متفرق مقالات

دشمن شناسی

تحریر: میلاد حسن زادہ

مومن کی تربیت اور نشوونما میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جن میں خود اعتمادی، بصیرت، بامقصد زندگی اور سچائی کی راہ میں تسلسل جیسے عوامل کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، ایک جزو جس کی علمی اور درست طریقے سے وضاحت نہیں کی جاتی ہے، وہ انفرادی اور اجتماعی ترقی میں دشمن کا کردار ہے۔ کوئی شخص کس کے خلاف کھڑا ہے، یعنی اس کا دشمن کون ہے، اس کا براہ راست اثر اس بات پر پڑتا ہے کہ وہ کیسے سوچتا ہے، وہ کس طرح کوشش کرتا ہے اور وہ کس حد تک جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں، لفظ "جہاد” کا مطلب صرف کوشش نہیں ہے، بلکہ یہ وہ کوشش ہے، جو دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے قلب و ذہن میں ایک خاص صورت اختیار کرتی ہے۔

یونیورسٹی کے پروفیسروں کے ساتھ ایک ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس مفہوم کی واضح وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جہاد کا ایک خاص مفہوم ہے، جہاد کا مطلب صرف کوشش نہیں ہے بلکہ اسلامی مفاہیم میں، جہاد وہ کوشش ہے، جو دشمن کے خلاف ہو، کسی مخالف کے خلاف ہو۔ یہ تشریح دشمن شناسی اور ترقی کے درمیان تعلق میں کلیدی تصورات کو اجاگر کرتی ہے۔ اگر جہاد، مومن کی سربلندی کے اہم درجات میں سے ایک ہے تو یہ درجہ دشمن کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا، لہذا دشمن کے بارے میں صحیح معرفت حق کی راہ پر تزویراتی ترقی کی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔

"بڑا دشمن” کیوں اہم ہے؟
ہم سب کو زندگی میں مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کبھی بیرونی، کبھی اندرونی۔ لیکن ان چیلنجوں کی نوعیت اور ان کی سطح اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم نے اپنی صلاحیتوں کو کس حد تک بروئے کار لانا ہے۔ انسان رکاوٹ اور مخالف کی استعداد کے مطابق اپنے محرک اور ارادے کو منظم کرتا ہے۔ اگر دشمن کو محض ایک ذاتی حریف یا قلیل مدتی مسئلہ کے طور پر بیان کیا جائے تو انسانی عمل عام طور پر ایک محدود  پیمانے پر رہتا ہے۔ یعنی دشمن سطحی ہے تو اس کے خلاف مبارزہ بھی اسی نوعیت کا ہوگا، لیکن جب کوئی فرد اپنے آپ کو کسی بڑے اور گہرے خطرے سے دوچار پاتا ہے تو اسی سطح کا عزم اور ارادہ بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارا مخالف تسلط کا نظام یا عالمی جنگ یا اس سے ملتا جلتا ہدف ہے تو اس مرحلے میں ایک "بڑا دشمن”، وہم و خیال کے طور پر نہیں، بلکہ ایک حقیقی عنصر کے طور پر، ترقی کا محرک بن جاتا ہے۔

شہید فخری زادہ کی ایک یادداشت میں، جسے ان کی اہلیہ نے کتاب "پرسکون ہفتہ” میں بیان کیا ہے، ان کا یہ جملہ حیرت انگیز طور پر اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے کہ دشمن کون ہے اور ہمیں کیا کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "میں جتنا زیادہ کام کروں گا، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی اتنی ہی زیادہ نیندیں حرام ہوں گی”۔یہ جملہ کوئی نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہ بڑے دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے کی روش ہے۔

فخری زادہ محض ایک سائنسدان کے طور پر نہیں بلکہ ایک مجاہد سائنسدان کے طور پر سوچتے تھے۔ ان کے لیے دشمن محض تحقیق کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا بلکہ مسلسل کوششوں کے لیے ایک وجہ اور محرک تھا۔ کسی انسان کے لیے دشمن کی شبیہ کو خوف کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہیے بلکہ اپنی کوششوں کو منظم کرنا اور انقلابی پختگی کے ساتھ اپنے آپ کو آگے بڑھانا چاہیے۔ دشمن کی طاقت سے متاثر ہونے کے بجائے، فخری زادہ نے دشمن کی طاقت کو اپنی مسلسل محنت کا محرک بنا دیا۔

