شہادت جناب زھرا سلام اللہ علیھا پر مولا علی علیہ السلام کے بین
حضرت امام علی علیہ السلام نے جس وقت لالۂ بہشت کی تربیت پر خاک ڈالنے کا ارادہ کیا تو اس وقت ان کے قلب مبارک میں درد و غم کی لہر اٹھی جس نے امامؑ کے پرشجاعت و شہامت بدن کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ آپؑ میں تاب ضبط نہ رہا۔ آپؑ کی آنکھوں کے جام چھلک پڑے۔ آنسوؤں سے آپؑ کی ریش مبارک بھیگ گئی۔ آپؑ نے رسولِ اقدسؐ کے روضہ کی طرف منہ کر لیا اور آپؐ کے پردۂ دل سے جاں سوز نالے بلند ہونے لگے۔ ان بلند ہونے والے نالوں میں بارگاہِ رسالت میں اپنے سوز و درد کا اظہار تھا اور آپؑ نے عرض کیا:
"السَّلَامُ عَلَیک یا رَسُولَ اللَّهِ عَنِّی وَ عَنِ ابْنَتِک النَّازِلَةِ فِی جِوَارِک وَ السَّرِیعَةِ اللَّحَاقِ بِک۔ قَلَّ یا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ صَفِیتِک صَبْرِی وَ رَقَ عَنْهَا تَجَلُّدِی إِلَّا أَنَّ فِی التَّأَسِّی لِی بِعَظِیمِ فُرْقَتِک وَ فَادِحِ مُصِیبَتِک مَوْضِعَ تَعَزٍّفَلَقَدْ وَسَّدْتُک فِی مَلْحُودَةِ قَبْرِک وَ فَاضَتْ بَینَ نَحْرِی وَ صَدْرِی نَفْسُک فَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیهِ راجِعُونَ۔ فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیعَةُ وَ أُخِذَتِ الرَّهِینَةُ أَمَّا حُزْنِی فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَیلِی فَمُسَهَّدٌ إِلَى أَنْ یخْتَارَ اللَّهُ لِی دَارَک الَّتِی أَنْتَ بِهَا مُقِیمٌ۔ وَ سَتُنَبِّئُک ابْنَتُک بِتَضَافُرِ أُمَّتِک عَلَى هَضْمِهَا فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ هَذَا وَ لَمْ یطُلِ الْعَهْدُ وَ لَمْ یخْلُ مِنْک الذِّکرُ۔ وَ السَّلَامُ عَلَیکمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا قَالٍ وَ لَا سَئِمٍ فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ وَ إِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الصَّابِرِینَ”
”یارسول اللہ ؐ! آپؐ کو میری جانب سے اور آپؐ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپؐ سے جلد ملحق ہونے والی آپؐ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو، یا رسول اللہ! آپؐ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر وشکیب جاتا رہا۔ میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمی اور آپؐ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا جب کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپؐ کی روح نے پرواز کی کہ آپؐ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَیهِ راجِعُونَ ۔
اب یہ امانت پلٹائی گئی، گروی رکھی ہوئی چیزیں چرا لی گئی لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپؐ رونق افروز ہیں۔ وہ وقت آگیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی امت نے ان پر ظلم ڈھانے کےلئے ایکا کر لیا۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔آپؐ دونوں پر میرا سلام رخصتی ہو نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپؐ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔“
وَاهاً وَاھاً وَالصَّبْرُ أَيْمَنُ وأَجْمَلُ ولَوْ لَا غَلَبَةُ الْمُسْتَوْلِينَ لَجَعَلْتُ الْمُقَامَ عِندَ قَبرِکَ لِزَاماً، وَالتَّلَبُّثُ عِندَہُ عُكُوفاً ولَا عَوْلْتُ اِعْوَالَ الثَّكْلَى عَلَى جَلِيلِ الرَّزِيَّةِ فَبِعَيْنِ اللَّه تُدْفَنُ ابْنَتُكَ سِرّاً ویُهْتَضَمُ حَقُّهَا قَھْراً ویُمْنِعُ إِرْثَهُمْ جَھْراً۔ وَلَمْ یُطَل مِنکَ الْعَهْدُ ولَمْ يُخْلِقْ مِنْكَ الذِّكْرُ فَاِلَى اللَّه يَا رَسُولَ اللَّه الْمُشْتَكَى وفِيكَ يَا رَسُولَ اللَّه، اَجمَلُ الْعَزَاءِ صَلَوٰتُ الله عَلَيْهَا وَعَلَیکَ وَرَحمَۃُ اللّٰہ وَ بَرَکَاتُہُ۔
