حکمرانی اور مسئولیت کی کامیابی کے راہنما اصول امام علیؑ کی نظر میں

مقالہ نگار: محمد حسن نصر اللہ
چکیدہ
اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنی نوعِ انسان کو خلق فرمانے کے بعد ان کی زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا دیا ہےتاکہ یہ انسان مل جل کے ایک منظم اور پرسکون زندگی گزار سکیں لہٰذا یہ انسان انفرادی زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ یہ ایک اجتماعی زندگی گزارنے کی طرف محتاج ہے اور اس اجتماعی زندگی میں بعض کو بعض پر فوقیت اور حاکمیت حاصل ہیں، لہٰذا ان ما فوق اور حاکم افراد کا اپنے ماتحت افراد کے ساتھ کیسا رؤیہ ہونا چاہئے؟ اور ان کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہئے؟ اس کے لئے ہمیں انبیاءؑ اور آئمہ معصومینؑ خصوصاً مولائے کائنات حضرتِ امام علیؑ کی بابرکت زندگی، طرزِ حکومت اورآپؑ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا تاکہ ایک بہترین حاکم اور ذمہ دار قرار پائیں،اسی ہدف کے پیشِ نظر زیرِ نظر مقالہ میں مولائے کائناتؑ کے گوہر بار کلمات سے کامیاب حکمرانی کے چندِ اصول و قواعد کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
کلیدی الفاظ: حکمرانی، مسؤلیت، کامیابی، اصول
مقدمہ
سب سے پہلے بارگاہِ الٰہی میں لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ اس ذاتِ لم یزل نے مجھ حقیر کو بھی مولائے متقیانؑ کے گوہر بار کلمات کا مطالعہ کرکے کچھ مطالب کو اخذ کرکے ایک مقالہ کی شکل دینے کی توفیق عنایت کی۔ اس مقالہ کا عنوان ہے "حکمرانی اور مسؤلیت کی کامیابی کے راہنما اصول امام علیؑ کی نظر میں”۔ اس مقالہ میں، میں نے اپنی استطاعتِ علمی کے مطابق مولا علیؑ کے کلام خصوصاً وہ خط جو آپؑ نے مالک بن حارث اشتر کو مصر کا حاکم بناتے وقت ان کے نام لکھا ہیں، اسے استفادہ کرتے ہوئے چندِ اصول کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ وہ اصول ہیں جنہیں اپنا کر ہر کوئی زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب ہوسکتا ہے خصوصاً ایک حاکم اور مسؤل اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں اور بہترین حکمرانی کر سکتے ہیں۔
یہ وہ خط ہے جس کو اقوامِ متحد ہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تاریخِ عالم کا منصفانہ ترین خط قرار دیتے ہوئے، دنیا کے تمام حکمرانوں کو، اسے بطورِ مثال اپنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ کمیٹی نے اس خط کو "سماجی انصاف” اورامنِ عالم کا اعلیٰ ترین نمونہ اور حضرت علیؑ کو نبی اکرمﷺ کے بعد، انسانی تاریخ کا عادل ترین حکمران قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
"The Caliph Ali Bin Abi Talib is considered the fairest governor who appeared during human history (After the Prophet Muhammad)”
مشہور امریکی مصنف ” Michael Hamilton”-جو انتظامی امور کا ماہر تصور کیا جاتا ہے- نے کہا کہ حضرت علیؑ کا مالک بن اشتر کے نام لکھا گیا خط، جو اُسے 656ء میں مصر کا گورنر بناتے وقت، تحریر کیاگیا، میں بطور خاص غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے کی گئی ہدایات —-حضرت علیؑ کی انتظامی حکمت ودانش کابہترین نمونہ ہیں، جس سے پوری انسانیت کو روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اس نے لکھا ہے:
: ……..…..urging him to treat people, who were not muslims, with charity and beneficence confirming the necessity of equality among the jews and Christians with Muslims in rights and tasks, he showed his high admiration for his wise policy that made him enter the history of humanity from its broad door.
(روزنامہ 92 نیوز لاہور، پیر 22 جولائی 2019ء )
لہٰذا یہ جو امام علیؑ کو انسانی تاریخ کا عادل ترین حکمران قرار دے رہا ہے یہ اس لئے ہے کہ کائنات میں ہمیں مولاعلیؑ جیسا عادل حکمران نہیں ملتا کیونکہ آپؑ مجسمہ عدل ہیں۔ اس کا اندازہ آپؑ کے اس فرمان سے ہوتا ہے:
خدا کی قسم !اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کرو ں گا۔(شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ خطبہ 221، ناشر: مرکز ِ افکارِ اسلامی پاکستان)
حکمرانی کے اصول
علم
علم وہ شمع ہے جس سے انسان تاریک سے تاریک تر راستوں کو طے کر سکتا ہے اور اس شمع سے نہ فقط اپنی زندگی بلکہ ہر زندہ دل انسان کی زندگی کو تبدیل اور ان کو راہِ راست پر لا یا جا سکتا ہے کیونکہ علم کے مقابلے میں جہل ہے اور جہل انسان کو بالکل تاریکی میں رکھتا ہے اور جو خود تاریکی میں ہو گا وہ دوسروں کو کیا روشنی دے گا لہٰذا ایک حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم ہو کیونکہ حاکم کا کام رعیت کے امور کی دیکھ بھال، ان کی رہنمائی اور ان کو تعلیم اور تربیت دینا ہے لہٰذا حاکم کا عالم با احکام الٰہی ہونا بہت ضروری ہے چونکہ جو خود جاہل ہوگا وہ دوسروں کی کیا رہنمائی کرے گا بلکہ الٹا وہ دوسروں کو گمراہ کرے گا جیسا کہ امام علیؑ فرماتے ہیں:
وَلَا اْلجَاهل فَیُضِلُّہُمْ بِجَهلہ۔( شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ خطبہ، 129 ناشر: مرکز ِ افکارِ اسلامی پاکستان)
حا کم اور امام کو جاہل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر جاہل ہوگا تو وہ اپنی جہل کی بنا پر لوگوں کو گمراہ کردے گا۔
