سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسینؑ کا قیام کس لیے تھا اور یہ امر بالمعروف کس طرح ہے؟

آیت اللہ مصباح یزدیؒ

امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بعد سے اب تک یہ سوال مسلسل دانشوروں حتیٰ کہ عام لوگوں کے ذہن میں رہا ہے کہ آخر امامؑ کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا؟ کیا کوفہ والوں کی دعوت امامؑ کے قیام کی وجہ بنی یا امامؑ کا قیام اس دعوت کا سبب تھا؟ کیا امامؑ اسلامی حکومت کو امیرالمومنین علیؑ کے طرز پر نافذ کرنا چاہتے تھے یا صرف کچھ اصلاحات بھی ان کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتیں؟
یہ سوالات اور ان جیسے دیگر سوالات مختلف زاویہ ہائے نظر کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہر وہ شخص جس نے واقعہ کربلا پر غور کیا، اس نے اپنے علمی و فکری ذوق کے مطابق قیام امام حسینؑ اور اس کے اہداف کو بیان کیا ہے۔
امام حسینؑ کی عظیم سوچ، جو ان کے شاندار قیام میں ظاہر ہوئی، مختلف پہلو رکھتی ہے، اور ہر محقق اپنی فکری و ثقافتی صلاحیت کے مطابق ان پہلوؤں کو تلاش کرتا ہے اور امامؑ کے عقائد و رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ مضمون، مرحوم آیت اللہ مصباح یزدیؒ کی عاشورا سے متعلق سلسلہ وار تحریروں کا حصہ ہے، جس میں امام حسینؑ کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اہم سوال: امام حسینؑ کا ہدف کیا تھا؟
قیام عاشورا کے بارے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ قیام کیوں کیا؟
عام طور پر اس سوال کا جواب دیا جاتا ہے کہ امامؑ نے دین کی حیات اور امت کی اصلاح کے لیے قیام کیا۔
لیکن ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

اس قیام سے کیا اصلاح واقع ہوئی؟

امامؑ نے یہ "امر بالمعروف” اس انداز میں کیوں کیا؟
کیا امامؑ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے؟

کیا انہوں نے حکومت و امت کو واقعی اصلاح کے راستے پر ڈال دیا؟

یہ سوالات آج کے نوجوانوں کے ذہن میں اٹھتے ہیں اور وہ اسے سنجیدگی سے جاننا چاہتے ہیں۔
امام حسینؑ کا مشن: اصلاحِ امت
امامؑ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو جو وصیت تحریر فرمائی، اس میں ایک معروف جملہ ہے: «اِنّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لا بَطِراً وَ لا مُفْسِداً وَ لا ظالِماً » "میں نہ خوشگذرانی کے لیے، نہ غرور کے لیے، نہ فساد پھیلانے اور نہ ظلم کرنے کے لیے نکلا ہوں، بلکہ صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔”
اس عبارت میں "طلبِ اصلاح” پر خاص توجہ ہے۔ امامؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ "میں اصلاح کے لیے نکلا ہوں” بلکہ فرمایا:«اِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فی اُمَّةِ جَدّی» "میں اصلاح کی تلاش میں نکلا ہوں۔” یعنی مقصد صرف اصلاح نہیں، بلکہ اصلاح کی راہ تلاش کرنا اور اسے نافذ کرنا بھی ہے۔
اسی طرح امامؑ نے مکہ میں اپنے خطبے میں فرمایا: "ہم صرف دین کے نشانات کو نمایاں کرنے، اور اپنے شہروں میں اصلاح کو ظاہر کرنے کے لیے اٹھے ہیں۔”
یہاں "اظھار اصلاح” کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں:
1. اصلاح کو واضح کرنا کہ اصل اصلاح کیا ہوتی ہے
2. یا خود اصلاح کو نافذ کرنا اور فساد کو ختم کرنا
اصلاح کی اصل حقیقت
امامؑ نے واضح کیا کہ میں کوئی نئی خودساختہ حکومت لانے نہیں آیا، بلکہ وہی اسلام جسے میرے نانا لائے، اسی کی جانب لوگوں کو بلانا چاہتا ہوں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ جو خلافت کا دعویدار ہے وہ شراب پی کر نماز پڑھاتا ہے، تو امامؑ اس پر خاموش نہیں رہ سکتے۔
وہ فرماتے ہیں: "اصلاح یہ نہیں کہ شرابی خلیفہ رہے، بلکہ اس پر شرعی حد جاری کی جائے” اصلاح کا مفہوم یہ ہے کہ:شرعی حدود نافذ ہوں،بیت المال سب مسلمانوں میں برابر تقسیم ہو،حکومت عدل و انصاف پر قائم ہو، بدعنوانی، ظلم، اقربا پروری ختم ہو دین کا اصل چہرہ لوگوں کو دکھایا جائے۔
امام حسینؑ کا احتجاج: ظلم کے خلاف خاموشی، جرم کے برابر
کربلا کی طرف جاتے ہوئے امام حسینؑ نے ایک اہم خطبہ دیا، جس میں فرمایا:

«اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلی الله علیه وآله) قَدْ قالَ فی حَیاتِهِ مَنْ رَأی سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلا لِحُرُمِ اللّهِ ناکِثاً لِعَهْدِ اللّهِ مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللّهِ یَعْمُلُ فی عِبادِ اللّهِ بِالاِْثْمِ وُ الْعُدْوانِ ثُمَّ لَمْ یُغَیِّرْ بِفِعْل وَ لا قَوْل کانَ حَقیقاً عَلَی اللّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ وَ قَدْ عَلِمْتُم أَنَّ هؤُلاءِ الْقَومَ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانَ وَ تَوَلَّوا عَنْ طاعَةِ اللّهِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسادَ وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَ اسْتَأْثَرُوا بِالْفِیءِ وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ و حَرَّمُوا حَلالَهُ وَ اِنّی أَحَقُّ بِهذَا الاَْمْر»۔
"رسول خدا نے فرمایا: جو شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو خدا کے حرام کو حلال، اس کے عہد کو توڑتا ہو، سنتِ نبوی کے خلاف کام کرتا ہو، لوگوں پر ظلم و گناہ کے ساتھ حکومت کرتا ہو، اور وہ شخص (جو یہ سب دیکھ رہا ہو) نہ قولاً اور نہ فعلاً اس کے خلاف کھڑا ہو، تو وہ بھی اسی ظالم کے انجام کا حقدار ہے”۔
پھر امامؑ فرماتے ہیں: "تم جانتے ہو کہ یہ لوگ (یعنی بنی‌امیہ)شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں خدا کی اطاعت کو چھوڑ چکے ہیں، زمین میں فساد پھیلا رہے ہیں، حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے، بیت المال کو اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے، حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیا ہے”۔
یہی سب وہ مظاہرِ فساد ہیں جنہیں امامؑ ختم کرنا چاہتے تھے۔ یہی وہ "طلبِ اصلاح” تھا جس کا مقصد تھا:
عدل کا قیام
شریعت کا نفاذ
بیت المال کی عادلانہ تقسیم
اسلامی اقدار کا احیاء
اگر آج کوئی "اصلاح طلبی” کو اسی طرح سمجھے جیسا امام حسینؑ نے بتایا، تو ہر مسلمان اس اصلاح کا حامی ہے۔ جو اس کے خلاف ہے وہ یا تو مسلمان نہیں یا اسلام کو صرف نام کے لیے مانتا ہے۔ اسلامی اصلاح وہی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو، نہ کہ مغربی نظریات یا اقوامِ متحدہ کے اعلامیے کے مطابق۔
ہمارے لیے معیار وہ ہے جو خدا، قرآن، رسول خدا ص اور اہل بیت علیہم السلام نے بتایا ہے نہ کہ یورپ یا امریکہ۔
امام حسینؑ نے فرمایا:

«اِنَّ هؤُلاءِ الْقَومَ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانَ وَ تَرَکُوا طاعَةَ الرَّحْمنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسادَ فی الاَْرْضِ وَ أَبْطَلُوا الْحُدُودَ وَ شَرِبُوا الْخُمُور» "

یہ لوگ شیطان کی اطاعت کرتے ہیں، خدا کی اطاعت چھوڑ چکے ہیں، زمین میں فساد پھیلا چکے ہیں، حدودِ الٰہی کو باطل کر دیا ہے، شراب نوشی کو رواج دیا ہے۔” یعنی یہ لوگ اصلاح نہیں، فساد کا نمونہ ہیں، اور میری قیام کا مقصد ان فسادوں کو ختم کرنا ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button