وقت کے امام کے ساتھ چلنے کی ایک بنیادی شرط

آیت اللہ میر باقری(دامت برکاتہ)
«باذِلاً فینا مُهجَتَه، مُوَطَّناً عَلی لِقاءِ الله نفسَه»
(جو اپنے دل کا خون ہماری راہ میں نچھاور کرے اور اللہ سے ملاقات کے لیے خود کو آمادہ کرے)
"اگر ہم ماہِ محرم کے ماحول میں بھی اپنے وابستگیوں اور ظاہری حیثیتوں کو ترک نہ کر سکیں، تو غالباً یہ بعید ہے کہ روزِ عاشورا کم از کم نیت میں ہی ہم اصحابِ سیدالشہداءؑ کی صف میں شامل ہو کر اپنی جان قربان کر سکیں۔
زیارت جامعہ ائمۃ المؤمنین میں ایک جملہ ہے:
اگر ہم صفین، جمل، نہروان یا کربلا میں حاضر نہ تھے، تو بالنیت والقلوب (نیت اور دل کے ساتھ) آپؑ کے ساتھ ہیں۔
یہ نیت اور دل کے ساتھ موجودگی تب ہی سچی ہو سکتی ہے جب انسان امام حسینؑ کے سامنے پہنچ کر سب کچھ بھلا دے ,نہ کوئی ماضی یاد ہو، نہ کوئی مستقبل کی فکر.
جو شخص امامؑ کے ساتھ ہو کر بھی پرانی یادوں اور طویل آرزوؤں میں الجھا ہو، وہ مُہاجر الیٰاللہ نہیں بن سکتا، اور نہ ہی امام کے ساتھ سفر کر سکتا ہے۔
👈اسی وجہ سے امام حسینؑ نے مکہ سے نکلتے وقت اپنے خطبے میں فرمایا:
"مَنْ کانَ فِینَا بَاذِلًا مُهْجَتَهُ وَ مُوَطِّناً عَلَى لِقَائِنَا نَفْسَهُ فَلْیرْحَل مَعَنا”
(جو شخص ہمارے ساتھ دل کا خون بہانے کے لیے تیار ہے اور لقاء اللہ کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کر چکا ہے، وہی ہمارے ساتھ سفر کرے)۔
کیونکہ ہمارے اور اللہ کی ملاقات کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ "بیشک اللہ کی طرف کوچ کرنے والا، فاصلہ کے اعتبار سے قریب ہے”، لیکن اس سفر کی شرائط ہیں، اور سب سے پہلی شرط یہی ہے:
"باذلاً فینا مُهجَتَه، مُوَطَّناً عَلی لِقاءِ الله نفسَه”
ورنہ انسان حقیقی طالبِ حق نہیں کہلا سکتا۔