب امامت و فقاہت کے علمی و اعتقادی اصول کی تشریح کے ذریعے اسلام کے سچے اعتقادات واضح کئے اور اسلام کی فکری تحریک کو آفات و حوادث سے محفوظ رکھا۔ انحرافات کے حدود کی تعیین اور ایسے اصول پیش کئے جو اسلامی قانون کا منبع قرار پایا۔ آج بھی فقہ اور اصول فقہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے قواعد موجود ہیں جن سے ہزاروں فقہی مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے، ان میں زیادہ تر قواعد ایسے ہیں جو امام جعفر صادقؑ کے ان ارشادات سے مأخوذ ہیں جن کا سلسلہ رسول خداؐ تک پہنچتا ہے، ان قواعد کی کامل تشریح ’’القواعد الفقہیۃ‘‘ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (۲)
امام جعفر صادقؑ کے زمانہ میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی۔ ایسے قواعد فقہی وضع کئے گئے جو ہر زمانہ میں فقہی مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں۔ مثلاً احکام میں قاعدۂ ’’عدم عسر و حرج‘‘ قاعدۂ ’’الضرورات قبیح المحذورات‘‘ قاعدۂ ’’دفع‘‘ وغیرہ۔
اسلامی قوانین میں قاعدۂ فراغ، تجاوز، اوفوا بالعقود․․․ ان کے علاوہ متعدد قواعد ہیں جن کی قواعد فقہی سے متعلق کتب میں بحث ہوتی ہے۔
علم حدیث و رجال میں امام صادقؑ نے بخاری و مسلم اور دوسرے اسلامی محدثین سے ایک صدی پہلے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے ایک کامل معیار قائم کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اسے قبول کرو اور اس پر عمل کرو اور جو قرآن کے خلاف ہو اسے ٹھکرا دو۔ (۳)
آپ کے علمی مکتب کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت کا وسیع علمی و عریض علمی مکتب صرف فقہ و اصول، حدیث و کلام اور اس کے فروعات کی تعلیمی حد تک محدود نہ تھا بلکہ فقہ و حدیث وغیرہ کے پہلو بہ پہلو فلسفہ اور علوم ما وراء طبیعت پر بھی توجہ دی گئی۔ اسی طرح آپ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے مختلف علوم و فنون (جیسے فزکس، کیمیا، الجبرا، اور جومیٹری وغیرہ) میں تخصص پیدا کر کے کتابیں لکھیں۔ جیسے جابر بن حیان کی ’’المیزان‘‘ ’’الرحمۃ‘‘ اور ’’مختار رسائل جابر‘‘ وغیرہ۔
علم کلام میں مفضل بن عمر جعفی نے ’’توحید مفضل‘‘ پیش کی ہے جو اپنے موضوع میں بے نظیر کتاب ہے۔
حدیث شناسی اور فقہ میں زرارہ بن اعین، ابان بن تغلب، جابر جعفی، برید عجلی، ابن ابی یعفور، محمد بن مسلم، ابن ابی عمیر، ابو بصیر اسدی، فضیل بن سیارہ معلیٰ بن خنیس، جمیل بن دراج، حمار بن عثمان اور ہشام بن سالم وغیرہ جیسے نامور افراد کی تربیت فرمائی۔
مذہب جعفری سے دفاع کے لئے، فن مناظرہ میں حمران بن اعین شیبانی جیسے مناظر کی تربیت فرمائی۔ (4)
مختصر یہ کہ امام صادقؑ نے اسلام و مسلمین کے مرکز ’’مدینۃ الرسولؐ‘‘ میں جس یونیورسٹی کی بنیاد کھی اس میں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علم، مختلف علوم سے سیراب ہوئے۔جہاں پر ظلم و بربریت اور آل محمدؐ کے خلاف مسلسل سازشیں ہو، وہاں امام صادقؑ کا کثیر تعداد میں شاگردوں کی تربیت کرنا معجزہ اور کرامت سے کم نہیں ہے۔ گویا اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفےٰؐ کی طرح صداقت میں اس قدر مشہور و معروف ہوئے کہ آپ کے زمانہ کے تمام لوگوں نے متفقہ طور پر آپ کو صادق آل محمدؐ کا لقب دیا۔(5)
آفاق عالم نے آپ کی شہرت کا قدم چوما، علمی اور فکری نشستوں میں آپ کو غیر معمولی احترام سے دیکھا جاتا تھا، دوست اور دشمن سبھی آپ کے فضائل کے معترف ہو گئے، سخت سے سخت دشمن بھی آپ کے فضائل و مکارم کا انکار نہیں کر سکے ’’والفضل ما شھدت بہ اعداء‘‘ اور فضیلت وہی ہے جس کی گوہی دشمن دیں۔حضرت کی علمی شخصیت کے بارے میں دانشمندوں کے اعترافات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کا ذکر اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں ہے صرف چند اقوال قارئیں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کی علمی شخصیت اجاگر ہو سکے:
