مصائب امام موسی کاظم و امام علی رضا ؑمکتوب مصائب

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے تلخ ترین مصائب

دور مصائب کا آغاز:
158 ہجری کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھا شروع میں تو اس نے بھی امام موسی کاظم علیہ السّلام کی عزت و احترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں کیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کا جذبہ ابھرا اور 164 ہجری میں جب وہ حج کے نام پر حجاز کی طرف آیا تو امام موسی کاظم علیہ السّلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیا اور قید کر دیا۔ ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے۔ پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کا موقع دیا گیا۔ مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی 192 ہجری میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مہینے تک اس نے حکومت کی۔ -اس کے بعد ہارون رشید کا زمانہ آیا جس میں پھر امام موسی کاظم علیہ السّلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نھیں ہوا۔
اسیر بغداد کی اسیری اور شہادت:
170ہجری میں ہادی کے بعد ہارون تخت خلافت پر بیٹھا۔ سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے، اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کا رویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا، اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ تھا کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالا جائے یقینا اس کے بیٹے ہارون کو معلوم ہو چکا ہو گا۔ وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ہاتھ باندھ دیئے تھے اور شہر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیا تھا، ورنہ اب ہارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی۔ تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پہلے اس کے ذہن میں تصور پیدا ہو سکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسی کاظم علیہ السّلام کا محتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نو سال تک ہارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نہیں مل سکا۔
جعفر بن محمد شیعیان آل محمد (ص) میں سے تھے اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت کے قائل تھے اور یحیی نے کئی بار یہ بات ہارون کے گوش گزار کرائی تھی۔

یحیی نے ایک شیطانی چال چلی اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے بھتیجے علی بن اسمعیل بن جعفر کو مدینہ سے بلوایا تا کہ وہ آ کر ہارون کے پاس امام علیہ السلام کی بد گوئی اور عیب جوئی کرے۔
امام موسی بن جعفر علیہ السلام نے علی بن اسمعیل کی مدینہ سے حرکت سے قبل، اس کو بلوایا اور فرمایا کہ وہ اس سفر سے اجتناب کرے اور اگر بغداد جانا اس کے لیے بہت ضروری ہے تو ہارون کے پاس جا کر آپ (ع) کی بدگوئی نہ کرے۔ علی بن اسمعیل کی آنکھوں کے سامنے دنیا کی چمک تھی اور امام علیہ السلام کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے بغداد میں یحیی برمکی کے پاس پہنچا اور یحیی نے ایک ہزار درہم دے کر اس کو خرید لیا۔
ہارون اس سال حج کے لیے گیا اور مدینہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام اور مدینہ کے اکابرین نے اس کا استقبال کیا۔ لیکن ہارون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر شریف کے پاس کہا: یا رسول اللہ (ص) میں آپ سے معافی مانگتا ہوں کہ میں امام موسی بن جعفر (ع) کو قید کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کی امت کو درہم برہم کر دیں، اور ان کا خون بہا دیں۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ امام علیہ السلام کو مسجد سے گرفتار کیا جائے اور خفیہ طور پر بصرہ کے والی عیسی بن جعفر بن منصور کے پاس لے جایا جائے۔
امام کاظم علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسی بن جعفر کو لکھا کہ موسی بن جعفر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قتل کر کے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے ۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہارون رشید ملعون کو لکھا : میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حکومت کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بہبودی کے خواہشمند ہیں۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں۔ میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں، لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید با مشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ہارون رشید ملعون امام علیہ السلام کو بغداد لے گیا اور فضل بن ربیع کے سپرد کیا اور کچھ دن بعد فضل سے کہا کہ امام علیہ السلام کو آزار و اذیت ‘پہنچائے لیکن فضل نے انکار کیا چنانچہ ہارون نے امام علیہ السلام کو فضل بن یحیی بن خالد برمکی کے سپرد کیا، چونکہ امام علیہ السلام فضل بن یحیی کے گھر میں نماز و عبادت و تلاوت قرآن میں مصروف رہے، چنانچہ فضل نے آپ (ع) کو آزار و اذيت دینے سے اجتناب کیا اور ہارون کو معلوم ہوا تو غضبناک ہوا چنانچہ یحیی بن خالد برمکی نے امام علیہ السلام کو سندی بن شاہک کے سپرد کیا اور سندی نے آپ (ع) کو قید خانے میں مسموم کیا۔ امام علیہ السلام کی شہادت زہر کی وجہ سے ہوئی تو سندی بن شاہک نے بغداد کے درباری فقہاء اور اشراف کو بلوا آپ (ع) کا جسم بے جان انہیں دکھایا اور ان سے گواہی طلب کی کہ امام (ع) کے بدن پر کسی زخم یا گلا گھونٹنے کے آثار نہيں ہیں، اور اس کے بعد امام علیہ السلام کو بغداد کے علاقے "باب التبن” میں مقبرہ قریش میں سپرد خاک کیا۔
ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ: ہارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کر دیا ” فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا“ اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شہادت کے بعد آپ کے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹی گئیں۔ آپ کی شہادت ہارون رشید کے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہک کے ذریعہ دلوایا تھا۔
صواعق محرقہ،ص 132
سب سے آخر میں امام موسی کاظم علیہ السّلام سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے، یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا۔ آخر اسی قید میں حضرت کو انگور میں زہر دیا گیا۔ 25رجب 183 ہجری میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شہادت ہوئی۔ شہادت کے بعد آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نہیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا۔ مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ہو گیا تھا اس لیے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ تشیع کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جو اب کاظمین کے نام سے مشھور ہے، دفن کیا۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت 25 رجب ال’مرجب بروز جمعہ 183 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر 55 سال کی تھی ۔ آپ نے 14 سال ہارون رشید کے قید خانے میں گزارے ۔ شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانے سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔ سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کر کے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے ۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے، انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازے کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔ امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لیے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔
تدفین کے بعد امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو کہرام برپا ہو گیا۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔
امام کاظم (ع) کے تلخ ترین مصائب:
امام علیہ السلام کے فضائل و کرامات اور سرگرمیاں ہارون کے غیظ و غضب اور کینے میں اضافے کا باعث بنتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ امام کی ایک طویل مدت ( تقریباً سولہ سال) زندانوں میں گزاری اور وہیںاپنے رب سے جا ملے ۔
آپ نے دوران قید تلخ ترین مصائب’- اور سخت ترین تکالیف کا سامنا کیا ، یہاں تک کہ آپ زندان سے تنگ آ گئے اور مدت کی طوالت سے ملول ہوئے ، حکومت آپ ”کو مختلف زندانوں میں منتقل کرتی رہی ، اس خوف سے کہ کہیں آپ کا رابطہ کسی شیعہ کے ساتھ برقرار نہ ہو جائے، سرکاری پولیس اور جاسوس سختی سے آپ کی نگرانی کیا کرتے رہتے تھے۔
امام طویل مدت تک ہارون کی قید میں رہے ، طویل قید نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور آپ کے بدن مبارک کو گھلا کر رکھ دیا تھا ، یہاں تک کہ جب آپ سجدہ کرتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا زمین پر کوئی کپڑا پڑا ہوا ہو ، ایک مرتبہ خلیفہ کے ایک نمائندے نے آپ سے عرض کیا ‘ ‘خلیفہ آپ سے معذرت خواہ ہے اور اس نے آپ کی آزادی کا حکم دیا ہے ، بشرطیکہ آپ اس سے ملاقات فرما کر معذرت حاصل کریں یا اس کی خوشنودی حاصل کریں ‘ ‘
