خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:139)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 11 مارچ 2022ء بمطابق 7 شعبان 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ہمارے آخری امام اور رسول اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے بارہویں جانشین کی ولادت باسعادت 15 شعبان 255 ھ بروز جمعہ صبح کے وقت عراق کے شہر ”سامرہ“ میں ہوئی۔آپ کے والد ماجد شیعوں کے گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب ”نرجس خاتون سلام اﷲ علیہا “تھیں جن کی قومیت کے بارے میں مختلف روایات ہیں: ایک روایت کے مطابق جناب نرجس علیہ السلام خاتون بادشاہ روم کے بیٹے یشوع کی دختر گرامی تھیں اور ان کی مادر گرامی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے وصی جناب ”شمعون“ کی نسل سے تھیں (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۱۴ ، ص ۲۳۱)
مھدویت ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر شیعہ اور ا ہل سنت کا اتفاق ہے ۔نظریہ مہدویت یعنی تمام اسلامی امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آخر الزمان میں مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف نام کے ایک شخص کہ جو پیغمبر اسلا م ﷺکی اولاد میں سے ہوں گے ظہور فرمائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے فریقین کے اس عقیدہ کی بنیادی وجہ پیغمبر اکرم ﷺسے منقول وہ بہت سی احادیث و روایات ہیں کہ جو متواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور جو بات تواتر کی حد تک پہنچ جائے وہ شک و تردید کے دائرہ سے نکل جاتی ہے جیسا کہ شہید صدر فرماتے ہیں: حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا عقیدہ اس عنوان سے کہ آپ ایک امام منتظر ہیں اور دنیا کو نیک و صالح جہان میں تبدیل کریں گے یہ عقیدہ پیغمبر اکرم ﷺکی احادیث اور اھل بیت کی روایات میں واضح طور پر نقل ہوا اور بہت سی احادیث اور روایات اس موضوع پر تاکید کرتی ہیں کہ انسان کے لئے کوئی شک باقی نہیں رہتا فقط اھل سنت کے حدیثی ذرائع سے حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے پیغمبر اکرم ﷺسے چار سو کے قریب احادیث نقل ہوئی ہیں اور آیت کے بارے میں تمام روایات کی تعداد چھ ہزار ہے یہ بہت بڑی تعداد ہے عام طور پر کسی بھی اسلامی موضوع میں احادیث کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے (بحوث حول المہدی ص ۶۲، ۶۳)
آج ہم امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی طولانی غیبت کے فلسفہ اور اسباب پر بات کریں گے۔امام کی غیبت دو طرح کی ہے۔
غیبت صغریٰ:
ایک غیبت صغریٰ یعنی چھوٹی غیبت کہ جس کا دورانیہ 69 سال رہا۔اس عرصہ میں امام لوگوں سے تو پوشیدہ تھے لیکن اپنے نائب کے ذریعے لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیتے رہتے تھے۔اس عرصہ میں آپ کے چار نائب یکے بعد دیگرے لوگوں کے سوالات آپ تک پہنچاتے رہے۔

غیبت کبریٰ:
یہ بڑی غیبت ہے جس میں آپ مکمل طور پر لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوگئے اور نائب کے ذریعے رابطہ بھی ختم ہوگیا۔اس دوران شیعوں شرعی مسائل میں دین کا فھم رکھنے والے مجتہدین کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا۔اس غیبت کو اب تک تقریبا گیارہ سو گیارہ سال گزر چکے ہیں۔
فلسفہ غیبت:
شیعہ علماء و محققین کے مطابق غیبت کے تمام اسرار و اسباب معلوم نہیں لیکن کچھ اسباب روایات کی مدد سے سمجھ آتے ہیں وہ یہ ہیں:
• غیبت کے ذریعے آزمائش:
قرآن مجید میں ارشاد ہے: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ﴿العنکبوت:۲﴾
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