(۱) مالکی مذہب کے امام مالک بن انس کہتے ہیں:’’و لقد کنت أتیٰ جعفر بن محمّد و کان کثر المزاح․‘‘ جب میں امام جعفر صادقؑ کی خدمت با برکت میں حاضر ہوتا تھا تو دیکھتا تھا کہ آپ مزاح فرما رہے ہیں لبوں پہ مسکراہٹ رہتی تھی جب بھی آپ کے سامنے رسول اللہؐ کا نام لیا جاتا تھا آپ کا چہرہ پہلے سبز پھر زرد ہو جاتا تھا۔ اپنی تمام زندگی میں حضرت کو تین حالتوں میں سے کسی حال میں پاتا تھا، یا توحضرت نماز پڑھتے ہوتے، یا روزہ رکھے ہوتے، یا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوتے تھے۔ میں نے عبادت و ریاضت میں اور علم و دانش کے حوالے سے کسی کو امام جعفر صادقؑ سے بہتر نہیں دیکھا۔ (6)
(۲)اہل سنت کے امام اعظم ابو حنیفہ کہتے ہیں: ’’ما رأیت افقہ من جعفر بن محمّد و انہ اعلم الامۃ‘‘ میں نے امام جعفر بن محمد(صادقؑ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا بے شک آپ امت محمدیؐ میں سب سے زیادہ علم و فضل کے مالک ہیں۔ (7)
مزید لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ منصور دوانیقی نے مجھ سے کہا: ’’لوگوں کو جعفر بن محمدؑ سے عقیدت ہو گئی ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہیں اور تم کو یہاں اس لئے لایا ہوں کہ تم جعفر بن محمدؑ سے مناظرہ و مباحثہ کے لئے اپنے کو آمادہ کرو، اور کچھ اہم اور مشکل مسائل تیار کرو مجھے امید ہے کہ جعفر بن محمدؑ تمہارے سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے تو خود بخود لوگوں کی نظروں سے ان کا وقار ختم ہو جائے گا۔ ابو حنیفہ لکھتے ہیں: میں نے منصور کے کہنے پر چالیس اہم اور مشکل مسائل تیار کئے پھر حیرہ کے مقام پر خلیفہ (منصور) کے سامنے حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت نے ہر مسئلہ کے جواب میں فرمایا: اس مسئلے کے بارے میں اہل عراق کا نظریہ یہ ہے، اہل مدینہ کا جواب یہ ہے اور ہم اہل بیت کی نظر میں اس کا جواب یہ ہے۔ یعنی حضرت نے اختلاف اقوال کے تمام موارد ذکر کرتے ہوئے ان مسائل کے ایسے جواب دئے کہ سب کو آپ کی علمی شخصیت کا اعتراف کرنا پڑا اور ابو حنیفہ کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا ’’ان اعلم الناس، اعلمہم باختلاف الناس‘‘ (8) یعنی سب سے بڑا دانشمند وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف آراء کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔اسی لئے تو وہ ہمشیہ کہا کرتے تھے ’’میں نے جعفر بن محمد صادقؑ سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔ (9)
(۳) سفیان ثوری (جو اپنے زمانہ کے مشہور فقہاء میں سے ایک ہیں اور اہل سنت کے یہاں علم و زہد و پرہیزکاری کے حوالے سے بہت مشہور ہیں) نے بھی امام جعفر صادقؑ کی شاگردی اور آپ سے علمی اور اخلاقی میدان میں کسب فیض کیا ہے۔ (10) اور امام صادقؑ سے حدیثیں بھی نقل کی ہیں۔ (11)
(۴) عمر بن مقدام کہتے ہیں کہ ’’جب بھی جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہو جاتا تھا کہ آپ رسول اللہؐ کی نسل سے ہیں۔ (12)
(۵) ابن حجر ہیثمی، امام کی علمی شخصیت کے بارے میں لکہتے ہیں: ’’یحییٰ بن سعید بن جریح، امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور ایوب فقیہ جیسی شخصیتوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ (13)
