مصائب اسیران کربلامکتوب مصائب

جناب فاطمہ بنت الحسین علیھما السلام اور ایک ناواقف حال شامی کی گستاخی

جناب زینب سلام اللہ علیھا کا خطبہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے
يا صيحةً تحمد من صوائح
ما أهون الموت علىٰ النوائح
قال الراوي: ثمّ استشار أهل الشام فيما يصنع بهم
فقالوا: لا تتخذ من كلب سوء جرواً
فقال له النعمان بن بشير: أنظر ما كان الرسول يصنع بهم فاصنعه بهم
ونظر رجل من أهل الشام إلىٰ فاطمة ابنت الحسين عليه‌السلام
آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کس قدر ہوش و ربا اور صبر آزما تھی وہ ساعت کہ جب ایک شامی نے جناب فاطمہ بنت الحسین علیھما السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
فقال: يا أميرالمؤمنين هبْ لي هذه الجارية
اے امیر! یہ کنیز مجھے دے دیں ۔
یہ منحوس آواز سنتے ہی جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنی پھوپھی کے دامن سے لپٹ گئیں اور کہا
فقالت فاطمة لعمّتها: يا عمّتاه أُيتمت وأستخدم؟
پھوپھی اماں! کیا یتیمی کے بعد اب مجھے کنیز بھی بنایا جائے گا؟
تو جناب زینب سلام اللہ علیھا نے اپنی بھتیجی کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے فرمایا:
فقالت زينب: لا، ولا كرامة لهذا الفاسق
نہیں بیٹی! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا اس فاسق کی یہ جرات نہیں۔
پھر بی بی نے شامی کو مخاطب کرکے کہا
کذبت و لومت ما ذلک لالہ
او شامی تو نے غلط کہا اور اپنی کمینگی کا اظہار کیا ایسا کرنے کا نہ تجھے کوئی حق ہے نہ اس( یزید) کو
یزید نے کہا
لو ارت لفعلت
اگر میں چاہوں تو ایسا کر سکتا ہوں
تو ابو تراب کی بیٹی نے پوری جرات اور استقلال کے ساتھ فرمایا :
کلا واللہ ما جعل اللہ لک ذلک الا ان تخرج ان ملتنا و تدین بغیر دیننا
خدا کی قسم ہرگز اللہ نے تجھے یہ حق نہیں دیا مگر یہ کہ ہمارے دین سے کھلم کھلا نکل کر کوئی اور دین اختیار کر لے
اس پر یزید نے جھلا کر کہا
انما خرج من الدین ابوک و اخوک
دین سے تیرا باپ اور بھائی نکلے ہیں ( معاذ اللہ)
بی بی نے فرمایا:
بدین اللہ و دین جدی وابی واخی اھتدیت انت و ابوک ان کنت مسلما
اگر تو مسلمان ہے تو تو نے اور تیرے باپ نے ہمارے جد و اب اور بھائی کے ذریعے سے ہدایت حاصل کی ہے ۔
یزید نے برانگیختہ ہو کر کہا
کذبت یا عدوۃ اللہ
خدا کی دشمن تو نے غلط کہا ہے ( معاذ اللہ)
یزید کا یہ جواب سن کر زہرا ء زادی آبدیدہ ہوگئی اور فرمایا
امیر مسلط تشتم ظالما و تقھر بسلطانک
تو حاکم ہے اس لیے گالیاں دیتا ہے اور ظلم و جور کرتا ہے ۔
اسی اثناء میں شامی نے وہی مطالبہ پھر دہرایا۔ یزید نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا
اغرب ذھب اللہ لک حتفا قضیا
دور ہوجا خدا تجھے موت دے
کتب میں مذکور ہے کہ عقیلہ بنی ہاشم اور یزید کی اس گفتگو کے بعد شامی نے دوبارہ اپنی خواہش کے اظہار کی بجائے یزید سے دریافت کیا:
فقال الشامي: مَن هذه الجارية؟
یہ لڑکی کون ہے؟
فقال له يزيد لعنه الله: هذه فاطمة ابنت الحسين، وتلك عمّتها زينب ابنت عليّ
یزید لعنۃ اللہ علیہ نے کہا: یہ فاطمہ بنت الحسین علیھما السلام اور یہ زینب بنت علی علیھما السلام ہیں۔
فقال الشامي: الحسين بن فاطمة وعلي بن أبي طالب!!
شامی نے تعجب انگیز لہجے میں پوچھا حسین بن فاطمہ اور علی ابن ابی طالب علیہم السلام۔! یہ اس حسین کی بیٹی ہے جو فاطمہ زہراء اور علی ابن ابی طالب علیہم السلام کے فرزند ہیں۔
قال: نعم
یزید نے کہا ہاں یہ اسی حسیؑن کی بیٹی ہے۔
یہ سننا تھا کہ شامی کے تن من میں آگ لگ گئی اور پکار کر کہا
فقال الشامي: لعنك الله يا يزيد، تقتل عترة نبيّك وتسبي ذرّيته، والله ما توهّمت إلّا أنّهم سبي الروم
او یزید! تجھ پر خدا کی لعنت ہو تو عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرتا ہے اور پھر اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیدی بناتا ہے خدا کی قسم ! میرا یہ خیال تھا کہ یہ روم کے قیدی ہیں ۔
فقال يزيد: والله لألحقنّك بهم، ثم أمر به فضرب عنقه
یزید نے غصے سے آگ بگولہ ہو کر کہا ابھی میں تمہیں ان کے ساتھ ملحق کرتا ہوں پھر حکم دیا اور اس کی گردن اڑا دی گئی ۔
(الملهوف على قتلى الطفوف، سعادت الدارین فی مقتل الحسیؑن)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button