قرآن مجید میں حضرت حق متعال نے صراحت لہجہ سے بیان فرمادیا کہ ہم ہر زمانےکے لوگوں کا امتحان لیں گے اور امتحان ہی کے ذریعہ واقعی و حقیقی مؤمنین کو ایمان کا دھونگ رچانے والوں سے جدا کرسکیں،ہر زمانے کے لوگوں کا امتحان بھی متفاوت اور انکی شعوری سطح کے مطابق ہی ہوگا۔غیبت کے زمانے میں لوگوں کا خود غیبت کے ذریعہ سے امتحان لیا جائے گا تاکہ دین حق پر ثابت قدم رہنے والوں کے ایمان کے مراتب مشخص ہوسکیں اور یہ معلوم ہو سکے کہ کن کے دل حجت الہٰی کے لیے بیتاب ہو کر تڑپتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ روایات میں زمانہ غیبت میں اپنے دین کی حفاظت کی بہت زیادہ تاکید کی گئ ہے:
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت ہے:
’ إِذَا فُقِدَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ السَّابِعِ فَاللَّهَ اللَّهَ فِی أَدْیَانِکُمْ لَا یُزِیلُکُمْ أَحَدٌ عَنْهَا یَا بُنَیَّ إِنَّهُ لَا بُدَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ مِنْ غَیْبَةٍ حَتَّى یَرْجِعَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ مَنْ کَانَ یَقُولُ بِهِ إِنَّمَا هِیَ مِحْنَةٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ امْتَحَنَ بِهَا خَلْقَهُ وَ لَوْ عَلِمَ آبَاؤُکُمْ وَ أَجْدَادُکُمْ دِیناً أَصَحَّ مِنْ هَذَا لَاتَّبَعُوهُ۔۔
جب میرا پانچواں فرزند پردۂ غیب میں چلا جائے گا تواللہ اللہ اس وقت اپنے دین کا خاص خیال رکھنا،متوجہ رہنا کہیں کوئی تمہیں راۂ راست ،راۂ حق اور صراط مستقیم سے منحرف نہ کردے!اے میرے بیٹے!صاحب الامر مخفی ہونے کے لیے مجبور ہوگا اور پھر واپس لوٹے گااور بعض لوگ اپنے عقائد سے دست بردار ہو جائیں گےخداوندمتعال میرے اس فرزند کی غیبت سے لوگوں کی آزمائش کرے گا۔
اسی طرح حضرات معصومین علیہم السلام کے نورانی ارشادات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت حضرت حق متعال کی جانب سے بہت بڑا امتحان ہوگا۔اب یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت حق متعال اس طرح سے بشریت کی آزمائش کرے گا؟
درحقیقت اس آزمائش کے پیچھے دو اسباب کارفرما ہوں گے۔
پہلا سبب:حضرت صاحب الامر کی طویل غیبت کی وجہ سے لوگ شک و تردید میں مبتلا ہو جائیں گے بعض تو حضرت کی ولادت میں مشکوک ہوں گے تو بعض اس قدر طولانی عمر کا سوال اٹھائیں گے اس دوران فقط وہی خالص افراد اس امتحان میں سرخرو ہوں گے جن میں اخلاص ہو ،جن کے قلوب حضرت کی عمیق معرفت سے منور ہوں وہی حضرت کی امامت کے عقیدہ پر باقی رہیں گے۔
دوسرا سبب:غیبت کا دور نہایت دشوار ہوگا،سختیاں لوگوں کو اس طرح تبدیل کر دیں گی کہ ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے دین پر ثابت قدم رہنا نہایت دشوار اور کھٹن ہوگا اور اس طرح سے لوگوں کا ایمان شدید خطرے میں مبتلا ہوگا۔
• آخری حجت الہٰی کی حفاظت:
حضرت صاحب الامر کی اصلاحی روش گذشتہ انبیاء اور اولیاء سے مختلف ہے ،وہ حضرات تمام ظاہری علل و اسباب کو مدنظر رکھتے تھے جبکہ حضرت صاحب الزمان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت فرمائیں گے۔یعنی واقعیات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تقیہ کو ترک فرمائیں گے۔حکومت کرنے کے لیے علوم و معارف کا تکامل ضروری ہے،فکری و اخلاقی رشد ضروری ہے ،معاشرے میں احکام الہٰیہ کے تحقق کے لیے ان کی پوشیدہ مخفی صلاحتوں اور توانائیوں کا اظہار ضروری ہے اور جب تک ایسا معاشرہ مہیا نہیں ہوتا ہمیشہ حضرت کی زندگی کو خطرہ لاحق رہے گا چونکہ ظالموں کو علم ہے کہ ایک ایسے شخص کی حکومت ہو گی جو جہان کی تمام فاسد اور ظالم حکومتوں کا خاتمہ کردے گا لہٰذا ہمیشہ سے ظالم حضرت کی تلاش میں رہے ہیں تاکہ حضرت کو جہاں کہیں بھی دیکھیں شہید کر ڈالیں ۔
زرارہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
ُ إِنَّ لِلْغُلَامِ‏ غَيْبَةً قَبْلَ أَنْ يَقُومَ وَ هُوَ الْمَطْلُوبُ تُرَاثُهُ قُلْتُ وَ لِمَ ذَلِكَ قَالَ يَخَافُ وَ أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى بَطْنِهِ يَعْنِي الْقَتْلَ.( الغيبة للنعماني، النص، ص: 177)
