شخصیات

صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کے ذاتی کمالات و ا متیازات

علامہ سید ذیشان حیدر جوادی ؒ
چند مثالی کردار
آپ (س) کی والدہ گرامی ملیکۃ العرب تھیں لیکن آپ ؑ نے کبھی راحت وآرام ،اور زیب و زینت کی زندگی کو پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنے کردار کو ایک نمونہ عمل بناکررکھا۔
آپ (س) کے والد محترم مختار کائنات تھے اور آپ ؑان کی اکلوتی بیٹی تھیں لیکن آپ ؑنے کبھی اس رشتہ سے فائدہ نہیں اٹھایا اور تمام زندگی ہر طرح کی مصیبت و زحمت برداشت کرتی رہیں ۔
آپ (س) کے شوہر امیرالمومنین ؑ تھے لیکن آپ ؑنے تمام زندگی کسی طرح کی فرمائش نہیں کی اور ہمیشہ شوہر کی خدمت کرنے کے بعد بھی وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر کوئی کوتاہی ہوگئی ہو تو معاف فرمادیجیے گا۔
آپ (س) کے فرزند سرداران جوانان ِ جنت تھے اور ان کے لئے لباس جنت اور طعام جنت بھی مہیا تھے لیکن ا س کے بعد بھی فاقوں میں زندگی گزاری یہاں تک کہ روزہ رکھنے کے بعدسامان ِافطاریتیم و مسکین و اسیر کے حوالے کردیا جس پر سورہ دہر کی آیات نے مدح سرائی کی۔آپ ؑ کو رب العالمین نے پانچ اولاد عطا کی تھی ،امام حسنؑ ،امام حسینؑ ،جناب زینب ،جناب ام کلثوم ؑ اور جناب محسن ۔اور آپ نے سب کو راہ خدا میں قربان کردیا ۔فرزند سب شہید ہوئے اور بیٹیاں راہِ خدا میں اسیر ہوئیں کہ تماشائیوں کے مجمع میں درباروں اور بازاروں میں حاضر ہونا پڑا۔آپ کائنات کی تنہا خاتون ہیں جن کے رشتہ ازدواج میں زوجہ اور شوہر دونوں معصوم تھے اور جس کا رشتہ عرش اعظم پرہو ا ہے ۔
آپ (س) کائنات کی وہ منفرد خاتون ہیں جن کی ولادت کے لئے سیب جنت کا مادہ فراہم کیا گیا ہے۔آپ ؑکائنات کی وہ مثالی خاتون ہیں جنھیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ہے اور جن کی نسل میں امامت قائم رہ گئی ہے۔ آپ وہ ممدوحہ ہیں جن کی مدح سورہ کوثر ،آیت تطہیر، آیت مباہلہ اور سورہ دہر جیسے قرآنی آیات و سورہ میں کی گئی ہے۔آپ رسول اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی ہیں ۔جنھیں ام ابیہا کہلانے کا بھی شرف حاصل ہوا ہےاور جنھیں بضعۃ الرسول ؐ بھی قرار دیا گیاہے۔
آپ (س) وہ تنہا گواہ ہیں جس نے مباہلہ میں رسالت کی گواہی دی ہے اور مسئلہ فدک کے موقع پر امامت کی گواہی دی ہے ۔آپ وہ اکیلی دختر ہے جن سے رسول اکرمؐ نے سفر کے موقع پر سب سے آخر میں الوداع کہا ہے اور واپسی پر سب سے پہلے ملاقات کی ہے۔ آپ ؑ وہ عبادت گزار ہے جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا۔
آپ ؑوہ معصومہ ہیں جن کی ذاتی عصمت کے علاوہ ان کے رشتے بھی معصوم تھے ۔باپ معصوم ،شوہر معصوم اور سب کے تعارف کا ذریعہ بھی آپ ؑہی کی ذات کو بنایا گیا ہے۔
آپ (س) وہ صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں جس نے فاقوں میں بھی سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا اور اپنی قناعت سے اپنے شوہر کی سخاوت کا بھرم برقرار رکھا ۔ آپ ؑ وہ با عفّت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرارب رہا کہ باپ کے ساتھ نا بینا صحابی بھی آگیاتو اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے سکیں اور مرنے کے بعد بھی جنازہ اٹھوانے کےلیے تابوت کا انتظام فرمایا جس سے قدوقامت کا اندازہ نہ ہو سکے ۔