خوفِ خدا
تقوی الٰہی وہ ہتھیار ہے جسے لیکر ہر کوئی( جس کا زندگی کے جس شعبہ سے بھی تعلق ہو) کامیاب ہوسکتاہے اس کی واضح مثال سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 ہے جس میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰہ يَجْعَلْ لَّـه مَخْرَجًاً۔
اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔
"یعنی متقی بن گلی میں نہیں پھنسے گا۔ چونکہ تقویٰ زندگی کے ہر شعبے میں یہی اثر رکھتا ہے”۔(نجفی، شیخ محسن علی، الکوثر فی تفسیر القرآن ج 9،ص 206،ناشر: بلاغ القرآن الکوثر اسلام آباد)
لہٰذا ہر کسی کو چاہئے کہ وہ اس ہتھیار سے لیس ہوجائے خاص کر حاکم اور ذمہ دار افراد کو، کیونکہ یہ بہترین حکمرانی کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو بطورِ احسن انجام دینے کے لئے بہت ضروری ہے چونکہ جس کے دل میں خوفِ خدا ہوگا وہ ہر کام اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس کی رضایت و خوشنودی کیلئے انجام دے گا اور جو رضایت و خوشنودی خدا کیلئے کام انجام دیتا ہے اللہ اس کے ہر کام کو اس کیلئے ذریعہ فلاح و نجات اور عزت و سر فرازی قرار دیتا ہےجیسا کہ امام علیؑ مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں ارشاد فرماتے ہیں۔
أَمَرَهُ بِتَقْوَى اَللّٰهِ وَ إِیْثَارِ طَاعَتِهِ وَ اِتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِهِ فِی كِتَابِهِ مِنْ فَرَائِضِهِ وَ سُنَنِهِ اَلَّتِی لاَ یَسْعَدُ أَحَدٌ إِلاَّ بِاتِّبَاعِهَا وَ لاَ یَشْقَى إِلاَّ مَعَ جُحُودِهَا وَ إِضَاعَتِهَا وَ أَنْ یَنْصُرَ اَللّٰهَ سُبْحَانَهُ بِقَلْبِهِ وَ یَدِهِ وَ لِسَانِهِ فَإِنَّهُ جَلَّ اِسْمُهُ قَدْ تَكَفَّلَ بِنَصْرِ مَنْ نَصَرَهُ وَ إِعْزَازِ مَنْ أَعَزَّهُ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
انہیں حکم ہے کہ ﷲ کا خوف کریں، اس کی اطاعت کو مقدم سمجھیں اور جن فرائض وسنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کریں کہ انہی کی پیروی سے سعادت اور انہی کے ٹھکرانے اور برباد کرنے سے بد بختی دامن گیر ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے دل، اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے ﷲ کی نصرت میں لگے رہیں۔ کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے ذمہ لیا ہے کہ جو اُس کی نُصرت کرے گا، وہ اُس کی مدد کرے گا اور جو اس کی حمایت کے لئے کھڑا ہوگا وہ اُسے عزت و سرفرازی بخشے گا۔
تواضع
وَاعْتَمِدُوْا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلٰی رُءُوسِکُمْ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص285، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
عجز و انکساری کو سر کا تاج بنانے کا عزم بالجزم کرو۔
تواضع و فروتنی ، یہ ایسی صفت ہے جو ایک حاکم کے اندر ہونا بہت ضروری ہے چونکہ تواضع انسان کے مقام و منزلت کو بلند کرتا ہے جیسا کہ امام علیؑ فرماتے ہیں:
مَا تَوَاضَعَ إِلاَّ رَفِيع (آمدی،عبدالواحدبن محمد،غررالحکم ودررالکلم ، ج1، ص684،ناشر: مکتب الاعلام الاسلامی مكان النشر: ايران؛قم)
کوئی تواضع نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کا مقام بلند ہوجاتا ہے۔
اور ایک حاکم کے لئے بہت ضروری ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کا ایک مقام و منزلت موجود ہو، تاکہ اس کی باتوں کی شنوائی ہو اور لوگ اس کی پیروی کریں، نہیں تو وہ حکومت کو صحیح طریقے سے نہیں چلا پائے گا۔
تواضع کے بارے میں کینیڈین خلاباز اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے سابق کمانڈر کرس ہیڈ فیلڈ لکھتے ہیں کہ عاجزی ایک رہنما کو یہ قبول کرنے کی اجازت دیتی ہے کہ وہ کمرہ میں سب سے ذہین شخص نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی ان کی ضرورت ہے۔
لیکن ہمیں تواضع کی بہترین مثال مولا علیؑ کی ذات میں نظر آتی ہے کہ آپؑ حاکمِ وقت ہوتے ہوئے پھٹے پرانے کپڑے پہنتے تھے اور جو کی روٹی نمک کے ساتھ کھاتے تھے اور غریبوں اور فقیروں کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے بلکہ انہیں یہ باور کراتے تھے کہ تمہارا امام اور حاکم بھی تمہاری ہی طرح زندگی گزاتے ہیں۔
اس بارے میں مولاؑ کے دور خلافت کا یہ سبق آموز قصہ موجود ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں: ایک باپ اور اسکا بیٹا حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے (آپؑ کے دورِ خلافت میں ) آپؑ نے انہیں اپنا مہمان بنایا۔ انہیں صدرِ مجلس میں جگہ دی خود انتہائی انکساری کے ساتھ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کو کہا،کھانا لایا گیا اور مہمانوں نے اسے تناول کیااس کے بعد قنبر لوٹا اور لگن لے کر حاضر ہوئے تاکہ ان کے ہاتھ دھلا دے۔ امام علیؑ باپ کے ہاتھ دھلانے کے لیے خود کھڑے ہوئے۔اس نے جب یہ دیکھا تو اس بات پر تیار نہ ہوا اور شدید اصرار کیا کہ آپؑ اس کے ہاتھ نہ دھلائیں لیکن امام علیؑ راضی نہ ہوئے اور بالآخر پانی ڈال کر اسکے ہاتھ دھلوائے۔
اس شخص نے امامؑ سے عرض کیا: میرے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ خداوند ِ عالم مجھے اس حال میں دیکھے کہ آپؑ میرے ہاتھ دھلارہے ہوں۔
امامؑ نے اسے جواب دیا:نہیں، یہ تو بہترین حالت ہے، کیونکہ خداوند ِعالم دیکھ رہا ہے کہ تمہارا بھائی کسی قسم کے امتیاز کے بغیر تمہاری خدمت کررہا ہے اور اس خدمت سے اس کا مقصد بہشت کے کئی گنا اجروثواب کا حصول ہے۔