”آہ، آہ! اگر چہ گم و اندوہ گراں ہے لیکن صبر مبارک تر اور زیبا تر ہے۔ اگر ہم پر تجاوز کاروں کا غلبہ نہ ہوتا۔ اے بنت پیغمبرؐ! تیری تربت پر ڈیرے ڈال دیتا، اعتکاف نشینوں کی طرح بیٹھا رہتا۔ میں اس مصیبت پر اس طرح گریہ و زاری کرتا جس طرح مائیں جوان مرگ بیٹے پر روتی ہیں۔ ہاں اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی حبیبہ دختر محضرِ خداوندی میں مخفیانہ دفن کی گئی۔ ان کے حقوق ازراہِ جبر روک لیے گئے۔ علی الاعلان ان کی میراث ہتھیالی گئی۔ ابھی آپؐ کی رحلت کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ ابھی آپؐ کے تذکرے پرانے نہیں ہوئے تھے۔ اے اللہ کے رسولؐ! اللہ کی بارگاہ میں شکایت ہے۔ مؤثر ترین عامل جو دل کو سکون بخشتا ہے وہ آپؐ کی سیرت ہے کہ جس میں پائیدای اور صبر کا درس ملتا ہے۔ اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کی دختر پر اور آپؐ پر اللہ کے درود و سلام اور اس کی برکات نازل ہوں۔“
(بحار الانوار: ج/43، ص/211، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ: ج/10، ص/265، نہج البلاغہ: خطبہ/202)
روایت ہے کہ جب حضرت امیر علیہ السلام خاتونِ جنت کی تدفین کے بعد اپنے خانۂ اقدس میں تشریف لے گئے تو آپؑ کا قلبِ مبارک غم و اندوہ سے بھر چکا تھا۔ کیونکہ آپ نے انس و محبت رکھنے والی رفیقۂ حیات گھرمیں موجود نہ تھیں۔ اس لئے آپؐ نے تنہائی و وحشت کا احساس کرتے ہوئے فرمایا:
أَرى عِلَلَ الدنیا عَلَيَّ كَثيرَةً وَصاحِبِها حَتّى المَمَاتِ عَليْلُ
لِكُلِّ اِجتماعٍ مِن خَليلَينِ فِرقَةٌ وَكُلُّ الَّذي دونَ المَماتِ قلَيلُ
وَإِن اِجْتِمَاعٍ فَاطِماً بَعدَ اَحمَدِ دَليلٌ عَلى أَن لَّا يَدُومَ خَلِيلُ
”میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کے مصائب و آلام نے مجھ پر ہجوم کر رکھا ہے۔ جس کسی پر مصائب اس صورت میں حملہ آور ہو جائیں تو اس نے ہر صورت مریض و علیل ہونا ہے۔ دو دوستوں کے درمیان ہر صورت جدائی نے آنا ہے۔ دوست کے ہجر و فراق کے سوا ہر مصیبت آسان ہے۔ رسول احمدؐ کے بعد مجھ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جدائی اس امر کی دلیل ہے کہ اس جہاں میں دوست اور دوستی جاودانہ نہیں ہے۔“
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جب ہماری جدّہ محترمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی رحلت ہوئی تو حضرت امیرعلیہ السلام ان کی قبرپر روزانہ تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دن جب آپؑ حبیبہ رسولؐ اللہ کی مبارک تربت پر گئے تو آپؐ نے یہ شعر پڑھا:
مَالِی مَرَرتُ عَلیٰ القُبُور مُسلِماً قَبرَ الحَبِیبِ فَلَم یُرَدِّ جَوَابِیْ
”مجھے کیا ہے کہ جب میں ان کی قبور سے گزرتا ہوں تو اپنی محبوبہ کی قبر پر سلام کرتا ہوں، لیکن مجھے اپنے سلام کا جواب نہیں ملتا۔“ (الفصول المہمہ، ص/148)
امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا سوگ
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کسی کا کوئی عزیز اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اس کی یاد میں آنسو بہاتا ہے۔ آہ و فریاد کرتا ہے اور اس کے سوگ و سوز میں مبتلا رہتا ہے۔ سید الانبیاؐ کی دختر حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کا حق بنتا تھا کہ ان کی جاں سوز رحلت کے بعد ان پر رویا جائے، ان کی یاد میں نالہ و فریاد بلند کیے جائیں۔ جی ہاں! جس طرح وہ اپنی زندگی میں تعریف و توصیف کا حق رکھتی تھیں اس طرح وہ اپنی رحلت کے بعد سوگ و سوز کا حق رکھتی ہیں۔
