سلائیڈرسیرتسیرت جناب رسول خداؐقرآنیاتمقالات قرآنی

ثنائے خلقِ مصطفیٰ ﷺ بزبان قرآن

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
رسول اللہ ﷺ کا اخلاقی مقام و مرتبت:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ﴿القلم:۴﴾
اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
تفسیر آیت
یہ آپ کا عظیم اخلاق ہے کہ آپ کی شان میں انتہائی نامناسب جسارت ہوتی ہے، ان تمام اہانتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کے پاس خلق عظیم ہے۔
اچھا اخلاق، اعلیٰ نفسیات کا مالک ہونے کی علامت ہے اور فکر و عقل میں اعلیٰ توازن رکھنے والا ہی اعلیٰ نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ خلق عظیم کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عقل عظیم کا مالک ہے۔ اس طرح مخلوق اول، عقل ہو یا نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بات ایک ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
اِنَّمَا بُعْثِتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۸۷)
میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔
لہٰذا جو ذات اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی ہے وہ خود اخلاق حمیدہ ہی کی تکمیل کا مظہر نہ ہو گی بلکہ الٰہی اخلاق کا بھی مظہر ہو گی۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 261)

جنگ احد میں خلق عظیم کا مظاہرہ:
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ﴿ آل عمران:۱۵۹﴾
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
تشریح کلمات
فَظًّا:( ف ظ ظ ) بد مزاج۔
غَلِیۡظَ🙁 غ ل ظ ) موٹا اور گاڑھا، جو اجسام کا وصف ہوتا ہے لیکن بطور استعارہ معافی اور سخت مزاجی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
انۡفَضُّوۡا🙁 ف ض ض ) الفض ۔ کسی چیز کو توڑنا اور ریزہ ریزہ کرنا۔ بطور استعارہ متفرق اور منتشر ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
شَاوِرۡ🙁 ش و ر ) شرت العسل ۔ چھتے سے تازہ شہد نکالنا۔ اسی مناسبت سے ذہنی چھتے سے رائے اخذ کرنے کو مشورہ کہا جاتا ہے۔
تفسیرآیات
۱۔ فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ: اس جنگ میں سب سے زیادہ صدمہ رسول اللہ (ص) کو پہنچا۔ دشمن سے جنگ کے بارے میں مدینے میں اختلاف شروع ہوا۔ ایک تہائی لشکر راستے سے واپس چلا گیا۔ ایک گروہ نے غنیمت کے لالچ میں رسول(ص) کی نافرمانی کی۔حضرت حمزہ ؑ و دیگر شہداء کی قربانی دینا پڑی۔ حضور (ص) کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ چند افراد کے علاوہ باقی مسلمان آپ (ص) کو میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ انہو ں نے آپ ؐ کی آواز پر بھی لبیک نہیں کہا اور پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ آپ (ص) کے قتل کی خبر سن کر دین سے برگشتہ ہوگئے اور آبائی دین اختیار کرنے کی باتیں کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حضور (ص) کا رویہ نرم رہا اور آپ (ص) نے خدائی اخلاق کا مظاہرہ فرمایا۔رحمت الٰہی کا مظاہرہ ہوا اور تمام گستاخیوں کے باوجود نہ کسی کو راندۂ درگاہ کیا، نہ کسی کی ایسی سرزنش کی کہ وہ آپ (ص) سے متنفر ہو جائے۔
۲۔ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ: اگر اپنے ساتھیوں کی ان ناشائستہ حربی جرائم پر سرزنش کرتے، اپنے حسن خلق کا مظاہرہ نہ کرتے تو وہ آپؐ کو چھوڑ جاتے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حربی جرائم سے در گزر فرماتے تھے جو دنیا میں قابل معانی نہیں ہوتے تو دوسری لغزشوں بلکہ سازشوں سے درگزر فرمانا تعجب کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ جنگ تبوک سے واپسی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کو فاش نہیں فرمایا۔
۳۔ خلق عظیم کے اس مظاہرے کے باوجود مزید حکم ہو رہا ہے: فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ یعنی ان سے درگزر کریں اور ان کی لغزشوں پر کوئی اثرمترتب نہ کریں۔ ان کے اس عظیم گناہ کے لیے دعائے مغفرت کریں۔
۴۔ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ: معاملات میں بدستور ان سے مشاورت کریں اور سابقہ روش میں تبدیلی نہ لائیں جیساکہ احد کی جنگ سے پہلے آپ (ص)نے لوگوں سے مشورہ فرمایا تھا۔