اس کے بعد امام علیؑ نے لوٹا اپنے فرزند محمد بن حنیفہ کو دیا اور فرمایا:اب بیٹے کے ہاتھ تم دھلاؤبیٹا! اگر یہ تنہا یہاں آیا ہوتا تو اس کے ہاتھ میں دھلاتا لیکن خدا وند ِعالم کو یہ بات پسند نہیں کہ کسی جگہ باپ اور بیٹا ایک ساتھ ہوں اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائےلہٰذا تمہارے باپ نے اس کے باپ کے ہاتھ دھلائے ہیں اور اب تم بیٹے کے ہاتھ دھلاؤ۔ محمد بن حنیفہ نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔
اس کے بعد امام حسن عسکریؑ نے فرمایا:
فمن اتبع علیّاً علی ذالک فهو الشّیعی حقّاً۔
جو اس بات میں علیؑ کی پیروی کرے وہ ان کا حقیقی شیعہ ہے۔ (مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار, ج41،ص56،ناشر: دار إحياء التراث العربی،۱۳۶۸–۱۴۰۳. بیروت – لبنان )
تواضع کے مقابلے میں خود پسندی ہے اور خود پسندی انسان کی دیکھنے اور سننے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ خود پسند انسان ہر چیز میں خود کو سب سےبڑھ کر اور سب سے آگے دیکھتا ہے اور جب کسی کو خود ہر چیز سے بڑھ کر دکھائی دینے لگے تو وہ کسی کا نہیں سنے گا۔ نتیجہ میں وہ شیطان کے ہاتھوں اسیر ہوکے دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اُٹھائے گا۔اسی لئے مولا علیؑ اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ إِیَّاكَ وَ اَلْإِعْجَابَ بِنَفْسِكَ وَ اَلثِّقَةَ بِمَا یُعْجِبُكَ مِنْهَا وَ حُبَّ اَلْإِطْرَاءِ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَوْثَقِ فُرَصِ اَلشَّیْطَانِ فِی نَفْسِهِ لِیَمْحَقَ مَا یَكُونُ مِنْ إِحْسَانِ اَلْمُحْسِنِینَ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران )
اور دیکھو خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا۔ کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے گا۔
عدل اور انصاف
عدل اور انصاف ایسی چیز ہے جس سے ہر عقلِ سلیم رکھنے والا پسند کرتا ہے کیونکہ عدل اور انصاف کے بغیر نظامِ زندگی نہیں چل سکتا، لہٰذا ہر کسی کو عادل اور منصف ہونا چاہئے لیکن وقت کے حاکم کا عادل اور منصف ہونا بہت ضروری ہے چونکہ حاکمِ وقت اگر ظالم ہو تو اس کی حکومت نہیں چل سکتی، جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے:
الملک یبقی مع الکفر و لا یبقی مع الظلم (شيخ مفيد، محمد بن محمد، الامالی ج: 1، ص: 310ناشر: كنگره شيخ مفيد)
کہ حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں چل سکتی۔
لہٰذا حاکم کا عادل اور منصف ہونا بہت ضروری ہے جیسا کہ امام علیؑ مالک اشتر کو لکھتے ہیں:
أَنْصِفِ اَللّٰهَ وَ أَنْصِفِ اَلنَّاسَ مِنْ نَفْسِكَ وَ مِنْ خَاصَّةِ أَهْلِكَ وَ مَنْ لَكَ فِیهِ هَوًى مِنْ رَعِیَّتِكَ فَإِنَّكَ إِلاَّ تَفْعَلْ تَظْلِمْ وَ مَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اَللّٰهِ كَانَ اَللّٰهُ خَصْمَهُ دُونَ عِبَادِهِ وَ مَنْ خَاصَمَهُ اللّٰهُ أَدْحَضَ حُجَّتَهُ وَ كَانَ لِلّٰهِ حَرْباً حَتَّى یَنْزِعَ أَوْ یَتُوبَ وَ لَیْسَ شَیْءٌ أَدْعَى إِلَى تَغْیِیرِ نِعْمَةِ اللّٰهِ وَ تَعْجِیلِ نِقْمَتِهِ مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ فَإِنَّ اللّٰهَ سَمِیعٌ دَعْوَةَ اَلْمُضْطَهَدِینَ وَ هُوَ لِلظَّالِمِینَ بِالْمِرْصَادِ۔
اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں اپنے دل پسند افراد کے معاملے میں حقوقﷲ اور حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا کیونکہ اگر تم نے ایسانہ کیا تو ظالم ٹھہرو گے۔ اور جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے ﷲ اس کا حریف و دشمن بن جاتا ہے اور جس کا وہ حریف و دشمن ہو، اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا، اور وہ ﷲ سے برسر پیکار رہے گا یہاں تک کہ باز آئے اور توبہ کرلے۔ اور ﷲ کی نعمتوں کو سلب کرنے والی، اور اس کی عقوبتوں کو جلد بُلاوا دینے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ظلم پر باقی رہا جائے کیونکہ ﷲ مظلوموں کی پکار کو سنتا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا منتظر رہتا ہے۔
اسی طرح قتل و غارت اور خون ریزی سے بھی امام علیؑ نے منع فرمایا ہے:
إِیَّاكَ وَ اَلدِّمَاءَ وَ سَفْكَهَا بِغَیْرِ حِلِّهَا فَإِنَّهُ لَیْسَ شَیْءٌ أَدْعَى لِنِقْمَةٍ وَ لاَ أَعْظَمَ لِتَبِعَةٍ وَ لاَ أَحْرَى بِزَوَالِ نِعْمَةٍ وَ اِنْقِطَاعِ مُدَّةٍ مِنْ سَفْكِ اَلدِّمَاءِ بِغَیْرِ حَقِّهَا وَ اَللّٰهُ سُبْحَانَهُ مُبْتَدِئٌ بِالْحُكْمِ بَیْنَ اَلْعِبَادِ فِیمَا تَسَافَكُوا مِنَ اَلدِّمَاءِ یَوْمَ اَلْقِیَامَةِ فَلاَ تُقَوِّیَنَّ سُلْطَانَكَ بِسَفْكِ دَمٍ حَرَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا یُضْعِفُهُ وَ یُوهِنُهُ بَلْ یُزِیلُهُ وَ یَنْقُلُهُ وَ لاَ عُذْرَ لَكَ عِنْدَ اَللّٰهِ وَ لاَ عِنْدِی فِی قَتْلِ اَلْعَمْدِ لِأَنَّ فِیهِ قَوَدَ اَلْبَدَنِ وَ إِنِ اُبْتُلِیتَ بِخَطَإٍ وَ أَفْرَطَ عَلَیْكَ سَوْطُكَ أَوْ سَیْفُكَ أَوْ یَدُكَ بِالْعُقُوبَةِ فَإِنَّ فِی اَلْوَكْزَةِ فَمَا فَوْقَهَا مَقْتَلَةً فَلاَ تَطْمَحَنَّ بِكَ نَخْوَةُ سُلْطَانِكَ عَنْ أَنْ تُؤَدِّیَ إِلَى أَوْلِیَاءِ اَلْمَقْتُولِ حَقَّهُمْ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ مکتوب 53، ناشر: مرکز ِ افکارِ اسلامی پاکستان)
دیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الٰہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شئی نہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں۔ لہٰذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے، بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا، نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے۔ اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا۔
اسی طرح امام علیؑ فرماتے ہیں:
لَا تَظْلِمْ کَمَا لَا تُحِبُّ اَنْ تُظْلَمَ (نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل , ج11،ص311، ناشر: مؤسسة آل البیت علیهم السلام لاحیاء التراث. ۱۴۰۸–۱۴۰۹)
جس طرح چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔
فیصلہ سازی کی صلاحیت
حاکم کے اندر دو ٹوک فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے چاہے اسے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا ہی کیوں نہ پڑے کیونکہ جس کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوگی وہ حاکم بن ہی نہیں سکتا اگر بن بھی جائے تو ہر ہر قدم پر مصلحتوں کا شکار ہو گا اور ہر کوئی اس کو بلیک میل کرے گا۔ اس کی بہترین مثال مولا علیؑ کی ذات ہیں جس کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا:
اقضاکم علی (مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار, ج69،ص181،ناشر: دار إحياء التراث العربی،۱۳۶۸–۱۴۰۳. بیروت – لبنان)
تم میں بہترین قاضی علیؑ ہے۔
اور اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ تاریخ میں مولا علیؑ جیسا قاضی نہیں آئے ہیں جو ہر معاملہ کی تہہ میں جاکے جانچ پڑتال کریں اور بغیر کسی لالچ، رشتہ داری و قرابت داری کے خالص اللہ کے خاطر فیصلہ کریں، اسکے سینکڑوں شواہد موجود ہیں ۔
بطورِنمونہ: بنی اسد(جومولاؑکی ماں کاقبیلہ ہے) کےایک شخص پرکسی جرم کی حدجاری کرنےکےلئےآپؑ کےپاس لایاگیاتوقبیلےکےکچھ لوگوں نےمولاعلیؑ سےدرخواست کی کہ اس پرحدجاری نہ کریں تومولاعلیؑ نے فرمایا: جس چیزکااختیارمیرےپاس ہےوہ تم مجھ سےطلب نہ کرو،اسےمیں ضروردوں گا،وہ لوگ خوشی خوشی باہرنکل آئے،پھرامامؑ نےاس پرحدجاری کیااورفرمایا: یہ خداکاکام تھامیرےہاتھ میں اسکااختیارنہیں تھاکہ میں تمہیں دےسکتا۔(زمخشري،ابوالقاسم محمودبن عمر،ربيع الأبرارونصوص الأخبارج 1 ص 429،ناشر: مؤسسةالأعلمي للمطبوعات)
خواہشات پر کنٹرول
کامیاب حکمرانی کے اصول میں سے ایک اصل یہ ہے کہ حاکم کو چاہیے کہ وہ خواہشاتِ نفسانی پر قابو رکھیں کیونکہ خواہشاتِ نفسانی انسان کو ہمیشہ برائی کی بلاتا ہے۔ جیسا کہ امام علیؑ مالک اشتر کو لکھتے ہیں۔
وَ أَمَرَهُ أَنْ یَكْسِرَ نَفْسَهُ مِنَ اَلشَّهَوَاتِ وَ یَزَعَهَا عِنْدَ اَلْجَمَحَاتِ فَإِنَّ اَلنَّفْسَ أَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ اَللّٰهُ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران )
اور اُنہیں حکم ہے کہ وہ نفسانی خواہشوں کے وقت اپنے نفس کو کچلیں اور اس کی منہ زوریوں کے وقت اُسے روکیں کیونکہ نفس برائیوں ہی کی طرف لے جانے والاہے مگر یہ کہ خدا کا لطف و کرم شاملِ حال ہو۔
اسکی تائید قرآنِ مجید سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت پارہ نمبر 13 کی ابتداء میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِىْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ اِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ
اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتاکیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا رب رحم کرے، بیشک میرا رب بڑا بخشنے،رحم کرنے والا ہے۔
دیانت داری و امانت داری
امام علیؑ فرماتے ہیں: عَلَيْكَ بِالْأَمَانَةِ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ دِيَانَةٍ۔(آمدی،عبدالواحدبن محمد،غررالحکم ودررالکلم، ج1، ص444،ناشر: مکتب الاعلام الاسلامی مكان النشر: ايران؛قم)
امانت داری تمہارے اوپر ضروری ہے چونکہ یہ بہتریں دیانتداری ہے۔
دیانتداری و امانت داری سے نہ فقط ظاہری حکمرانی کرسکتے ہیں بلکہ اس سے لوگوں کے دلوں پر بھی حکمرانی کی جاسکتی ہے۔اس کی واضح مثال پیغمبر اکرمؐ کی ذات ہے۔ آپؐ کے بد ترین دشمن مشرکین مکہ بھی آپؐ کی دیانتداری اور امانت داری کے معترف تھے اور آپؐ مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے ہی صادق و امین کے نام سےمشہور تھے۔
اسی طرح خودِ امام علیؑ کی ذات کو دیکھیں کہ آپؑ کی ظاہری خلافت کے دوران آپؑ کا ایک حاکم عمرو بن سلمہ جب کوفہ کی طرف آرہے تھے۔ راستہ میں خوارج سے سامنا ہوا ۔ جب خوارج وہاں سے چلے گئے تو وہ تحائف لیکر کوفہ آگئے۔امامؑ نے حکم دیا کہ ان تحائف کو مسجدِ کوفہ کے صحن میں رکھ دیا جائے اور عمرو کو مقرر کیا کہ انہیں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیں۔ جناب ام کلثوم نے کسی کو عمرو کے پاس بھیج کر کہلوایا کہ جو شہد وہ لے کر آئیں ہیں اس میں سے تھوڑا سا مجھے بھی دیں۔ عمرو نے اس شہد کے دو کنستر(Tin) امامؑ کی صاحبزادی کو بھجوا دیں۔ جب امامؑ نماز کے لئے مسجد تشریف لائے تو دیکھا دو کنستر کم ہو گئے ہیں۔ آپؑ نے عمرو کو آواز دی اور ان دو کنستروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: نہ پوچھئے کیا ہو ا ہے، پھر وہ گئے اور شہد کے دو کنستر وہاں لا کر رکھ دئیے۔ امامؑ نے فرمایا: میں یہ معاملہ جاننا چاہتا ہوں،انہوں نے کہا: ام کلثوم نے کسی کو بھیجا تھا تو میں نے دو کنستر انہیں دے دئیے تھے۔ امامؑ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ تحائف لوگوں میں تقسیم کر دو؟ اس کے بعد آپؑ نے ان دو کنستر کو لینے ایک آدمی کو ام کلثوم کے پاس بھیجا،جب وہ آئے تو آپؑ نے دیکھا ان میں کچھ شہد کم ہوگیا ہے،امامؑ نے انہیں ایک تاجر کے پاس بھیجا تاکہ وہ کم ہونے والے شہد کی قیمت کا تعین کریں،یہ قیمت تقریبا تین درہم سے کچھ زیادہ بنی،امامؑ نے کسی کو ام کلثوم کے پاس بھیجا کہ وہ یہ رقم ادا کر دیں اور اس کے بعد وہ شہد لوگوں میں تقسیم کر دیا۔(رسول جعفریان، ائمہ اہل بیت کی فکری و سیاسی زندگی،ص141،ناشر: دار الثقلین کراچی پاکستان)
یہ ہوتی ہے دیانت داری، ورنہ تو آج کل دیکھئے جس کے ہاتھ میں جو بھی اختیار ہوگا وہ ہمیشہ اس فکر میں ہوتے ہیں کہ کس طرح لوٹ مار کر کے اپنے اور اپنی اولاد کے اکاؤنٹ بھر لیں!اور یہ مولا علیؑ کی ذات کے علاوہ کون کرسکتا ہے کہ اپنی بیٹی سے شہد بھی واپس لیں، ساتھ جو کم ہوگیا ہے اس کی قیمت گزاری کرکے قیمت بھی لیں اور دینے والے کو بھی ڈانٹ لیں کہ میں نے تمہیں مسلمانوں میں تقسیم کر نے کی ذمہ داری دی تھی! اگر آج کل کے حکمران ہوتے تو تقسیم کرنے والے کو اس لئے ڈانٹنا تھا کہ صرف دو کنستر کیوں دیے ۔
خوش اخلاقی
خوش اخلاقی یہ ایسی صفت ہے جسے ہر کوئی یہاں تک کہ بد اخلاق لوگ بھی پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ اس کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں لہٰذا یہ صفت عام لوگوں میں بھی ہونی چاہئے لیکن حاکم اور مسؤل کے پاس ہونا زیادہ ضروری ہے چونکہ اس صفت کے ذریعے حکمران صرف ظاہری حکمرانی ہی نہیں بلکہ دلوں پر بھی راج کرسکتے ہیں اور امور مملکت کو بہتر طریقہ سے چلا سکتے ہیں چونکہ مولا علیؑ بد اخلاقی اور اور تند مزاجی کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولا الجافی فیقطعھم بجفائہ۔
اور امام کو کج خلق اور تند مزاج نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنی کج خلقی اور تند مزاجی سے لوگوں کو ہمیشہ اپنے پاس سے بھگاتا رہےگا۔(شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ خطبہ 129، ناشر: مرکز ِ افکارِ اسلامی پاکستان)
لہٰذا لوگوں سے خوش اخلاقی اور پیار و محبت کے ساتھ پیش آنا چاہئے جیسا کہ امام علیؑ مالک اشتر کو لکھتے ہیں۔
وَ أَشْعِرْ قَلْبَكَ اَلرَّحْمَةَ لِلرَّعِیَّةِ وَ اَلْمَحَبَّةَ لَهُمْ وَ اَللُّطْفَ بِهِمْ وَ لاَ تَكُونَنَّ عَلَیْهِمْ سَبُعاً ضَارِیاً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِی اَلدِّینِ وَ إِمَّا نَظِیرٌ لَكَ فِی اَلْخَلْقِ یَفْرُطُ مِنْهُمُ اَلزَّلَلُ وَ تَعْرِضُ لَهُمُ اَلْعِلَلُ وَ یُؤْتَى عَلَى أَیْدِیهِمْ فِی اَلْعَمْدِ وَ اَلْخَطَإِ فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ اَلَّذِی تُحِبُّ وَ تَرْضَى أَنْ یُعْطِیَكَ اَللّٰهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ وَ وَالِی اَلْأَمْرِ عَلَیْكَ فَوْقَكَ وَ اَللَّهُ فَوْقَ مَنْ وَلاَّكَ وَ قَدِ اِسْتَكْفَاكَ أَمْرَهُمْ وَ اِبْتَلاَكَ بِهِمْ۔ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
رعایا کے لئے اپنے دل کے اندر رحم ورأفت اور لطف و محبت کو جگہ دو، ان کے لئے پھاڑ کھانے والادرندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو، اس لئے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو تمہارے دینی بھا ئی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوق خدا ۔ اُن کی لغزشیں بھی ہو ں گی خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہو ں گی ۔ تم اُن سے اسی طرح عفوودرگزر سے کام لینا، جس طرح اﷲ سے اپنے لئے عفوو در گزر کو پسند کرتے ہو۔ اس لئے کہ تم ان پر حاکم ہو، اور تمہارے اوپرتمہارا امام حاکم ہے ۔ اور جس(امامؑ) نے تمہیں والی بنایا ہے اس کے اوپر اﷲہے اور اس نے تم سے ان لوگو ں کے معاملات کی انجام دہی چاہی ہے اور اُن کے ذریعہ تمہاری آزمائش کی ہے ۔
اسکی واضح مثال پیغمبر اکرمؐ کی ذات ہے کہ آپؐ کے اخلاق کی وجہ سے دین اسلام تیزی کے ساتھ کائنات میں پھیلا اور آپؐ کے بد ترین دشمن بھی آپؐ کے اخلاق کا گرویدہ تھے ۔
حسن سلوک
لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا کامیاب حکمرانی کا ایک اصل ہے کیونکہ جو لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے تو لوگ بھی اس کی باتوں کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے کہنے پر عمل کرتا ہے چونکہ ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر کوئی میرے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور میری ضرورتوں کا خیال رکھیں لہٰذا جب کوئی ان کی اس خواہش کو پورا کرتا ہے تو وہ اس کا تابع بن جاتا ہے جیسا کہ امام علیؑ فرماتے ہیں:
اَلْإِنْسَانُ عَبْدُاَلْإِحْسَانِ۔ (آمدی،عبدالواحدبن محمد،غررالحکم ودررالکلم، ج1، ص29،ناشر: مکتب الاعلام الاسلامی مكان النشر: ايران؛قم)
انسان احسان کاغلام ہے۔
احتساب