امام منتظر اپنے قیام سے پہلے لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوں گے!زرارہ کہتا ہے میں نے حضرت سے سوال کیا:وہ کیوں مخفی ہوں گے؟حضرت نے جواب میں ارشاد فرمایا:انکی جان کو خطرہ ہوگا انہی جملات کے ساتھ حضرت نے اپنے بیٹ کی طرف اشارہ کیا جس سے زوارہ نے یہی نتیجہ نکالا کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو انکی جان کو شدیدخطرہ ہے۔
• ظاغوت زمان کی بیعت سے آزاد ہونا
حضرت صاحب الامر کسی بھی ظاغوت کے دور حکومت میں کسی بھی عنوان سے حتی تقیہ کی وجہ سے بھی حکومت کے سامنے خاموش نظارہ گر کی حیثیت سے نہ ہوں!! چونکہ اُن کا وظیفہ ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دین خدا کو نافذ کرنا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
صَاحِبُ هَذَا الْأَمْرِ تَغِيبُ‏ وِلَادَتُهُ‏ عَنْ هَذَا الْخَلْقِ كَيْ لَا يَكُونَ لِأَحَدٍ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ إِذَا خَرَجَ وَ يُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَمْرَهُ فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ. (كمال الدين و تمام النعمة، ج‏2، ص: 480)
صاحب الامر(یعنی حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف)کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھا گیا تاکہ جب وہ ظہور فرمائیں تو اُن کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو،خداوندمتعال ایک ہی رات میں ان کے ظہورکی شرائط کو مہیا کر دے گا۔
• مؤمنین کی عقلی،فکری بلندیوں کا انتظار
حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے فلسفہ میں سے ایک اور حکمت جسے روایات اسلامی میں بیان کیا گیا ہے وہ مسلمانوں کا عقیدتی، فکری،فقہی وغیرہ جیسے مسائل میں خود کفیل ہونا ہے یعنی جب تک مسلمین اس قدر علمی صلاحت حاصل نہیں کر لیتے کہ اُن میں انسان کامل بننے کی صلاحت ہو ،اس وقت تک حضرت ظہور نہیں فرمائیں گے۔
امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے:
تَمْتَدُّ الْغَيْبَةُ بِوَلِيِّ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ الثَّانِي عَشَرَ مِنْ أَوْصِيَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُ يَا أَبَا خَالِدٍ إِنَّ أَهْلَ زَمَانِ غَيْبَتِهِ الْقَائِلِينَ بِإِمَامَتِهِ وَ الْمُنْتَظِرِينَ لِظُهُورِهِ أَفْضَلُ مِنْ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَعْطَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَ الْأَفْهَامِ وَ الْمَعْرِفَةِ مَا صَارَتْ بِهِ الْغَيْبَةُ عِنْدَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاهَدَةِ وَ جَعَلَهُمْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِينَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالسَّيْفِ أُولَئِكَ الْمُخْلَصُونَ حَقّاً وَ شِيعَتُنَا صِدْقاً وَ الدُّعَاةُ إِلَى دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ سِرّاً وَ جَهْرا
ابو خالد کابلی کہتا ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:اے ابو خالد!حضرت مہدی کی غیبت کے زمانے کے لوگ، جو اُن کی امامت پر عقیدہ رکھتے ہوئے اُن کے ظہور کا انتظار کریں گے،تمام زمانے کے لوگوں پر برتری رکھتے ہیں کیونکہ خداوندمتعال نے انھیں اس قدر عقل و شعور عطا فرمایا ہے کہ اُن کی نظر میں حضرت صاحب العصر کی غیبت خود حضور اور حضرت کے مشاہدہ کی طرح ہے۔خداوندمتعال نے انھیں اُن لوگوں کی مانند قرار دیا ہے جنونں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگوں شریک ہو کر تلوار چلائی ہو(یعنی ان کی منزلت بدرواحد کی مجاہدین کی طرح ہے) وہ لوگ ہر قسم کے شرک آمیز شبہات سے پاک و منزہ ہوں گے وہی حقیقی شیعہ خداوندمتعال کے دین کی مخفیانہ اور علنی طور پر تبلیغ کریں گے۔
• شیعو ں کا رازدان نہ ہونا:
حضرت صاحب الامر عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے اسرار میں سے ایک فلسفہ شیعوں کا راز دان نہ ہونا بھی بیان کیا جاتا ہے یعنی حضرات معصومین علیہم السلام جو اسراراپنے شیعوں کے لیے بیان فرماتے تھے وہ انھیں فاش کرکے حضرات معصومین علیہم السلام کے لیے زحمتوں اور تکلیوں کا باعث بنتے تھےاور بعض اوقات یہی افشاء گری حضرات کی شہادت کا بھی باعث بنتی تھی۔امام صادق علیہ السلام کی روایت ہے:
