مصائب جناب حضرت عباس علمدار علیہ السلام
خطیب: علامہ انور علی نجفی

جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو پہلو پیغمبر میں دفن ہو نے نہیں دیا گیا تو وہاں جناب عباسؑ نے تلوار پر ہاتھ رکھا تو حسینؑ نے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ” انّ لھذاالسیف لیوم آخر” یہ تلوار کسی اور دن کے لئے ہے ابھی تم تلوار نہیں اٹھا سکتے ۔عباس ؑنے کربلاء کا انتظار کیا عاشورا کا انتظار کیا اب عاشور بپا ہوگئی ہے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے اور عباسؑ مطیع ہے عباسؑ نے تینوں بھائیوں کو جمع کیا اور کہا ” حامو عن سیدکم ” اپنے آقا کی حمایت کرو اپنی جان قربان کر دو ، عباسؑ کے سامنے ایک ایک بھائی شھید ہوتا رہالیکن عباسؑ نے تلوار نہیں اٹھائی جب آخری بھائی عثمان شھید ہوا تو اس ظالم نے اس قاتل نے عباسؑ کے سامنے اس کا سر تن سے جدا کر دیالیکن عباسؑ کو جنگ کی اجازت نہیں ہے ۔لیکن جب ایک اور بھائی کا سر تن سے جدا ہو رہا عباسؑ نہ تھے اگر ہوتے تو یقینابرداشت نہ کر سکتے لیکن زینب دیکھ رہی ہیں جب بھائی کا سر تن سے جدا کیا جا رہا تھا ابھی بھائی کی جان باقی تھی حسینؑ مڑ مڑ کر خیام کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن ظالموں نے سر تن سے جدا کیا ، زینب ؑ سے برداشت نہ ہو سکی اس طرح نا محرموں کے مجمع میں آئیں کہ رسول خداؐ کو پکارا ” وا محمداھذاحسینک مذبوح ۔۔ اجرکم علی اللہ
آپ برداشت نہیں کر سکتے زینب نے برداشت کی زینب ؑ نے گلہ کیا یا رسول خداؐ ! کیسے زینب ؑ کی آنکھوں کے سامنے بھائی حسین ؑ پشتِ گردن سےذبح کیاگیا۔
عباسؑ بار بار اجازت مانگتے ہیں حسین ؑ کہتے ہیں عباس ؑ تو میرے لشکر کا علمدار ہے تو نہ رہے گا تو لشکر باقی نہ رہے گاایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے عباسؑ دائیں دیکھتے ہیں عباسؑ بائیں دیکھتے ہیں فرماتے ہیں مولا اب وہ لشکر ہی کہا ں ہے جس کا میں علمبردار ہوں اتنے میں خیموں سے العطش کی صدائیں آئیں۔ امام ؑ نے فرمایا عباسؑ بچوں کے لئے پانی کا بندوبست کرو عباسؑ نے مشک سکینہ لیاسوئے علقمہ چلے عباسؑ کوآتے دیکھ کر چالیس ہزار کا لشکر سہم گیا عباس ؑ نہر علقمہ میں اترتے ہیں پانی کو اپنی چلّو میں لیتے ہیں حسین ؑ کی پیاس یاد آتی ہے اور اپنے آپ سے خطاب کر کے یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے عباسؑ کہ تو پانی پی لے لیکن حسین ؑ پیاسا ہو۔ یہ لعین جو عباسؑ سے ڈر کر پراکندہ ہو گئے تھے اب عباسؑ واپس آرہے تھے انہوں نے مختلف کمینگاہوں میں اپنے آپ کو چھپا کر رکھا ۔ایک لعین نےپشت درخت سے ایسا وار کیا کہ عباسؑ کا دائیاں بازو شھید ہو گیاآپ نے فرمایا ؛” ان قطعتم یمینی و اللہ احامی عن دینی عن امامی” تم نے میرا دائیاں ہاتھ کاٹ دیا تو کیا ہوامیں یہ مشکیزہ پہنچا کررہوں گا بائیں ہاتھ میں تلوار لی جہاد کرتے گئے بائیاں ہاتھ بھی شھید ہو گیامشکیزہ دندان میں لیاسوئے خیام چلتے رہےایک تیر مشکیزے پر لگا عباسؑ کی جان نکل گئی ۔ عباسؑ نے گھوڑا روک لیا اب کس طرح بغیر پانی کے سوئے خیام جائیں سکینہ کو کیا جواب دوں ۔ اجرکم علی اللہ