یہ وہ نکتہ ہے، جہاں ایک بڑے دشمن کی تصویر کشی ایک عظیم ارادے کی تعمیر کا باعث بنتی ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ دشمن کو مخاطب قرار دینا ذہن کو مایوسی، بے اعتمادی یا سازشی وہموں میں پھنسا سکتا ہے۔ یہ تشویش اس وقت مناسب ہے، جب دشمن کو بغیر تجزیہ اور سطحی و عمومی اور جذباتی انداز میں درک کیا گیا ہو۔ تاہم، اگر دشمن کا ادراک مطالعہ، اعداد و شمار، دستاویزات، تاریخی رجحانات اور گہرے تجزیے پر مبنی ہو تو یہ نہ صرف انحراف کا ذریعہ نہیں ہوگا، بلکہ انفرادی اور اجتماعی مشن  کی تشکیل میں بھی ایک لازمی عنصر ہوگا۔ جب کوئی شخص جانتا ہے کہ وہ کس سطح پر کام کر رہا ہے، تو وہ بہتر طریقے سے نہ صرف اہداف کا تعین کرسکتا ہے بلکہ اپنے وسائل بھی مختص کرکے ایک مناسب حکمت عملی وضع کرسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جہاد میں منصوبہ بندی کے لیے دشمن کو جاننا بنیادی شرط ہے۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ دشمن کی صرف فوجی یا سیاسی میدان میں ہی شناخت ضروری نہیں، بلکہ سماجی زندگی کے ہر شعبے منجملہ سائنس، میڈیا، ثقافت، معیشت وغیرہ میں بھی دشمن کی شناخت ضروری ہے۔مثال کے طور پر میڈیا میں دشمن شناسی اور اس کے خلاف کوشش و سعی ایک قسم کا جہاد ہے، لیکن اس میں دشمن کے میڈیا کی شناخت ضروری ہے۔ انفرادی سطح پر بھی یہی منطق غالب ہے۔ اگر کوئی انقلابی استاد اپنے دشمن کو صرف طبقاتی انتشار یا ناقص طالب علمی کے نظم و ضبط کو سمجھتا ہے تو وہ اس سطح پر محدود رہے گا۔ لیکن اگر استاد دشمن شناسی میں بڑے دشمن کو متعارف کرواتا ہے تو اس سے شاگرد کی کوششوں کا افق بدل جاتا ہے۔ ایک پرعزم انجینئر ترقی نہیں کرسکے گا، اگر وہ صرف روزمرہ کے منصوبے کی تکنیکی خامیوں کو دور کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔

لیکن اگر وہ امپورٹڈ ٹیکنالوجی پر مخصوص عناصر کی اجارہ داری کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تو وہ صنعتی آزادی کے منظم ڈیزائن کی طرف قدم اٹھا سکتا ہے۔ یا اسلامی ہیومینٹیز کا محقق اگر "مغربی نظریاتی نظام” کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھتا ہے تو وہ توحیدی افق میں سچائی کی ترجمانی کرتا ہے، اس اقدام سے اس کی تحقیق اور کردار سازی کے میدان کو تہذیبی وسعت ملے گی۔ جب انقلابی کارکن اپنے دشمنوں کو صحیح طریقے سے پہچان لیتا ہے، تو اس کی تحقیق یا عمل اب محض تکنیکی یا انتظامی کوشش نہیں رہ جاتی ہے، بلکہ یہ ایک سنجیدہ اور ہدایت والا جہاد بن جاتا ہے۔ جو چیز طے کرتی ہے کہ کوئی شخص سچائی کی راہ پر کس حد تک آگے بڑھے گا، وہ صرف عمومی نظریات نہیں ہیں، بلکہ رکاوٹوں کا معیار ہے، جو وہ اپنے سامنے دیکھتا ہے۔ بڑا دشمن ایک اعلیٰ افق دیکھنے میں مدد کرتا ہے، جو اسے زیادہ محنتی، ذہین اور بامقصد ہونے میں مدد کرتا ہے۔

دشمن کو جہاد کے نقاط کا تعین کرنا
اگر رہبر انقلاب بار بار "دشمن کے محاذ کو جاننے” پر زور دیتے ہیں تو یہ زور محض جوش و خروش کے لیے نہیں ہے،بلکہ عظیم ارادوں کی انجینئرنگ کے لیے ہے۔ اس انجینئرنگ کے بغیر، وفادار قوتیں روزمرہ کے معمولات یا سطحی مقابلوں میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ ایک انقلابی مومن کی ترقی کے عمل میں بہت سے عوامل شامل ہیں، لیکن اس میں دشمن کی پہچان نہایت اہم عامل ہے۔ جب ایک فرد یا معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے تسلط، اثر و رسوخ یا بہکاوے کے کس طریقہ کار کا سامنا ہے، تو اس کی کوششیں مختلف رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ اس میں زیادہ سنجیدگی، زیادہ توجہ اور زیادہ ہدایت و محنت شامل ہو جاتی ہے۔ دشمن کو محض ایک خطرے کے طور پر نہیں بلکہ ایک محرک کے طور پر سمجھنے سے جدوجہد کا افق روشن ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے ماڈلز سے ہم جو کچھ سیکھ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دشمن کی ایک مفصل اور تجزیاتی تصویر نہ تو ہمیں دشمن سے ڈراتی ہے اور نہ مقابلہ سے روکتی ہے، بلکہ ہمارے عزم کو بالجزم کرتی ہے اور ہمیں علمی، ثقافتی اور تہذیبی کمال کی نئی سرحدوں کی طرف لے جا سکتی ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button