متفرق مقالات

حسینیت اور قوم پرستی

تحریر: حسین بشیر سلطانی
تاریخِ انسانی میں نظریات کی بہتات رہی ہے مگر ان میں سے کچھ نظریات ایسے ہیں جو تمدن کی روح، انسانیت کی معنویت اور فطرت کی ہم آہنگی کے بالکل منافی ہیں۔ ان ہی میں ایک خطرناک نظریہ "قوم پرستی” ہے، جو انسان کے شعور کو نسل، جغرافیہ، زبان، قبیلہ یا گروہ کی محدود دیواروں میں قید کر دیتا ہے۔ قوم پرستی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ سچ، انصاف، عدل اور عقل جیسے آفاقی اصولوں کو صرف اس بنیاد پر رد کر دیتی ہے کہ وہ "قوم” کے مفاد میں نہیں ہے۔
قوم پرست فکر کا پیروکار اس نکتہ سے بے نیاز ہوتا ہے کہ اس کی قوم حق پر ہے یا باطل پر،وہ بس قوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے،چاہے اس کا ساتھ ظلم ہو یا عدل کا خون۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرستی ہمیشہ استعماری قوتوں، ظالم ریاستوں، اور طبقاتی جبر کی پشت پناہی کرتی آئی ہے۔ ایک واضح مثال غاصب صہیونی ریاست ہے، جو قوم پرستی کے انتہاپسند تصور پر قائم ہے۔ اس نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرتے ہوئے نہ صرف لاکھوں بے گناہ انسانوں کو بے گھر کیا، بلکہ انسانی حقوق کی ہر حد کو پامال کیا۔ قتلِ عام، بچوں کی شہادتیں، خواتین کی بے حرمتی، عبادات کی توہین، اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں،یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا گیا کہ ایک قوم کو، دوسرے تمام انسانوں پر فوقیت دی جا سکے۔ یہی قوم پرستی ہے،ظلم کو "قوم” کے نام پر تقدس دینے کا فریب! مگر صہیونیت اس بدنما نظریے کی واحد مثال نہیں۔ اسلامی تاریخ میں بھی اس کی پرچھائیاں پائی جاتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد قریشی قوم پرستی کی بنیاد پر قیادت کا انتخاب، خلافت کی اہلیت کو پسِ پشت ڈال کر قبیلے کو ترجیح دینا، بیت المال کو محدود طبقات کے لیے مخصوص کرنا، اہلبیتؑ جیسی عظیم ہستیوں کو اقتدار سے دور رکھنا اور آخرکار کربلا جیسے ظلم کی راہ ہموار کرنا،یہ سب قوم پرستی کے سیاہ کارنامے ہیں۔
بنو امیہ کی سلطنت اس قوم پرستی کی رسمی تعبیر تھی، جہاں خون، نسب، قبیلہ اور اقتدار ہی سب کچھ تھے، اور عقل، عدل، تقویٰ اور انسانی وقار کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ ان کے نزدیک رشتہ داری، قبیلہ اور طاقت قیادت کے معیار تھے، نہ کہ حق، عقل یا فطرت۔
مگر انہی تاریکیوں میں ایک روشنی، ایک صدائے فطرت، ایک منادیِ عقل اُٹھی اور اس کا نام تھا: حسینیت۔
حسینیت، یعنی وہ راستہ جو عقل، عدل، فطرت، توحید اور انسانی اقدار کا علمبردار ہے۔ حسینیت، اسلام کی وہ اصل رُوح ہے جس میں قیادت کے لیے کارکردگی، تقویٰ، علم، اخلاق اور اصولوں کی پاسداری شرط ہے، نہ کہ قوم، زبان، یا قریبی ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علیؑ جیسے کامل انسان کو اپنے بعد خلافت کا حقدار بنایا—کیونکہ وہ حق کا معیار تھے، نہ کہ قریشی برتری کے نمائندہ۔
حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ جیسے پاکیزہ کردارجنہوں نے وقت کی طاقتوں، ظالمانہ رسوم، اور بے بنیاد سیاسی قوم پرستی کے آگے کبھی سر نہ جھکایا،حسینیت کی بنیاد بنے۔ ان ہستیوں نے یہ سبق دیا کہ قیادت کا اصل حق ان کا ہے جو وقت کے باطل کے سامنے سر بلند رکھے، اور جن کی وفاداری صرف اصولوں سے ہو۔
آج گلگت بلتستان جیسے خطے میں قوم پرستی کی لہر پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔ تعصب، برادری پرستی، رشتہ داری کی بنیاد پر قیادت کا انتخاب، اور فکری غلامی کے رجحانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایسے افراد جو قرآن و اہل بیتؑ کی واضح تعلیمات کے باوجود ان گمراہ نظریات کو اپناتے ہیں، یا تو دینی فہم سے خالی ہیں، یا مرعوب ذہن کے شکار۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو امام حسینؑ کی تحریک سے سبق لینے کے بجائے یزیدی نظریے کو نئی سیاسی صورتوں میں زندہ رکھتی ہے۔
آج کی دنیا میں قوم پرستی کے نام پر جو سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں،جیسے پی پی ، ن لیگ، اور تحریک انصاف،ان کے اندر بھی وہی اصول کارفرما ہیں: رشتے دار، قریبی اور چاپلوس افراد ہی اقتدار اور مراعات کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ یہاں اہلیت، تقویٰ، امانت داری اور دیانتداری کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ یزیدی سیاست کی جدید تعبیر ہے۔
یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم پرستی اسلام، فطرت، عقل اور انسانیت کے خلاف ایک مسلسل بغاوت ہے۔ جبکہ حسینیت انسان کو ان تمام زنجیروں سے آزاد کرتی ہے اور ایک ایسا عالمی فکری نظام دیتی ہے جس میں رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کی کوئی قید نہیں—بس اصول، عدل، اور تقویٰ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button