کامیاب حکمرانی کے لئے احتساب کا ہونا بہت ضروری ہے چونکہ بغیرِ احتساب کے ایک گھر نہیں چل سکتا بلکہ ایک اکیلا انسان کی زندگی بھی بغیرِ احتساب کے نہیں چل سکتی تو ایک ریاست کو چلانے کے لئے احتساب کا ہونا بہت ضروری ہے اسکی بہترین مثال ہمیں مولا علیؑ کی ساڑھے چار سالہ ظاہری خلافت میں ملتی ہیں کہ سابقہ خلفاء کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے معاشرے کے مالدار اور غریب طبقات کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ گیا تھا چنانچہ آپ ؑ نے حکومت سنبھالتے ہی آپؑ نے اپنی سخت پالیسی کو یوں بیان فرمایا:
واللّٰه لَوْ وَجَدْتُه قَدْ تُزُوِّجَ بِه النِّسَاءُ ومُلِكَ بِه الإِمَاءُ لَرَدَدْتُه – فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً – ومَنْ ضَاقَ عَلَيْه الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْه أَضْيَقُ۔ (شریف الرضی، محمد بن حسین، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی , ج1 , ص369، نا شر: مکتبة آیة الله العظمی المرعشي النجفیؒ)
خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دےدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اوربھی تنگی ہوگی۔
اور آپؑ نے اتنی سخت احتسابی پالیسی اپنا ئی جس کی وجہ سے سارے مفاد پرست اور بیت المال سے عیّاشی کرنے والے لوگ آپؑ کے مخالف ہوگئے اور مخالفت میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ جنگ جمل رونما ہوا۔
غرور سے اجتناب
جو حکمران غرور جیسی لعنت سے پاک ہو وہ بہترین حکمرانی کرسکتا ہے کیونکہ غرور ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اسفل السافلین میں پہنچا دیتی ہے جس طرح شیطان کو پہنچائی ہے اور غرور سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے ہوئے امام علیؑ فرماتے ہیں:
إِیَّاكَ وَ مُسَامَاةَ اَللّٰهِ فِی عَظَمَتِهِ وَ اَلتَّشَبُّهَ بِهِ فِی جَبَرُوتِهِ فَإِنَّ اَللّٰهَ یُذِلُّ كُلَّ جَبَّارٍ وَ یُهِینُ كُلَّ مُخْتَالٍ۔ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
خبردار ! کبھی ﷲکے ساتھ اس کی عظمت میں نہ ٹکراؤ اور اس کی شان و جبروت سے ملنے کی کوشش نہ کرو، کیونکہ ﷲ ہر جبارو سرکش کو نیچا دکھاتا ہے اور ہر مغرور کے سر کو جھکا دیتا ہے ۔
اور امام علیؑ فرماتے ہیں:
اَلسُّكْرُ أَرْبَعُ سُكْرَاتٍ سُكْرُ اَلشَّرَابِ وَ سُكْرُ اَلْمَالِ وَ سُكْرُ اَلنَّوْمِ وَ سُكْرُ اَلْمُلْك۔ (مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار, ج70،ص119،ناشر: دار إحياء التراث العربی،۱۳۶۸–۱۴۰۳. بیروت – لبنان)
انسان کی مستی چار چیزوں میں ہے ان میں سے حکومت اور سلطنت انسان کو مست کر دیتی ہے۔
لہٰذا انسان کو چاہئے کہ جس طرح باقی مسکرات سے اجتناب ضروری ہے اسی طرح حکومت اور سلطنت کی مستی سے بھی اجتناب ضروری ہے کیونکہ یہ انسان کو مغرور بنا دیتی ہے اور ساتھ انسان کی اصلیت کو ظاہر کردیتی ہے چونکہ کسی مقام اور عہدہ کے ملنے سے پہلے سارے اچھے نظر آتے ہیں لیکن جونہی کوئی مقام اور عہدہ مل جاتا ہے تو اسکی اصلیت ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے لہٰذا کامیاب وہی انسان ہوتا ہے جو مقام اور عہدہ ملنے کے بعد بھی وہی دکھائی دے جیسا پہلے دکھائی دیتے تھے۔
عیوب کی پردہ پوشی
حکمرانی کے اصول میں سے ایک اصل یہ ہے کہ حاکم کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کریں کیونکہ حاکم کا کام لوگوں کے عیوب کو اچھالنا نہیں بلکہ عیوب کو چھپانا اور ان کی تربیت و اصلاح کرنا ہے چونکہ حاکم باپ کی منزلت پر ہوتے ہیں اور کوئی باپ اپنی اولاد کے عیوب کو فاش نہیں کرتا بلکہ ان کی تربیت اور اصلاح کرتے ہیں، جیساکہ اسی اصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام علیؑ فرماتے ہیں:
فَاسْتُرِ اَلْعَوْرَةَ مَا اِسْتَطَعْتَ یَسْتُرِ اَللّٰهُ مِنْكَ مَا تُحِبُّ سَتْرَهُ مِنْ رَعِیَّتِكَ أَطْلِقْ عَنِ اَلنَّاسِ۔(مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار, ج33،ص599،ناشر: دار إحياء التراث العربی،۱۳۶۸–۱۴۰۳. بیروت – لبنان)
جہاں تک بن پڑے عیبوں کو چھپاؤ تاکہ اﷲبھی تمہارے ان عیبوں کی پردہ پوشی کرے جنہیں تم رعیت سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو۔
اچھے لوگوں سے مشورہ کرنا
انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی کام بغیر مشورہ کے نہ کریں کیونکہ مشورہ کام کو نتیجہ خیز بنا دیتا ہے لہٰذا ایک حاکم اور مسؤول کے لئے تو زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے امور میں لوگوں سے مشورہ لیں البتہ ہر ایرے غیرے سے نہیں بلکہ اچھے اور تجربہ کار لوگوں سے، چونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مشورہ لینے کے لائق نہیں ہوتے۔ جیسا کہ مولا علیؑ ذیل کی حدیث میں چند لوگوں کو اپنے مشورہ میں شامل نہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں:
وَ لاَ تُدْخِلَنَّ فِی مَشُورَتِكَ بَخِیلاًیَعْدِلُ بِكَ عَنِ اَلْفَضْلِ وَ یَعِدُكَ اَلْفَقْرَ وَ لاَ جَبَاناً یُضْعِفُكَ عَنِ اَلْأُمُورِ وَ لاَ حَرِیصاًیُزَیِّنُ لَكَ اَلشَّرَهَ بِالْجَوْرِ فَإِنَّ اَلْبُخْلَ وَ اَلْجُبْنَ وَ اَلْحِرْصَ غَرَائِزُ شَتَّى یَجْمَعُهَا سُوءُ اَلظَّنِّ بِاللّٰهِ۔ (ورام، مسعود بن عیسی، تنبيه الخواطر و نزهة النواظر (مجموعة ورّام) ص63، ناشر: مکتبة الفقيه قم)
1۔اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کےساتھ بھلائی سے روکے گا، اور فقر وافلاس کا خطرہ دلائے گا۔
2۔اور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ وہ تمہاری ہمت پست کر دے گا۔