کسی کی یاد میں رونا، آنسو بہانا شعور کی علامت ہے۔ اس سے درد و تأسف کا اظہار ہوتا ہے کہ صاحبِ گریہ و بکا مصیبت زدہ ہے اور وہ اس جہاں سے رخصت ہونے والے کے غم میں مغموم ہے۔
اسی مفہوم کے پیش نظر حضرت امام علی علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سوز و سوگواری سے سوگ وار ہوں اور اس طرح آپ اپنے اندرونی درد و رنج کا اظہار کریں کیونکہ آنحضرتؐ سیدہ عالمؑ کی شہادت کے عمیق ترین فاجعہ سے سب سے زیادہ آگاہ تھے۔ بتولِ عظمیٰ کی قدر و منزلت جس قدر امیر حریت و عدالت جانتے تھے کوئی دوسرا نہیں جانتا تھا، اس لحاط سے ان کے ہجر و فراق کے صدمہ کا اثرآپؐ پر بہت زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کا قلب نازنین تھا اور اس پر صدمات کی موجیں تھیں۔ آپ ؑنے اپنے ان مصائب و آلام کا اظہار کچھ یوں فرمایا:
نَفسيْ عَلىٰ زَفَراتِها مَحبُوسَةٌ يا لَيتَها خَرَجَت مَعَ الزَفَراتِ
لَا خَيرَ بَعدَكَ في الحَياةِ وَإِنَّما أَبكي مَخافَةَ أَن تَطولَ حَياتي
”فاطمہؑ جان! میری روح آہ و نالہ کے ساتھ محبوس ہے۔ اے کاش! میری روح میرے آہ و نالہ کے ساتھ میرے جسم سے باہر آجاتی۔ اے دختر سرفرازِ پیغمبرؐ! آپؑ کے بعد اس زندگی میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہی۔ اب میں اس خوف میں گریہ کناں ہوں آپؑ کی رحلت کے بعد میری زندگی طولانی نہ ہو۔“
أَرى عِلَلَ الدينا عَلَيَّ كَثيرَةً وَصاحِبِها حَتّى المَمَاتِ عَليْلُ
ذَكَرتُ أَبا أَروى فَبِتُّ كَأَنَّني بَردِّ الهُمومِ المَاضِيَاتِ وَكيلُ
لِكُلِّ اِجتماعٍ مِن خَليلَينِ فِرقَةٌ وَكُلُّ الَّذي دونَ المَماتِ قلَيلُ
وَإِن اِفْتِقَادِیْ فَاطِماً بَعدَ اَحمَدِ دَليلٌ عَلى اَن یَّدُوْمَ خَلِيلُ
”اس جہان کے رنج و الم دیکھ رہا ہوں کہ جنہوں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ یہ بات روشن ہے ایک صاحبِ رنج و الم موت کی دہلیز پر ہوتا ہے اور اسے جلدی اس جہان سے جانا ہوتا ہے۔ میں اپنی ہمسر کو یاد کرتا رہتا ہوں اس طرح رات گزر جاتی ہے اور صبح کا سویرا ہو جاتا ہے۔ گویا کہ میں نے ایک عہد کیا ہوا ہے کہ ماضی کے حزن و آلام کو اپنے دل میں جمع رکھوں۔ جی ہاں! آخر دو دوستوں کے درمیان ہجر و فراق نے حائل ہونا ہے۔ ہر مشکل آسان ہے لیکن دوست کا ہجر و فراق ایسی مشکل ہے کہ جس کا کوئی حل نہیں ہے۔ رسول اللہؐ کی رحلت کے بعد سیدۂ عالم کی جدائی اس امر کی دلیل ہے کہ دوستوں کے درمیان جدائی ہو کر رہے گی۔“
آپؑ نے یہ بھی فرمایا:
فِرَاقُكِ أَعْظَمُ الْأَشْيَاءِ عِنْدِي وَ فَقْدُكِ فَاطِمُ أَدْهَى التُّكُولُ
سَأَبْكِي حَسْرَةً وَ أَنُوحُ شَجْواً عَلَى خَلٍّ مَضَى أَسْنَى سَبِيلُ
أَلَا يَا عَيْنُ جُودِي وَ أَسْعِدِينِي فَحُزْنِي دَائِمٌ أَبْكِي خَلِيلٌ
”فاطمہؑ جان! آپؑ کی دوری اور جدائی ناقابلِ برداشت مصیبت ہے۔ اے دخترِ پیغمبرؐ! آپؑ جیسے دوست کافراق و فقدان دوست پر سخت گراں ہے۔ وہ دوست کہ جس کا قلب مہر و محبت سے لبریز تھا جو اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے میں اس پر حسرت کے آنسو بہاتا رہوں گا اور اس کی یاد میں آہ و فغاں بلند کرتا رہوں گا۔ ہاں اے چشم! آنسو برسا اور میری مدد کر، کیونکہ میرا غم و اندوہ جاودانی ہے۔ میں اپنے خلیل پر ہمیشہ روتا رہوں گا۔“
حَبِیبُ لَیسَ یَعدِلُہُ حَبیبُ وَمَا لِسَوَاہُ فِی قَلبِی نَصِیبُ
حَبِیبُ غَابَ عَن عَینِی وَ جِسمِی وَعَن قَلبِی حَبِیبِی لَا یَغِیبُ
مَالِي وَقَفتُ عَلَى القُبُورِ مُسَلِّماً قَبْرَ الحَبِيْبِ فَلَمْ يَرُدَّ جَوَابِیْ
أحبيبُ مَا لَكَ لَا تُرَدُّ جَوَابَنَا أَنَسِيتَ بَعدِي خُلَّةَ الْاَحبَابِ