(۱۱) فرید و جدی، لکھتے ہیں امام جعفر صادقؑ کا خانۂ علم و دانش روزانہ عظیم دانشوروں سے پر رہتا تھا علماء اور دانشمند حضرات آپ سے حدیث، تفسیر، فلسفہ و علوم کلام کا درس حاصل کرتے تھے اکثر اوقات ان کی تعداد دو ہزار ہوتی تھی اور بعض اوقات چار ہزار۔ مشہور علماء آپ کے درس میں شرکت کرتے تھے۔ (14)
(۱۲)بطرس بستانی، کا بیان ہے کہ ’’امام جعفر صادقؑ سادات اور بزرگان اہل بیتؑ میں سے تھے۔ راستگوئی کی وجہ سے آپ کا لقب صادق قرار پایا۔ ان کا فضل و شرف بہت عظیم ہے۔ علم کیمیا اور جبر میں آپ کے خاص نظریات ہیں۔ آپ کے مشہور شاگرد جابر بن حیان نے ایک کتاب لکھی ہے جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔(15)
(۱۳) منصور دوانیقی، جو امام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا لیکن اسے بھی اعتراف ہے کہ امام صادقؑ خیر و برکات اور نیکیوں کے ویسے ہی پیشرو تھے جس طرح قرآن نے فرمایا ہے۔ (16)
(۱۴) شیخ مفید، لکھتے ہیں ’’امام جعفر صادقؑ رسول اکرمؐ کے پر وقار اور با عظمت فرزندوں میں سے تھے آپ کے مانند کسی دوسرے سے اس قدر علوم و آثار و احادیث نقل نہیں ہوئے۔ آپ سے جن لوگوں نے حدیث نقل کی ہے ان کی تعداد چار ہزار افراد بتائی جاتی ہے۔ (17)
حضرت کے بارے میں دانشمندوں کے تمام اقوال نقل کرنے کےلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہم اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ امام صادقؑ جیسی علمی شخصیت نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں یہ خطور ہوا کہ علم و عمل اور فقہ و فقاہت میں ان سے بڑا بھی ہوگا۔
حوالہ جات:
۱) اصول کافی، ج،۱، ص،۹۸، محمد یعقوبی کلینی ترجمہ و شرح محمد باقر کمرہ ای انتشارات اسوہ چاپ سوم، ۳۷۵ش ’’کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم و المتعلم۔
۲)جیسے القواعد الفقہیہ میرزا حسین بجنوردی، والقواعد والفواید، شہید اول
۳)اصول کافی ج،۱ ص،۲۰۰-۲۰۲، کتاب فضل العلم باب الأخذ بالسنّہ و شواہد الکتاب
4) اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۵
5) عقایقی بخشایشی، امام صادقؑ پیشوا و رئیس مذہب ص،۳۰
6) الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱، ص،۵۳، دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ،۲ ۱۳۹۰ھ؛ الامام المالک (ابو زہرہ) ص۹۴-۹۵ دار الفکر العربی، بی تا، مصر
7) تذکرۃ الحفاظ، ذہبی، ج،۱ ص،۱۶۶، دار احیاء التراث العربی، بی تا؛ الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، ص،۲۲۴ج،۱، بحوالہ جامع اسانید ابی حنیفہ، ج،۱ ص،۲۲۲؛ والامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰ دار الفکر العربی، چاپ مصر، بی تا
8) امام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۲ ص،۵۳
9) الامام الصادقؑ(ابو زہرہ) ص،۲۲۴، الامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰
10) تذکرۃ الحفاظ ج،۱ ص۱۹۷
11) ادوار فقہ ج،۳ ص،۵۷۶ محمود شہابی چاپ دوم وزارت ارشاد و فرہنگ اسلامی ۱۳۶۸ھ
12) تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی ج،۲ ص،۸۸ دار الفکر بیروت چاپ اول ۱۴۰۴ھ
13) الصواعق المحرقہ ابن حجر ھیثمی ص،۱۰۲ مکتبۃ القاہرہ مصر چاپ دوم ۱۳۸۵ھ
14) دائرۃ المعارف فرید وجدی ج،۳ ص،۱۰۹
15)دائرۃ المعارف، فریدی وجدی ج،۶ ص،۴۶۸
16)تاریخ یعقوبی، ج،۳ ص، ۱۱۷، دار صا بیروت، بی تا
17) الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی عبادہ، محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید) ج،۲ص،۱۷۹ مؤسسہ آل البیتؑ قم ۱۴۱۳ھ، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۶۹۔
https://ur.shafaqna.com/UR/ /