3۔اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹورنے کو تمہاری نظروں میں سج دے گا۔
یاد رکھو !بخل، بزدلی اور حرص اگرچہ الگ الگ خصلتیں ہیں مگر اللہ سے بدگمانی ان سب میں شریک ہے۔
تاجر اور صنعت کاروں کا خیال رکھنا
کسی بھی حکومت اور ریاست کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے جن اصولوں کی ضرورت ہوتی ہیں اُن میں سے ایک اصل تجارت اور صنعت ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ تجارت او ر صنعت کسی بھی حکومت اور ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا حاکم کو چاہئے کہ وہ تجارت اور صنعت پر توجہ دیں اور تاجروں اور صناعوں پر خاص توجہ دیں اور انہیں ہر طرح کے ریلیف دیں چونکہ جو حکومت معاشی طور پر مضبوط نہ ہو وہ صحیح نہیں چل سکتی۔جیسا کہ مولا علیؑ بھی اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
ثُمَّ اِسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وَ ذَوِی اَلصِّنَاعَاتِ وَ أَوْصِ بِهِمْ خَیْراً اَلْمُقِیمِ مِنْهُمْ وَ اَلْمُضْطَرِبِ بِمَالِهِ وَ اَلْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِهِ فَإِنَّهُمْ مَوَادُّ اَلْمَنَافِعِ وَ أَسْبَابُ اَلْمَرَافِقِ وَ جُلاَّبُهَا مِنَ اَلْمَبَاعِدِ وَ اَلْمَطَارِحِ فِی بَرِّكَ وَ بَحْرِكَ وَ سَهْلِكَ وَ جَبَلِكَ وَ حَیْثُ لاَ یَلْتَئِمُ اَلنَّاسُ لِمَوَاضِعِهَا وَ لاَ یَجْتَرِءُونَ عَلَیْهَا فَإِنَّهُمْ سِلْمٌ لاَ تُخَافُ بَائِقَتُهُ وَ صُلْحٌ لاَ تُخْشَى غَائِلَتُهُ وَ تَفَقَّدْ أُمُورَهُمْ بِحَضْرَتِكَ وَ فِی حَوَاشِی بِلاَدِكَ وَ اِعْلَمْ مَعَ ذَلِكَ أَنَّ فِی كَثِیرٍ مِنْهُمْ ضِیقاً فَاحِشاً وَ شُحّاً قَبِیحاً وَ اِحْتِكَاراً لِلْمَنَافِعِ وَ تَحَكُّماً فِی اَلْبِیَاعَاتِ وَ ذَلِكَ بَابُ مَضَرَّةٍ لِلْعَامَّةِ وَ عَیْبٌ عَلَى اَلْوُلاَةِ فَامْنَعْ مِنَ اَلاِحْتِكَارِ فَإِنَّ رَسُولَ اَللّٰهِ ص مَنَعَ مِنْهُ وَ لْیَكُنِ اَلْبَیْعُ بَیْعاً سَمْحاً بِمَوَازِینِ عَدْلٍ وَ أَسْعَارٍ لاَ تُجْحِفُ بِالْفَرِیقَیْنِ مِنَ اَلْبَائِعِ وَ اَلْمُبْتَاعِ فَمَنْ قَارَفَ حُكْرَةً بَعْدَ نَهْیِكَ إِیَّاهُ فَنَكِّلْ بِهِ وَ عَاقِبْهُ فِی غَیْرِ إِسْرَافٍ۔ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
پھر تمہیں تاجروں اور صناعوں کے خیال اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیوپار کرنے والے ہوں یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں یا جسمانی مشقت (مزدوری یا دستکاری) سے کمانے والے ہوں کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں، تریوں، میدانی علاقوں اور پہاڑوں ایسے دور افتادہ مقامات سے درآمد کرتے ہیں اور ایسی جگہوں سے کہ جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے اور نہ وہاں جانے کہ ہمت کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں۔ ان سے کسی فساد اور شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ تمہارے سامنے ہو ں یا جہاں جہاں دوسرےشہروں میں پھیلے ہوئے ہوں، تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا۔ ہاں اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی تنگ نظر اور بڑے کنجوس ہوتے ہیں جو نفع اندوزی کے لئے مال روک رکھتے ہیں اور اونچے نرخ معین کر لیتے ہیں۔ یہ چیز عوام کے لئے نقصان دہ اور حکام کی بد نامی کا باعث ہوتی ہے۔ لہٰذا ذخیرہ اندوزی سے منع کرنا، کیونکہ رسول اﷲؐنے اس سے ممانعت فرمائی ہے اور خریدو فروخت صحیح ترازؤوں اور مناسب نرخوں کے ساتھ سہولت ہونا چاہئے کہ نہ بیچنے والے کو نقصان ہو اور نہ خریدنے والے کو خسارہ ہو ۔ اس کے بعد بھی کوئی ذخیرہ اندوزی کے جرم کا مرتکب ہو تو اُسے مناسب حد تک سزا دینا۔
نادار و محتاج مندوں کا خیال رکھنا
ایک حاکم کو اس وقت تک کامیاب حاکم نہیں کہا جاسکتا جب تک وہ اپنی رعیت میں سے جو نادار و محتاج مند طبقہ ہے ان کا خیال نہ رکھے کیونکہ بڑے اور امیر لوگوں کا تو ہر کوئی خیال رکھتے ہیں کہ کہیں یہ ناراض ہو کر میرا مفاد ختم نہ ہوجائے لہٰذا کمال یہ ہے کہ جو نادار طبقہ ہے ان کا خیال رکھا جائے جیسا کہ مولا علیؑ مالک اشتر کو لکھتے ہیں:
ثُمَّ اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِی اَلطَّبَقَةِ اَلسُّفْلَى مِنَ اَلَّذِینَ لاَ حِیلَةَ لَهُمْ مِنَ اَلْمَسَاكِینِ وَ اَلْمُحْتَاجِینَ وَ أَهْلِ اَلْبُؤْسَى وَ اَلزَّمْنَى فَإِنَّ فِی هَذِهِ اَلطَّبَقَةِ قَانِعاً وَ مُعْتَرّاً وَ اِحْفَظِ لِلّٰهِ مَا اِسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّهِ فِیهِمْ وَ اِجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَیْتِ مَالِكِ وَ قِسْماً مِنْ غَلاَّتِ صَوَافِی اَلْإِسْلاَمِ فِی كُلِّ بَلَدٍ فَإِنَّ لِلْأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ اَلَّذِی لِلْأَدْنَى وَ كُلٌّ قَدِ اِسْتُرْعِیتَ حَقَّهُ وَ لاَ یَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ فَإِنَّكَ لاَ تُعْذَرُ بِتَضْیِیعِكَ اَلتَّافِهَ لِإِحْكَامِكَ اَلْكَثِیرَ اَلْمُهِمَّ فَلاَ تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ وَ لاَ تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ۔ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ج1، ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