امام نے نہایت بے نیازی کے ساتھ صریح الفاظ میں نفی میں جواب دیا ، یوں آپ نے زہر قاتل کا تلخ جام پینا گوارا فرمایا ، آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کے سلسلے میں گمراہ حکمرانوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے اور ان کی گمراہی آشکار ہو۔
(دائرة المعارف الاسلامیہ ،مقالہ دور الآئمہ از شہید صدر :ص 96)
امام نے زندان سے ہارون کے نام ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہارون پر اپنے شدید غصے کا اظہار فرمایا : ‘ ‘بتحقیق جتنے میرے مشقت و آلام کے دن گزریں گے اتنے ہی دن تیرے راحت و آرام کے بھی گزر جائیں گے ، پھر ایک دن ایسا آئے گا جب ہم سب کا خاتمہ ہو گا ، اور کبھی ختم نہ ہونے والا دن آ پہنچے گا ، اس دن بدکار لوگ خسارے میں ہوں گے۔
(البدایة و النہایة :ج 10، ص 183 اور تاریخ بغداد)
ہارون کے زندان میں امام قسم قسم کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ، کیونکہ ایک طرف سے آپ کو بیڑیوں سے پا بہ زنجیر کیا گیا تھا اور دوسری طرف سے آپ پر زبردست سختیاں اور اذیتیں روا رکھی گئیں ، ہارون رشید نے ہر قسم کے مصائب ڈھانے کے بعد آخر کار آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ، یوں آپ شہادت و سعادت کی منزل پر فائز ہوئے اور اپنے خالق سے جا ملے ، آپ کی شہادت 25، رجب 183 ہجری کو واقع ہوئی۔
(ابن خلکان :ج2، ص 173 اور تاریخ بغداد)
25رجب سن 183 ہجری کو فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم (ع) کو زندان میں زہر دے کر عالم غربت میں شہید کر دیا گیا ۔
امام کاظم (ع) سن 128 ہجری قمری میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بیس سال تک کی عمر اپنے والد ماجد حضرت امام صادق (ع) کی ذات مقدس کے ساتھ گزاری اور امام صادق (ع) کی شہادت کے بعد 35 سال تک مسلمانوں کی امامت و ہدایت کی ذمہ داری انجام دی ۔ اس راہ میں آپ نے بہت سی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ (ع) کے علم سے فیضیاب ہونے والے بہت سے فقیہ اور دانشور شاگردوں نے اسلامی علوم و تعلیمات کو پوری دنیا میں رائج کیا۔ امام کاظم (ع) نے اسلامی علوم اور تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ عباسی حکومت کے خلاف جدوجہد بھی جاری رکھی۔ سر انجام عباسی خلیفہ ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم (ع) کو گرفتار کر لیا اور ایک سازش کے تحت زہر دے کر شہید کر دیا۔
آپ کے دو مشہور لقب کاظم اور باب الحوائج تھے۔ جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرائض امامت سنبھالے اس وقت عباسی خلیفہ منصور دوانقی بادشاہ تھا یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں بے شمار سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے سادات زندہ دیواروں میں چنوائے گئے یا قید کر کے رکھے گئے تھے۔
امام موسي کاظم عليہ السلام نے مختلف حکام کے دور ميں زندگی بسر کی۔ آپ کا دور، حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور گھٹن سے بھرا ہوا دور تھا۔ ہر آنے والے بادشاہ کی امام پر سخت نظر تھی ليکن يہ آپ کا کمال امامت تھا کہ آپ شدید مصائب مشکلات کے دور ميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم و ہدايت عطا فرماتے رہے۔ اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس یونیورسٹی کی جو آپ کے پدر بزرگوار کی قائم کردہ تھی، پاسداری اور حفاظت فرمائی آپ کا مقصد امت کی ہدايت اور نشر علوم آل محمد تھا، جس کی آپ نے قدم قدم پر ترويج کی اور حکومت وقت تو بہرحال امامت کی محتاج ہے۔
علامہ مقریزی لکھتے ہیں کہ منصور کے زمانے میں بے انتہا سادات شہید کیے گئے ہیں اور جو بچے ہیں وہ وطن چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں انہیں تارکین وطن میں ہاشم بن ابراہیم بن اسماعیل الدیباج بن ابراہیم عمر بن الحسن المثنی ابن امام حسن بھی تھے جنہوں نے ملتان کو علاقوں میں سے مقام خان میں سکونت اختیار کر لی تھی.-
( النزاع والتخاصم ص 47 طبع مصر)
خدا کا درود و سلام ہو اس پر کہ جس کے صبر و استقامت نے دشمنوں کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
السلام على المعذب في قعر السجون وظلم المطامير
السلام على ذي الساق المرضوض بحلق القيود
السلام على الجسد النحيف
السلام على القلب الوجيف
السلام على الكاظم الصابر
السلام على من حارت فيه البصائر
السلام عليك يا باب الحوائج
عليك مني سلام الله مابقيت وبقي الليل والنهار
مرزا دبیر کہتے ہیں:
مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی ۔
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button