آپ (س) وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول اکرمؐ کے سوال پر کہ عورت کےلئے سب سے بہتر شے کیا ہے ؟کوئی جواب نہ دے سکا تو آپ (س) نے فرمایا کہ عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نہ مرد اسے دیکھیں اور نہ وہ مردوں کو دیکھے۔
آپ سلام اللہ علیھا کے ذاتی کمالات و ا متیازات
آپ (س) کے کمالات و امتیازات کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق جسم عنصری سے ہے ۔اور ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق روحانیات اور معنویات سے ہے ۔اور پھر روحانیا ت اور معنویات کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ایک کا تعلق علمی پہلو سے ہے ،اور ایک کا تعلق عملی پہلو سےہے ۔ذیل میں ان تما م کمالات اور امتیازات کا ہلکاسا نقشہ دکھایا جارہا ہے:
جسمانی امتیازات
بتول:علما ء شیعہ و سنت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رب کائنات نے جناب فاطمہؑ کو بتول قرار دیا ہے اور ان تمام عوارض سے الگ رکھا ہے جن میں عام طور سے ہر عورت ہر مہینہ مبتلا ہوا کرتی ہے۔
علمائے اہل سنت میں صاحب ینابع المودت علامہ قندوزی ،صاحب مناقب علامہ صالح کشفی، صاحب ارجح المطالب علامہ امر تسری ،صاحب تاریخ بغداد حافظ ابو بکر شافعی ،صاحب تاریخ کبیر ابن عساکر ،صاحب ذخائرالعقبیٰ علامہ طبری اور حافظ سیوطی نے خصائص میں اس حقیقت کا تذکرہ کیا ہے جس کے بعد کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اور نہ اس تشکیک کاکوئی اعتبار ہے کہ یہ ہر عورت کے عورت ہونے کا لازمہ ہے جو اس سے الگ نہیں ہو سکتا ہے۔یایہ کہ خون زمانہ حمل میں بچہ کی غذا بن جاتا ہے لہذا اس عادت سے پاک عورت نہ حاملہ ہوسکتی ہے اور نہ صاحب اولاد اس لئے کہ ان دونوں باتوں کا جواب جناب مریم کی زندگی میں موجود ہےکہ ایک طرف مریم طاہرہ تھیں اور مادی عوارض سے پاک تھیں اور دوسری طرف قدرت نے عام قوانین فطرت سے ہٹ کر انھیں صاحبِ اولاد بنادیا تھا جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ قانون طبیعت ایک حقیقی قانون ہے لیکن اس کا پابند خالق طبیعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مقررکردہ قوانین میں تبدیلی بھی پیدا کرسکتا ہے۔
علامہ مجلسی ؒ نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امیرالمومنین ؑ کے حیات فاطمہ ؑ میں عقد ثانی نہ کرنے کا ایک راز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رب العالمین نے صدیقہ طاہرہؑ کو تمام عوارض سے پاک رکھا تھا لہذا دوسرے عقد کا کوئی داعی اور موجب نہیں تھا ۔علاوہ اس کے کہ کوئی عورت صدیقہ کی عظمت اور محبت میں شریک و سہیم بھی نہیں ہوسکتی تھی۔
صدیقہ طاہرہ ؑ کو بتول قرار دینے کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ عورت ان ایام میں عبادات سے محروم ہوجاتی ہے اور اس کے اعمال میں ایک طرح کا نقص پیدا ہوجاتا ہے۔رب العالمین نے یہ پسند نہیں کیا کہ صدیقہ طاہرہؑ کی عبادات میں کسی طرح کا نقص پیدا ،اور انھیں کسی زمانے میں بھی عبادات سے محروم رکھا جائے اور اس طرح یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کی ہر خاتون نقص عبادات کا شکار ہوسکتی ہے لیکن صدیقہ طاہرہؑ اس اعتبار سے بھی کامل و اکمل ہیں اور ان کے کردار میں کسی نقص کی گنجائش نہیں ہے ۔بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عورت کو عام طور پر تین نقائص کا حامل بنایا گیا ہے،نقص ایمان ،نقص میراث اور نقص عقل ۔کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہوتی ہے ۔رب العالمین نے صدیقہ طاہرہؑ کو تینوں نقائص سے پاک رکھا ہے ۔بتول بناکر نقص ایمان و عبادات سے پاک بنایا ۔تنہا وارث پیغمبر ؐبناکرنقص میراث سے پاک بنایا اور معصومہ بناکر نقص شہادت سے پاک و پاکزہ بنادیا اور یہ جامعیت ِ کمالات آپ کے علاوہ کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہوسکی ۔
عذراء:صدیقہ طاہرہؑ کے جسمانی امتیازات میں سےایک امتیاز یہ بھی ہے کہ پروردگار عالم نے انھیں دائمی طور پر عذرا ء قرار دیا تھا اور ان کی یہ صفت جنت کی ان حوروں سے متشابہ تھی ”اتراب ابکار “قرار دیا گیا تھا اور اسی اعتبار سے انسان ہیں لیکن باطنی اعتبار سے حوران جنت کی صفت کہ حامل ہیں۔
معنوی کمالات :
محدّثہ ہونا : ان کمالات میں سب سے واضح کمال آپ کا محدّثہ ہونا ہے کہ آپ ملائکہ سے ہم کلام ہوتی تھیں اور ملائکہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کلام کیا کرتے تھے ۔امرو نہی اور آیات ِقرآن کی وحی رسول اکرم ؐ پر تمام ہوگئی تھی لیکن دیگر معاملات کی وحی اور اس کے الہام کا سلسلہ برابر جاری تھا جس طرح کہ قرآن مجید نے مادر جناب موسیٰ اور جناب مریمؑ کو منزل وحی قرار دیا ہے اور ا ن کے ملائکہ سے ہم کلام ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔
صدیقہ طاہرہؑ کی اس محدِّثہ ہونے کا امتیاز یہ ہے کہ آپ نے ان تمام الہامات کو اس طرح جمع کر لیا کہ ایک صحیفہ تیار ہوگیا جسے مصحف فاطمہؑ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس کے بارے میں امام صادقؑ نے فرمایا ہے کہ یہ صحیفہ حجم اور ضخامت کے اعتبار سے اس قرآن کا تین گنا ہے لیکن اس میں قرآن کے مطالب و معارف کی تکرار نہیں ہے بلکہ ان تمام معاملات کا تذکرہ ہے جن کی ضرورت عالم انسانیت کو ہوسکتی ہے اور ان تمام حادثات اور حکومتوں کا تذکرہ ہے جو قیامت تک قائم ہونے والی ہیں۔ اس مقام پر یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ کوئی دوسرا قرآن ہے جس پر کسی قوم یا مذہب نے اعتماد کیا ہے ۔قرآن ایک ہی قرآن ہے جس کا شریک و سہیم اہلبیت کو قرار دیا گیا ہے ۔یہ ایک صحیفہ ہے جسے لغوی اعتبار سے مصحف کہا گیا ہے کہ مصحف لغوی اعتبار سےمجموعئہ رسائل و کلمات کا نام ہے۔قرآن مجید کو اصطلاحاََ مصحف کہا جاتا ہے ورنہ یہ لفظ بالکل عام ہے جس کا اطلاق ہر صحیفہ اور کتاب پر ہوسکتا ہے۔
وحی کا اطلاق بھی قرآن مجید نے مختلف مقامات پر الہام اور القاء پر کیا ہے اور اس کا کوئی اختصاص آیات قرآن یا احکامِ شریعت سے نہیں ہے اس کا استعمال شہد کی مکھی کے بارے میں بھی ہوا ہے ،بشر تو پھر بشرہے۔اور اگر بشر بھی خیرالبشر ہو،اور اس کا مرتبہ تمام عالم بشریت سے بالاتر ہو۔
طہارت: مالک کائنات نے صدیقہ طاہرہؑ کو تطہیر کا مرکز قرار دیا ہے اور آیت کے نزول کے لئے ان کے گھر اور ان کی چادر کا انتخاب کیا ہے جس کا اعتراف بے شمار محدِّثین اور مفسرین نے کیا ہے اور حدیث کسا ء میں اس واقعہ کی مفصل تشریح موجود ہے۔