پھر خصوصیت کے ساتھ اﷲکا خوف کرنا پسماندہ و افتادہ طبقہ کے بارے میں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، وہ مسکینوں، محتاجوں، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے، ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلاکر مانگنے والے ہیں اور کچھ کی صورت سوال ہوتی ہے، اﷲکی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کااس نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے،ان کے لئے ایک حصہ بیت المال سے معین کر دینا اور ایک حصہ ہر شہر کے اس غلہ میں سے دینا جو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ہوا ہو کیونکہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا نزدیک والوں کا ہے اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو ۔ لہٰذا تمہیں دولت کی سرمستی ان سے غافل نہ کردےکیونکہ کسی معمولی بات کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ تم نے بہت سے اہم کامو ں کو پورا کردیا ہے لہٰذا اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا اور نہ تکبر کے ساتھ انکی طرف سے اپنا رخ پھیرنا ۔
اقرباء پروری سے اجتناب
حاکم کو چاہیے کہ وہ اقربا پروری سے اجتناب کریں کیونکہ لوگ اس کو بہت ہی گٹھیا عمل سمجھتے ہیں اور آج کل کی دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ جب تک موروثی سیاست اور اقربا پروری کا رجحان ختم نہیں ہوتے تب تک کوئی بھی قوم کہیں پر بھی کوئی ترقی نہیں کرسکتا، لیکن یہی بات آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا و مولا امام علیؑ نے مالک اشتر کو مصر کا حاکم بناتے ہوئے فرمایا تھا:
وَ لاَ تُقْطِعَنَّ لِأَحَدٍ مِنْ حَاشِیَتِكَ وَ حَامَّتِكَ قَطِیعَةً وَ لاَ یَطْمَعَنَّ مِنْكَ فِی اِعْتِقَادِ عُقْدَةٍ تَضُرُّ بِمَنْ یَلِیهَا مِنَ اَلنَّاسِ فِی شِرْبٍ أَوْ عَمَلٍ مُشْتَرَكٍ یَحْمِلُونَ مَئُونَتَهُ عَلَى غَیْرِهِمْ فَیَكُونَ مَهْنَأُ ذَلِكَ لَهُمْ دُونَكَ وَ عَیْبُهُ عَلَیْكَ فِی اَلدُّنْیَا وَ اَلْآخِرَةِ۔ (شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ , ج1 , ص426، نا شر: مؤسسة دار الهجرةقم – ایران)
اور دیکھو !اپنے کسی حاشیہ نشین اور قرابت دار کو جاگیر نہ دینا اور اُسے تم سے توقع نہیں باندھنا چاہئے۔ کسی ایسی زمین پر قبضہ کرنے کی جو آبپاشی یا کسی مشترکہ معاملہ میں اس کے آس پاس کے لوگوں کےلئے ضرر کی باعث ہو، یوں کہ اس کا بوجھ دوسرے پر ڈال دے۔ اس صورت میں اس کے خوشگوار مزے تو اس کے لئے ہوں گے نہ تمہارے لئےمگر اس کا بدنما دھبہ دنیا و آخرت میں تمہارے دامن پر رہ جائے گا ۔
سخاوت
حاکم کا سخی ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ مولا علیؑ بخیل آدمی کو حاکم نہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقد علمتم انَّہ لاینبغی ان یکون الوالی علی الفروج والدماء والمغانم والاحکاموامامة المسلمین اَلْبخیلُ فتکون فی اموالھم نَہْمَتُہ۔ ( شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ خطبہ 129،ناشر: مرکز ِ افکارِ اسلامی پاکستان)
اے لوگو! تمہیں یہ معلوم ہے کہ ناموس، خون، مال غنیمت، نفاذِ احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کے لئے کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی بخیل حا کم ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو اس کے دانت مسلمانوں کے مال پر لگے ر ہیں گے۔
دور اندیشی
اَلظَّفَرُ بِالْحَزْمِ(شریف رضی،محمد بن حسین(مؤلف)، جوادی، سید ذیشان حیدر(مترجم)۔ نہج البلاغہ،حکمت 48 ص637،ناشر: حدیث اور علوم حدیث لائبریری)
کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے۔
اور سب سے زیادہ جس کو دور اندیش ہونے کی ضرورت ہے وہ حاکم وقت ہے چونکہ حاکم فقط اپنے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ پوری رعیت کی ذمہ داری حاکم کے اوپر ہوتی ہے اور رعیت کا مستقبل تابناک بنانے یا برباد کرنے میں حاکم کی دور اندیشی کار فرما ہوتی ہے چونکہ رعیت کی تعلیم و تربیت اور اقتصاد وغیرہ کا دار و مدار حاکم کے دور اندیش ہو نے پر ہے۔
نتیجہ
اس کلِ بحث کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کو خلق فرمانے کے بعد انہیں میں سے کچھ افراد کو دوسروں پر حاکم اور مسؤل بنایا تاکہ سب بامقصد، منظم اور بہترین زندگی گزارسکیں،لہٰذا جو حاکم اور مسؤل ہے اگر وہ انبیاءؑ یا آئمہ معصومینؑ میں سے کوئی ہو تو ان کی بات ہی اور ہے کیونکہ وہ وحی الٰہی اور علمِ لدنی کے ذریعے لوگوں کی زندگی کو بامقصد اور منظم بناتے ہیں لیکن جو غیر معصوم (عام) حکمران ہے ان کو چاہئے کہ وہ انبیاءؑ اور آئمہ معصومینؑ کی طرزِ حکومت اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق حکمرانی کریں خصوصاً مولا علیؑ کی طرزِ حکومت اور آپؑ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق، چونکہ دنیا اس بات کی معترف ہو چکی ہے کہ کائنات میں علیؑ جیسا عادل اور کامیاب حکمران کوئی نہیں آیا ہے خصوصاً آپؑ کا وہ مکتوب جو آپؑ نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر بناتے وقت لکھا تھا اس مکتوب کو اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تاریخ ِ عالم کا منصفانہ ترین خط قرار دیتے ہوئے دنیا کے تمام حکمرانوں کو اسے بطورِ آئینِ حکمرانی اپنانے کی تجویز پیش کی ہے۔