”ایسا دوست کہ جس کا نعم البدل پیدا ہی نہیں ہوگا۔ میرے قلب میں جو مقام اس کا تھا اس جگہ پر کوئی دوسرا نہیں آسکتا۔ یہ درست ہے کہ میری حبیبہ آج میری آنکھوں سے غیب ہے اور میری دسترس سے باہر ہے لیکن میرے قلب کے افق سے وہ کبھی غروب نہیں ہوں گی۔ انہوں نے میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔“
کتاب ”الانوار العلویہ“ میں روایت ہے کہ جب بتول معظمہؑ کی رحلت ہوئی تو امام امیر المؤمنینؑ اپنے خانہ اقدس میں گوشہ نشین ہو کر رہ گئے تھے۔ آپؑ صرف نماز پڑھنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کے لئے گھر سے باہر آتے تھے۔
حضرت عمار یاسر کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے آقا و مولا امیر المؤمنینؑ کے خانۂ اقدس پر حاضر ہوا۔ میں نے اجازت چاہی۔ انہوں نے جب اجازت دی تو میں ان کے حضور حاضر ہوا۔ میں نے انہیں بہت زیادہ حزین و محزون دیکھا۔ آپؑ کے دونوں شہزادے امام حسنؑ اور امام حسینؑ آپ کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔ جب آپؑ کی نگاہیں اپنے خرد سال چھوٹے شہزادے حسین پر پڑتیں تو آپؑ کی مبارک آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری و ساری وہ جاتے۔ جب میں نے اس دردناک منظر کو دیکھا تو میرے ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ کر رہ گئے۔ میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
جب میرا گیریہ فروکش ہوا اور سوز دل آرام پذیر ہوا تو میں نے عرض کیا: اے میرے آقا! کیا میں بات کر سکتا ہوں؟
آپؑ نے فرمایا: جی! کیا بات ہے عمار!
میں نے عرض کیا: میرے آقا و مولاؑ! آپؑ کا حکم ہے کہ مصائب و آلام پر صبر کرنا چاہیے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ؑ بہت زیادہ محزون و مغموم ہیں۔
حضرت عمار کہتے ہیں: میری بات سن کر حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا: میں جس عظیم الشان شخصیت کے سوگ میں بیٹھا ہوں وہ مجھ پر سخت گراں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بضعۃ رسولؐ کے فراق سے رسول اللہؐ سے بچھڑ کر رہ گیا ہوں، کیونکہ پیغمبرؐ خدا کی دختر کا وجودِ گرامی میرے لئے سکون و آلام کا ذریعہ تھا۔ جس وقت وہ لبِ سخن کھولتی تھیں تو میری روح پیغمبر خدا ؐکی صدائے دل نواز سے لبریز ہو جاتی۔ اب ان کی رحلت سے پیغمبرؐ کی رحلت و جدائی کے احساس نے محزون و مغموم کر رکھا ہے۔
اے عمار! میں کیسے نہ روؤں؟
ان کی کوئی ایک مصیبت تو نہ تھی جسے بھلایا جا سکے۔ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئی تھیں اور میں نے انہیں غسل دینا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ان کی ایک پسلی شکستہ ہو چکی تھی۔ ان کا پہلو تازیانوں کے ضربات سے سیاہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے مجھ سے اپنے یہ دکھ درد اس لئے چھپا رکھے تھے کہ میرے حزن و آلام میں اضافہ نہ ہو۔
اے عمار! جب میری نظر حسنین شریفینؑ کے چہروں پر پڑتی ہے تو گریے سے میرا گلا رندھ جاتا ہے۔ جب میں شہزادی زینبؑ کو ان کی والدہ کے غم میں روتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھ پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور میرا قلب شعلہ وَر ہو جاتا ہے اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ (علامہ نقدی، انوار العلویہ، ص/306)
کتاب ” فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا من المھد الی اللھد” سے اقتباس”
مؤلف: آیت اللہ سید محمد کاظم قزوینی ؒ
اردو ترجمہ : فاطمہ زھرا (س) طلوع سے غروب تک
مترجم : علامہ الطاف حسین بلوچ
ناشر: ادارہ منھاج الصالحین لاہور