ولایت و مشاورت: رسول اللہ (ص) بحیثیت رسول احکام شرع میں کسی سے مشورہ نہیں فرماتے بلکہ احکام شرع تابع وحی ہوتے ہیں۔لیکن بحیثیت حاکم اور ولی الامر، تدبیر امور اور مقام نفاذ و اجرا، انتظامی اور عملی میدانوں میں رسول اللہ (ص) کو مشورہ کی سنت قائم کرنے کا حکم ہے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہ حکم اسلامی قیادت کو مل رہا ہے کہ اپنے امور مملکت کے نفاذ کی کیا صورت ہونی چاہیے۔ اس پر باہمی مشورہ کرو۔ اس باہمی مشورے میں خود مسئلہ ’’ قیادت‘‘ شامل نہیں، نہ خود ’’ امر‘‘ شامل ہے بلکہ قیادت اور امر کا تعین اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
۵۔ فَاِذَا عَزَمۡتَ: مشورے کے بعد فیصلہ، عزم اور نفاذ، اسلامی قیادت کو کرنا ہے۔
اہم نکات
۱۔ سخت مزاجی لوگوں کو داعیان حق سے دور کر دیتی ہے اور نرم مزاجی انہیں نزدیک رکھتی ہے۔
۲۔ توکل، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نام نہیں بلکہ مستحکم ارادے اور جہد مسلسل کے ساتھ نتائج کو اللہ پر چھوڑ نا توکل کہلاتا ہے: فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ ۔۔۔۔
۳۔ مشورے کی صورت میں بھی فیصلہ اسلامی قیادت کو ہی کرنا ہے: فَاِذَا عَزَمۡتَ ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 198)
مومنین کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی دلی کیفیت:
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿التوبہ:۱۲۸﴾
بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔
تشریح کلمات
عَنِتُّمۡ:( ع ن ت ) المعانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو۔
عَزِیۡزٌ:( ع ز ز ) عزّ علیّ کذا ۔ یعنی مجھ پر یہ بات نہایت ہی گراں گزری۔
تفسیر آیت:
سورۂ براءت میں آیات کا ایک سلسلہ منافقین اور کافرین کے خلاف جاری رہا۔ ان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے اور ان کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی بڑی تاکید فرمائی۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا پہلو اجاگر کرنا مناسب تھا کہ منافقین کے خلاف یہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ رحمت حق اور رحمت رسولؐ کے لیے اہل نہیں ہیں۔ خدا ارحم الراحمین ہے اور رسول رحمۃ للعالمین ہیں لیکن یہ منافقین اس رحمت میں شامل حال ہونے کی اہلیت اورظرفیت نہیں رکھتے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اخلاق یہ ہے:
i۔ تم کو تکلیف اور ضرر میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے۔ ان کا وجود مبارک رحمت و رأفت کے اس مقام پر فائز ہے کہ ایک شخص رسولؐ کی دشمنی اور ضد میں اپنے آپ کو گمراہ کرتا اور ہلاکت میں ڈالتا ہے تو بشری تقاضائے انتقام تو یہ ہے کہ دشمن کے ہلاک اور ذلیل ہونے پر خوش اور مطمئن ہونا چاہیے لیکن رسول نہ خوش ہوتے ہیں نہ مطمئن بلکہ ان پر شاق گزرتا ہے۔
ii۔ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ: یہ رسولؐ تمہاری بھلائی کے نہایت حریص ہیں۔ حریص و آرزو مند رہتے ہیں کہ تم مؤمن بن جاؤ، اللہ کی خوشنودی تمہیں حاصل رہے، جنت میں تمہاری جگہ بنے اور دنیا میں ہمیشہ سر بلند رہو۔ جاہل انسان اس سے دور بھاگتا ہے اور رسولؐ اسے نزدیک لانا چاہتے ہیں۔ گویا کہ رسولؐ کو اس سے کام ہے حالانکہ اس کو رسولؐ سے بہت کچھ مل سکتا تھا۔
iii۔ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ: مؤمنین کے لیے نہایت شفیق و مہربان ہیں۔ یہ خیال نہ گزرے کہ رسولؐ مؤمنین کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں ، ان پر مہربان نہیں ہیں کیونکہ مشکلات میں انسان کے کمالات نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مصائب سے انسان چٹان کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے اور اس کے ایمان کی پختگی کی رسولؐ سے سند اور سعادت ابدی کی راہداری مل جاتی ہے۔
اہم نکات
۱۔ اس امت پر اغیار کی بالادستی ہوتی ہے تو یقینا رسولؐ پر شاق گزرتا ہے۔
۲۔ دنیا کا کوئی سربراہ ایسا نہیں گزرا جس میں اپنی قوم و امت کے لیے اتنی مہر و شفقت موجود ہو۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 565)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button