خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:297)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 04 اپریل 2025 بمطابق 05 شوال المکرم 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:شکر و صبر
آج ہم ماہ رمضان اور عید الفطر کے بعد پہلے جمعہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہوئے ہیں۔ رمضان رحمتوں، مغفرتوں اور نجات کا مہینہ تھا، اور عید الفطر اس کی تکمیل اور شکرگزاری کا دن تھا۔ اب ہمارا امتحان ہے کہ ہم اس تربیت کو اپنی زندگی میں جاری رکھیں، شکر ادا کریں، اور نیکی کے راستے پر استقامت دکھائیں۔
شکرگزاری کی اہمیت
قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ  وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
ترجمہ: "اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب تمہارے رب نے خبر دار کیا کہ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذا ب یقینا سخت ہے۔ (سورۃ ابراہیم، آیت 7)
شکر کرنے میں ہمارا ہی فائدہ ہے کیونکہ شکر کی صورت میں اللہ کی طرف سے نعمتوں میں اضافہ ایک لازمی قانون ہے لیکن ہم پھر بھی بہت کم شکر کرتے ہیں جس کا اظہار اس آیت میں کیا گیا ہے:
وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (سورۃ سبا، آیت 13)
ترجمہ: "اور میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے بہت کم ہیں۔”
یہ آیت ہمیں خبردار کرتی ہے کہ شکرگزاری ایک نایاب صفت ہے، اور ہمیں اسے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور ہمیں ناشکرے لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شکر کی توفیق ملنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کیونکہ ہر کسی کو یہ توفیق نہیں ملتی۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ فَقَدْ أُعْطِيَ الْخَيْرَ كُلَّهُ”(بحار الانوار، جلد 68، صفحہ 23)
ترجمہ: "جسے شکر کی توفیق دی گئی، اسے تمام بھلائی دی گئی۔”
صبر و استقامت کا حکم
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ۔ (سورۃ فصلت، آیت 30)
ترجمہ: "جو کہتے ہیں: ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔”
دین و ایمان کی نعمت ملنے کے بعد اس پر صبر سے قائم رہنا اور ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جو مشکلات پیش آئیں ان پر صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نماز و دیگر عبادات کی بجاآوری کے لیے بھی صبر ضروری ہے اور اسی سے انسان کے اندر دینی استقامت پیدا ہوتی ہے ورنہ بے صبرا انسان دین پر کاربند نہیں رہ سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ أَكْثَرَ النَّاسِ شُكْرًا فَلْيَكُنْ أَكْثَرَهُمْ صَبْرًا”
ترجمہ: "جو شخص چاہتا ہے کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزار ہو، اسے چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ صبر کرنے والا ہو۔”
اس سے معلوم ہوا کہ صبر و شکر کا باہمی تعلق ہے۔ صابر انسان ہی شاکر انسان بن سکتا ہے۔
صبر کی اہمیت کے بارے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"الصَّبْرُ مِنَ الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ”(نہج البلاغہ، حکمت 82)
ترجمہ: "صبر کا ایمان سے وہی تعلق ہے جو سر کا جسم سے ہے۔”
یہ ہمیں بتاتا ہے کہ استقامت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔
حضرت ایوبؑ  کی زندگی سے نصیحت:
حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی سے ایک عظیم سبق ملتا ہے۔ وہ سارا واقعہ کہ کس طرح آپ کے پاس مال و دوسلت کی فراوانی تھی اور ہر وقت آپ اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے پھر اللہ کی آزمائش شروع ہوئی اور آپ پر شدید بیماری اور مصائب نازل ہوئے، آپ نے اپنا مال، اولاد اور صحت سب کچھ کھو دیا، لیکن پھر بھی آپ نے اللہ کا شکر ادا کرنا نہ چھوڑا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
(سورۃ الانبیاء، آیت 83)
ترجمہ: "اور ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔”
حضرت ایوب علیہ السلام نے صبر کیا اور اللہ سے شکوہ نہ کیا۔ ان کی دعا کے جواب میں اللہ نے انہیں شفا دی اور ان کی نعمتیں دوگنی کر دیں، جیسا کہ فرمایا:
فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ۔ (سورۃ الانبیاء، آیت 84)
ترجمہ: "تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور جو تکلیف انہیں تھی اسے دور کر دیا، اور ہم نے انہیں ان کا اہل و عیال واپس دیا اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی، ہماری طرف سے رحمت اور عبادت کرنے والوں کے لیے نصیحت کے طور پر۔”
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب اللہ کی نعمتیں اور آسائشیں میسر ہوں تو ان پر شکر کرتے رہنا چاہیے اور جب وہ نعمتیں چھن جائیں اور مشکلات آجائے تو مصیبت میں بھی شکر اور صبر کا دامن نہ چھوڑیں، کیونکہ شکر و صبر کی صورت میں اللہ کی طرف سے مزید ملنے کا وعدہ ہے۔
احادیث اہلبیت سے رہنمائی:
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
"الشُّكْرُ يُوجِبُ زِيَادَةَ النِّعْمَةِ وَيَدْفَعُ النِّقْمَةَ”(بحار الانوار، جلد 78، صفحہ 117)
ترجمہ: "شکر نعمت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور عذاب کو دور کرتا ہے۔”

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مَنْ لَمْ يَشْكُرِ الْمُنْعِمَ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ لَمْ يَشْكُرِ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ”
(عیون اخبار الرضا، جلد 2، صفحہ 24)
ترجمہ: "جو مخلوق میں سے نعمت دینے والے کا شکر ادا نہ کرے، وہ اللہ عزوجل کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔”
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ شکر صرف اللہ کا نہیں، بلکہ اس کے بندوں کا بھی ادا کرنا چاہیے۔بندوں میں سے جو کوئی ہمارے ساتھ کوئی اچھائی یا نیکی کرے یا ہماری رہنمائی کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور دل سے بھی اس کی قدر دانی کرنی چاہیے کیونکہ اگر ہم مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے تو پھر خالق کے شکر گزار بندے بھی نہیں بن سکتے۔
پس ہمیں شکر و صبر کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہیے اور اللہ سے دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں شکر کی توفیق دے۔اس کی تعلیم خود قرآن نے دی ہے کہ انسان کو شکر کی توفیق مانگنی چاہیے۔ جیسے اس آیت میں فرمایا:
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي  إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ (سورۃ الاحقاف، آیت 15)
ترجمہ: "اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی، اور یہ کہ میں نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو میرے لیے درست کر دے۔ بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔”
پس ہم بھی آخر میں یہی دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اعمال صالحہ کا توفیق عطا فرمائے اور ماہ مبارک میں ہم نے اعمال و عبادات کے ذریعے کوشش کی تھی اس کے مزید بہتر طریقے سے جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button