صَداقت: میدان مباہلہ میں رسول اکرم ؐ اسلام کے عقائد کی حقانیت ، قرآن کی عظمت اور اپنی صداقت کے گواہ لے کر نکلے تو خواتین میں صدیقہ طاہرہؑ کے علاوہ کوئی نہ تھا ،جو اس بات کی علامت ہے کہ مردوں میں چار مرد بیک وقت ایک جیسی صداقت کے حامل ہوسکتے ہیں ۔لیکن صنف خواتین میں صدیقہ طاہرہؑ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے جسے رسالت کا گواہ بنا کر پیش کیا جاسکے ۔اور یہ اس امر کی دلیل بھی ہے کہ صدیقہ طاہرہؑ تن تنہا بھی رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہیں تو ان سے کسی معاملہ میں گواہی طلب کرنا قرآن مجید سے تغافل یا مقابلہ کے مترادف ہے۔
شجاعت:شجاعت کی دو قسمیں ہوتی ہیں:
ایک شجاعت کا اظہار قوت قلب و جگر سے ہوتا ہے جو عام طور پر سے خطرات کی منزل اور میدانوں میں سامنے آتی ہے اور ایک شجاعت کااظہار زورِزبان سے ہوتا ہے جہاں سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کا اعلان کیا جاتا ہے۔
مالک کائنات نے صدیقہ طاہرہؑ کو دونوں طرح کی شجاعت سے نوازا تھا ۔ قوتِ قلب وجگر کے اعتبار سے وہ منظر بھی قابل توجہ ہے جب رسول اکرمؐ کا سارا گھر کفار و مشرکین کے نرغہ میں گھِرا ہوا تھا اور آپ ؐ ہجرت کر کے مدینہ کی طرف تشریف لے گئے تھے ۔خانہ رسالت میں اگر ایک طرف شیرِ خدا علیؑ مرتضیٰ بستر رسالت پر محو استراحت تھے تو دوسری طرف صدیقہ طاہرہؑ نہایت ہی کمسنی کے عالم میں اس محاصرہ کا مقابلہ کررہی تھیں اورآپ ؑ پر کسی طرح کا خوف وہراس نہیں تھا جب کہ انھیں کفار کے خوف سے بڑے بڑےبہادر افراد حزن و خوف میں مبتلا ہوگئے تھے اور انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔
خود میدان احد میں بھی اس شجاعت کا ایک منظر دیکھنے میں آیا جہاں کفار و مشرکین کے خوف سے سپاہیانِ اسلام نے میدان چھوڑ دیا تھا ۔لیکن صدیقہ طاہرہؑ جناب صفیہ کے ہمراہ میدان کی طرف آئیں اور جنا ب حمزہ ؑکے لاشہ پر گریہ بھی کیا اور اپنے باپ کے زخموں کا علاج بھی کیا ۔
احد کی جنگ کا نقشہ دیکھنے والے اورقرآن مجید میں اصحاب رسولؐ کے فرار کی داستان پڑھنے والے صدیقہ طاہرہؑ ؑ کی اس قوت قلب و جگر کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں اور انھیں احساس ہوسکتا ہے کہ اس قیامت خیز موقع پر میدان جہاد کی طرف قدم بڑھانا کس ہمت اور طاقت کاکام ہے۔
ادبی شجاعت کےلئے تاریخ صدیقہ طاہرہؑ کا وہ قیامت خیز موقع ہی کافی ہے ،جب رسول اکرمؑ کے بعد اپنے حق کے اثبات کے لئے دربار ِ خلافت میں آیئں اور وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس نے اہل عرب دربار کے دل ہلا دیے اور حاکم وقت میں کو آنسو بہانے پر مجبور کردیا ۔ تاریخ میں اس خطبہ اور اس کے متعلقات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اس تذکرہ سے اس شجاعت و ہمت کا مکمل اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس خطبہ میں اسلامی احکام کے علل و اسباب ،آیات ِقرآنی سے استدلال ،انصار و مہاجر ین کی غیرت کو چیلنج ،اپنے حق کے اثبات اور عورتوں کے حقوق سے دفاع کے بارے میں جن حقائق و معارف کا تذکرہ کیاگیا ہے ان کا ہوش پُر سکون حالات میں بھی نہیں رہ جاتا ہے چہ جائیکہ ایسے سنگین حالات میں اور ایسے سخت ترین ماحول میں ۔ایسا خطبہ ایک خاتون کی زندگی کا وہ شاہکار ہے جسے معجزہ وکرامت سے کم کا درجہ نہیں دیا جاسکتاہے۔
( کتاب ” نقوش عصمت ” سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button