عباسؑ نے گھوڑا روک لیا جب بہادر کے شانے کٹ جاتے ہیں تو بزدل سامنے آجاتے ہیں کوئی تیر مارتا تھاکوئی گرز مارتا تھا کوئی تلوار سے حملہ کرتا تھااتنا ماراعباسؑ کی ذرہ ٹوٹ گئی عباسؑ کا سینہ منکشف ہوا، کربلاء میں ایک مقام آیا جب حسینؑ کا سینہ منکشف ہوا حرملہ نے تیر سہ شعبہ جوڑاقلبِ حسینؑ پرلگا اس لعین حرملہ نےقلب عباسؑ کو دیکھا تیرسہ شعبہ چلا عباسؑ گھوڑے پر نہ سنبھل سکے جس کا بدن تیروں سے بھرا ہوجس کے ہاتھ قلم ہوگئے ہو اگر وہ گھوڑے سے نیچے آئے تو کیسے آئے ۔فاطمہ زھراءؑ لحد چھوڑ کر آئیں اور پکاری: اے خدا میرے بیٹے کی خیر ہو۔
جب عباسؑ نے زھراءؑ سےاپنے آپ ؑ کو بیٹا کہتے سنااپنی زندگی میں پہلی بار حسین ؑ کو بھائی کہہ کر پکارا ” اخی ادرک اخاک” بھیا بھائی کی مدد کو آئیں۔ خدا آپ کو کربلا کی زیارت نصیب کرے جو کربلاگئے ہیں وہ جانتے ہیں ۔خیمہ گاہ کہاں ہے عباسؑ کی بارگاہ کہاں ہے عباسؑ نے پکارا حسینؑ کو آنے میں بڑی دیر لگ گئی لعینوں کے سامنےعلی ؑ کا شیر دل بیٹا ہے ۔لعینوں نے جو علی ؑ سے کینہ تھا سارا کینہ عباسؑ پر اتاراکسی نے لباس تاراج کیاکسی نے انگوٹھی اتاری کاش یہی ختم ہو اہوتا ، مقتل میں اگر نہ ہوتامیں نہ پڑھتا ” و قطعورجلیہ”دو ہاتھ تو پہلے ہی شھید تھے آنکھ میں بھی تیر پیوستہ ، سینے میں بھی تیر پیوستہ، ظالموں نے عباسؑ کے دونوں پاؤں بھی کاٹ دیے ، اگر محرم کے یہ ایام نہ ہوتے میں کبھی یہ مصائب نہ پڑھتاحسینؑ تشریف لائےآپ سن کر برداشت نہیں کر رہے حسینؑ نے اپنی انکھوں سے ان مناظر کو دیکھا کہیں ہاتھ پڑا ہے کہیں پاؤں پڑا ہے کہیں عباسؑ پڑا ہے ۔۔۔اجرکم علی اللہ
حسین ؑ تشریف لائے عباسؑ کا سر اپنے دامن میں رکھا کہا مولاآپ ؑ کی آخری زیارت کرنا چاہتا ہوں آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے ۔امامؑ نے عباسؑ کی آنکھوں سے خون کو صاف کیا عباسؑ نے چہرہ انور کی زیارت کی ، اپنا سر دامنِ حسینؑ سے جھٹک کر زمین پر رکھ دیاکہا : مولا! عباسؑ کی وفا یہ برداشت نہیں سکتی وقت آخر میرا سر آپ ؑ کے دامن میں ہو اور آپؑ کا سر کربلاکی زمین پر ہو۔ امامؑ نے اٹھانا چاہا عباسؑ نے کہا پانی کاوعدہ کر کے آیا تھا مجھے یہیں رہنے دیجئے میری لاش بھی خیام لے کر نہ جائیں عباسؑ کو چھوڑا ۔ اب حسین ؑ نے اٹھنا چاہاجس نے اپنا بھائی کو ان حالات میں دیکھاہو وہ کیسے اٹھ سکتا ہے جب نہ اٹھ سکے تو فرمایا ؛ "الآن انکسر ظھری” علم عباس ؑ کو اٹھایاخیام کی طرف گئےسکینہ آگے آئیں چچا آئے ہیں پانی آیا ہے دیکھا چچانہیں ہے کہا بابا پانی نہیں چاہیے چچا کو بلا لیجیے۔
وسیعلم الذین ظلمو ایّ منقلب ینقلبون، انا لِللّہ وانا الیہ راجعون