قُلْتُ لَهُ مَا لِهَذَا الْأَمْرِ أَمَدٌ يُنْتَهَى‏ إِلَيْهِ وَ يُرِيحُ أَبْدَانَنَا قَالَ بَلَى وَ لَكِنَّكُمْ أَذَعْتُمْ فَأَخَّرَهُ اللَّهُ
(الغيبة للنعماني، النص، ص: 288)
ابو بصیر کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیاکہ:کیاحضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کا معین وقت ہے جس کے بارے میں جان کر ہمارے قلوب کو تسکین ملے؟حضرت نے جواب میں ارشاد فرمایا:معین وقت تھا لیکن تم لوگ راز دان نہیں بہت جلد راز فاش کردیتے ہو اسی بنا پر خداوندمتعال نے اس مدت کو مؤخر کردیا ہے۔
عصر غیبتِ امام میں صبر و تحمل کی ضرورت:
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی)کے منتظر کو چاہئے کہ استقامت اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کرے اور حلم و بردباری سے کام لے۔ عصر غیبت سے متعلق روایات کو دیکھ کر یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں مذکورہ توصیف سے کہیں زیادہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی)کے سچے اور مخلص منتظرین پر دبائو پڑے گا۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں پائداری کا ثبوت دینے کے لئے غیر معمولی معنوی اور روحانی قوت کی ضرورت ہے۔ لہذا منتظرین کو چاہئے کہ ہر ممکن کوشش کریں۔ اختصار کی بناء پر ہم صرف چند احادیث اور انکے ترجمہ پر اکتفاء کرتے ہیں:"سَيَأْتِي‏ قَوْمٌ‏ مِنْ‏ بَعْدِكُمْ‏ الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مِنْهُمْ لَهُ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ كُنَّا مَعَكَ بِبَدْرٍ وَ أُحُدٍ وَ حُنَيْنٍ وَ نَزَلَ فِينَا الْقُرْآنُ فَقَالَ إِنَّكُمْ لَوْ تَحَمَّلُوا لِمَا حُمِّلُوا لَمْ تَصْبِرُوا صَبْرَهُم‏”
ایک دن رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ ان میں سے ہر ایک آدمی تم میں سے پچاس آدمی کے اجر کا مالک ہوگا”۔
اصحاب نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ہم لوگ آپ کے ہمراہ غزوہ بدر، احد اور حنین میں تھے اور ہمارے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں بھی نازل ہوئی ہیں، پھر کیوں ان لوگوں کو ہمارے مقابلہ میں پچاس گنا ثواب دیا جائے گا؟
حضرت نے جواب دیا: وہ لوگ حد درجہ مشکلات (حالات) سے دوچار ہوں گے کہ اگر تمہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑا تو تحمل اور پائداری نہیں کر پائو گے، (یعنی وہ ان حالات پر اپنی ثبات قدمی اور صبر و بردباری کا مظاہرہ کریں گے لیکن تم نہیں کر پائو گے)۔(بحار الأنوار،ج ۵۲، ص ۱۳۰)
دوسرے مقام پر امام حسن عسکری (علیہ السلام )اس طرح فرماتے ہیں: وعليك بالصبر وإنتظار الفرج، فإنّ النبيّ‏ صلى الله عليه وآله وسلم قال: «أفضل أعمال اُمّتي إنتظار الفرج». ولاتزال شيعتنا في حزن حتّى يظهر ولدي الّذي بشَّر به النبيّ‏ صلى الله عليه وآله وسلم أنّه يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كما ملئت ظلماً وجوراً.
خود پر صبر کو لازم سمجھو اور فرض و ظہور کا انتظار کرتے رہو۔ بیشک رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے: میری امت کا سب سے افضل عمل، فرج و ظہور کا انتظارکرنا ہے۔ ہمیشہ میرے شیعہ غم و اندوہ میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرے گا، جس کے آنے کے بارے میں رسول خدا(ص) نے بشارت دی ہے اور ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھردیں گے کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔(الخصال،مقدمہ ص ۲۹)
احادیث مذکور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے آخری زمانے میں ایسے حالا ت رونما ہوں گے جو ایک حقیق منتظر کے لئے کافی سخت ہوں گے اور ایسے عالم میں اس پر لازم ہو گا کہ وہ اس پر صبر و پائداری کا مظاہرہ کرے اور اپنے امام کے ظہور کے مقدمات کو فراہم کرے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button